بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اولیٰ اور بہتر یہ ہے کہ سنن و نوافل گھر پر پڑھی جائے (۱) لیکن نماز سے غفلت کے اس دور میں سنن ونوافل مسجد میں پڑھی جائیں؛ اس لئے کہ گھر میں جاکر آدمی دوسرے کاموں میں لگ جاتا ہے اور عموماً نوافل وسنن چھوٹ جاتی ہیں؛ لہٰذا مسجد میں سنن ونوافل سے روکنے کی اجازت نہیں (۲) نیز ذکر اللہ کے لئے کسی متعین کتاب کو مخصوص کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، کسی مقررہ کتاب کو پڑھنے کے لئے اس قدر اہتمام کہ سنن ونوافل سے بھی لوگوں کو روک دیا جائے، اس کی بھی اجازت نہیں ہے۔

(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: إجعلوا في بیوتکم من صلاتکم ولا تتخذوہا قبورا، قولہ: من صلاتکم قال القرطبي: من للتبعیض والمراد النوافل بدلیل ما رواہ مسلم من حدیث جابر مرفوعاً إذا قضی أحدکم الصلاۃ في مسجدہ فیجعل لبیتہ نصیبا من صلاتۃ۔ (ابن حجر العسقلاني، فتح الباري، ’’کتاب الصلاۃ: باب کراہیۃ الصلاۃ في المقابر‘‘: ج ۱، ص: ۶۸۵، رقم: ۴۳۲)
والأفضل في النفل غیر التراویح المنزل إلا لخوف شغل عنہا والأصح أفضلیتہ ما کان أخشع وأخلص۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۲)
(۲) حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’في نفسہ أفضل‘‘ یہ ہے کہ سنن مؤکدہ گھر پر پڑھی جائیں، لیکن ایک امر عارض کی وجہ سے اب افضل یہ ہے کہ سنن مؤکدہ مسجد میں ہی پڑھی جائیں۔ (ملفوظات حکیم الامت: ج ۸، ص: ۲۲۷، رقم الملفوظ: ۲۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص350

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئول عنہا میں اگر لوگ اتنی دیر مسجد میں رہتے ہیں کہ امام صاحب کی نیند میں خلل ہوتا ہے، تو امام صاحب پر لوگوں کے ساتھ بیٹھنا لازم نہیں ہے تاکہ وہ فجر کی نماز کے وقت بآسانی بیدار ہوسکیں، امام کے سونے کے لئے الگ سے جگہ کا نظم کر دیا جائے۔(۱)

(۱) حامل القرآن رایۃ الإسلام فمن أکرمہ فقد أکرمہ اللّٰہ ومن أہانہ فعلیہ لعنۃ اللّٰہ۔ (علاؤ الدین علي بن حسام الدین، کنز العمال: ج ۳، ص: ۱۳۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص351

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اسلام میں دعوت وتبلیغ اپنی اور دوسروں کی اصلاح اور اسلام واحکام اسلام کو عام وتام کرنے کا کوئی طریقہ متعین نہیں ہے؛ بلکہ زمانہ، علاقہ، ماحول، وعرف وعادات کے لحاظ سے جو بھی طریقہ بہتر ومؤثر معلوم ہو؛ اسی کو اختیار کیا جانا چاہئے۔
قرآن کریم میں {أُدْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِيْ ھِيَ أَحْسَنُط} (۱)
کسی ایک طریقہ کو لازم ومتعین سمجھنا اسلام کی وسعت وہمہ گیری کے ساتھ انتہائی نا انصافی ہے۔ مروجہ تبلیغی جماعت کا طریقہ بھی خصوصاً عوام کے لئے کافی مفید ہے، لیکن کچھ لوگ اس میں غلو وشدت سے کام لینے لگے ہیں، جس سے کافی نقصان ہو رہا ہے۔(۲)

(۱) سورۃ النحل: ۱۲۵۔
(۲){کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط} (سورۃ آل عمران: ۱۱۰)
عن سالم بن عبد اللّٰہ بن عمر عن أبیہ رضي اللّٰہ عنہم، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أیہا الناس أو مروا بالمعروف وأنہوا عن المنکر قبل أن تدعوا اللّٰہ فلا یستجیب لکم، وقبل أن تستغفروہ فلا یغفر لکم۔ (إسماعیل بن محمد، الترغیب والترہیب، ’’فصل‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۸، رقم: ۳۰۶)
{تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَعْتَدُوْھَاج وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَہ۲۲۹} (سورۃ البقرۃ: ۲۲۹)
{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ أُمَّۃً وَّسَطًا} (سورۃ البقرۃ: ۱۴۳)
وأنا أری أن ’’الوسط‘‘ في ہذا لموضع، ہو ’’الوسط‘‘ اللذي بمعنی: الجزء اللذي ہو بین الطرفین، … وأری أن اللّٰہ تعالیٰ ذکرہ إنما وصفہم بأنہم ’’وسط‘‘ لتوسطہم في الدین، فلا ہم أہل غلو فیہ، غلو النصاری اللذین غلوا بالترہب، وقیل لہم في عیسیٰ ما قالوا فیہ، ولاہم أہل تقصیر فیہ، تقصیر الیہود اللذین بدلو کتاب اللّٰہ، وقتلوا أنبیاء ہم، وکذبوا علی دینہم، وکفروا بہ، ولکنہم أہل توسط واعتدال فیہ، فوصف اللّٰہ بذلک، إذ کان أحب الأمور إلی اللّٰہ أوسطہا۔ (محمد بن جریر، جامع البیان في تأویل القرآن، ’’سورۃ البقرۃ: ۱۴۳‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۲)


 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص351

بدعات و منکرات

Ref. No. 40/860

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مزار پر سجدہ تعظیمی بھی جائز نہیں ہے، سخت گناہ ہے، تاہم آدمی ایمان سے خارج نہیں ہوتا ہے، اس لئے نکاح باقی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا کرنے والا سخت گناہگار ہے اور اعانت علی المعصیت کا شکار ہے، اس پر توبہ لازم ہے۔(۱)

 

(۱) من اعتقد الحرام حلالاً أو علی القلب یکفر، أما لو قال لحرام ہذا حلال لترویج السلعۃ أوبحکم الجہل لا یکون کافراً۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالحلال والحرام‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۴)

{مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌہ۱۸} (سورۃ قٓ: ۸۱)

بدعات و منکرات

Ref. No. 1633/43-1214

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   

الصلاة والسلام على النبی الکریم صلى الله عليه وسلم قبل الأذان غیر مشروعة واما الصلاة والسلام على النبی الکریم صلى الله عليه وسلم بعد الأذان فمستحبۃ لقول النبي صلى الله عليه وسلم: إذا سمعتم مؤذناً فقولوا مثلَ ما يقول، ثم صلوا علي، فإنه من صلَّى عليَّ صلاةً صلَّى الله عليه بها عَشْراً، ثم سَلْوا ليَ الوَسيلَة، فإنها منزلةٌ فيِ الجنة لا تنبَغي إلا لعبد من عباد الله، وأرجو أنْ أكَونَ أناَ هو، فمن سألَ لي الوَسيلَة حلَّت عليه الشفاًعة (مسند احمد شاکر، اول مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص 6/141، الرقم 6569)  أما إذا كان المؤذن يقول ذلك برفع صوت كالأذان فذلك بدعة؛ لأنه يوهم أنھا جزء من الأذان، والزيادة في الأذان لا تجوز؛ و لو كان ذلك خيرا لسبق إليه السلف الصالح فی القرون المشھود لھا بالخیر ولم یوجد ذلک فیھا۔  فعلینا أن نحافظ على ما كان عليه العمل أيام الرسول صلى الله عليه وسلم وصحابته ومن بعدھم من عدم رفع المؤذن صوته بها۔ فلذا  رفع الصوت بالصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم غير مشروعة، وعلینا ان نصلی ونسلم علی النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم سرًا.  واما الصلوۃ والسلام علی النبی الکریم بعد الصلوات الخمسۃ سرا، و قبل ابتداء المدرسۃ و انتھائھا فلا باس بہ مالم یعتقد لزومھا و لم یلم احدا علی ترکھا۔   

وفي جميع الأحوال، لا يجوز تحويل هذه المسألة الفرعية إلى سبب للشقاق والنزاع في مساجد المسلمين، فالأصل احترام العمل والعاملین والمجادلۃ بالتی ھی احسن۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ مدارس ہی دینی تعلیم و تربیت اور مذہب اور اس کے احکام کو سمجھنے اور سمجھانے کا اصل ذریعہ ہیں ان کو اساس اور بنیاد کا درجہ حاصل ہے علم دین کے حصول کے بغیر۔ تبلیغ کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا مذہب اور صحیح مسائل وہ کس طرح قوم تک پہونچیائے گا جس کو صحیح معلومات اور مذہبی معاملات اور مسائل سے کما حقہ واقفیت نہ ہو، مدارس بھی صحیح تبلیغ کا ذریعہ ہیں۔(۱)

(۱) الأمر بالمعروف یحتاج إلی خمسۃ أشیاء أولہا العلم لأن الجاہل لا یحسن الأمر بالمعروف۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب السابع عشر في الغناء واللہو‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۷)
فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من دل علی خیرٍ فلہ مثل أجر فاعلہ، (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإمارۃ: باب فضل إعانۃ الغازي في سبیل اللّٰہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۷، رقم: ۱۸۹۳)
فالفرض العین ہو العلم بالعقائد الصحیحۃ ومن الفروع ما یحتاج إلیہ۔ (محمد ثناء اللّٰہ پانی پتیؒ، تفسیر المظہري: (سورۃ التوبۃ: ۱۲۲)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: من یرد اللّٰہ بہ خیراً یفقہ في الدین وفي الباب عن عمر رضي اللّٰہ عنہ، وأبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، ومعاویۃ رضي اللّٰہ عنہ، ہذا حدیثٌ حسنٌ صحیحٌ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب العلم، باب إذا أراد اللّٰہ بعبد خیرا فقہہ في الدین‘‘: ج ۲، ص: ۹۳، رقم: ۲۶۴۵)


 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص353

بدعات و منکرات

Ref. No. 994/41-158

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرکیہ وکفریہ اعمال سے بچتے ہوئے کسی بھی غیرمسلم سے علاج کرایاجاسکتا ہے۔ ولاباس بالرقی  مالم یکن فیہ شرک (مسلم)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 37 / 00000

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: شب برات ایک فضیلت والی رات ہے،  مگر اس میں کوئی عمل مخصوص نہیں ہے (جیسا کہ بعض لوگ نماز الفیہ وغیرہ کے نام سے نمازیں ضروری سمجھتے ہیں)، بلکہ سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں جب تک چستی کے ساتھ ہو سکےانفرادی طور پر نماز، ذکراور تلاوت وغیرہ میں مشغول رہیں۔ وقت گذاری کے لئے کہیں باہر نہ جائیں، نیند کا غلبہ ہو تو سوجائیں۔ آج کل لوگ بلاوجہ گاڑیوں پر سوار ادھر ادھر پھرتے رہتے ہیں  ایسے عمل سے اجتناب لازم ہے۔اس رات قبرستان جانے کو لازمی سمجھنا بھی درست نہیں ہے۔  پندرہویں شعبان کا روزہ رکھنا  واجب  نہیں ہے، اگر کوئی رکھ لےتوباعث اجروثواب ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 40/1097

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔درست بات یہی ہے کہ آندھی، طوفان ، زلزلہ یا دیگر آفات سماویہ آنے پر اذان دینا سنت سے ثابت نہیں ہے۔ لہذا اگر لوگ یہ عمل سنت یا حکم شرعی سمجھ کر کرتے ہیں تو غلط ہوگا، لیکن اگر لوگ محض غموں کو دور کرنے کا آلہ اور ہتھیار سمجھتے ہیں اس لئے اذان دیتے ہیں تاکہ لوگوں کو جمع خاطر نصیب ہو تو یہ ایک مستحب عمل ہے ۔ علامہ شامی نے مواقع اذان میں کتب شافعیہ کے حوالے سے اسے سنت کہا ہے  کہ مغموم وغمزدہ شخص کی دلجوئی  کے لئے اذان دی جائے کیونکہ اذان غموں کو کافور کردیتی ہے۔ فی المواضع التی یندب لھا الاذان فی غیرالصلوۃ قالوا یسن للمھموم ان یامر غیرہ ان یؤذن فی اذنہ فانہ یزیل الھم۔ (فتاوی شامی 3/63)۔   

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند