Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: کلمہ پڑھنا باعث ثواب اور باعث خیر وبرکت ہے، اور استحکام ایمان کی دلیل بھی ہے؛نماز کے بعد دعاکے لیے متعدد اذکار ہیں، لیکن نماز کے بعد کلمہ پڑھنے کو لازم سمجھنا نہ ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور نہ اکابر علماء سے ہے؛ اس لیے اگر ایسا کر لیا تو امر مباح ہے؛ لیکن ایسا کرنے کو لازم اور ضروری سمجھنا مناسب نہیں، اس کا خیال رکھیں۔(۱)
(۱) عن ابن مسعود أنہ أخرج جماعۃً من المسجد یہللون ویصلون علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم جہراً وقال لہم ’’ما أراکم إلا مبتدعین‘‘۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ‘‘ باب الإستبراء وغیرہ‘‘: فصل في البیع، ج ۹، ص: ۵۷۰)
عن أبي الزبیر رضي اللّٰہ عنہ قال: کان ابن الزبیر یقول: في دبر کل صلاۃ حین یسلم (لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شيء قدیر، لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ، لا إلہ إلا اللّٰہ، ولا نعبد إلا إیاہ لہ النعمۃ ولہ الفضل، ولہ الثناء الحسن، لا إلہ إلا اللّٰہ مخلصین لہ الدین ولو کرہ الکافرون) وقال: (کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یہلل بہن دبر کل صلاۃ)۔ (أخرجہ مسلم، في سننہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ: باب استجاب الذکر بعد الصلاۃ وبیان صفتہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۸، رقم: ۵۹۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص420
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: احناف کے نزدیک دیکھ کر قرآن پڑھنا مفسد نماز ہے، جن لوگوں نے اس کا مشورہ دیا ہے وہ غلط مشورہ دیا، ممکن ہے کہ کسی دوسرے امام کی پیروی میں انہوں نے ایسا مشورہ دیا ہو لیکن احناف کے یہاں یہ عمل درست نہیں ہے اور اس کی احناف کے یہاں دو علتیں ہیں؛ ایک علت یہ ہے کہ قرآن میں دیکھنا،اوراق کو پلٹنا اور رکوع سجدے میں جاتے وقت قرآن کو رکھنا یہ عمل کثیر ہے اور عمل کثیر مفسد نماز ہے۔
دوسری علت یہ ہے کہ قرآن دیکھ کرپڑھنا یہ درحقیقت تعلیم حاصل کرنا ہے،جس طرح نماز میں کسی زندہ آدمی سے اگر کوئی تعلیم حاصل کرے تو اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اسی طرح قرآن کے نسخے کے ذریعہ بھی اگر کوئی تعلیم حاصل کرے تو نماز فاسد ہوجائے گی، اس لیے کورونا کا بہانا بنا کر نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنے کا مشورہ دینا درست نہیں ہے، تراویح میں اگر بڑی سورت یاد نہ ہو تو چھوٹی سورت پر اکتفاء کرے، لیکن قرآن دیکھ کر تراویح میں بھی درست نہیں ہے۔ علامہ ابن ہمامؒ نے اس کی صراحت کی ہے وہ لکھتے ہیں:
’’و تحقیقہ أنہ قیاس قراء ۃ ما تعلمہ في الصلاۃ من غیر معلم حي علیہا من معلم بجامع أنہ تلقن من خارج وہو المناط في الأصل‘‘(۱)
’’ولأبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ وجہان: أحدھما أن حمل المصحف وتقلیب الأوراق، والنظر فیہ، و التفکر لیفھم ما فیہ فیقرأ، عمل کثیر، والعمل الکثیر مفسد؛ لما تبین بعد ھذا، و علی ھذا الطریق لا یفترق الحال (بینھما إذا کان المصحف في یدیہ، أو بین یدیہ، أو قرأ من المحراب)‘‘(۲)
(۱) ابن الہمام، فتح القدیر’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج ۱، ص: ۴۱۲۔
(۲) محمود بن أحمد، المحیط البرہاني:’’کتاب الصلاۃ، الفصل الخامس: باب ما یفسد الصلاۃ و ما لا یفسد‘‘ ج ۲، ص: ۱۵۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص118
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2803/45-4391
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز کے بعد اگرآپ نے عضو خاص پر بالیقین تری دیکھی یا ہاتھوں سے چکناہت محسوس کی تو ظاہر ہے کہ وضو جاتا رہا اور نماز نہیں ہوئی، اس لئے نماز کا اعادہ واجب ہوگا،۔ کمرے میں جاکر آپ نے دیکھا تو تری نظر نہیں آئی اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ کمرے میں جاتے ہوئے کپڑے میں مس ہو کر تری کپڑے میں جذب ہوگئی جو کمرے میں پہونچنے پر نظر نہیں آئی۔ ایسی حالت میں پڑھی گئی نماز لوٹالی جائے اور قرآن کو بلاوضو چھونے پر توبہ واستغفار کیا جائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
کھیل کود اور تفریح
Ref. No. 838 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: کھیل کےتعلق سے فقہاء نے ایک ضابطہ یہ بھی بیان کیا ہے کہ ایسا کھیل جس میں لوگوں کے لئے مصلحت و فوائد تو ہوں مگر تجربہ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہو کہ اس کے نقصانات فوائد سے زیادہ ہیں اور ان کا کھیلنا غفلت میں مبتلاء کرتاہےتو اس کھیل سے احتراز لازم ہوگا، چنانچہ تجربہ سے ثابت ہے کہ کرکٹ ایسا کھیل ہے جس میں بہت زیادہ انہماک پایاجاتاہے، کھیلنے کے بعد بھی ذہن منتشر رہتا ہے۔ اس لئے بہرحال اس سے احترازہی بہتر ہے۔تفصیل کےلئے دیکھیے المسائل المھمة فیما ابتلت بہ العامة ج۲ص۲۶۰، کتاب الفتاوی ج۶ص۱۶۰، جدید فقہی مسائل ج۱ص۳۵۴۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زیب و زینت و حجاب
Ref. No.
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بال کی بڑھوتری کے لئے بالوں کے کناروں کو تھوڑا سا کاٹنے کی اجازت ہے، زیادہ کاٹنا جو بطور فیشن کے کاٹا جاتا ہے وہ جائز نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 41/1025
In the name of Allah the most gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
The word ‘abu’ means ‘father’ and also ‘possessor’. In names the word ‘abu’ refers to ‘possessor’. Hence, ‘Abul-ala’ means ‘possessor of high qualities’. So there is no iota of shirk in such names. People use the word ‘Maududi’ to express their association with Maulna Maududi sb.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
Ref. No. 925/41-51B
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Recite Surah Al-Quraish along with Darood Shareef after fajr Namaz and make Dua. And read ‘Ya Wahhabu’ as often as possible.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
خوردونوش
Ref. No. 1011/41-176
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جھینگا کی حلت و حرمت کا دارومدار اس پر ہے کہ جھینگا مچھلی ہے یا نہیں؟ ماہرین لغت اس کو مچھلی کی ہی ایک قسم مانتے ہیں۔ جبکہ حیوانات کے ماہرین اس کو مچھلی تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ اس لئے جو حضرات اس کو مچھلی قرار دیتے ہیں وہ حلال کہتے ہیں اور جو اس کو مچھلی نہیں مانتے وہ اس کو حرام کہتے ہیں۔ زیادہ راجح اس کا مچھلی ہونا ہے۔ (امدادالفتاوی 4/103) مقہی مقالات 3/217)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
طلاق و تفریق
Ref. No. 1755/43-1468
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آٹھ سال پہلے ہی آپ کے طلاق و ہلاق لفظ سے شرعا تینوں طلاقیں واقع ہوچکی تھیں، اور آپ دونوں کا ایک ساتھ رہنا حرام تھا۔ اس درمیان سب ناجائز عمل ہوا ۔ اس لئے دونوں پر توبہ واستغفارلازم ہے اور حسب سہولت صدقہ بھی کریں۔ اور فوری طور پر دونوں الگ الگ ہوجائیں۔ عورت کو لازم ہے کہ اس سے پردہ کرے اور اس سے کسی طرح کی بات چیت سے گریز کرے۔ اورعورت عدت کے بعد جلد کسی دوسری جگہ نکاح کرلے تاکہ پہلے شوہر سے رابطہ کا سد باب ہوسکے۔
نوٹ: اگر پہلے اس نے طلاق نہ دی ہوتی تو بھی آج کے سوال میں مذکور جملوں سے بھی شرعا تین طلاقیں واقع ہوگئیں۔ شوہر وبیوی کا تعلق بالکلیہ ختم ہوچکاہے۔
الطلاق مرتان الی قولہ ان طلقھا فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره (سورۃ البقرہ 229)
وطلاق البدعة أن يطلقها ثلاثا بكلمة واحدة أو ثلاثا في طهر واحد، فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيا. (البنایۃ شرح الھدایۃ، طلاق البدعۃ 5/284)
وفي المنية يدخل نحو " وسوبيا طلاغ، أو تلاع، أو تلاغ أو طلاك " بلا فرق بين الجاهل والعالم على ما قال الفضلي، وإن قال: تعمدته تخويفها لا يصدق قضاء إلا بالإشهاد عليه، وكذا أنت " ط ل اق "، أو " طلاق باش "، أو " طلاق شو " كما في الخلاصة ولم يشترط علم الزوج معناه فلو لقنه الطلاق بالعربية فطلقها بلا علم به وقع قضاء كما في الظهيرية والمنية. (مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر، باب ایقاع الطلاق 1/386)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند