Frequently Asked Questions
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن وحدیث سے ثابت ہے اور امت کا اس پر اجماع ہے کہ انبیاء علیہم السلام گناہ سے معصوم ومحفوظ ہوتے ہیں۔(۱) اس کے باوجود قرآن کریم میں لفظ ذنب وعصیان ان کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور لفظ ذنب کا ترجمہ گناہ وخطاء دونوں صحیح ہیں مگر انبیاء علیہم السلام کی عصمت کے باوجود بعض اوقات اجتہاد میں ان سے خطاء ہوجاتی ہے اور اجتہادی خطا قانون شریعت میں گناہ نہیں کہلاتی؛ بلکہ اس پر بھی اجر وثواب ملتا ہے۔
مگر انبیاء علیہم السلام کو اس پر متنبہ ضرور کردیا جاتا ہے اور ان کی شان عالی کی مناسبت سے خلاف اولی اور اجتہادی خطا کو بھی ذنب، گناہ و خطا کہا جاتا ہے بطور تہدید اللہ تعالیٰ نے ذنب سے تعبیر فرمایا ہے یہ انبیاء علیہم السلام کی عصمت کے خلاف نہیں ہے؛ بلکہ ان کے مقام کی رفعت وبلندی پر دلالت ہے؛ اس لیے کوئی شبہ نہ کیا جائے اور اگر پوری طرح سمجھ میں نہ آئے تو یہ جواب کسی مقامی عالم کو دکھلا کر اس سے سمجھ لیں یہ خطاء اجتہادی بھی ایسے احکام میں نہیں ہوتی جو قانون شرع کی حیثیت رکھتے ہوں، معلوم ہوا کہ دوسرا ترجمہ ہی صحیح ہے۔(۱)
(۱) الأنبیاء معصومون قبل النبوۃ وبعدہا عن کبائر الذنوب وصغائرہا۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الکبائر وعلامات النفاق، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۳، رقم: ۵۵)
الأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کلہم منزہون عن الصغائر والکبائر والکفر والصبائح۔ (الإمام أبو حنیفۃ، شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في أن الأنبیاء منزہون عن الکبائر‘‘: ص: ۱۰۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص38
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کوئی بات کتب تاریخ سے لی گئی ہو اور اسلام نے اس پر نکیر نہ کی ہو؛ بلکہ اسلام میںبھی اس بات کو سراہا گیا ہو، جیسے: جھوٹ بولنا درست نہیں، ظلم وزیادتی بری چیز ہے، زنا فحش گناہ ہے، آپس میں مل جل کر رہنا چاہئے، تو اس کو درست سمجھا جائے۔ اور اگر کوئی بات اسلامی ضابطے کے خلاف ہو، تو اس کو روک دیا جائے اور اگر کوئی بات کسی واقعہ اور قصہ کی حد تک ہو اور تشریع اسلامی اس سے متعلق نہ ہو اور نہ ہی وہ بات اسلامی شریعت سے متصادم ہو، تو تاریخی طور پر اس کی صحت وعدم صحت کو پرکھا جائے الغرض ایسی تفسیر کا مطالعہ کرنا پڑے تو بغور کریں۔(۲)
(۲) ولہذا غالب ما یرویہ إسماعیل بن عبد الرحمن السدي الکبیر في تفسیرہ، عن ہذین الرجلین: عبد اللّٰہ بن مسعود وابن عباس، ولکن في بعض الأحیان ینقل عنہم ما یحکونہ من أقاویل أہل الکتاب، التي أباحہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حیث قال: ’’بلغوا عني ولو آیۃ، وحدثوا عن بني إسرائیل ولا حرج، ومن کذب علي متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار‘‘ رواہ البخاري عن عبد اللّٰہ؛ ولہذا کان عبد اللّٰہ بن عمرٍو یوم الیرموک قد أصاب زاملتین من کتب أہل الکتاب، فکان یحدث منہما بما فہمہ من ہذا الحدیث من الإذن في ذلک۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ الکہف: ۲۲‘‘: ج ۱، ص: ۸)
عن عبد اللّٰہ بن عمرو أن البني صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال بلغوا عني ولو آیۃً وحدثوا عن بنی إسرائیل ولا حرج ومن کذب علی متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأنبیاء علیہم السلام: باب ما ذکر عن بني إسرائیل‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۱، رقم: ۳۴۶۱)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: کان أہل الکتاب یقرؤون التوراۃ بالعبرانیۃ ویفسرونہا بالعربیۃ لأہل الإسلام، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تصدقوا أہل الکتاب ولا تکذبوہم وقولوا {آمنا باللّٰہ وما أنزل إلینا} (الآیۃ)۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التفسیر: باب قولوا أمنا باللّٰہ وما أنزلنا‘‘: ج ۲،ص: ۶۴۴، رقم: ۴۴۸۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص39
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 2783/45-4344
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور قاری صاحب نیک نیتی سے اس کو مجمع میں لانا چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کوقرات کے مختلف انداز معلوم ہوں ، اور مناسب ہوگا کہ پروگرام سے پہلے قراءت سبعہ پر تھوڑی روشنی ڈال دی جائے تاکہ لوگوں کی اجنبیت دور ہوجائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن پاک کا ترجمہ دیکھ کر احکام بیان کرنا اور اس کے لیے فتویٰ دینا صحیح نہیں ہے اور {وابتغ بین ذلک سبیلاً} کی یہ حد مقرر کرلینا کہ آواز جماعت خانہ سے باہر نہ جانی چاہئے۔ یہ صحیح نہیں ہے، اس کی جو حد فقہاء نے بیان کی ہے وہ ہی صحیح ہے یعنی صف اول تک آواز پہونچانا ضروری ہے۔ درمختار میں ہے ’’ویجہر الإمام وجوباً بحسب الجماعۃ فإن زاد علیہ أساء‘‘ شامی میں ہے: ’’قولہ فإن زاد علیہ أساء وفي الزاہدي عن أبي جعفر لو زاد علی الحاجۃ فہو أفضل إلا إذا أجہد نفسہ أو آذی غیرہ‘‘۔(۱)
آیت مذکورہ کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ نہ تو تمام نمازوں میں زور سے پڑھو، نہ تمام نمازوں میں آہستہ پڑھو، مغرب، عشاء، فجر میں زور سے پڑھو۔ ’’قولہ: یجہر الإمام وجوبا للمواظبۃ من النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وکان صلی اللّٰہ علیہ وسلم یجہر بالقرآن في الصلوٰۃ کلہا ابتداء کما سیذکرہ الشراح وکان المشرکون یؤذونہ ویسبون من أنزل علیہ فأنزل البعد مثال ولا تجہر بصلو تک ولا تخافت بہا، أي: لا یجہر بہا کلہا ولا تخافت بہا کلہا وابتغ بین ذلک سبیلاً، بأن یجتہد بصلوتک ولا تخافت بہا إلخ‘‘ بعض حضرات فرماتے ہیںکہ اس کی مراد یہ ہے کہ نہ سب نمازوں میں مخفی آواز سے پڑھے، جیسا کہ صبح ومغرب وعشاء میں، کیونکہ ان اوقات میں مشرکین اپنے کاروبار میں مصروف ہوتے ہیں نہ سب کو ظاہر کر کے پڑھو جیسا کہ ظہر وعصر میں بس بعض میں پکار کر پڑھو، بعض میں آہستہ پڑھو۔(۲)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القرآء ۃ‘‘: ج۱، ص: ۵۳۲۔
(۲) (قولہ: وأدنی الجہر إسماع غیرہ وأدنیٰ المخافتۃ إسماع نفسہ) ومن بقربہ، فلو سمع رجل أول رجلان فلیس بجہر والجہر أن یسمع الکل خلاصۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۳۴)
والجہر أن یسمع الکل الخ، أي: کل الصف الأول لا کل المصلین بدلیل ما في القہستاني عن المسعودیۃ أن جہر الإمام إسماع الصف الأول۔ وبہ علم أنہ لا إشکال في کلام الخلاصۃ۔ (’’أیضاً:)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص41
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 2815/45-4402
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اصحاب کہف کے ساتھ غار میں جو کلب تھا اس سے مراد کتاہے ،اس لیے کلب کے متعارف معنی کتا کے آتے ہیں اورذہن کلب سے کتا ہی طرف سبقت کرتاہے جمہور مفسرین نے بھی کلب سے کتاہی مراد لیا ہے ہاں ابن جریج وغیرہ کا قول شیر یا چیتاکے بارے میں بھي منقول ہے لیکن اہل علم سے اس قول کو زیادہ اہمیت نہیں دی ہے اس طرح ہم کتب تفاسیرمیں ایک آیت کی مختلف تفاسیر دیکھتے ہیں لیکن جمہور نے جس قول کولیا ہے اسی پر اعتماد کیا جاتاہے انفرادی اقوال پر نہیں ۔ہاں تفسیر کرتے اس طرح کہنا کہ عام مفسرین نے کلب سے کتا مراد لیا ہے لیکن بعض مفسرین نے یا مثلا ابن جریج نے کلب سے شیر مراد لیا ہے تو اس طرح کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔لیکن جمہور کے قول کی تردید کرتے ہوئے اس طرح کہنا کہ کتا نہیں شیر تھا یہ غلط تفسیر ہے کسی نے بھي اس طرح نہیں کہا ہے اور اس انفرادی قول کے متعین کرنے اور جمہور کے قول کو غلط قرار دینے کی کوئی مضبوط دلیل نہیں ہے ۔تفسیر ابن کثیر میں بھي کلب سے کتا ہی مراد لیا ہے ۔وقد قيل: إنه كان كلب صيد لأحدهم، وهو الأشبه. وقيل: كان كلب طباخ الملك، وقد كان وافقهم على الدين فصحبه كلبه فالله أعل(تفسیر ابن کثیر5/144) في {كلبهم} قولان: أحدهما: أنه كلب من الكلاب كان معهم , وهو قول الجمهور. وقيل إن اسمه كان حمران. الثاني: أنه إنسان من الناس كان طباخاً لهم تبعهم , وقيل بل كان راعياً. (تفسیر ماوردی،3/292) اختلف أهل التأويل في الذي عنى الله بقوله: (وَكَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ) فقال بعضهم: هو كلب من كلابهم كان معهم، وقد ذكرنا كثيرا ممن قال ذلك فيما مضى، وقال بعضهم: كان إنسانا (1) من الناس طباخا لهم تَبِعهم.(تفسیر طبری،17/624) وَكَلْبُهُمْ باسِطٌ ذِراعَيْهِ قال ابن عباس: كان كلبا أغر وعنه أنه كان فوق القلطي ودون الكرزي. والقلطي كلب صيني وقيل كان أصفر وقيل كان شديد الصفرة يضرب إلى حمرة، وقال ابن عباس: كان اسمه قطمير وقيل ريان وقيل صهبان قيل ليس في الجنة دواب سوى كلب أصحاب الكهف وحمار بلعام بِالْوَصِيدِ أي فناء الكهف، وقيل عتبة الباب وكان الكلب قد بسط ذراعيه وجعل وجهه عليهم، (تفسیر خازن ،3/160)أكثر أهل التفسير على أنه كان من جنس الكلاب. وروي عن ابن جريج: أنه كان أسدا وسمي الأسد كلبا.«1347» فإن النبي صلى الله عليه وسلم دعا على عتبة بن أبي لهب فقال: «اللهم سلط عليه كلبا من كلابك» ، فافترسه أسد، والأول المعروف، قال ابن عباس: كان كلبا أغر [4] . ويروى عنه [أنه] [5] فوق القلطي ودون الكردي [6] ، والقلطي كلب صيني. وقال مقاتل: كان أصفر. وقال القرظي: كانت شدة صفرته تضرب إلى الحمرة. وقال الكلبي: لونه كالحليج. وقيل: لون الحجر(تفسیر بغوی ،3/183)
ان تمام تفاسیر میں اگرچہ شیر کا ایک قول اور ایک رائے ابن جریج کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے لیکن کسی بھی مفسرنے بھی کتا ہونے کا انکار نہیں کیا ہے اس لیے اگر اس قول کو بیان کیاجائے تو اسی طرح بیان کرنا مناسب ہوگا کہ اصحاب کہف کا کتاتھا جمہور کی یہی رائے ہے جب کہ ایک رائے بعض مفسرین کی یہ بھی ہے کہ وہ شیرتھا۔لیکن کتاکی نفی کرکے شیر کے قول کو ترجیح دینا اور اسی کو صرف بیان کرنا درست تفسیر نہیں ہے ۔فقط واللہ اعلم بالصواب
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 2816/45-4401
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام کے بھائی تھے، جب حضرت موسی علیہ السلام الواح دریافت کرنے کے لئے کوہ طور پر گئے تو حضرت ہارون کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ اس دوران سامری نامی ایک شخص نے ایک گوسالہ (بچھڑا) بنایا اور بنی اسرائیل کو اس کی پرستش کی دعوت دی اور حضرت ہارون انہیں اس کام سے روکنے میں ناکام رہے۔ جب حضرت موسی علیہ السلام واپس آئے تو آپ نے ان کے ساتھ دینی حمیت میں سختی کی اور پھر اللہ سے دونوں کے لئے مغفرت طلب کی ۔
قرآنی آیات کے مطابق جب حضرت موسی کو نبوت کے ساتھ مبعوث کیا گیا تو آپ نے اللہ سے درخواست کی کہ حضرت ہارون کو ان کا وزیر بنا دیا جائے کیونکہ حضرت ہارون حضرت موسی کی نسبت فصاحت و بلاغت کے مالک تھے۔اسی طرح قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کو یکتا پرستی کی طرف دعوت دینے میں بھی حضرت ہارونؑ حضرت موسیؑ کے ساتھ تھے۔ قرآن میں حضرت ہارون کی نبوت کی طرف اشارہ ہوا ہے۔سورہ صافات میں کتاب آسمانی سے بہرہ مند ہونا، صراط مستقیم کی ہدایت اور نیکوکار ہونے میں حضرت موسی اور حضرت ہارون دونوں کو ایک دوسرے کا شریک قرار دیا گیا ہے۔ ان تمام تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کو اصل کہنا درست ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سائنسی ترقی کی بنا پر علم غیب میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے، آیت کے مضمون کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں کتنی مدت رہے گا، اس کی زندگی کتنی ہے، عمل کیسے ہوں گے، رزق کتنا ہوگا، نیک بخت ہوگا یا بد بخت اور اعضاء ظاہر ہونے سے پہلے اللہ ہی جانتا ہے کہ بچہ ہے یا بچی، خلقت کے مکمل ہو جانے کے بعد پتہ چل جائے کہ بچہ ہے یا بچی یہ علم غیب میں سے نہیں ہے؛ بلکہ یہ تو علم المشاہدہ میں آچکا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کا علم آلہ کا محتاج نہیں ہے جب کہ ڈاکٹر حضرات آلہ اور مشین کے ذریعہ معلوم کرتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کو استقرار کے وقت سے ہی معلوم ہوتا ہے جب کہ ڈاکٹر کو ایک مدت کے بعد پتہ چلتا ہے اس لیے موجودہ سائنسی تحقیق کی بنا پر آیت پر اعتراض کرنا درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) في التفسیر المغیر: ویعلم ما في الأرحام أي لا یعلم أنہ إلا اللّہ ما في الأرحام من خواص الجنین وأحوالہ العارضۃ لہ من طبائع وصفات وذکورۃ وأنوثۃ وتمام خلقہ ونقصانہا فإن توصل العلماء بسبب التحلیل الکلیمائی کون الجنین ذکرا أو أنثی فلا یعني ذلک غیبا وإنما بواسطۃ التجربۃ وتظل أحوال أصري۔ (وھبۃ زحیلي، تفسیر المنیر: ج ۱۱، ص: ۱۹۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص43
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ آیت مشرکین اور دیگر عرب قبائل کے ساتھ جو معاہدات تھے، اس سے متعلق ہے اس کا جماعت میں نکلنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس آیت کی تفسیر یہ ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر مسلمانوں کا مکہ پر مکمل قبضہ ہوگیا، مکہ او راطراف مکہ میں رہنے والے غیر مسلموں کو جان، مال کی امان دیدی گئی؛ لیکن اس وقت ان غیر مسلموں کے مختلف حالات تھے، ایک تو وہ لوگ تھے جن سے حدیبیہ میں صلح کا معاہدہ ہوا اور انہوں نے خود اس کو توڑ دیا اور وہی فتح مکہ کا سبب ہوا دوسرے کچھ ایسے لوگ بھی تھے، جن سے صلح کا معاہدہ کسی خاص میعاد کے لیے کیا گیا تھا اور وہ اس معاہدے پرقائم رہے، جیسے ’’بنی کنانہ‘‘ کے دو قبیلے ’’بنی ضمرہ‘‘ اور ’’بنی مدلج‘‘ جن سے ایک مدت کے لیے صلح ہوئی تھی اور سورۃ برأت نازل ہونے کے وقت بقول خازن ان کی میعاد صلح کے نو مہینے باقی تھے، تیسرے: کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن سے معاہدۂ صلح بغیر تعیین مدت کے ہوا تھا۔ چوتھے: وہ لوگ تھے جن سے کسی قسم کا معاہدہ نہ تھا، غرض سورہ توبہ کی پہلی دو آیات میں ان سب لوگوں کو جن سے بلاتعیین مدت کوئی معاہدہ تھا یا جن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ تھا چار مہینے کی مہلت دی گئی اور چوتھی آیت کی رو سے ان لوگوں کو تا اختتام معاہدہ مہلت مل گئی جن کے ساتھ کسی خاص میعاد کا معاہدہ تھا اور پانچویں آیت سے مشرکین مکہ کو اشہر حرم ختم ہونے تک مہلت مل گئی۔(۱)
(۱) مفتي محمد شفیع عثمانيؒ، معارف القرآن: ج ۴، ص: ۳۱۱۔
فسیحوا في الأرض: لأن الکلام خطاب مع المسلمین علی أن المعني براء ۃ من اللّٰہ ورسولہ إلی الذین عاہدتم من المشرکین فقولوا لہم: سیحوا إلا الذین عاہدتم منہم ثم لم ینقصوکم فأتموا إلیہم عہدہم، وہو بمعنی الاستدراک کأنہ قیل: فلا تمہلوا الناکثین غیر أربعۃ أشہر ولکن الذین لم یکنثوا فأتموا إلیہم عہدہم ولا تجروہم مجر الناکثین۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ التوبۃ: ۱، ۱۷‘‘: ج ۶، ص: ۷۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص44
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:تفسیر کے پڑھنے سے منع نہیں کیا جاتا؛ بلکہ اس کتاب کے پڑھنے سے منع کیا جاتا ہے، جس میں ذاتی رائے کو ترجیح دی گئی ہو اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیات کے جو معنی ومطالب بیان کیے وہ ہی تفسیر کی کتابوں میں آنے چاہئیں۔ مودودی صاحب بعض عقائد میں اہل سنت والجماعت کے خلاف اور اعتزال وخوارج سے مطابقت رکھتے ہیں اور تفسیر میں جہاں جہاں اپنے خیالات کے مطابق اپنی رائے کو استعمال کیا ہے وہیں ان سے مسائل اور روایات میں غلطی ہوئی ہے؛ اس لیے وہ کتاب قابل اعتماد نہیں رہی، جن کو پڑھ کر عوام کھوٹے اور کھرے میں امتیاز نہیں کر سکتی ہے اور ان کے عقائد پر بھی غلط اثر ہوتا ہے؛ اس لیے اس کے مطالعہ یا اس کے سننے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے، بنابریں اگر تفسیر سننے کا شوق ہے، تو ’’بیان القرآن‘‘ یا ’’تفسیر حقانی‘‘ وغیرہ معتمد تفاسیر سنا کریں۔(۱)
(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قال في القرآن بغیر علم فلیتبوأ مقعدہ من النار، ہذا حدیثٌ حسنٌ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب التفسیر، باب ما جاء في الذي یفسر القرآن برأیہ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۲۹۵۰)
من تکلم (في القرآن) أي: في معناہ أو قراء تہ (برأیہ) أي: من تلقاء نفسہ من غیر تتبع أقوال الأئمۃ من أہل اللغۃ والعربیۃ المطابقۃ للقواعد الشرعیۃ، بل بحسب ما یقتضیہ عقلہ، وہو مما یتوقف علی النقل بأنہ لا مجال للعقل فیہ کأسباب النزول والناسخ والمنسوخ وما یتعلق بالقصص والأحکام، أو بحسب ما یقتضیہ ظاہر النقل، وہو مما یتوقف علی العقل کالمتشابہات التی أخذ المجسمۃ بظواہرہا، وأعرضوا عن استحالۃ ذلک في العقول، أو بحسب ما یقتضیہ بعض العلوم الإلہیۃ مع عدم معرفتہ ببقیتہا وبالعلوم الشرعیۃ فیما یحتاج لذلک۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۵، رقم: ۲۳۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص45
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ترجمہ پڑھنے اور دیکھ کربتلانے میں کوئی حرج نہیں، لیکن اپنی طرف سے خود مطلب بیان کرنا درست نہیں ہے، مفہوم ومطلب وتفسیر کے لیے اہل علم کی طرف رجوع کیا جائے، نیز ترجمہ پڑھنے سے اگر کسی بات میںکوئی شبہ ظاہر ہو، تو اہل علم سے ضرور حل کرلیں۔(۱)
(۱) اختلف الناس في تفسیر القرآن ہل یجوز لکل أحد الخوض فیہ؟ فقال قوم: لا یجوز لأحد أن یتعاطی تفسیر شيء من القرآن وإن کان عالماً أدیباً متسما في معرفۃ الأدلۃ والفقہ والنحو والأخبار والآثارالخ۔
من قال: یجوز تفسیرھ لمن کان جامعا للعلوم التي یحتاج المفسر إلیہا وہي خمسۃ عشر علماً:
أحدہا: اللغۃ۔ الثاني: النحو۔ الثالث: التصریف۔ الرابع: الاشتقاق۔ الخامس، والسادس، والسابع: المعاني والبیان والبدیع۔ الثامن: علم القراء ات۔ التاسع: أصول الدین۔ العاشر: أصول الفقہ۔ الحادي عشر: أسباب النزول والمنسوخ۔ الثالث: عشر: الفقہ۔ الرابع عشر: الأحادیث۔ المبینۃ۔ الخامس عشر: الموہبۃ۔ (عبد الرحمن أبي بکر، الإتقان في علوم القرآن، ’’النوع الثامن والسبعون: في معرفۃ مشروط الآداب‘‘: ج ۴، ص: ۲۱۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص46