اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:زید اس قبر کو ہموار یعنی برابر کرا سکتا ہے اس کے لیے ایسا کرنا درست ہے۔(۲)

(۲)  عن جابر رضي اللّٰہ عنہ، قال: نہی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن یجصص القبر، وأن یقعد علیہ، وأن یبنی علیہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: باب النہي عن تجصیص القبر والبناء علیہ‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۲، رقم: ۹۷۰)
ویخیر المالک بین إخراجہ ومساواتہ بالأرض کما جاز زرعہ والبناء علیہ إذا بلي وصار تراباً۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۵)


فتاوہ دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص360

اسلامی عقائد

Ref. No. 2434/45-3690

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اللہ کے نام کے آگے کوئی حمدیہ  جملہ استعمال کرنا افضل ہے، یہ کوئی لازم و ضروری امر نہیں ہے، اس لئے اگر کوئی حمدیہ جملہ ترک کردے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا کی جگہ اللہ نے فرمایا کہنا جائز ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پہلی آیت میں یہود و نصاریٰ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے خدا کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا بنا لیا ہے؛ یعنی جو منصب خدا کا تھا یعنی حلال اور حرام کی تشریع وہ یہود ونصاریٰ نے اپنے عالموں اور درویشوں کو دیدیا وہ اگر حلال کو حرام اور حرام کو حلال کہہ دیتے ہیں، تو یہ اس کو سند کہتے ہیں، کتب سماویہ سے کوئی سروکار نہیں رکھتے۔ دوسری آیت سورۃ عبس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن تو وہ ہے جس کی آیتیں آسمان کے اوپر نہایت معزز بلند مرتبہ صاف سنہرے ورقوں میں لکھی ہوئی ہیں اور زمین پر مخلص ایماندار بھی اس کے اوراق نہایت عزت و احترام اور تقدیس و تطہیر کے ساتھ اونچی جگہ رکھتے ہیں یعنی وہاں فرشتے اس کو لکھتے ہیں اس کے موافق وحی اترتی ہے اور یہاں بھی اوراق میں لکھنے اور جمع کرنے والے دنیا کے بزرگ ترین پاکباز نیکوکار اور فرشتہ خصلت بندے ہیں، جنہوں نے ہر قسم کی کمی بیشی اور تحریف وتبدیل سے اس کو پاک رکھا ہے۔ ترجمہ آیت پاک کا یہ ہے، یوں نہیں وہ تو نعمت ہے پھر جو کوئی چاہے اس کو پڑھے، لکھا ہے عزت کے ورقوں میں، اونچے رکھے ہوئے ہیں، نہایت بہترین ہاتھوں میں لکھنے والوں کے جو بڑے درجے کے نیکوکار ہیں، مارا جاوے انسان کیسا ناشکرا ہے۔ پس ان تینوں آیتوں پر تو ہر مسلمان کا عقیدہ ہے۔ مکان کی دیوار پر اس طرح ایسے حصے پر لکھنا کہ بارش وغیرہ کے پانی سے حروف دھل کر پانی نیچے نہ گرے مباح ہے۔ امام صاحب کا یہ کہنا کہ اس سے ہمارے عقیدے خراب ہوتے ہیں (العیاذ باللہ) بالکل ہی غلط بات ہے۔ امام صاحب کو یہ بتلانا ہوگا جو جملے وہ بولتے ہیں اس سے ان کا مقصد اور منشا کیا ہے اور ان کے جملوں کی کیا تاویل کی جائے۔ ورنہ آیات سے متعلق ان کے مذکورہ جملے سلب ایمان کا سبب بن سکتے ہیں، ایسی صورت میں ان کے پیچھے نماز بھی صحیح نہیں ہوگی، آپ جو عبارات لکھواتے ہیں ان میں بھی ابہام ہوجاتا ہے پہلی آیت کے ترجمے میں انہوں نے بجائے یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہود ونصاریٰ نے اپنے علماء ومشائخ کو اپنا رب بنا لیا، ورنہ عوام اس کا غلط مطلب بھی نکال سکتے ہیں۔ اگر امام صاحب اسی بنا پر منع کرتے ہیں تو پھر وہ خاطی نہیں۔ بہر حال امام صاحب کے بارے میں کچھ اس وقت تک نہیں کہا جاسکتا جب تک ان کا منشا و مقصد معلوم نہ ہو امام صاحب کو اپنے ہمنواؤں سے مٹوا دینا بہت غلط بات ہے اگر کوئی خامی ہے، تواس کی اصلاح کرنی چاہئے تھی نہ یہ کہ فتنہ اور جھگڑے کی راہ کھولیں، ان کو پرہیز لازم ہے۔(۱)

(۱) عن مصعب بن سعد، عن عدي بن حاتم رضي اللّٰہ عنہ، قال: أتیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم وفي عنقي صلیب من ذہب۔فقال: یا عدی اطرح عنک ہذا الوثن، وسمعتہ یقرأ فی سورۃ براءۃ: (إِتَّخَذُوْٓا أَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ أَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ)، قال: أما إنہم لم یکونوا یعبدونہم، ولکنہم کانوا إذا أحلوا لہم شیئا استحلوہ، وإذا حرموا علیہم شیئا حرموہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ”أبواب التفسیر: ومن سورۃ التوبۃ“: ج ۲، ص: ۴۰۱، رقم: ۵۹۰۳)

ومن حجد القرآن أي کلہ أو سورۃ منہ أو آیۃ قلت، وکذا کلمہ أو قرأۃ متواترۃ أو زعم إنہا لیست من کلام اللّٰہ تعالیٰ کفر۔ (أبوحنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ”فصل فیما یتعلق بالقرآن والصلاۃ“: ص: ۹۷۲)

وینقض أي الإیمان بارتکاب أعمالہ السیءۃ (وفیہ) …… ثم الطاعۃ والعبادۃ ثمرۃ الإیمان ونتیجۃ الإیقان وتنور القلب تنور العرفان بخلاف المعصیۃ فإنہا تسود القلب ومصحف محبۃ العرب ربما یجرہ مداومۃ العصیان إلی ظلمات الکفران۔ (أبوحنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ”بحث في أن المؤمنین مستوون في الإیمان“: ص: ۶۴۱)

وعلم التفسیر یؤخذ من أفواہ الرجال کأسباب النزول والناسخ والمنسوخ، ومن أقوال الأئمۃ وتأویلاتہم بالمقاییس العربیۃ کالحقیقۃ والمجاز والمجمل والمفصل والعام والخاص، ثم یتکلم علی حسب ما یقتضیہ أصول الدین، فیؤول القسم المحتاج إلی التأویل علی وجہ یشہد بصحتہ ظاہر التنزیل فمن لم یستجمع ہذہ الشرائط کان قولہ مہجورا وحسبہ من الزاجر أنہ مخطیء عند الإصابۃ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ”کتاب العلم: الفصل الثاني“: ج ۱، ص: ۷۴۴، رقم: ۵۳۲)

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبروں و مزاروں پر چڑھاوا ناجائز ہے(۱) غیر اللہ کے نام پر جو چڑھاوا چڑھایا گیا ہے وہ مال حرام ہے جس کے مالک چڑھاوا چڑھانے والے ہی ہوتے ہیں اور مال حرام کا حکم یہ ہے کہ جن کا مال ہو انہیں کو واپس کرنا ضروری ہے اگر واپسی دشوار ہو تو غرباء پر بلانیت کے تصدق کردیا جائے، مذکورہ صورت میں بھی رقم کا بلا نیت ثواب تصدق واجب ہے۔(۲)

(۱) {وَمَآ أُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِج} (سورۃ البقرۃ: ۱۷۳)
ولا بأس بزیارۃ القبور ولو للنساء وقیل تحرم علیہن والأصح أن الرخصۃ ثابتۃ لہن بحر۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۰)
(۲) وإلا تصدقوا بہا لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع‘‘: ج۹، ص: ۵۵۳
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص361

اسلامی عقائد

Ref. No. 1082 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  مذکورہ کتب پڑٕھنے میں حرج نہیں ، تاہم کہیں ذہن اٹکے یا کوئی بات ذہن میں خلجان پیداکرے  تو کسی قریبی عالم سے رجوع کرلیا کریں۔ واللہ اعلم

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 41/861

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اگروہ صدق دل سے آئیں اور ان کے ہدایت کی امید ہو یا ان کے شر کا اندیشہ نہ ہو تو ان کو قرآن کی تعلیم دینے میں حرج نہیں  ہے، اور ان کو تعلیم دینے کے کے لئے کسی ماہر اور سنجیدہ عالم کا ہونا ضروری ہے۔  تاہم اگر ان کی بدنیتی واضح ہوجائے یا ان سے کسی  شر کا اندیشہ ہ ہو  تو گریز کرنا چاہئے۔  

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جس دارالقضاء میں مقدمہ دائر کیا تھا اس پر اعتمادنہ کیا ہوگا ۔ اب اگر فیصلہ خلاف ہوگیا تو قاضی صاحب پر تہمت دھر نا اوران  کو برا بھلا کہنا اور رشوت کا الزام لگانا قطعاً غلط اور خلاف شریعت ہے، جو شخص ایسا کرتا ہے اس پر توبہ لازم ہے باقی اس کی وجہ سے وہ شخص دائرہَ اسلام سے خارج  نہیں ہوا صرف گنہگار ہوا لیکن کفر کا اندیشہ ہے ۔
ویخاف علیہ الکفر ;202;ذا شتم عالماً اَو فقیہاً م غیر سبب ۔ (جماعۃ م علماء الہ د، الفتاویٰ الہ دیۃ، ’’کتاب السیر: الباب السابع: ف;184; اَحکام المرتدی ، موجبات الکفر اَ واع، وم ہا: ما یتعلق بالعلم والعلماء‘‘:ج ۲، ص: ۲۸۲) وم بغض عالماً م غیر سبب ظاہر خیف علیہ الکفر، ولو شتم فم عالم فقیہ اَو علوی یکفر ۔ (عبد الرحم ب محمد، مجمع الاَ ہر، ’’کتاب السیر والجہاد: ثم ;202; اَلفاظ الکفر اَ واع‘‘: ج ۲، ص: ۹۰۵)

اسلامی عقائد

Ref. No. 2045/44-2184

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امام صاحب کا تعویذپر پیسے لینا  جائز ہےبشرطیکہ تعویذ کے مشمولات درست ہوں اور اس کو تجارت نہ بنایاجائے، پھر ان کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نماز درست ہوجائے گی۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2194/44-2396

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر آسمان ابر آلود نہ ہو تو حضرات فقہا نے رویت ہلال کے لئے جم غفیر کی رویت کو ضروری قرار دیا ہے، البتہ جم غفیر کی تفسیر کیا ہے، اس سلسلہ میں مختلف اقوال ہیں، اور صحیح قول یہ ہے کہ جن لوگوں کی خبر پر امام یا کمیٹی کو اعتماد ہو اس کے مطابق فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ لہذا اگر رویت ہلال کی خبر دینے والوں میں کبھی اتفاق ایسا ہو کہ صرف عورتیں ہی ہوں، اور وہاں یا تو مرد نہ ہوں یا مردوں نے کسی مصروفیت کی بنا پر چاند دیکھنے کا اہتمام نہ کیا ہو، تو تنہا عورتوں کی خبر پر اعتماد کیا جا سکتا ہے، جس طرح کہ آسمان کے ابر آلود ہونے کی صورت میں تنہا ایک عورت کی خبر بھی قبول کر لی جاتی ہے۔

وإذالم تكن بالسماءعلة لم تقبل الشهادة حتى يراه جمع كثير يقع العلم بخبرهم"

لأن التفردبالرؤية في مثل هذه الحالة يوهم الغلط فيجب التوقف فيه حتى يكون جمعاكثيرا ثم قيل في الكثيرأهل المحلة وعن أبي يوسف رحمه الله خمسون رجلا اعتبارا بالقسامة (بداية، 216/1)

 فإن كانت السماء مصحية ورأى الناس الهلال صاموا وإن شهد واحد برؤية الهلال لاتقبل شهادته ما لم تشهد جماعة يقع العلم للقاضي بشهادتهم، في ظاهرالرواية ولم يقدرفي ذلك تقديرا- وجه رواية الحسن – رحمه الله تعالى – أن هذامن باب الإخبارلامن باب الشهادة، بدليل أنه تقبل شهادةالواحدإذاكان بالسماءعلة ولوكان شهادةلما قبل-  لأن العدد شرط في الشهادات وإذاكان إخبارا لاشهادة فالعدد ليس بشرط في الإخبارعن الديانات، وإن كانت السماء متغيمة تقبل شهادة الواحد بلاخلاف بين أصحابنا، سواءكان حرا،أوعبدا رجلاأوامرأة غيرمحدود في قذف أومحدودا تائبا، بعدأن كان مسلماعاقلا بالغا عدلا (بدائع، 220/2)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2289/44-3455

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والد کی حیات میں والد کےساتھ کام کرنے والے درحقیقت والدکا تعاون کرتے ہیں اور اصل مالک اس کاروبار کے والد ہی ہوتے ہیں ، اولاد کی شرکت والد کے کام میں از راہ تبرع ہوتی ہے، اس لئے والد کی حیات میں جو بھی زمین خریدی گئی جو والد کی جانب منسوب ہے تو اس کی تقسیم میں پانچواں بھائی بھی برابر کا شریک ہوگا، البتہ جس زمین یا مکان یا دوکان کو والد نے خاص طور پر کسی لڑکے یا لڑکی کو دے کر مالک بنادیا ہو تو وہ اس کا اپنا ذاتی ہوگا جس میں دوسروں کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔

سئل في رجل مات عن ثلاثۃ أولاد ذکور وکان في حیاتہ معہ من الثلاثۃ إثنان في کسبٍ واحدٍ ومعیشۃ واحدۃٍ والثالث من حَمَلَۃِ القرآن في معیشۃ علی حدتہٖ وجمیع کسب المیت والولدین لا یتمیز الخ أجاب: جمیع ما ترکہ الأب المذکور یقسم بین أولادہ الثلاثۃ بالسویۃ حیث لا وارث لہ سواہم ولیس للاثنین الذین ہما في عائلۃ أبیہم ومعیناہُ لہ منع أخیہما عما یخصہ في ترکۃ والدہ بدون وجہ شرعي۔ (فتاویٰ مہدیہ (۲/۳۱۴ مصر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند