بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:غیر اللہ کی پوجا جائز نہیں، بالکل حرام ہے اور غیر اللہ کی پوجا سے آدمی خارج از اسلام ہوجاتا ہے؛ لہٰذا بشرط صحت سوال اگر مذکورہ شخص نے ایسا کیا، تو وہ خارج از اسلام ہے، اس پر تجدید ایمان وتوبہ لازم ہے۔(۱)

(۱) یکفر بوضع قلنسوۃ المجوس علی رأسہ علی الصحیح -إلی- وبخروجہ إلی نیروز المجوس لموافقتہ معہم فیما یفعلون في ذلک الیوم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷)

لو وضع قلنسوۃ المجوسي علی رأسہ أو تزنربز نار النصاری أو ربط الصلیب یکفر، لو علق البائرۃ علی وسطخ لا یکفر۔ (أبو محمد، الفتاویٰ السراجیہ، ’’کتاب السیر: باب ألفاظ الکفر، فصل:‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۰)

 

دار الافتاء

دار العلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر مذکورہ شخص نے غیر اللہ کی پوجا کی ہو، تو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی عبادت حرام ہے اور مسلمان اسلام سے خارج ہو جاتا ہے؛ اس لئے بشرط صحت سوال مذکورہ شخص (جو پوجا پاٹ دسہرا ودیوالی پر ہندؤں سے بھی آگے بڑھ چڑھ کر کرتا ہے) ایمان سے خارج ہو گیا ہے، پھر سے ایمان قبول کرے اس کی نماز جنازہ یا مسلم قبرستان میں تدفین درست نہیں إلا یہ کہ وہ پھر سے ایمان لے آئے (اور آئندہ ایسا نہ کرے)۔(۱)

(۱) وقال غیرہ من مشائخنا رحمہم اللّٰہ تعالیٰ: إذا سجد واحد لہٰؤلاء الجبابرۃ فہو کبیرۃ من الکبائر وہل یکفر؟ قال بعضہم: یکفر مطلقا، وقال أکثرہم: ہذا علی وجوہ إن أراد بہ العبادۃ یکفر، وإن أراد بہ التحیۃ لم یکفر ویحرم علیہ ذلک وإن لم تکن لہ إرادۃ الکفر عند أکثر أہل العلم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘:  ج ۲، ص: ۲۹۲)

 

دار الافتاء

دار العلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ عقائد قرآن وحدیث کے صریح خلاف ہیں اور اگر مذکورہ شخص واقعۃً ایسے عقائد رکھتا ہے تو وہ خارج از اسلام ہے اس پر تجدید ایمان ضروری ہے۔(۱)

 

(۱) وإنَّ محمدعبدہ ورسولہ وأمینہ علی وحیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم …… وإن الجنۃ حق وإن النار حق وإن میزان حق وإن الحساب حق وإن الصراط حقٌّ وإن الساعۃ آتیۃ لاریب فہا وإن اللّٰہ یبعث من في القبور۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الشروط: الفصل العشرون في الوصیۃ‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۶)

وفي البحر: والحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلا أو لاعبا کفر عند الکلِّ ولا اعتبار باعتقادہ …… ومن تکلم بہا عالما عامداً کفر عند الکلِّ۔ (ابن عابدین، رد المختار علی الدر المختار، کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸)

 

رجل کفر بلسانہ طائعا وقلبہ مطمئنٌ بالإیمان یکون کافراً ولا یکون عند اللّٰہ مؤمناً کذا في فتاوی قاضي خان، (جماعۃ من علماء الھند، الفتاوی الھندیۃ ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳) وکذا الرجل إذا ابتلی بمصیبات متنوِّعۃ فقال أخذت مالی وأخذت ولدي وأخذت کذا وکذا فما ذا نفعل و ما ذا بقی لم تفعلہ و ما أشبہ ہذا من الألفاظ فقد کفر، کذا في المحیط۔ (أیضا:، ’’ومنہا ما یتعلق بالحلال والحرام‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳)

دار الافتاء

 دار العلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

Ref. No. 2425/45-3671

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سال گرہ یعنی برتھ ڈے یا شادی کی سالگرہ منانے کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں ہے بلکہ یہ اغیار کی طرف سے آئی ہوئی ایک رسم ہے جس میں عموماً خرافات  ہوتی ہیں، لہٰذا اگر اس موقع پر اغیار کی طرح مخصوص لباس پہنا جائے، موم بتیاں لگا کر کیک کاٹا جائے، موسیقی ہو، مرد وزن کااختلاط ہو، تصویر کشی ہو تو پھر سالگرہ منانا شرعاً ناجائز ہے، ہاں اگر اس طرح کی خرافات نہ ہوں اور نہ دیگر اقوام سے مشابہت مقصود ہو بلکہ گھر والے یا دوست  واحباب اس مقصد کے لئے اس دن کو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اس بات کا شکر ادا ہو کہ اللہ تعالیٰ صحت وعافیت اور عبادات کی توفیق کے ساتھ زندگی کا ایک سال مکمل فرمایا ہے، اس کے لئے منکرات سے پاک کوئی تقریب کرلی جائے جس میں کھانا پینا ہو اور ہدیہ کا لین دین ہو تو اس کی گنجائش ہے تاہم احتیاط بہتر ہے۔

(وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ) (سورۃ آل عمران: 85)

’’عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘ (سنن أبوداود: ج ٢، ص: ٢٠٣)

عن أبي موسی قال المرء مع من أحب‘‘ (صحیح ابن حبان: ج ١، ص: ٢٧٥)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

Ref. No. 1355/42-758

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کوئی جائز کام کی نذر ہو تو ٹھیک ہے اور یہ در اصل وقف کرنے کی نذر ہے ، اس لئے مسجد میں بھی وہ چیز دی  جاسکتی ہے۔  لیکن اگر چادر چڑھانے وغیرہ کی نذر ہے تو نذر منعقد نہیں ہوگی اور جوکچھ مسجد میں بطور صدقہ دینا چاہے دے سکتاہے۔

ولذا صححوا النذر بالوقف لأن من جنسه واجبا وهو بناء مسجد للمسلمين كما يأتي مع أنك علمت أن بناء المساجد غير مقصود لذاته (شامی، کتاب الایمان 3/735) (ومنها ) أن يكون قربةً فلايصح النذر بما ليس بقربة رأسا كالنذر بالمعاصي بأن يقول : لله عز شأنه علي أن أشرب الخمر أو أقتل فلاناً أو أضربه أو أشتمه ونحو ذلك؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: { لا نذر في معصية الله تعالى}، وقوله : عليه الصلاة والسلام: { من نذر أن يعصي الله تعالى فلايعصه }، ولأن حكم النذر وجوب المنذور به، ووجوب فعل المعصية محال، وكذا النذر بالمباحات من الأكل والشرب والجماع ونحو ذلك لعدم وصف القربة لاستوائهما فعلاً وتركاً (بدائع الصنائع 5/82)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 1131/42-359

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کالے جادو سے علاج کرانا درست نہیں ہے۔ حرام کے انسداد کے لئے حرام اور ظلم کے ازالہ کے لئے ظلم کرنا جائز نہیں ہے۔ آپ کسی پابند شرع عامل سے رجوع کریں ، اور خود بھی معوذتین ، سورہ بقرہ اور منزل پڑھنے کا اہتمام کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند