اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بلا ضرورت قبروں پر کتبے لگانا ممنوع ہے۔ البتہ اگر قبر کی بے حرمتی کا اندیشہ ہو یا کوئی ایسا عالم ہو جسے لوگ تلاش کریں، تو مباح ہے۔ (۴)عالمگیری میں ہے کہ علماء کی قبروں پر کتبے لگانا شرعاً جائز ہے۔ تاہم ضرورت سے زیادہ لکھنا جائز نہیں ہے۔(۱) (۴) و إن احتیج إلی الکتابۃ حتی لا یذہب الأثر ولا یمتہن فلا بأس، فأما الکتابۃ …بغیر عذر فلا۔ (أحمد بن محمد،حاشیۃ الطحطاوي، ’’فصل في حملہا ودفنہا‘‘: ص: ۶۱۲) (۱) أنہ یکرہ کتابۃ شيء علیہ من القرآن أو الشعر أو إطراء مدح لہ ونحو ذلک۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۴) فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص359

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بارات اور دیگر مہمانوں کو کھانا کھلانا لڑکی والے کے لئے جائز ہے۔ ضروری اور فرض نہیں؛ اس لیے اگر بارات اور مہمانوں کو کھانا نہ کھلایا جائے اور اس کی رقم مسجد میں خوشی اور رضامندی سے دیدی جائے تو جائز ہے۔ قانون بناکر اس طرح جبر کرنا خلاف شرع ہے اور یہ قانون اس بات کو واضح کر رہا ہے کہ لڑکی والے یا لڑکے والے رقم دینے پر مجبور ہیں؛ اس لیے یہ جبر جائز نہیں اور ایسا قانون بنانا بھی جائز نہیں (۱) اور لڑکے کے لیے ولیمہ مسنون ہے، چندہ دینے سے ولیمہ کی سنت اداء نہیں ہوگی(۲)۔

(۱) عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال امرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
(۲) إن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم رأی علی عبد الرحمن بن عوف أثر صفرۃ، فقال: ما ہذا قال: إني تزوجت إمرأۃ علی وزن نواۃ من ذہب قال بارک اللّٰہ لک أو لم ولو بشاۃ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب النکاح: باب الولیمۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۸، رقم: ۳۲۱۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص445

اسلامی عقائد

Ref. No. 38/ 897

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: سیاسی سماجی طور پر ایسی راہ اختیار کی جاسکتی ہے۔ عقیدہ کے لحاظ سے درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 39 / 862

 

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔    درست نہیں ہے۔ احتیاط کرنی لازم ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:واقعۂ معراج کی تفصیلات میں ’’اسراء‘‘ قرآن کریم سے ثابت ہے جس کا منکر کافر ہے باقی تفصیل احادیث سے ثابت ہیں وہ احادیث مجموعی طور پر اگرچہ تواتر کے قریب ہیں؛ لیکن بہر حال متواتر نہیں، اس لئے منکر کافر نہیں قرار دیا جائے گا، تاہم ایسا شخص گمراہی کی راہ پر ہے اس کو اچھی طرح سمجھانا چاہئے۔

(۱) ومن أنکر المتواتر فقد کفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم السلام، الوجہ الثالث:‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۷)

فالإسراء ہو من المسجد الحرام إلی البیت المقدس قطعي أي یقیني ثبت بالکتاب أي القرآن ویکفر منکرہ۔ (محمد عبدالعزیز الفرھاوي،النبراس، ’’بیان المعراج‘‘:ص:۲۹۵)

من أنکر المعراج ینظر إن أنکر الإسراء من مکۃ إلی بیت المقدس فہو کافر … لأن الإسراء من الحرم إلی الحرم ثابت بالآیۃ۔ (أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ، شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في أن المعراج حق‘‘: ص: ۱۸۹)

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1960/44-1881

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  جس دن بچے کی پیدائش ہوئی ہے وہ پہلا دن ہے اس لئے ساتویں دن یعنی  ٧محرم  کو عقیقہ کی تاریخ ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی صحابی کے بارے میں ایسی کوئی روایت ہمیں نہیں ملی کہ کسی صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیشاب پی لیا ہو، البتہ حضرت برکۃ رضی اللہ عنہا کے بارے میں سیرت کی بعض کتابوں میں یہ منقول ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیشاب پیا۔(۱)  لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی حضرت برکۃ رضی اللہ عنہا نے پانی سمجھ کر پی لیا تھا، بعد میں معلوم ہوا کہ پیشاب ہے۔ بول وبراز کو زمین کا نگل جانا یہ تفسیر خازن میں مذکور ہے، لیکن غیر محقق ہے، تھوک کا صحابہ کا ہاتھ پر لینا بھی ثابت نہیں، ہاں اگر کبھی اتفاقاً کسی صحابی کے ہاتھ پر تھوک پڑ جاتا، تو وہ اس کو اپنے جسم اور چہرے پر تبرکاً مل لیتے(۲)  جان بوجھ کر صحابہؓ ایسا کرتے ہوں یہ ثابت نہیں۔
’’إن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان لہ قدح من عیدان یبول فیہ ثم یوضع تحت سریرہ، فجاء ت إمرأۃ یقال لہا برکۃ جاء ت مع أم حبیبۃ من الحبشۃ فشربتہ برکۃ فسألہا، فقالت شربتہ، فقال: لقد حضرتني من النار بحضار أو قال حبتہ أو ہذا معناہ‘‘(۳)
’’عن أم أیمن رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم
من اللیل إلی فخارۃ في جانب البیت، فبال فیہا فقمت من اللیل، وأنا عطشانۃ فشربت ما فیہا، وأنا لا أشعر فلما أصبح النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: یا أم أیمن -رضي اللّٰہ عنہا- قومي فأہریقي ما في تلک الفخارۃ، قلت: قد واللّٰہ شربت ما فیہا، فضحک رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حتی بدت نواجذہ ثم قال أما إنک لا تتجعین بطنک أبداً،(۱) وقد تکاثرت الأدلۃ علی طہارۃ فضلاتہ وعد الأئمۃ ذلک في خصائصہ‘‘ (۲)

(۱) اصح السیر: ص: ۵۶۱

(۲)(اصح السیر: ص: ۱۷۲
(۳) الطبراني، المعجم الکبیر: ج۲۴، ص: ۱۸۹؛ و السنن الکبریٰ للبیہقي: ج ۷، ص: ۶۷۔

(۱) الطبراني، المعجم الکبیر، ’’ما اسندت أم أیمن‘‘: ج ۲۵، ص: ۸۹
(۲) ابن حجر العسقلاني، فتح الباري، ’’باب: قولہ باب الماء‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص233

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 878

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-: میت کی قبر کے پاس اذان دینے کا کوئی ثبوت نہیں ہے، عالم برزخ کے احوال دنیا کے احوال سے مختلف ہیں، اس لئے مقصد اذان کی تعیین بھی ناقابل فہم ہے، قبر کے اوپر درخت کی ہری ڈالی رکھنا درست ہے اور اس کے کفن پر خوشبو چھڑکنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور قبر پر بھی چھڑکا جاسکتا ہے، تاہم اگربتی جلانے سے بعض مرتبہ آگ وغیرہ لگنے کا خطرہ رہتا ہے  اس لئے اس سے احتراز کیا جانا بہتر ہے۔ واللہ تعالی اعلم  بالصواب878

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:زکوٰۃ کا منکر کافر ہے اور عشر کا منکر کافر نہیں؛ بلکہ فاسق اور سخت گناہگار ہے۔

عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: بني الإسلام علی خمس علی أن یعبد اللّٰہ، ویکفر بما دونہ وأقام الصلاۃ وإیتاء الزکوۃ وحجَّ البیت، وصوم رمضان۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب بیان أرکان الإسلام ودعائمۃ العظام‘‘: ج ۱، ص: ۴۵، رقم: ۱۶)

قال اللّٰہ تعالیٰ: سورۃ أنزلناہا وفرضناہا أي قدرناہا وقطعنا الأحکام فیہا قطعاً، والفرائض في الشرع مقدرۃ لا تحتمل زیادۃ ولا نقصانا أي مقطوعۃ ثبتت بدلیل لا شبہۃ فیہ مثل الإیمان والصلاۃ والزکاۃ والحج وسمیت مکتوبۃ۔ (علی بن محمد البزدوي الحنفي، أصول البزدوي، کنز الوصول إلی معرفۃ الأصول: ج ۱، ص: ۱۳۶)

أما الفرض فحکمہ اللزوم علماً وتصدیقاً بالقلب، وہو الإسلام وعملاً بالبدن، وہو من أرکان الشرائع ویکفر جاحدہ ویفسق تارکہ بلا عذرٍ۔ (علی بن محمد البزدوي الحنفي، أصول البزدوي، کنز الوصول إلی معرفۃ الأصول: ج ۱، ص: ۱۳۶-۱۳۷)

لزوم الإتیان بہ، مع ثواب فاعلہ، وعقاب تارکہ، ویکفر منکرہ۔ (وہبۃ بن مصطفیٰ، ’’الفقہ الإسلامي وأدلتہ، المصطلحات الفقہیۃ العامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۷)

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2138/44-2196

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہماری معلومات کے مطابق ہنڈی کے ذریعہ پیسے بھیجنا قانونا جرم ہے، اس لئے اس کاروبار سے گریز کرنا لازم ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند