احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2189/44-2332

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مرحوم کے انتقال کے وقت جو کچھ ان کی ملکیت میں تھا، اس پورے جائداد کو اس طرح تقسیم کریں گے کہ آپ کی سوتیلی بہن کو مرحوم کی بیٹی کی حیثیت سے حصہ ملے گا، لہذا  مرحوم کی کل جائداد کو 64 حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں سے بیوی کو 8(آٹھ) حصے، تینوں بیٹوں میں سے ہر ایک  بیٹے کو 14 (چودہ) حصے، اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو 7 (سات) حصے ملیں گے۔  والد صاحب نے جو کچھ اپنی زندگی میں بیچ دیا یا کسی کو دے کر مالک بنادیا اس کا اب کوئی حساب نہیں ہوگا، اس لئے انتقال سے دس سال قبل جو زمین بیچی تھی ان پیسوں میں سے ان کے انتقال کے وقت جو بچ گیا تھا  صرف اس میں میراث تقسیم ہوگی۔ سرکار کی جانب سے آپ کی والدہ کو جو پینشن کی رقم ملتی ہے اس کی مالک آپ کی والدہ ہی ہیں، اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے، اس لئے کہ یہ رقم سرکار خاص ان کو ہی دے رہی ہےاور یہ سرکار کی جانب سے ایک عطیہ ہے وہ جس کو چاہے دے سکتی ہے۔

 امداد الفتاوی میں ہے: "چوں کہ میراث مملوکہ اموال میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسانِ سرکار ہے، بدون قبضہ کے مملوک نہیں ہوتا، لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، سرکار کو اختیار ہے جس طرح چا ہے تقسیم کردے۔"امداد الفتاویٰ ، کتاب الفرائض جلد ۴ ص:۳۴۳)

"لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته»ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل؛ لما ذكرنا، والله سبحانه وتعالى أعلم." (بدائع الصنائع، کتاب الحدود ، فصل فی شرائط جواز اقامة الحدود جلد ۷ ص : ۵۷ ط : دار الکتب العلمیة)

"لأن ‌الملك ‌ما ‌من ‌شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص." (فتاوی شامی، کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد جلد ۵ ص : ۵۱ ط : دارالفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:علمائے دیوبند یزید کے بارے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں کہ یہی احوط ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی موقف بیان کیا گیا ہے۔ (۲)

فتاوی رشیدیہ ص 76  ۔۔۔وینبغي أن لا یسأل الناس عما لاحاجۃ إلیہ … إلی غیر ذلک مما لا تجب معرفتہ ولم یرد التکلیف بہ۔ (ابن عابدین، ’’کتاب الخنثیٰ: مسائل شتی‘‘: ج ۱۰، ص: ۴۸۵)
وہل یجوز لعن یزید حکی القاضي ثناء اللّٰہ في مکتوباتہ إن للعماء فیہ ثلاثۃ مذاہب الأول المنع کما قالہ الإمام أبو حنیفۃ في الفقہ الأکبر۔ (ہامش بذل المجہود، ’’کتاب الأدب، باب اللعن‘‘: ج ۱۹، ص: ۱۴۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج1ص232

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مزار پر ہاتھ اٹھاکر فاتحہ پڑھنا مباح ہے، مگر بہتر یہ ہے کہ یا تو مزار کی طرف منہ کرکے بغیر ہاتھ اٹھائے فاتحہ پڑھے، یا قبلہ رخ کھڑے ہوکر ہاتھ اٹھاکر فاتحہ پڑھے۔ فاتحہ سے مراد یہ ہے کہ ایصال ثواب کی غرض سے کچھ قرآن پاک پڑھ کر اس کا ثواب بخش دے۔ اور میت کے لئے دعاء مغفرت کرے، صاحب قبر سے مرادیں مانگنا یا حاجتیں طلب کرنا ناجائز ہیں۔(۱)

(۱) وإذا أراد الدعاء یقوم مستقبل القبلۃ کذا في خزانۃ الفتاوی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب السادس عشر في زیارۃ القبور‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۴)
وفي حدیث ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قبر عبد اللّٰہ ذي النجادین الحدیث وفیہ فلما فرغ من دفنہ استقبل القبلۃ رافعاً یدیہ أخرجہ أبو عوانہ في صحیحہ۔ (ابن حجرالعسقلاني، فتح الباري، ’’کتاب الدعوات: قولہ باب الدعاء مستقبل القبلۃ‘‘: ج ۱۱، ص: ۱۶۵، رقم: ۶۳۴۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص356

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ رواج بالکل غیر شرعی اور خلاف شرع ہے کہ مہر ادا کرنے سے پہلے بیوی سے صحبت کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے، اس رواج کا ختم کرنا اور عوام کو صحیح مسئلہ بتانا ضروری ہے، مہر کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ (۱) مہر معجل اور دوسرا مہر مؤجل کہلاتا ہے، مہر مؤجل کی ادائے گی عرفاً طلاق کے بعد یا شوہر کے مرنے کے بعد اس کے ترکہ سے ہوتی ہے بہتر ہے کہ صحبت سے پہلے مہر ادا کرے اور مہر معجل کا حکم یہ ہے کہ جب عورت مطالبہ کرے اور شوہر ادا نہ کرے تو بیوی شوہر سے کہہ سکتی ہے کہ جب تک آپ مہر ادا نہیں کریں گے ہمبستر نہیں ہونے دوں گی (وطی نہیں کرنے دوں گی)(۲) اور پہلی رات میں بیوی سے مہر معاف کرانا شوہر کی زیادتی، ظلم اور بزدلی ہے، اگر بیوی دباؤ میں مہر معاف کردیتی ہے؛ اگر وہ دباؤ میں زبان سے کہہ دے کہ میں نے مہر معاف کر دیا، تو مہر معاف نہیں ہوگا، ہاں! اگر بخوشی معاف کردے، تو معاف ہو جاتاہے۔

(۱) {وَ أٰتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃًط فَإِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَيْْئٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ھَنِیْٓئًا مَّرِیْٓئًاہ۴ } (سورۃ النساء: ۴)
(۲) (التمس ولو خاتما من حدید) یجب حملہا علی أنہ المعجل، وذلک لأن العادۃ عندہم تعجیل بعض المہر قبل الدخول حتی ذہب بعض العلماء إلی أنہ لا یدخل بہا حتی یقدم شیئا لہا تمسکا بمنعہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علیا أن یدخل بفاطمۃ رضي اللّٰہ عنہا حتی یعطیہا شیئا فقال: یا رسول اللّٰہ لیس لي شيء فقال: أعطہا درعک فأعطاہا درعہ۔ رواہ أبو داود والنسائي، ومعلوم أن الصداق کان أربعمائۃ درہم وہي فضۃ، لکن المختار الجواز قبلہ لما روت عائشۃ رضي اللّٰہ تعالی عنہا قالت أمرني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، أن أدخل إمرأۃ علی زوجہا قبل أن یعطیہا شیئا رواہ أبو داود فیحمل المنع المذکور علی الندب۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب النکاح: باب المہر‘‘: ج ۴، ص: ۲۳۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص443

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ترجمہ پڑھنے اور دیکھ کربتلانے میں کوئی حرج نہیں، لیکن اپنی طرف سے خود مطلب بیان کرنا درست نہیں ہے، مفہوم ومطلب وتفسیر کے لیے اہل علم کی طرف رجوع کیا جائے، نیز ترجمہ پڑھنے سے اگر کسی بات میںکوئی شبہ ظاہر ہو، تو اہل علم سے ضرور حل کرلیں۔(۱)

(۱) اختلف الناس في تفسیر القرآن ہل یجوز لکل أحد الخوض فیہ؟ فقال قوم: لا یجوز لأحد أن یتعاطی تفسیر شيء من القرآن وإن کان عالماً أدیباً متسما في معرفۃ الأدلۃ والفقہ والنحو والأخبار والآثارالخ۔
من قال: یجوز تفسیرھ لمن کان جامعا للعلوم التي یحتاج المفسر إلیہا وہي خمسۃ عشر علماً:
أحدہا: اللغۃ۔ الثاني: النحو۔ الثالث: التصریف۔ الرابع: الاشتقاق۔ الخامس، والسادس، والسابع: المعاني والبیان والبدیع۔ الثامن: علم القراء ات۔ التاسع: أصول الدین۔ العاشر: أصول الفقہ۔ الحادي عشر: أسباب النزول والمنسوخ۔ الثالث: عشر: الفقہ۔ الرابع عشر: الأحادیث۔ المبینۃ۔ الخامس عشر: الموہبۃ۔ (عبد الرحمن أبي بکر، الإتقان في علوم القرآن، ’’النوع الثامن والسبعون: في معرفۃ مشروط الآداب‘‘: ج ۴، ص: ۲۱۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص46

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2551/45-3889

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آدمی اپنی زندگی میں اپنی جائداد کا مالک ہوتاہے، وہ جیسا چاہے اپنی ملکیت میں تصرف کا اختیار رکھتاہے، کسی کو کم دے یا زیادہ دے اس کی اپنی مرضی ہے، شریعت نے اس کو کسی خاص حکم کا پابند نہیں ہے، تاہم شریعت نے اس بات کو پسند کیا ہے کہ  باپ اپنی اولاد کے درمیان برابری کرے، اور اپنی زندگی میں جائدادتقسیم کرتے ہوئے لڑکے اور لڑکیوں میں کوئی فرق نہ کرے۔اس لئے اگر آپ اپنی مرضی سے لڑکوں کو کاروبار والی جگہ اور لڑکیوں کو کم مالیت والی جگہ دینا چاہیں تو آپ کو اختیار ہے گوکہ مناسب نہیں ہے۔ اور اگر لڑکیوں کو اس پر کچھ نقد وغیرہ دے کر خوش کردیں تو اور بھی بہتر ہوگا۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 2667/45-4126

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The properties which are in the possession of Abdul-Haq and registered on his name, can be given to the person he gifted. But gifting of one’s own share in the properties which have many partners is not valid. So the properties must be divided before gifting takes place.

وشرائط صحتہا في الموہوب أن یکون مقبوضاً غیر مشاع غیر مشغول‘‘ (در مختار: ج ٨،ص: ٩٨٤،زکریادیوبند)

وقید المشاع بما لم یقسم لأن ہبۃ المشاع الذی تمکن قسمتہ لا یصح‘‘ (البحر الرائق: ج ٧،ص: ٦٨٤،زکریادیوبند)

 

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2652/45-4009

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال اگر وارثین میں صرف مذکورہ افراد ہیں  تو مرحوم کی کل جائداد کو 12 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے دو حصے ماں کو ملیں گے اورپانچ پانچ حصے ہر ایک   علاتی بھائی  کو ملیں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2706/45-4185

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں نماز درست ہوگئی۔  "لم تقولوا  راعنا"کے معنی ہوئے کہ" کیوں کہتے ہو راعنا"، بلکہ کہو "انظرنا"۔ تو معنی میں  کوئی ایسی خرابی نہیں  پائی گئی  جس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔

قال فی الدر: ولو زاد کلمةً أو نقص کلمةً ۔۔۔ لم تفسد ما لم یتغیر المعنی الخ (الدر مع الرد: 2/396)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: زنا کے ثبوت شرعی کے لیے چار گواہوں کا ہونا بہت ضروری ہے صرف ایک آدمی یا ایک لڑکے کی گواہی پر یقین کرکے امام مذکور کو بدنام کرنے والے سخت گناہ گار ہیں، اور بغیر شرعی ثبوت کے امام صاحب کو امامت سے ہٹانا درست نہیں متولی اور ذمہ داران مسجد کو چاہئے کہ اس شخص کو بلا کر اس سے معافی مانگے اور اس کو امامت پر برقرار رکھا جائے، کیوںکہ بغیر ثبوت شرعی کے محض بدگمانی پر کسی کو اس کے عہدہ سے الگ کردینا درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) {إن الذینَ یَرْمُوْنَ المحصنٰت الغَافِلاتِ المؤمِنَاتِ لعِنُوا في الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْم} (النور: ۲۳)
{والذین یَرْمُوْنَ المحصنات ثم لم یأتوا بِاَربعۃ شہداء فاجلِدُوْہُمْ ثمَانین جلدۃ ولا تقبلوا لہم شہادۃً اَبداً واُولئک ہُم الفٰسِقُوْنَ} (سورۃ النور: ۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص271