Frequently Asked Questions
بدعات و منکرات
Ref. No. 40/860
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مزار پر سجدہ تعظیمی بھی جائز نہیں ہے، سخت گناہ ہے، تاہم آدمی ایمان سے خارج نہیں ہوتا ہے، اس لئے نکاح باقی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا کرنے والا سخت گناہگار ہے اور اعانت علی المعصیت کا شکار ہے، اس پر توبہ لازم ہے۔(۱)
(۱) من اعتقد الحرام حلالاً أو علی القلب یکفر، أما لو قال لحرام ہذا حلال لترویج السلعۃ أوبحکم الجہل لا یکون کافراً۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالحلال والحرام‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۴)
{مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌہ۱۸} (سورۃ قٓ: ۸۱)
بدعات و منکرات
Ref. No. 1633/43-1214
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔
الصلاة والسلام على النبی الکریم صلى الله عليه وسلم قبل الأذان غیر مشروعة واما الصلاة والسلام على النبی الکریم صلى الله عليه وسلم بعد الأذان فمستحبۃ لقول النبي صلى الله عليه وسلم: إذا سمعتم مؤذناً فقولوا مثلَ ما يقول، ثم صلوا علي، فإنه من صلَّى عليَّ صلاةً صلَّى الله عليه بها عَشْراً، ثم سَلْوا ليَ الوَسيلَة، فإنها منزلةٌ فيِ الجنة لا تنبَغي إلا لعبد من عباد الله، وأرجو أنْ أكَونَ أناَ هو، فمن سألَ لي الوَسيلَة حلَّت عليه الشفاًعة (مسند احمد شاکر، اول مسند عبداللہ بن عمرو بن العاص 6/141، الرقم 6569) أما إذا كان المؤذن يقول ذلك برفع صوت كالأذان فذلك بدعة؛ لأنه يوهم أنھا جزء من الأذان، والزيادة في الأذان لا تجوز؛ و لو كان ذلك خيرا لسبق إليه السلف الصالح فی القرون المشھود لھا بالخیر ولم یوجد ذلک فیھا۔ فعلینا أن نحافظ على ما كان عليه العمل أيام الرسول صلى الله عليه وسلم وصحابته ومن بعدھم من عدم رفع المؤذن صوته بها۔ فلذا رفع الصوت بالصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم غير مشروعة، وعلینا ان نصلی ونسلم علی النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم سرًا. واما الصلوۃ والسلام علی النبی الکریم بعد الصلوات الخمسۃ سرا، و قبل ابتداء المدرسۃ و انتھائھا فلا باس بہ مالم یعتقد لزومھا و لم یلم احدا علی ترکھا۔
وفي جميع الأحوال، لا يجوز تحويل هذه المسألة الفرعية إلى سبب للشقاق والنزاع في مساجد المسلمين، فالأصل احترام العمل والعاملین والمجادلۃ بالتی ھی احسن۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ مدارس ہی دینی تعلیم و تربیت اور مذہب اور اس کے احکام کو سمجھنے اور سمجھانے کا اصل ذریعہ ہیں ان کو اساس اور بنیاد کا درجہ حاصل ہے علم دین کے حصول کے بغیر۔ تبلیغ کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا مذہب اور صحیح مسائل وہ کس طرح قوم تک پہونچیائے گا جس کو صحیح معلومات اور مذہبی معاملات اور مسائل سے کما حقہ واقفیت نہ ہو، مدارس بھی صحیح تبلیغ کا ذریعہ ہیں۔(۱)
(۱) الأمر بالمعروف یحتاج إلی خمسۃ أشیاء أولہا العلم لأن الجاہل لا یحسن الأمر بالمعروف۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب السابع عشر في الغناء واللہو‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۷)
فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من دل علی خیرٍ فلہ مثل أجر فاعلہ، (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإمارۃ: باب فضل إعانۃ الغازي في سبیل اللّٰہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۷، رقم: ۱۸۹۳)
فالفرض العین ہو العلم بالعقائد الصحیحۃ ومن الفروع ما یحتاج إلیہ۔ (محمد ثناء اللّٰہ پانی پتیؒ، تفسیر المظہري: (سورۃ التوبۃ: ۱۲۲)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: من یرد اللّٰہ بہ خیراً یفقہ في الدین وفي الباب عن عمر رضي اللّٰہ عنہ، وأبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، ومعاویۃ رضي اللّٰہ عنہ، ہذا حدیثٌ حسنٌ صحیحٌ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب العلم، باب إذا أراد اللّٰہ بعبد خیرا فقہہ في الدین‘‘: ج ۲، ص: ۹۳، رقم: ۲۶۴۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص353
بدعات و منکرات
Ref. No. 994/41-158
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرکیہ وکفریہ اعمال سے بچتے ہوئے کسی بھی غیرمسلم سے علاج کرایاجاسکتا ہے۔ ولاباس بالرقی مالم یکن فیہ شرک (مسلم)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
Ref. No. 37 / 00000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: شب برات ایک فضیلت والی رات ہے، مگر اس میں کوئی عمل مخصوص نہیں ہے (جیسا کہ بعض لوگ نماز الفیہ وغیرہ کے نام سے نمازیں ضروری سمجھتے ہیں)، بلکہ سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں جب تک چستی کے ساتھ ہو سکےانفرادی طور پر نماز، ذکراور تلاوت وغیرہ میں مشغول رہیں۔ وقت گذاری کے لئے کہیں باہر نہ جائیں، نیند کا غلبہ ہو تو سوجائیں۔ آج کل لوگ بلاوجہ گاڑیوں پر سوار ادھر ادھر پھرتے رہتے ہیں ایسے عمل سے اجتناب لازم ہے۔اس رات قبرستان جانے کو لازمی سمجھنا بھی درست نہیں ہے۔ پندرہویں شعبان کا روزہ رکھنا واجب نہیں ہے، اگر کوئی رکھ لےتوباعث اجروثواب ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
Ref. No. 40/1097
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔درست بات یہی ہے کہ آندھی، طوفان ، زلزلہ یا دیگر آفات سماویہ آنے پر اذان دینا سنت سے ثابت نہیں ہے۔ لہذا اگر لوگ یہ عمل سنت یا حکم شرعی سمجھ کر کرتے ہیں تو غلط ہوگا، لیکن اگر لوگ محض غموں کو دور کرنے کا آلہ اور ہتھیار سمجھتے ہیں اس لئے اذان دیتے ہیں تاکہ لوگوں کو جمع خاطر نصیب ہو تو یہ ایک مستحب عمل ہے ۔ علامہ شامی نے مواقع اذان میں کتب شافعیہ کے حوالے سے اسے سنت کہا ہے کہ مغموم وغمزدہ شخص کی دلجوئی کے لئے اذان دی جائے کیونکہ اذان غموں کو کافور کردیتی ہے۔ فی المواضع التی یندب لھا الاذان فی غیرالصلوۃ قالوا یسن للمھموم ان یامر غیرہ ان یؤذن فی اذنہ فانہ یزیل الھم۔ (فتاوی شامی 3/63)۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
Ref. No. 38 / 1196
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس قدر تشہیر نوافل عبادات کے لئے مناسب نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
Ref. No. 2691/45-4200
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اہل علم کی تعظیم کے لیے کھڑا ہونا درست ہے ، احادیث سے اہل علم کی تعظیم میں کھڑا ہونا ثابت ہے؛ فقہاء احناف اور علماء دیوبند کی بھی یہی رائے ہے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے امداد الفتاوی میں اس کے جواز پر تفصیلی کلام کیا ہے، لیکن قیام کا مروجہ طریقہ کہ مہمان کی آمد سے کئی گھنٹے پہلے بچوں کو لائن میں کھڑا کر دیا جائے جن میں بچوں کی تعلیم کا بھی نقصان ہو، پسندیدہ عمل نہیں معلوم ہوتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
Ref. No. 1841/43-1672
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شادی بیاہ کی رسموں میں سے ہی اس کو شمار کیاجائے گا، اس لئے اجتناب کیاجائے۔ اس کو پروگرام کہنا ہی اس کے بدعت پونے کی جانب اشارہ ہے۔ اس لئے مہندی وغیرہ کو رسم نہ بنایاجائے۔ اور شادی کو حضور ﷺ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے آسان بنایاجائے، رسومات کی وجہ سے مشکل نہ بنایاجائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند