Frequently Asked Questions
حج و عمرہ
Ref. No. 2314/44-3524
واللہ الموفق:ملتزم پر جانا مناسک عمرہ میں سے نہیں ہے اس لیے کہ عمرہ کے دو ارکان ہیں احرام اور طواف اور سعی بین الصفا و المروہ واجب ہے ۔ملتزم کے بارے میں حضرات فقہاء کی رائے ہے کہ طواف کے بعد دو رکعت طواف کا دوگا نہ پڑھے اس کے بعد زمزم نوش کرے ملتزم کا التزام کرے اور پھر واپس حجر اسو د کی طرف آکر استلام کرے یہ تفصیلات حضرات فقہاء نے طواف صدر کے موقع پر ذکر کی ہیں یہی وجہ ہے کہ طواف قدوم کے موقع پر طواف کے بعد دوگانہ طواف اور حجراسود کے استلام کے بعدصفاو مروہ کی سعی کرے گایہاں پر حضرات فقہاء نے ملتزم پر جانے کا تذکرہ نہیںکیا ہے ۔معلوم ہے کہ جس طواف کے بعد سعی ہے اس میں ملتزم پر جانا مستحب نہیں ہے اورجس طواف کے بعد سعی نہیں ہے اس طواف کے بعد ملتزم پر جانا مستحب ہے صاحب غنیہ نے بھی اس اصول کی طرف رہنمائی کی ہے اس لیے عمرہ کی ادائیگی میں چوں کہ طواف کے بعد سعی ہے اس لیے عمرہ کے طواف میں ملتزم پر جانا مستحب نہیں ہوگا ہاں عمرہ کی ادائیگی کے بعد جب وطن واپس لوٹے اس وقت طواف وداع کے بعد ملتزم پر جانا مستحب ہوگا ۔
والمختار بعد طواف القدوم و صلاتہ العود الی الحجر ثم الی الصفاء و لم یذکروا الاتیان الی زمزم ولا الی الملتزم بعد ہذا الطواف و انما ذکروا ذلک بعد طواف الوداع -و من ثم سن لہ أن یاتی الملتزم عقب طواف لا سعی لہ (غنیۃ الناسک 175)(ثم) إذا أراد السفر (طاف بالبيت سبعة أشواط لا يرمل فيها، وهذا) يقال له (طواف الصدر) وطواف الوداع، وطواف آخر عهد بالبيت، لأنه يودع البيت ويصدر به (وهو واجب إلا على أهل مكة) ومن في حكمهم ممن كان داخل الميقات، لأنهم لا يصدرون ولا يودعون (2) ، ويصلي بعده ركعتي الطواف، ويأتي زمزم فيشرب من مائها، ثم يأتي الملتزم (3) فيضع صدره ووجهه عليه. ويتشبث بالأستار، (اللباب فی شرح الکتاب 1/194)
(٢) کعبۃ اللہ اور ملتزم سے چمٹنے کی صورت میں اگر خوشبو کے اثرات لگ جائیں تو اس پر کفارہ لازم ہوگا اگر مکمل ایک عضو میں لگ جائے تو دم دینا پڑےگااور اگر ایک عضو سے کم ہو تو صدقہ کرنا ہوگا ۔
وإذا تطيب المحرم فعليه الكفارةفإن طيب عضوا كاملا فما زاد فعليه دم) ( وذلك مثل الرأس والساق والفخذ وما أشبه ذلك؛ لأن الجناية تتكامل بتكامل الارتفاق، وذلك في العضو الكامل فيترتب عليه كمال الموجب (وإن طيب أقل من عضو فعليه الصدقة) ؛(فتح القدیر ،3/24)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Prayer / Friday & Eidain prayers
Ref. No. 2346/44-3525
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
If blood flows out of the body, then the ablution is broken. This is the principle of the Hanafis. According to Imam Shafi'i, the ablution does not break due to the discharge of blood. Both are proven by the traditions. The Hanafis have preferred the breaking of ablution because Blood is impure, and just like the discharge of impurity from the sabyilain breaks the ablution, it is also in the hadiths that the discharge of blood breaks the ablution. A Hadith says: There is no ablution in one or two drops of blood unless it is flowing blood (Sunan Dar-al Qutni 1/287) and There is another Hadith: Wudu is obligatory from all dripping blood. Musannaf Ibne Abi Shaibah 1/127) and there is a hadith that says: Wudu is from every liquid blood (Marifat us Sunan wal Asar 1/427)
In the same way, in many traditions, it has been prescribed to perform ablution on the flowing of the liquid blood. As far as the quoted tradition is concerned, it is the practice of the companion. There is a conflict between the words of the Holy Prophet (saws) and the actions of the said companion. And the Muhaddiseen says that in such a situation the saying of the Prophet (saws) would be preferred.
It is totally rubbish to abuse theologians. If someone abuses a theologian on the basis of his knowledge, there is fear of his disbelief, so one must abstain from abuse.
If a theologian has made religion a means of sustenance, then the theologian himself is responsible for his actions. However, one should refrain from abusing a theologian.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:دولہا کا نکاح کے بعد سلامی کے لیے عورتوں میں جانا ایک رسم اور بدعت ہے، نیز غیر محرم عورتوں سے اختلاط ہوتا ہے، جو جائز نہیں؛ تاہم مذکورہ رسم ورواج کے تحت اگر پیسہ لیا گیا تو کوئی حرمت نہیں آئے گی۔ اس لیے اس کا استعمال جائز اور درست ہوگا، اگر ایسے موقع پر ہدیہ یا تحفہ کی نیت سے کچھ دیں تو گناہ نہ ہوگا۔(۱)
(۱) عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال امرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وإیاکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب السنۃ: باب لزوم السنۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۳۵، رقم: ۴۶۰۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص441
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جوئے میں سب کچھ گنوا دینا کاروبار میں خسارہ ہے، پھر ایک موقع اور لینا کاروبار میں لگے رہنا ہے، اور نماز کے لئے چلے جانا، اس خسارہ میں اللہ کی طرف متوجہ ہونا ہے، جو خسارہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھے اس کی جان ومال میں اضافہ ہوتا ہے؛ اس لئے نوافل، صدقہ وخیرات وغیرہ سے اللہ تعالیٰ سے خوب تعلق بڑھائیں؛ تجارت میں بھی نفع ہوگا ’’إن شاء اللّٰہ‘‘(۱) ریا کاری اور کار خیر انجام دینے کے بعد اس کا لوگوں کے سامنے ذکر کرنے سے احتراز کریں۔
(۱) {قُلْ ھَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْأَخْسَرِیْنَ أَعْمَالًاہط ۱۰۳أَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِي الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ أَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًاہ۱۰۴} (سورۃ الکہف: ۱۰۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص173
مذاہب اربعہ اور تقلید
لجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا شخص سخت گنہگار ہوگا، چونکہ وہ شخص سنی مسلمان نہیں ہے، بلکہ شیعہ ہے اور یہ عقیدہ شیعوں کا ہے جو بے اصل اور بے بنیاد اور لغو ہے، قرآن جیسے نازل ہوا تھا، عہد نبوی سے لے کر آج تک اسی حالت پر موجود ہے۔(۲)
(۲) إنا نحن نزلنا الذکر وإنا لہ لحافظون من التحریف والزیادۃ والنقصان ولا یتطرق إلیہ الخلل أبداً ویل للرافضۃ حیث قالوا قد تطرق الخلل إلی القرآن وقالوا إن عثمان وغیرہ حرقوہ وألقوہ منہ عشرۃ أجزاء۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر المظہري، ’’سورۃ الحجر: ۹‘‘: ج ۵، ص: ۱۵۵)
قال أبو محمد: القول بأن بین اللوحین تبدیلاً کفر صحیح وتکذیب لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: (محمد بن عبد الکریم الشہرستاني، الملل والنحل، ’’ذکر شنع الشیعۃ‘‘: ج ۴، ص: ۱۳۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص276
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2597/45-4096
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر چپل میں یقینی طور پر نجاست لگی ہے اور پانی اس چپل سے لگ کر گزررہا ہے تو وہ پانی اور اس کی چھینٹیں بھی ناپاک ہوں گی اور جوتے چپل اور مسجد کا فرش جس پر نجس پانی لگا وہ سب ناپاک ہوں گے۔ جسم پر اگر کوئی نجاست لگ کر سوکھ گئی تو بھی بدن ناپاک ہی رہے گا ، اس پر جو پسینہ ظاہر ہوگا وہ بھی ناپاک ہوگا۔ لیکن محض شک کی بناء پر ناپاکی کا حکم نہیں ہوگا۔
ففی الفتاوى الهندية: ولو وضع رجله المبلولة على أرض نجسة أو بساط نجس لا يتنجس وإن وضعها جافة على بساط نجس رطب إن ابتلت تنجست ولا تعتبر النداوة هو المختار كذا في السراج الوهاج ناقلا عن الفتاوى اھ (1/ 47)
وفی الدر المختار: نام أو مشى على نجاسة، إن ظهر عينها تنجس وإلا لا. ولو وقعت في نهر فأصاب ثوبه، إن ظهر أثرها تنجس وإلا لا. لف طاهر في نجس مبتل بماء إن بحيث لو عصر قطر تنجس وإلا لا. ولو لف في مبتل بنحو بول، إن ظهر نداوته أو أثره تنجس وإلا لا. اھ (1/ 345)
وفی حاشية ابن عابدين: (قوله: مشى في حمام ونحوه) أي: كما لو مشى على ألواح مشرعة بعد مشي من برجله قذر لا يحكم بنجاسة رجله ما لم يعلم أنه وضع رجله على موضعه للضرورة فتح. وفيه عن التنجيس: مشى في طين أو أصابه ولم يغسله وصلى تجزيه ما لم يكن فيه أثر النجاسة؛ لأنه المانع إلا أن يحتاط اھ (1/ 350)
"ولو ابتل فراش أو تراب نجسا" وكان ابتلالهما "من عرق نائم" عليهما "أو" كان من "بلل قدم وظهر أثر النجاسة" وهو طعم أو لون أو ريح "في البدن والقدم تنجسا" لوجودها بالأثر "وإلا" أي وإن لم يظهر أثرها فيهما "فلا" ينجسان. (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح: (باب الأنجاس و الطهارة عنها، ص: 158، ط: دار الكتب العلمية)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اگر ٹنکی میں کوئی نجاست وغیرہ نہیں گری ہے تو وہ ٹنکی خواہ بڑی ہو یا چھوٹی اس کا پانی پاک ہے، اس ٹنکی کے پانی سے گھریلو کام کاج (مثلاً: کھانا بنانے اور کپڑے وغیرہ دھونے) وضو اور غسل وغیرہ میں استعمال کرنا بلاکراہت درست ہے؛ البتہ اگر ٹنکی ناپاک ہو، تو ٹنکی پاک کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ٹنکی کے پانی کو (جو ماء راکد کے حکم میں ہے) کسی طرح جاری کر دیا جائے اس کی بہتر اور آسان صورت یہ ہے کہ ایک طرف موٹر چلا دیا جائے جس سے پانی ٹینک میں داخل ہونا شروع ہو جائے گا اور دوسری طرف اس ٹینک سے نکلنے والا پائپ کا نل (ٹونٹی) کھولدیا جائے جب اتنا پانی جتنا موجود تھا نکل جائے اور پانی سے نجاست کا اثر رنگ، بو، مزہ وغیرہ ختم ہو جائے تو اب یہ ٹینک اور اس کا پانی پاک ہو جائے گا۔
’’ویجوز التوضوء بالماء الجاري، ولا یحکم بتنجسہ لوقوع النجاسۃ فیہ مالم یتغیر طعمہ أو لونہ أو ریحہ وبعد ما تغیر أحد ہذہ الأوصاف وحکم بنجاسۃ لا یحکم بطہارتہ ما لم یزل ذلک التغیر بأن یزاد علیہ ماء طاہر حتی نزیل ذلک التغیر وہذا؛ لأن إزالۃ عین النجاسۃ عن الماء غیر ممکن فیقام زوال ذلک التغیر الذي حکم بالنجاسۃ لأجلہ مقام زوال عین النجاسۃ‘‘(۱)
’’فتاوی عالمگیر یہ‘‘ میں ہے:
’’حوض صغیر تنجّس ماؤہ فدخل الماء الطّاہر فیہ من جانب وسال ماء الحوض من جانب آخر کان الفقیہ أبوجعفر یقول: کما سال ماء الحوض من الجانب الآخر یحکم بطہارۃ الحوض الخ‘‘(۱)
(۱) برہان الدین محمود بن أحمد، المحیط البرہاني، ’’کتاب الطہارۃ: الماء المستعمل‘‘: ج ۱، ص: ۸۳۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الثالث في المیاہ، الفصل الأول فیما یجوز بہ التوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص82
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حوض کے کنارہ پر یا حوض کے اندر غسل جنابت نہیں کرنا چاہئے، اس لیے کہ اس سے دوسرے مسلمانوں کو طبعاً تکلیف ہوگی جو مسلمان کی شان کے خلاف ہے(۱) اور اس سے مستعمل پانی حوض میں جائے گا؛ اگرچہ حوض کا پانی دہ در دہ ( کثیر پانی) ہونے کی وجہ سے ناپاک نہیں ہوگا۔(۲)
(۱) أنہ سمع عبداللّٰہ بن عمرو بن العاص یقول: إن رجلاً سأل رسول اللّٰہ ﷺ، فقال: أي المسلمین خیر؟ فقال: من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’باب بیان تفاضل الإسلام، و أي أمورہ أفضل‘‘ ج۱،ص:۴۸، رقم:۸۸، مکتبہ نعیمیہ دیوبند) قال النوويؒ: ’’قولہ ﷺ : من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ‘‘ معناہ: من لم یؤذ مسلماً قط بقول ولا فعل، و خصّ الید بالذکر، لأن معظم الأفعال بھا۔ (النووي، شرح المسلم علی حاشیۃ مسلم ، ایضاً، بیروت : دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۲)الماء الجاري إذا وقعت فیہ نجاسۃ جاز الوضوء منہ إذا لم یر لھا أثر لأنھا لا تستقر مع جریان الماء۔ (المرغینانی، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الماء الذي یجوز بہ الوضوء و مالا یجوز بہ‘‘ ج۱، ص:۳۵-۳۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص295
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خواتین نماز کے لیے مسجد میں آیا کرتی تھیں؛ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اتفاق سے عورتوں کو مسجد میں آنے سے منع کردیا گیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ بھی خیر القرون کا زمانہ تھا؛ لیکن اس زمانہ میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فتنہ کے خوف سے عورتوں کو مسجد میں آنے سے منع کردیا؛ اسی لیے حضرات فقہاء نے عورتوں کے لیے مسجد میں جماعت سے نماز کو مکروہ قرار دیا ہے۔ عبادات میں سب سے افضل اور اہم عبادت نماز ہے، جب عورتوں کو نماز کے لیے مسجد آناپسندیدہ نہیں ہے، تو دیگر اصلاحی پرو گراموں کے لیے آنا بھی پسندیدہ نہیں ہوگا۔ بہتر ہے کہ خواتین کا مسجد کے علاوہ کسی گھر یا مقام پر پروگرام کیا جائے، جہاں مردوں سے اختلاط نہ ہو۔ اور اگر عورتوں کے لیے مسجد میں علاحدہ نظم ہو جس میں کسی قسم کا اختلاط نہ ہو تو دینی پروگرام کرنے کی گنجائش ہے۔(۱)
(۱) إن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: لقد کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم …یصلي الفجر فیشہد معہ نسائٌ من المؤمنات متلفعات في مروطہن ثم یرجعن إلی بیوتہن ما یعرفہن أحد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب کم تصلي المرأۃ في الثیاب‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، رقم: ۳۷۲)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تمنعوا نسائکم المساجد وبیوتہن خیرلہن۔ (أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب ماجاء في خروج النساء إلی المسجد‘‘: ج ۱، ص:۸۳، رقم: ۵۶۷)
عن عبد اللّٰہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: صلاۃ المرأۃ في بیتہا أفضل من صلاتہا في حجرتہا وصلاتہا في حجرتہا أفضل من صلاتہا فيبیتہا۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب التشدید في ذلک‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، رقم:۰ ۵۷)
وکرہ لہن حضور الجماعۃ إلا للعجوز في الفجر والمغرب والعشاء، والفتویٰ الیوم علی الکراہۃ في کل الصلوات لظہور الفساد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم: ج ۱، ص: ۱۴۶)
وأما بیان من تجب علیہ الجماعۃ فالجماعۃ إنما تجب علی الرجال العاقلین الأحرار القادرین علیہا من غیر حرج فلا تجب علی النساء۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، باب الجماعۃ، فصل بیان من تجب علیہ الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۴)
والفتویٰ الیوم علی الکراہۃ في کل صلوات لظہور الفساد۔ (عالم بن العلاء، التاتار خانیۃ، کتاب الصلاۃ، باب الجماعۃ: ج ۱، ص: ۱۵۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص505
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسی صورت میں جب کہ کوئی شخص نمازی کو تبدیلی سمت قبلہ پر متنبہ کرے تو نمازی کو کچھ توقف کرکے اپنی رائے سے سمت قبلہ کی طرف گھوم جانا چاہئے تاکہ اس کی نماز درست ہوجائے اور اگر غیر نمازی کے کہنے پر فوراً (بغیر توقف کئے) گھوم گیا تو ’’استمداد عن الغیر‘‘ کی بناء پر اس کی نماز نہیںہوگی۔ دوبارہ پڑھنی ضروری ہوگی۔(۱)
(۱) لو جذبہ آخر فتأخر الأصح لا تفسد صلاتہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۳)
وإن اشتبہت علیہ القبلۃ ولیس بحضرتہ من یسأل عنہا اجتہد وصلّی کذا في الہدایۃ، فإن علم أنہ أخطأ بعد ما صلی لا یعیدہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۱، مکتبہ اتحاد)
وقید بالتحري لأن من صلّی ممن اشتبہت علیہ بلا تحرّ فعلیہ الإعادۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب شروط الصلوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۱، مکتبہ زکریا دیوبند)
وإن شرع بلا تحرّ لم یجز وإن أصاب لترکہ فرض التحري، إلا إذا علم إصابتہ بعد فراغہ فلا یعید اتفاقًا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب إذا ذکر في مسألۃ ثلاثۃ أقوال‘‘: ج۲، ص: ۱۱۹، دار الکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص284