قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک واقعہ معراج ہے جس کو لوگوں کے لیے آزمائش بتایا گیا تاکہ دودھ اور پانی الگ الگ ہوجائے؛ چنانچہ اس کو سن کر بعض کمزور ایمان والے تو مرتد ہوگئے اور منافقین کو بہکانے کا خوب موقع ملا جو کہ خود بھی ایمان پر نہیں تھے اور دوسروں کے ایمان کے دشمن تھے۔(۱)

(۱) وقولہ تعالی: {وَما جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْناکَ إِلَّا فِتْنَۃً لِلنَّاسِ} إلی آخر الآیۃ تنبیہ علی تحققہا بالاستدلال علیہا بما صدر عنہم عند مجیء بعض الآیات لاشتراک الکل في کونہا أمورا خارقۃ للعادات منزلۃ من جناب رب العزۃ جل مجدہ لتصدیق رسولہ علیہ الصلاۃ والسلام فتکذیبہم ببعضہا یدل علی تکذیب الباقي کما أن تکذیب الأولین بغیر المقترحۃ یدل علی تکذیبہم بالمقترحۃ، والمراد بالرؤیا ما عاینہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم لیلۃ أسری بہ من العجائب السماویۃ والأرضیۃ کما أخرجہ البخاري والترمذي والنسائي وجماعۃ عن ابن عباس وہي عند کثیر بمعنی الرؤیۃ مطلقا وہما مصدر رأي مثل القربی والقرابۃ۔ (آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ الإسراء: ۲۲ إلی ۷۲‘‘: ۶۰‘‘: ج ۱۵، ص: ۱۰۵)
قال الطیبي: وقد روینا عن البخاري والترمذي، عن ابن عباس في قولہ تعالی: {وَما جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْناکَ إِلَّا فِتْنَۃً لِلنَّاسِ} (الإسراء: ۶۰) (ثم): قال: ہي رؤیا عین أریہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم…  لیلۃ أسری بہ إلی بیت المقدس، وفي مسند الإمام أحمد بن حنبل، عن ابن عباس قال: شیئٌ أریہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الیقظۃ رآہ بعینہ، ولأنہ قد أنکرتہ قریش وارتدت جماعۃ ممن أسلموا حین جمعوہ، وإنما ینکر إذا کانت في الیقظۃ، فإن الرؤیا لا ینکر منہا ما ہو أبعد من ذلک۔ (ملا علي قاری: مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب التفسیر: باب في المعراج‘‘: ج ۹، ص: ۳۷۵۷، رقم: ۵۸۶۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص29

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آیت مذکورہ کی تفسیر تو یہ ہے کہ کافروں نے کہا کہ اپنے معبودوں کی حمایت پرجمے رہنا اور نوح کے بہکانے میں نہ آنا ’’لاتذرن‘‘، نہ چھوڑو، ودکو، اور نہ سواع کو اور نہ یغوث کو اور یعوق اور نسر کو ، یہ پانچوں نام ان کے پانچ بتوں کے ہیں۔ ہر مطلب کا ایک الگ الگ بت بنا رکھا تھا بعض روایات میں ہے کہ پہلے زمانہ میں کچھ بزرگ لوگ تھے ان کے انتقال کے بعد شیطان کے اغواء سے ان کی تصویریں بطور یادگار بناکر کھڑی کرلیں پھر ان کی تعظیم ہونے لگی۔شدہ شدہ پرستش کرنے لگے، مذکورہ تفسیر جس کا سوال میں تذکرہ ہے۔ تفسیر بالرائے ہے اور صحیح نہیں ہے اس قسم کی تفسیر لکھنے والا گنہگار ہے اور اس کی لکھی ہوئی تفسیر کے پڑھنے اور دیکھنے سے بھی احتراز ضروری ہے۔(۱)

(۱) وقال نوح: {وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ أٰلِھَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لاَ سُوَاعًا۵لا وَّ لاَ یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا ہج ۲۳} (سورۃ نوح: ۲۳)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ صارت الأوثان التي کانت في قوم نوح في العرب بعد أما ودُّ کانت لکلب بدومۃ الجندل وأما سواعٌ کانت لہذیل وأما یغوث فکانت لمراد ثم لبني غطیف بالجوف (بالجرف) عند سبإٍ وأما یعوق فکانت لہمدان وأما نسرٌ فکانت لحمیر لآل ذي الکلاع أسماء رجال صالحین من قوم نوح فلما ہلکوا أوحی الشیطان إلی قومہم أن انصبوا إلی مجالسہم التي کانوا یجلسون أنصابا وسموہا بأسمائہم ففعلوا فلم تعبد حتی إذا ہلک أولئک وتنسخ العلم عبدت۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التفسیر: سورۃ إنا أرسلناک، باب وداً ولا سواعاً ولا یغوث‘‘: ج ۲، ص: ۷۳۲، رقم: ۴۹۲۰)
وَقالُوا لا تَذَرُنَّ آلِہَتَکُمْ أي عبادتہا۔ وَلا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلا سُواعاً وَلا یَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْراً وَلا تَذَرُنَّ ہؤلاء خصوصاً، قیل ہي أسماء رجال صالحین کانوا بین آدم ونوح، فلما ماتوا صوروا تبرکاً بہم، فلما طال الزمان عبدوا۔ وقد انتقلت إلی العرب فکان ود لکلب، وسواع لہمدان، ویغوث لمذحج، ویعوق لمراد، ونسر لحمیر۔ (ناصر الدین، أنوار التنزیل: ج ۵، ص: ۲۵۰)
عن ابن جریج، وقال عطائٌ عن ابن عباس: صارت الأوثان التي کانت في قوم نوح في العرب بعد: أما ود فکانت لکلب بدومۃ الجندل، وأما سواع فکانت لہذیل، وأما یغوث فکانت لمراد ثم لبني غطیف بالجرف عند سبأ، وأما یعوق فکانت لہمدان، وأما نسر فکانت لحمیر لاَل ذی کلاع، وہي أسماء رجال صالحین من قوم نوح علیہ السلام۔ فلما ہلکوا أوحي الشیطان إلی قومہم أن انصبوا إلی مجالسہم التي کانوا یجلسون أنصابا وسموہا بأسمائہم ففعلوا فلم تعبد حتی إذا ہلک أولئک وتنسخ (ونسخ) العلم عبدت۔ (أبو الفداء إسماعیل ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ التوبۃ: ۲۳‘‘: ج ۸، ص: ۲۳۴)
من تکلم (في القرآن) أي: في معناہ أو قرائتہ (برأیہ) أي: من تلقاء نفسہ من غیر تتبع أقوال الأئمۃ من أہل اللغۃ والعربیۃ المطابقۃ للقواعد الشرعیۃ، بل بحسب ما یقتضیہ عقلہ، وہو مما یتوقف علی النقل بأنہ لا مجال للعقل فیہ کأسباب النزول والناسخ والمنسوخ وما یتعلق بالقصص والأحکام، أو بحسب ما یقتضیہ ظاہر النقل، وہو مما یتوقف علی العقل کالمتشابہات التی أخذ المجسمۃ بظواہرہا، وأعرضوا عن استحالۃ ذلک في العقول، أو بحسب ما یقتضیہ بعض العلوم الإلہیۃ مع عدم معرفتہ ببقیتہا وبالعلوم الشرعیۃ فیما یحتاج لذلک۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۵، رقم: ۲۳۴)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص30

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:{وألنا لہ الحدید}(۱) (اور ہم نے ان کے لیے لوہا نرم کردیا) کی تفسیر میں ائمہ تفسیر حضرت حسن بصری، قتادہ، اعمش وغیرہم نے فرمایا: کہ یہ اللہ نے بطور معجزہ لوہے کو ان کے لیے موم کی طرح نرم بنادیا تھا (۲) دوسری بات: اللہ تعالیٰ کا ان کاموں کو اپنی طرف منسوب کرنا کہ میں نے ایسا کردیا اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے کہ یہ ایک معجزہ تھا، ایک خرق عادت امر تھا، نبی کے ہاتھ پر خرق عادت امر کا ظاہر ہونا ہی معجزہ کہلاتا ہے۔ تیسری بات: یہاں پر حضرت داؤد علیہ السلام کی خصوصیات کا بیان ہے اگر ان کو معجزہ نہ مانا جائے تو آپ علیہ السلام کے مخصوص فضل وشرف کے بیان میں ان کا شمار کرنا بے معنی ہوجائے گا (العیاذ باللہ)۔ چوتھی بات: ذاتی کارنامے دنیاوی اسباب پر منحصر ہوتے ہیں، جبکہ معجزات کی بنیاد اسباب پر نہیں ہوتی۔(۳)

(۱) {وَلَقَدْ أٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلاً ط یٰجِبَالُ أَوِّبِيْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَج وَأَلَنَّا لَہُ الْحَدِیْدَا ہلا ۱۰} (سورۃ سبأ: ۱۰)
(۲) مفتی محمد شفیع عثمانیؒ، معارف القرآن: ج ۷، ص: ۲۶۱۔
(۳) وقیل: ہو مرفوع بالابتداء والخبر محذوف، أي: والطیر تؤب وألنالہ الحدید وجعلناہ في یدہ کالشمع والعجین یصرفہ کما یشاء من غیر نار ولا ضرب مطرقۃ قالہ السیدي وغیرہ۔ وقیل: جعلناہ بالنسبۃ إلی قوتہ التي آتیناہا إیاہ لینا کالسمع بالنسبۃ إلی قوي سائر البشر أن الحمل سابقات إن مصدریۃ وہي علی إسقاط حرف الجرأی ألنا لہ الحدید یعمل سابقات أو أمرناہ بعمل سابقات الخ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ السباء: ج ۱۰‘‘: ج ۱۱، ص: ۲۸۹)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص32

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سورہ مومنون میں ہے {فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَہ}(۱)  اس میں خالقین سے مراد پیدا کرنے والے نہیں ہیں؛ بلکہ صناع یعنی صرف جوڑ توڑ کرنے والے مراد ہیں۔(۲) حقیقت میں حیات دینا اور بغیر کسی وسیلہ کے پیدا کرنا خاص اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے۔ اور لفظ خلق کا اطلاق لغوی معنی کے اعتبارسے دوسرے صناع پر کردیا گیا ہے۔ لفظ خلق کے حقیقی معنی شئ معدوم کو بغیر کسی انسانی وسائل کے وجود میں لانا ہے جو صرف ذات باری تعالیٰ پر ہی صادق آتا ہے۔ آیت مذکورہ میں ظاہری تقابل ہے مگر حقیقت میں دونوں میں کوئی مناسبت ہی نہیں ہے۔(۳)

(۱) سورۃ مؤمنون: ۲۳۔
(۲) عن مجاہد: {فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَہط۱۴} قال: یصنعون ویصنع اللّٰہ واللّٰہ خیر الصانعین۔ (الطبري، تفسیر طبري: ج ۱۵، ص: ۱۹)
(۳) وقال الآخرون: إنما قیل: {فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَہط۱۴}  لأن عیسی ابن مریم کان یخلق فأخبر جل تنارہ عن نفسہ أنہ یخلق أحسن مما کان یخلق۔ (الطبري، تفسیر طبري، ’’سورۃ المؤمنون: ۲۲‘‘: ج ۸، ص: ۱۹)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص33

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فتح مکہ کے بعد تمام غیر مسلموں کو امان دیدی گئی تھی؛لیکن اس وقت غیر مسلموں کے حالات مختلف تھے، ایک قسم تو وہ لوگ تھے جن سے صلح کا معاہدہ ہوا تھا، مگر انہوں نے خود اس کو توڑ دیا تھا۔ دوسرے کچھ لوگ ایسے تھے جن سے صلح کا معاہدہ کسی خاص میعاد کے لیے ہوا تھا اور وہ معاہدہ پر قائم رہے، جیسے: بنو ضمرہ وبنو مدلج؛ تیسرے کچھ لوگ وہ تھے جن سے معاہدہ کی مدت متعین نہیں تھی۔ چوتھے وہ لوگ تھے جن سے کسی قسم کا معاہدہ نہیں تھا۔
چنانچہ جن لوگوں نے صلح حدیبیہ کو توڑا ان کو حکم ہوا کہ اشہر حرم کے ختم ہوتے ہی جزیرۃ العرب سے نکل جائیں یا مسلمان ہو جائیں ورنہ ان سے جنگ ہوگی۔ اور جن سے خاص میعاد کے لیے معاہدہ تھا ان کے معاہدہ کو ان کی مدت تک پورا کرنے کا حکم ہوا۔ اور جن لوگوں سے بلا تعیین مدت معاہدہ تھا یا جن کے ساتھ بالکل کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا ان کو چار ماہ کی مہلت دی گئی۔(۱)

(۱) مفتي محمد شفیع عثمانيؒ، معارف القرآن، سورۃ التوبۃ: ج ۴، ص: ۳۰۹، ۳۱۱؛ وعلامہ آلوسی، روح المعاني، ’’سورۃ التوبۃ‘‘: ج ۶، ص: ۷۱۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص34

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 1839/43-1670

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دیگر کتب سماویہ کو کلام اللہ کہنا حقیقۃً  درست نہیں ہےالبتہ مجازا ان کو بھی کلام اللہ کہاجاسکتاہے۔  کیونکہ کلام اللہ ازلی وابدی ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے اٹھائی ہے، جو تغیروتبدل سے پاک ہے ، جو چیلینج کرتاہوا آیاہے،  اور وہ محفوظ بھی ہے جبکہ دیگر کتب سماویہ غیرمحفوظ ہیں اور ان کی اصل عبارات  فنا ہوگئیں ۔ قرآن و حدیث میں قرآن کو ہی کلام اللہ کہاگیاہے، دیگر کتب سماویہ کو کلام اللہ نہیں کہاگیاہے۔ قرآن کریم بعینہ اللہ کا کلام ہے جبکہ دیگر کتب سماویہ کا مضمون من جانب اللہ ہے، ان کی حیثیت حدیث قدسی کی سی ہے ۔ ان کا مضمون اللہ کی جانب سے ہے اس لئے ان کو کتاب اللہ کہاجاتاہے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ روایت صحیح ہے، امام ابن ماجہ کے علاوہ امام احمد، ابوداؤد، ترمذی، مؤطا، نسائی میں یہ روایت مذکور ہے، امام ترمذی نے اس روایت پر ’’ہذا حدیث حسن‘‘ کہا ہے اور امام حاکم نے ’’ہذا حدیث صحیح الإسناد‘‘ لکھا ہے۔ امام ذہبی نے بھی اس کی تصحیح کی ہے۔(۱)

(۱) وعن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن سورۃً في القرآن ثلاثون آیۃ شفعت صاحبہا حتی غفر لہ: تبارک الذي بیدہ الملک۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الأدب: باب ثواب القرآن‘‘: ج ۲، ص: ۴۴، رقم: ۳۷۸۶)
تبارک الذي بیدہ الملک أي: إلی أخرہا رواہ أحمد، والترمذي، وأبو داود، والنسائي، وابن ماجہ، وقد رواہ ابن حبان والحاکم وروي الحاکم عن ابن عباس مرفوعاً۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح: ج۷، ص: ۲۲، رقم: ۲۱۵۳)
وعن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن سورۃً في القرآن ثلاثون آیۃ شفعت لرجل حتی غفر لہ: وہي تبارک الذي بیدہ الملک رواہ أحمد، والترمذي، وأبو داؤد، والنسائي، في الکبریٰ، وابن ماجہ، في باب ثواب القرآن وأخرجہ أیضاً: ابن حبان في صحیحہ والحاکم: ج ۱، ص: ۵۶۵، وابن القریس وابن مردویہ والبیہقي في شعب الإیمان قال الترمذي: ہذا حدیثٌ حسنٌ، وقال الحاکم: ہذا حدیثٌ صحیح الإسناد۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب فضائل القرآن: الفصل الثاني‘‘: ج ۷، ص: ۲۱۹، رقم: ۲۱۷۲)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص35

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن مقدس کی تفسیر بہت اہمیت کی حامل ہے، اس کے ترجمے اور نکات کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو عربی زبان کی قابل قدر تعلیم کا حامل ہو، نیز اس کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر بھی اس کی اچھی نظر ہو، اور اصول شریعت سے واقفیت رکھتا ہو، اصول حدیث، اصول فقہ کے ساتھ ساتھ نحو وصرف اور بلاغت سے بھی آشنا ہو، پس غیر عالم اس کے ترجمے کو بھی نہیں سمجھ سکتا، چہ جائے کہ وہ اس کے مفاہیم کو سمجھ سکے؛ اس لیے غیر عالم کے لیے درست نہیں کہ وہ قرآن مقدس کی تفسیر کرے اور اگر وہ اس کا ترجمہ وغیرہ سناتا ہو یا مکتوبہ ومطبوعہ تفاسیر سناتا ہو، یعنی وہ شخص خود مفسر نہ ہو، بلکہ تفاسیر میں جو لکھا ہے اس کو گاہے گاہے لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہو، جب کہ اردو تفاسیر کو لوگ عموماً پڑھتے ہیں، اور دوسروں کو سناتے ہیں تو اس میں حرج نہیں ہے، البتہ احتیاط ضروری ہے کہ قرآن مقدس کا ترجمہ سامنے رکھ کر وہی باتیں بیان کرے، جو معتمد تفاسیر میں اس نے پڑھی ہوں، اور ان کو ذہن نشین بھی کیا ہو، اپنی طرف سے استنباط یا نکات بیان نہ کرے؛ اس لیے کہ اس صورت کے خلاف کرنے میں خوف ہے کہ کہیں مقصد ورضاء الٰہی کے خلاف نہ ہو جائے، اور اللہ رب العزت پرافتراء وکذب بیانی لازم نہ آجائے، حاصل یہ کہ ان تمام احتیاطوں کے ساتھ لوگوں کے سامنے بیان تو کر سکتاہے، نقل تفسیر تو درست ہے؛ لیکن اپنی سمجھ سے تفسیر یا نکات بیان کرنا درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) وقد قال الشافعي رضي اللّٰہ عنہ: کُلُّ ما حکم بہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فہو مما فہمہ من القرآن قال تعالی: {إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاکَ اللَّہُ} في آیات آخر وقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا إني أوتیت القرآن ومثلہ معہ، یعني السنۃ، فإن لم یجدہ في السنۃ رجع إلی أقوال الصحابۃ فإنہم أدري بذلک لما شاہدوہ من القرائن والأحوال عند نزولہ ولما اختصوا بہ من الفہم التام والعلم الصحیح والعمل الصالح۔ وقال الإمام أبو طالب الطبري: إعلم أن من شرطہ صحۃ الاعتقاد أولا ولزوم سنۃ الدین فإن من کان مغموصا علیہ في دینہ لا یؤتمن علی الدنیا فکیف علی الدین ثم لا یؤتمن من الدین علی الإخبار عن عالم فکیف یؤتمن في الإخبار عن أسرار اللّٰہ تعالی ولأنہ لا یؤمن إن کان متہما بالإلحاد أن یبغي الفتنۃ ویغر الناس بلیہ وخداعہ کدأب الباطنیۃ وغلاۃ الرافضۃ۔ (عبد الرحمن بن أبي بکر، جلال الدین الیسوطي، الإتقان في علوم القرآن، ’’النوع الثانی  … …وسبعون، في معرفۃ شروط المفسر وآدابہ‘‘: ج ۴، ص: ۲۰۵)
وعن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قال في القرآن برأیہ فلیتبوأ مقعدہ من النار، وفی روایۃ من قال في القرآن برأیہ فلیتبوأ مقعدہ من النار، رواہ الترمذي (برأیہ) أي: من تلقاء نفسہ من غیر تتبع أقوال الأئمۃ من أہل اللغۃ والعربیۃ المطابقۃ للقواعد الشرعیۃ، بل بحسب ما یقتضیہ عقلہ، وہو مما یتوقف علی النقل بأنہ لا مجال للعقل فیہ کأسباب النزول والناسخ والمنسوخ وما یتعلق بالقصص والأحکام، أو بحسب ما یقتضیہ ظاہر النقل، وہو مما یتوقف علی العقل کالمتشابہات التي أخذ المجسمۃ بظواہرہا، وأعرضوا عن استحالۃ ذلک في العقول، أو بحسب ما یقتضیہ بعض العلوم الإلہیۃ مع عدم معرفتہ ببقیتہا وبالعلوم الشرعیۃ فیما یحتاج لذلک۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۵، رقم: ۲۳۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص36

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس سے مراد استقرار حمل کا ابتدائی زمانہ ہے۔ ابتداء میں وہ صرف گوشت کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے اس وقت اس کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ہے کہ مذکر ہوگا یا مؤنث، گویا کیسی شکل وصورت ہوگی، اس وقت ایکسرے اور الٹرا ساؤنڈ سے کچھ معلوم نہیں ہوتا، البتہ جب اعضاء بننے شروع ہوجاتے ہیں تب معلوم ہوسکتا ہے کہ مذکر ہے یا مؤنث ہے؛ اس لیے اس آیت سے کوئی تعارض نہیں۔ اس کی مزید تحقیق فن کے ماہرین (ڈاکٹر اطباء) سے کی جاسکتی ہے۔(۱)

(۱) ویعلم ما في الأرحام، أی: وہو یعلم تفصیل ما في أرحام الإناث من ذکر… أو أنثیٰ، وواحد ومتعدد، وکامل وناقص، ومؤمن وکافر، وطویل وقصیر، وغیر ذلک۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵، رقم: ۳)
وفي موضع أخر، وأبیض، وأسود، وطویل، وقصیر، وسعید وشقي وغیر ذلک۔ (’’أیضاً:، باب في الریاح والمطر‘‘: ج ۵، ص: ۲۳۷،رقم: ۱۵۱۴)
قولہ تعالیٰ: اللّٰہ یعلم ما تحمل کل أنثی ذکراً أو أنثی، ویعلم ما في الأرحام، سویاً أو غیر سوي۔ (أبو اللیث نضر بن محمد، بحر العلوم: ج ۲، ص: ۲۱۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص37

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن وحدیث سے ثابت ہے اور امت کا اس پر اجماع ہے کہ انبیاء علیہم السلام گناہ سے معصوم ومحفوظ ہوتے ہیں۔(۱) اس کے باوجود قرآن کریم میں لفظ ذنب وعصیان ان کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور لفظ ذنب کا ترجمہ گناہ وخطاء دونوں صحیح ہیں مگر انبیاء علیہم السلام کی عصمت کے باوجود بعض اوقات اجتہاد میں ان سے خطاء ہوجاتی ہے اور اجتہادی خطا قانون شریعت میں گناہ نہیں کہلاتی؛ بلکہ اس پر بھی اجر وثواب ملتا ہے۔
مگر انبیاء علیہم السلام کو اس پر متنبہ ضرور کردیا جاتا ہے اور ان کی شان عالی کی مناسبت سے  خلاف اولی اور اجتہادی خطا کو بھی ذنب، گناہ و خطا کہا جاتا ہے بطور تہدید اللہ تعالیٰ نے ذنب سے تعبیر فرمایا ہے یہ انبیاء علیہم السلام کی عصمت کے خلاف نہیں ہے؛ بلکہ ان کے مقام کی رفعت وبلندی پر دلالت ہے؛ اس لیے کوئی شبہ نہ کیا جائے اور اگر پوری طرح سمجھ میں نہ آئے تو یہ جواب کسی مقامی عالم کو دکھلا کر اس سے سمجھ لیں یہ خطاء اجتہادی بھی ایسے احکام میں نہیں ہوتی جو قانون شرع کی حیثیت رکھتے ہوں، معلوم ہوا کہ دوسرا ترجمہ ہی صحیح ہے۔(۱)

(۱) الأنبیاء معصومون قبل النبوۃ وبعدہا عن کبائر الذنوب وصغائرہا۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الکبائر وعلامات النفاق، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۳، رقم: ۵۵)
 الأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کلہم منزہون عن الصغائر والکبائر والکفر والصبائح۔ (الإمام أبو حنیفۃ، شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في أن الأنبیاء منزہون عن الکبائر‘‘: ص: ۱۰۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص38