نکاح و شادی

Ref. No. 2315/44-3467

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صاحب معاملہ کو چاہئے کہ مسلم پرسنل لا کے کسی قریبی دارالقضاء سے رجوع کرے، اور قاضی کے سامنے اپنی ساری صورت حال بیان کرکے شرعی فیصلہ کا مطالبہ کرے، امید ہے کہ وہاں سے مسئلہ کا حل نکل آئے گا۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کھانے میں شرکت میں کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ کسی غیر شرعی امر کا ارتکاب لازم نہ آئے۔(۱)
(۱) وقال أنس رضي اللّٰہ عنہ: إذا دخلت علی مسلم لا یتہم، فکل من طعامہ واشرب من شرابہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’باب من انتظر حتی تدفن‘‘: ج ۱، ص: ۸۲، رقم: ۵۴۶۰)
عن أبي الزبیر، عن جابر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا دعي أحدکم إلی طعام، فلیجب، فإن شاء طعم، وإن شاء ترک۔ (أخرجہ مسلم: في صحیحہ، ’’کتاب النکاح: باب الأمر بإجابۃ الداعي إلی دعوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۲، رقم: ۱۴۳۰)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: الضیافۃ ثلاثۃ أیام فما سوی ذلک فہو صدقۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الأطعمۃ: باب ما جاء في الضیافۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۶، رقم: ۳۷۴۹)
لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحدود باب التعزیر‘‘: ج ۶، ص: ۱۰
۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص440

متفرقات

Ref. No. 2424/45-3672

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ گاہک نے اگر کوئی سامان ردی ہوجانے کےبعد دوکان پر چھوڑدیا، اور دوکاندار نے اس کو صاف کرکےیا مرمت کرکے بیچ دیا تو اس کی گنجائش ہے بشرطیکہ وہ کوئی ایسی معمولی چیز ہو جس کی طرف التفات نہ کیاجاتاہو۔ گاہک کا اس بیٹری کے ڈاون ہونے یا کسی  سامان  کی حیثیت  کم ہوجانے پر دوکان پر چھوڑدینا دلالۃ دوکاندار کو اس  میں تصرف کا مالک بنانا سمجھاجائے گا چاہے وہ اس کو پھینک دے یا اس کو کسی استعمال میں لائے۔تاہم اگر کوئی ایسی  چیز ہے جس کی بازار میں ایک مناسب قیمت ہے اور اندازہ ہو کہ اگر گاہک کو اس کی قیمت معلوم ہوجائے تو اس کا مطالبہ کرے گا تو اس کو بیچ کر پیسے اپنے پاس رکھ لینا درست نہیں ہے۔ اسی طرح اگر دوکاندار گراہک کو وہ سامان' بیکار 'بتاکر رکھ لیتاہے اور بعد میں بیچ دیتاہے تو اس کا یہ عمل درست نہیں ہے۔

وفی شرح السیر الکبیر: لو وجد مثل السوط والحبل فہو بمنزلة اللقطة، وما جاء فی الترخیص فی السوط فذاک فی المنکسر ونحوہ مما لا قیمة لہ ولا یطلبہ صاحبہ بعدما سقط منہ وربما ألقاہ مثل النوی وقشور الرمان وبعر الإبل وجلد الشاة المیتة. أما ما یعلم أن صاحبہ یطلبہ فہو بمنزلة اللقطة إلخ (حاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 6/436/438،ط: زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بہت خوش آئند خواب ہے، اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہیں اور ان کو خوشیاں میسر ہیں، تاہم آپ ایصال ثواب کرتے رہیں، فقراء ومساکین کو کھانا کھلائیں۔(۱)

(۱) للإنسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ أو صوماً أو صدقۃ أو غیرہا (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۰)
من صام أو صلی أو تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الأموات والأحیاء جاز ویصل ثوابہا إلیہم عند أہل السنۃ والجماعۃ۔ (’’أیضاً‘‘: مطلب في القراء ۃ للمیت وإہداء ثوابہا لہ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص172

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شیعہ کے گھر کا کھانا کھانے کی گنجائش ہے، البتہ ان کی غیر شرعی رسموں میں شرکت نہیں کرنی چاہئے۔اسی طرح جو لوگ شیعہ کی دکان پر کام کرتے ہیں ان کے لیے کھانا درست ہے۔(۱)

(۱) الأول من الأقسام: سؤر طاہر مطہر بالاتفاق من غیر کراہۃ في استعمالہ وہو ما شرب منہ آدميٌّ لیس بفمہ نجاسۃ … ولا فرق بین الصغیر والکبیر والمسلم والکافر والحائض والجنب۔ (الشرنبلالي، نور الإیضاح، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص275

 

Usury / Insurance

Ref. No. 2648/45-4227

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It is not allowable to run a Madrasa or Maktab in a masjid or in its basement without the permission and consultation of the masjid management, and that is the reason why this dispute is happening, so the rector of the madrasa should first get permission from the masjid committee and then run the madrasa or maktab in the premises of Masjid.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband


 

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر ٹینک میں کبوتر گر کر مر گیا، تو ٹینک کا پانی ناپاک ہو گیا ٹینک کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پورا پانی نکال دیا جائے کبوتر بھی نکالا جائے ،پھر اس میں پاک پانی بھر دیا جائے۔
اگر کبوتر کے گرنے کا صحیح وقت معلوم نہ ہو، تو ایسی صورت میںجب کہ پھٹا پھولا نہیں، جس وقت کبوتر کو ٹینک میں دیکھا گیا اسی وقت سے نجاست کا حکم لگے گا اور اب تک جو نمازیں اس پانی سے وضو وغسل کر کے پڑھی گئیں ان کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے اور کپڑے جو اس پانی سے دھوئے گئے وہ بھی پاک ہیں۔ اور اگر پھول پھٹ گیا ہے تو تین دن تین رات کی نمازیں لوٹانی ہو گی۔
’’ویحکم بنجاستہا مغلظۃ من وقت الوقوع إن علم … ومذ ثلثۃ أیام بلیالیہا إن انتفخ أو تفسخ استحساناً وقالا من وقت العلم فلا یلزمہم شيء قبلہ قیل وبہ یفتی‘‘(۱)
’’وإذا علم وقت الوقوع أي وقت حیوان مات في البئر حکم بالتنجس من وقتہ أي من وقت الوقوع وإلا أي وإن لم یعلم فمن یوم ولیلۃ إن لم ینتفخ الواقع أو لم یتفسخ لأن أقل المقادیر في باب الصلوٰۃ یوم ولیلۃ فإن ما دون ذلک ساعات لا یمکن ضبطہا لتفاوتہا ومن ثلثۃ أیام ولیا لیہا إن انتفخ أو تفسخ لأن الانتفاخ دلیل التقادم فیقدر وقوعہ منذ ثلثۃ أیام لأنہا أقل الجمع‘‘ (۲)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في البئر‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۸۔
(۲) عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب الطہارۃ: فصل تنزح البئر لوقوع نجس‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص80

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:غسل میں کلی کرنا فرض ہے اس طرح کہ تمام منہ میں پانی پہونچ جائے اور غرغرہ غسل میں سنت ہے، مگر روزہ دار کے لیے غرغرہ نہیں ہے کہ اس سے روزے کے فساد کا سخت اندیشہ ہوتا ہے۔(۱)

(۱)أبوسلمۃ بن عبدالرحمن قال: حدثتني عائشۃ، أن رسول اللّٰہ ﷺ کان إذا ما اغتسل من الجنابۃ مضمض واستنشق ثلاثا۔ (أخرجہ ابن أبي شیبہ، في مصنفہ، ج۱، ص:۶۸، رقم:۹۳)  عن فضیل بن عمر قال: قال عمر: إذا اغتسلت من الجنابۃ فتمضمض: ثلاثا فإنہ أبلغ۔ (أخرجہ ابن أبی شیبہ، فی مصنفہ، ’’کتاب الطھارۃ، في المضمضۃ والاستنشاق‘‘ج۱، ص:۷۷۳ بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان) ؛ و قولہ، غسل الفم والأنف أي بدون مبالغۃ فیھما فإنھا سنۃ فیہ۔ (الطحطاوي، حاشیہ الطحطاوي علی مراقي الفلاح شرح نورالإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ، فصل لبیان فرائض الغسل‘‘ ج۱، ص:۱۰۲)، غسل کل فمہ و أنفہ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل‘‘ ج۱، ص:۲۸۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص295

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2326/45-4214

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غیر مسلم کی کمپنی میں کام کرنے والے مسلمانوں کو جو اجرت ملتی ہے وہ ان  کے لئے حلال ہے ہاں اگر معلوم ہو کہ کمپنی ناجائز امور پر مشتمل ہے مثلاً شراب کی کمپنی ہے تو مسلمان کے لیے ایسی کمپنی میں کام کرنا اور اجرت حاصل کرنا جائز نہیں ہوگا اس لیے کہ مسلمان کے لیے شراب کے کسی بھی کام کو کرنا جائز نہیں ہے، لیکن کمپنی کے شیرز خریدتے وقت بھی اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس کمپنی کا کاروبار ایک تہائی سے زیادہ حرام کام پر مشتمل نہ ہو اگر ایک تہائی سے زیادہ حرام کاروبار ہے تو پھر اس کے  شیرز خریدنا جائز نہیں ہے، اب اگر غیر مسلم کمپنی میں کوئی جائز کام کریں تو آپ کے لئے اجرت جائز ہے تنخواہ میں کوئی بھی پیسہ آپ کو دیتا ہو۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد میں جماعت ہوگئی یا شرعی عذر کی بنا پر مسجد میں نہ جاسکے، تو گھر میں بیوی، ماں، بہن وغیرہ کے ساتھ نماز با جماعت ادا کرسکتا ہے، یہ ہی بہتر ہے؛ تاکہ جماعت کا ثواب مل جائے، مگر عورت ایک ہو یا زیادہ ہوں، ہر صورت میں عورت کو امام کے پیچھے کھڑا ہونا چاہئے، امام کے برابر میں ایک مرد کی طرح عورت کا کھڑا ہونا درست نہیں، اس طرح کرنے سے نماز ادا نہیں ہوگی، مگر یہ بھی یاد رکھئے کہ بلا عذر شرعی ترک جماعت کی عادت بنا لینا گناہ ہے اور بروئے حدیث ایسا شخص عملی منافق کہلاتاہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ولقد رأیتنا وما یتخلف عن الصلاۃ إلامنافق قد علم نفاقہ أو مریض إن کان المریض لیمشي بین رجلین حتی یأتي الصلاۃ‘‘ ایک دوسری حدیث میںہے ’’ولو أنکم صلیتم في بیوتکم کما یصلي ہذا المتخلف في بیتہ لترکتم سنۃ نبیکم ولو ترکتم سنۃ نبیکم لضللتم الخ۔ (۱)

(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ،…… باب صلاۃ الجماعۃ من سنن الہدیٰ‘‘: ج۱، ص: ۲۳۱، رقم: ۶۵۴۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص504