نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مقتدیوں تک آواز پہونچانے کے لیے بلند آواز سے پڑھنا نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری ہے۔(۱)
(۱) اقتداء الناس بالنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في مرض موتہ وہو قاعد وہم قیام وہو آخر أحوالہ، فتعین العمل بہ بنائً علی أنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان إماماً وأبوبکر مبلغاً للناس تکبیرہ، وبہ استدل علی جواز رفع المؤذنین أصواتہم في الجمعۃ وغیرہما۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۶۴)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  410

Hadith & Sunnah

Ref. No. 798 Alif

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The Ilm (knowledge) which deals with the worldly matters and requirements is called Dunyavi Ilm. And the Ilm which guides in the matters of the Hereafter is Deeni Ilm. Also worldly knowledge is required to solve worldly problems and fulfill worldly needs. So, there is nothing wrong in such a division of Ilm into two types. However both types of knowledge are of great importance.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref. No. 39/1056

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  غائب کی شہادت معتبر نہیں البتہ اگر آواز پہچانتا ہواور کسی قسم کا شبہ نہ ہو تو  ٹیلیفون پر دی گئی خبر معتبر ہوگی۔  خبروشہادت میں فرق بھی ملحوظ رکھاجائے کسی عالم سے بالمشافہ سمجھ لیں۔  واللہ اعلم بالصواب 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 40/916

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پولیو کی دوا میں جب تک تحقیق سے کسی غلط چیز کی ملاوٹ کا ثبوت  نہ ہوجائے اس کو ناجائز نہیں کہا جائے گا۔ حکومت کا یہ اقدام ملک سے پولیو کے خاتمے کے لئے ہے اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہے، اس لئے بلاوجہ اس میں شبہ کرنا مناسب نہیں ۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 1117/42-343

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نابالغ کی امامت درست نہیں ، اس لئے جن لوگوں نے نابالغ کی اقتداء میں نماز پڑھی وہ اس نماز کو لوٹائیں۔

و لايصح اقتداء رجل بامرأة وخنثی وصبي مطلقاً ولو في جنازة ونفل علی الأصح (درمختار مع الشامی: 1/577

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ
الجواب وباللہ التوفیق بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کا سوال واضح نہیں ہے۔ پیش آمدہ مسئلہ کی پوری صورت لکھ کر دوبارہ سوال کریں۔ دارالافتاء دار العلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس
هندوستان كے موجودة حالات كے مد نظر هوم لون (HOME LINE) لينےكا كيا حكم هے؟؟؟

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 2342/44-3526

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  رگوں سے نکلنے والا خون ناپاک ہے، اور وہ جس جگہ بھی لگے گا اس کو ناپاک کردے گا، لہذا گردن کے گوشت یا کسی بھی حصہ کے گوشت پراگر خون لگا ہوا ہے تو وہ ناپاک ہے، اس کو دھونا لازم ہے، اگر بغیر دھوئے پکایا گیا تو اس کا کھانا جائز نہیں ہوگا۔ چھری پر لگاہوا خون اگر کھال پر یا گوشت پر صاف کردیا گیا ہو تو  ج خون آلود ہے وہ ناپاک ہوگااور باقی گوشت پاک ہوگا۔

﴿ قُلۡ لَّاۤ اَجِدُ فِیۡ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗۤ اِلَّاۤ اَنۡ یَّکُوۡنَ مَیۡتَۃً اَوْ دَمًا مَّسْفُوۡحًا اَوْ لَحْمَ خِنۡزِیۡرٍ فَاِنَّہٗ ِجْسٌ﴾ (پارہ 8،سورۃ الانعام، آیت 451)

وَمَا يَبْقَى مِنْ الدَّمِ فِي عُرُوقِ الذَّكَاةِ بَعْدَ الذَّبْحِ لَا يُفْسِدُ الثَّوْبَ وَإِنْ فَحُشَ. كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ وَكَذَا الدَّمُ الَّذِي يَبْقَى فِي اللَّحْمِ؛ لِأَنَّهُ لَيْسَ بِمَسْفُوحٍ. هَكَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٤٦)

وقولہ تعالی( أو دما مسفوحا )یدل علی أن  المحرم  من  الدم ما کان مسفوحا (احکام القرآن،مطلب فی لحوم الابل الجلالة،ج3،ص 33،مطبوعہ کراچی) ومالزق من الدم السائل باللحم فھونجس (فتاوی عالمگیری،الفصل الثانی ،ج01،ص46،مطبوعہ کوئٹہ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آتش بازی اور پٹاخے چھوڑنا اور نام ونمود کے لیے اپنی کمائی برباد کرنا، حرام کاموں میں لگانا، مال برباد اور گناہ لازم کا مصداق ہے مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی کمائی جائز کاموں میں خرچ کریں، البتہ نکاح کے اعلان کے لئے شرعی حدود میں گنجائش ہے۔(۱)

(۱) {وَالَّذِیْنَ إِذَآ أَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًاہ۶۷} (سورۃ الفرقان: ۶۷)
{إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا إِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِط} (سورۃ الإسراء: ۲۷)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶
۹۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص436

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے، صحابۂ کرامؓ، حضرات ائمہ اور اسلاف عظام سے بھی ثابت نہیں ہے۔ مگر بعض مرتبہ حالات اور وطنی غیر مسلم پڑوسیوں کی وجہ سے اپنی اجتماعیت اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کے لئے بھی کچھ کرنا ضروری ہوجاتا ہے اس لحاظ کے ساتھ کہ حدود شرعی سے تجاوز نہ ہو اور اس کو عقیدہ نہ بنا لیا جائے۔پس اس بات کا خیال رکھتے ہوئے وقتِ ضرورت امور مذکور کے کرنے کی گنجائش ہے اور اختلاف اس پر مناسب نہیں ہوگا۔(۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
المولود الذي شاع في ہذا العصر …… ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
ونظیر ذلک فعل کثیر عند ذکر مولدہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ووضع أمہ لہ من القیام۔ وہو أیضاً: بدعۃ لم یرد فیہ شيء بہ علی أن الناس إنما یفعلون ذلک تعظیماً لہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فالعوام معذورون لذلک بخلاف الخواص۔ (أحمد بن محمد، الفتاویٰ الحدیثیۃ: ج ۱، ص: ۵۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص488