بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:تقریر کے معنی کسی بات کو بیان کرنا ہے اور وعظ نصیحت آمیز باتوں کا بیان کرنا ہے مگر عرف عام میں دونوں کے ایک ہی معنی ہوتے ہیں کہ دین کی بات کا بیان کرنا۔ جو حضرات اتنی صلاحیت رکھتے ہوں کہ دین کی بات کو صحیح صحیح طریقہ پر بیان کردیں تو ان کا وعظ کہنا جائز ہے اگر ایسی صلاحیت اس میں نہیں ہے تو اس کا وعظ کہنا جائز نہیں ہے۔(۱)

(۱) وعن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ لا یقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من العباد ولکن یقبض العلم بقبض العلماء حتی إذا لم یبق عالماً اتخذ الناس رؤوساً جہالا فسئلوا فأفتوا بغیر علم فضلوا وأضلوا، متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳، رقم: ۲۰۶)
وعن الأعمش قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: آفۃ العلم النسیان وإضاعتہ أن تحدث بہ غیر أہلہ، رواہ الدارمي مرسلاً۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۳۷، رقم: ۲۶۵)
وعن ابن سیرین قال: إن ہذا العلم دین فانظروا عمن تأخذون دینکم، رواہ مسلم، المراد الأخذ من العدول والثقات۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۴، رقم: ۲۷۳)


--------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص345

بدعات و منکرات

Ref. No. 922/41-49

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  شب براءت معافی اور عبادت کی رات ہے، اس لئے اگر کوئی اپنی غلطی کی معافی مانگ کر اللہ سے بھی معافی مانگے تو یہ نیک عمل ہے۔ بندہ سے معافی مانگنا خواہ براہِ راست ہو یا موبائل کے واسطہ سے ہو، درست ہے، تاہم محض رسم کے طور پر اپنے اور پرائے ہر کسی کو میسیج بھیج دینا یہ ایک لغو اور لایعنی عمل ہے، جس سے احتراز ضروری ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 2300/44-3449

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ولیمہ کے موقع پر مبارکباد دینا، اور زوجین کے درمیان محبت کے لئے دعا دینا  درست ہے، لیکن معانقہ کرنا وغیرہ  کہیں ثابت نہیں ہے۔ البتہ  اگر کوئی اسے سنت یا شریعت کا حصہ  یا ضروری سمجھ کر نہ کرے تو اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سیاست مذہب سے جدا نہیں ہے، اعلاء کلمۃ اللہ اور تبلیغ دین کے ساتھ ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے افعال حالات کے اعتبار سے سیاست پر بھی مبنی تھے مثلاً مدینہ منورہ پہونچ کر یہودی قبائل سے مصالحت کرنا وغیرہ ذلک۔ صحابہؓ، خلفاء اربعہؒ کی زندگی بھی سیاست اور تبلیغ دین سے معمور ہے سیاست کو مذہب سے الگ سمجھنا نادانی اور جہالت  ہے تبلیغی جماعت کیوں ایسا کرتی ہے اس کی ذمہ داری اسی پر ہے ان سے پوچھنا چاہئے کہ ان کے پاس کیا دلائل ہیں۔(۱)

(۱) حدثنا محمد بن بشار رضي اللّٰہ عنہ، قال حدثنا شعبۃ عن فرات القزاز، سمعت أباہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، یحدث عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: کانت بنو إسرائیل تسوسہم الأنبیاء، کلما ہلک نبي خلفہ نبي وإنہ لا نبي بعدي وسیکون خلفاء، فیکثرون قالو، فما تأمرنا؟ قال فوا ببیعۃ الأول فالأول أعطوہم حقہم فإن اللّٰہ سائلہم عمن استرعاہم۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأنبیاء: باب ماذکر عن بني إسرائیل‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۱، رقم: ۳۴۵۵)
وکانت شہرۃ عمر رضي اللّٰہ عنہ، بالسیاسۃ وکان فضلہ بالعلم باللّٰہ الذي مات تسعۃ أعشارہ بموتہ وبقصدہ التقرب إلی اللّٰہ عز وجل في ولایتہ وعدلہ وشفقتہ علی خلقہ …… والسلطان یتوسط بین الخلق للّٰہ فیکون مرضیاً عند اللّٰہ سبحانہ ومثابا۔ ( إمام غزاليؒ، إحیاء علوم الدین، ’’کتاب العلم: ج ۱، ص: ۴۴)
وقال تعالیٰ: {وَ أَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَأٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ ج لَاتَعْلَمُوْنَھُمْ ج أَللّٰہُ یَعْلَمُھُمْ ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ إِلَیْکُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ ہ۶۰ وَإِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط إِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ہ۶۱} (سورۃ الأنفال: ۶۰، ۶۱)

------------------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص346

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:تبلیغی جماعت کے اصل ذمہ دار ان معتمد علماء دین ہیں ضمناً کام کرنے والوں میں بھی علماء ہوں تو بہتر ہے لیکن سفر کرکے تبلیغ کرنے والی بعض جماعتوں میں علماء نہ بھی ہوں تو ان کو ذمہ دار کہہ کر نااہلوں کے ہاتھ میں باگڈور اور انتظامی قباحت کی بات کہنا درست نہیں ہے جب کہ اصل ذمہ دار علماء ہی ہیں اور ہر آدمی مکلف ہے کہ جس قدر جانتا ہو اس کو دوسروں تک پہونچائے۔(۱)

(۱) عن عبد اللّٰہ ابن عمرو رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بلغوا عني ولو آیۃ وحدثوا عن بني إسرائیل ولا حرج ومن کذب علي متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار، رواہ البخاري۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۲، رقم: ۱۹۸)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من دعا إلی ہدی کان لہ من الأجر مثل أجور من یتبعہ لا ینقص ذلک من أجورہم شیئاً ومن دعا إلی ضلالۃ کان علیہ من الإثم مثل آثام من یتبعہ لا ینقص ذلک من آثامہم شیئاً، ہذا حدیث حسن صحیحٌ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب العلم، باب ما جاء في من دعاء إلی ہدی الخ‘‘: ج ۲، ص: ۹۶، رقم: ۲۶۷۴)

-----------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص347

بدعات و منکرات

Ref. No. 2224/44-2370

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مدرسہ میں نمازوں کے بعد جو معمولات ہوتے ہیں ان میں ذمہ داران کے پیش نظر کوئی نہ کوئی تعلیمی پہلو ہوتاہے، یعنی طلبہ کی تعلیم و تربیت کی غرض سے ایسا عمل کیاجاتاہے۔  اس لئے اہل مدارس اگر تعلیمی وتربیتی لحاظ سے کوئی عمل کریں تو اس کو بدعت نہیں کہا جائے گا بلکہ وہ بھی تعلیم کا ایک حصہ ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

Ref. No. 883/41-02B

الجواب وباللہ التوفیق      

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نفلی صدقات کے لئے غریب ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس لئے اس طرح بھی ایصال ثواب درست ہے۔ البتہ غریبوں کو ترجیح دینا اولی ہے۔  تاہم قبرستان میں ان امور سے اجتناب کیاجائے۔

وهذا الحكم لا يخص الزكاة بل كل صدقة واجبة كالكفارات وصدقة الفطر والنذور لا يجوز دفعها إليهم ومن سوى ما ذكر يجوز الدفع إليهم۔ (حاشیۃ الطحطاوی ج1 ص721)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 2511/45-3844

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کفر تک پہونچادیتی ہے، اس لئے تجدید ایمان کے ساتھ اللہ تعالی کے سامنے سچی توبہ ضروری ہے، سچی توبہ   گناہوں کو ایسے مٹادیتی ہے جیسے کہ وہ گناہ سرزد ہی نہ ہوئے ہوں۔  اس لئے اگر کسی سے گستاخی واقعی ہوئی ہے، اور اس نے معافی مانگ لی تو جمہور کے بقول اس کی توبہ مقبول ہوگی،  اگر اللہ نے اس کی توبہ قبول کرلی تو اس کے اعمال ضائع نہیں ہوں گے اور آخرت میں وہ مجرمین کی فہرست میں شامل نہیں ہوگا اور عذاب سے مامون ہوگا۔ یہ اللہ کو ہی معلوم ہے کہ کس کی توبہ مقبول ہے اور کس کی مردود۔ اللہ تعالی ہم سب کی توبہ قبول فرمائیں۔ آمین

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں سعید کو چاہئے کہ اپنے گھر میں بھی تبلیغ دین کرے؛ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا تھا کہ {وأنذر عشیرتک الأقربین} (۲)  کہ اپنوں کو خدا سے ڈراؤ؛ پس سعید کو چاہئے کہ اپنوں کو نظر انداز نہ کرے کہ وہ احق ہیں۔ (۱)

(۲) سورۃ الشعراء: ۲۱۴۔
(۱) ومعنی الآیۃ أن الإنسان إذا بدأ بنفسہ أولا وبالأقرب فالأقرب من أہلہ ثانیا لم یکن لأحد علیہ طعن البتۃ۔ (تفیسر خازن، سورۃ الشعراء: ج ۳، ص: ۳۳۳)
{قُوْٓا أَنْفُسَکُمْ وَأَھْلِیْکُمْ نَارًا} (سورۃ التحریم: ۶)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص348

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حسب موقع ومحل نصیحت کی شرعاً اجازت ہے، خواہ بڑی مسجد کے امام نصیحت کریں یا چھوٹی مسجد کے؛ بلکہ ان دونوں میں جو عالم، دینداری ہو؛ نیز لوگوں کو سمجھانے میں بہتر ہو، وہی نصیحت کرے؛ اس لئے کہ یہ موقع دیر تک سمجھانے کا نہیں؛ البتہ اگر کوئی شخص کوئی بات غلط بتائے، تو اس کی اصلاح کرنے میں مضائقہ نہیں ہے۔(۲)

(۲) التذکیر علی المنابر للوعظ والاتعاظ سنۃ الأنبیاء والمرسلین۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’یکرہ إعطاء سائل المسجد‘‘: ج ۶، ص: ۴۲۱)
الأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ للقرأۃ ثم الأورع أي الأکثر اتقاء للشبہات۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص349