قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مباہلہ کے معنی ایک دوسرے پر لعنت وبددعا کرنے کے ہیں۔ دو افراد یا دو گروہ جو اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں بارگاہ الٰہی میں التجا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ خداوند تعالیٰ جھوٹے پر لعنت کرے تاکہ سب کے سامنے واضح ہوجائے کہ کو ن سا فریق حق پرہے۔
قرآن کریم کی سورہ آل عمران میں مباہلہ کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے نصاری کی جانب ایک فرمان بھیجا جس میں تین چیزیں ترتیب وار ذکر کی گئیں (۱) اسلام قبول کرو (۲) یا جزیہ ادا کرو (۳) یا جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔ نصاریٰ نے آپس میں مشورہ کرکے شرحبیل، عبد اللہ بن شرحبیل، اور جبار بن قیص کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا ان لوگوں نے آکر مذہبی امور پر بات چیت کی یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت ثابت کرنے میں ان لوگوں نے انتہائی بحث وتکرار سے کام لیا اتنے میں یہ آیت مباہلہ نازل ہوئی اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصاریٰ کو مباہلہ کی دعوت اور انھوں نے یہ دعوت قبول کرلی؛ لیکن مقررہ وقت پر انھوں نے مباہلے سے اجتناب کیا؛ کیونکہ انھوں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قریب ترین افراد یعنی اپنی بیٹی: فاطمہ زہراء، اپنے داماد حضرت علی رضی اللہ عنہ، اپنے نواسوں اور فرزندوں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو ساتھ لے کر آئے ہیں، چنانچہ شرحبیل نے اپنے دونوں ساتھیوں سے کہاکہ تمہیں معلوم ہے کہ یہ اللہ کانبی ہے اور نبی سے مباہلہ کرنے میں ہماری ہلاکت اور بربادی یقینی ہے؛ اس لیے نجات کا کوئی راستہ تلاش کرو بالآخر ان لوگوں نے صلح کی تجویز منظور کرلی اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت ظاہر ہوگئی۔(۱)

(۱) مفتي محمد شفیع العثمانيؒ، معارف القرآن: ج ۲، ص: ۸۵۔
وکان أہل نجران جاؤا إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیناظروہ في أمر عیسیٰ علیہ السلام فلما لم یقبلوا الحق دعاہم إلی المباہلۃ، فہذا دلیل علی أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قد بأہلہم علی حیاتہ أیضاً۔ (الکشمیري، فیض الباري علی صحیح البخاري، ’’باب قصۃ أہل نجران‘‘: ج ۵، ص: ۱۴۰، رقم: ۴۳۸۲)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص51

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مزمل اس شخص کو کہتے ہیں جو بڑے کپڑے کو اپنے اوپر لپیٹ لے اور مدثر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو آدمی عام لباس کے اوپر سردی وغیرہ سے بچنے کے لئے لپیٹ لیتا ہے۔(۱) حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمہ میں کیا خوب فرق ہے۔
{یآ أیہا المزمل} اے کپڑے میں لپٹنے والے، {یا أیہا المدثر} اے لحاف میں لپٹنے والے۔

(۱) {یا أَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ} یعني الذي ضم علیہ ثیابہ، یعني النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وذلک أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج من البیت وقد لیس ثیابہ، فناداہ جبریل علیہ السلام: {یا أَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ} الذي قد تزمل بالثیاب وقد ضمہا علیہ۔ (أبو الحسن مقاتل بن سلمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، ’’سورۃ مزمل:۱‘‘ ج ۴، ص: ۴۷۵)
والتزمیل: اللف في الثوب، ومنہ حدیث قتلی أحد: زملوہم بثیابہم، أي لفوہم فیہا، وفي حدیث السقیفۃ: فإذا رجل مزمل بین ظہرانیہم، أي مغطي مدثر، یعني سعد بن عبادۃ، وقال إمرؤ القیس: کبیر أناس في بجاد مزمل وتزملأ: تلفف بالثوب، وتدثر بہ، کازمل، علی أفعل، ومنہ قولہ تعالی: یا أیہا المزمل، قال أبو إسحاق: أصلہ المتزمل، والتاء تدغم في الزای لقربہا منہا، یقال: تزمل فلان،…  إذا تلفف بثیابہ۔ (محمد بن محمد، تاج العروس: ج ۲۹، ص: ۱۳۸)
وقال الفراء: في قولہ تعالی {یأیہا المدثر} یعني المتدثر بثیابہ إذا نام۔ وفي الحدیث: (کان إذا نزل علیہ الوحي یقول: دثروني دثرون) أي غطوني بما أدفأ بہ۔ وفي حدث الأنصار: (أنتم الشعار والناس الدثار) یعني أنتم الخاصۃ والناس العامۃ (ودثر الشجر) دثورا۔ (أورق) وتشعبت خطرتہ۔
(و) دثر (الرسم) وغیرہ۔ (درس) وعفا بہبوب الریاح علیہ، (کتداثر)، یقال: فلان جدہ عاثر، ورسمہ داثر۔
(و) عن ابن شمیل: دثر (الثوب) دثورا: (اتسخ۔ و) دثر (السیف)، إذا (صدیء، فہو داثر)، وہو البعید العہد بالصقال، وہو مجاز۔ (محمد بن محمد، تاج العروس: ج ۱، ص: ۲۸۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص53

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو مرد یا عورتیں قرآن پاک پڑھے ہوئے نہیں ہوتے اور قرآن کی محبت وعقیدت کی وجہ سے قرآن کریم کی ہر سطر پر انگلی پھیرتے اور نظر ڈالتے جاتے ہیں اور ہر سطر پر ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھتے جاتے ہیں، اس سے ان کا مقصد قرآن کریم کو ثواب وعقیدت کی نیت سے دیکھنا اور ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھ کر ثواب حاصل کرنا ہوتا ہے، اس میں کوئی مضائقہ معلوم نہیں ہوتا؛ لیکن یہ ضروری ہے کہ قرآن کریم پڑھنا سیکھتا رہے جب کہ بعض لوگ یہ عمل لاٹری کا نمبر معلوم کرنے کے لیے کرتے ہیں، ایسا کرنا گناہ کبیرہ اور حرام ہے۔ کتاب ہدایت سے بھی گمراہی ڈھونڈتے ہیں {یضل بہ کثیراً ویہدي بہ کثراً}(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الماہر بالقرآن مع السفرۃ الکرام البررۃ والذي یقرأ القرآن ویتتعتع فیہ وہو علیہ شاق لہ أجران۔
والذي یقرأ القرآن ویتتعتع فیہ)، أي یتردد ویتبلد علیہ لسانہ ویقف في قراء تہ …لعدم مہارتہ، والتعتعۃ في الکلام التردد فیہ من حصرٍ أو عيٍّ، یقال: تعتع لسانہ إذ توقف في الکلام ولم یطعہ لسانہ (وہو) أي القرآن، أي حصولہ أو ترددہ فیہ (علیہ)، أي علی ذلک القاري (شاق)، أي شدید یصیبہ مشقۃ جملۃ حالیۃ (لہ أجران)، أي أجر لقراء تہ أجر لتحمل مشقتہ وہذا تحریض علی تحصیل القراء ۃ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب فضائل القرآن: الفصل الأول‘‘: ج ۴، ص: ۹، رقم: ۲۱۱۲)

 
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص54

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 1252/42-587

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آج کے دور میں ضرورت کی بناء پر علماء نے تعلیم قرآن پر اجرت لینا جائزقراردیاہے۔ اگر اجرت نہیں ہوگی تو سب لوگ تجارت میں لگ جائیں گے اور اس طرح تعلیم قرآن میں بڑی رکاوٹ پیدا ہوجائے گی، اس لئے تعلیم قرآن پر اجرت لینا جائز ہے۔

وإنما أفتى المتأخرون بجواز الاستئجار على تعليم القرآن لا على التلاوة وعللوه بالضرورة وهي خوف ضياع القرآن ( شامی 2/73 باب قضاء الفوائت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 1727/43-1681

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

آپ نے قرآن خوانی کے تعلق سے تین باتیں معلوم کی ہیں : تینوں کا جواب بالترتیب دیا جارہاہے۔  (1) گھر یا دکان کے لیے قرآن خوانی کرنا درست ہےاور اس قرآن خوانی میں اگر ایصال ثواب کی نیت کر لی جائے توکوئی حرج کی بات نہیں ہے ۔ (2) اگر قرآن دنیوی مقصد کے لیے پڑھا گیا ہو جیسے کہ لوگ دکان یا کاروبار میں برکت کے لیے قرآن پڑھاتے ہیں تاکہ ہماری تجارت میں برکت ہو تو ایسی قرآن خوانی پر اجرت لینا جائز ہے ۔اس لیے ہر وہ کام جو دنیوی فائدہ کے لیے ہو اگر اس پر قرآن پڑھایا جائے اور اس پر اجرت لی جائے تو یہ جائز ہے ۔

عن ابن عباس: أن نفرا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم مروا بماء، فيهم لديغ أو سليم، فعرض لهم رجل من أهل الماء، فقال: هل فيكم من راق، إن في الماء رجلا لديغا أو سليما، فانطلق رجل منهم، فقرأ بفاتحة الكتاب على شاء، فبرأ، فجاء بالشاء إلى أصحابه، فكرهوا ذلك وقالوا: أخذت على كتاب الله أجرا، حتى قدموا المدينة، فقالوا: يا رسول الله، أخذ على كتاب الله أجرا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن أحق ما أخذتم عليه أجرا كتاب الله(صحیح  البخاری،باب الشرط في الرقية بقطيع من الغنم،حدیث نمبر:5737)

 ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی چوں کہ دینی مقصد کے لیے ہے اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔  

  قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون - اهـ.(شامی ، مطلب فی الاستئجار علی المعاصی٦/٥٦)
(3)میت کے لیے ایصال ثواب کا ثبوت احادیث اور سلف کے تعامل سے ثابت ہے اور جس طرح مالی عبادت کا ثواب میت کو پہنچتاہے اسی طرح بدنی عبادت کا ثواب بھی میت کو پہنچتاہے ۔علامہ شامی نے اسے اہل السنت والجماعت کا مسلک قرار دیا ہے ۔

من دخل المقابر فقرأ سورة يس خفف الله عنهم يومئذ، وكان له بعدد من فيها حسنات  بحر. وفي شرح اللباب ويقرأ من القرآن ما تيسر له من الفاتحة وأول البقرة إلى المفلحون وآية الكرسي - وآمن الرسول - وسورة يس وتبارك الملك وسورة التكاثر والإخلاص اثني عشر مرة أو إحدى عشر أو سبعا أو ثلاثا، ثم يقول: اللهم أوصل ثواب ما قرأناه إلى فلان أو إليهم. اهـ. مطلب في القراءة للميت وإهداء ثوابها له [تنبيه]صرح علماؤنا في باب الحج عن الغير بأن للإنسان أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها كذا في الهداية، بل في زكاة التتارخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلا أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أج ره شي(رد المحتار،مطلب فی زیارۃ القبور ،2/243)۔

قرآن کریم کے ذریعہ میت کو ثواب پہنچانا بھی درست ہے او راس سے میت کو فائدہ پہنچتاہے اور یہ عمل بھی حدیث اور سلف کے تعا مل سے ثابت ہے۔

أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ويس قلب القرآن لا يقرؤها رجل يريد الله والدار الآخرة إلا غفر له، اقرءوها على موتاكم(السنن الکبری للنسائی،حدیث نمبر:10847) وعن مجالد، عن الشعبي " كانت الأنصار إذا حضروا قرؤوا عند الميت البقرة ". مجالد ضعيف.(خلاصۃ الاحکام،باب مایقولہ من مات لہ میت ،حدیث نمبر:3279 )ملا علی قاری مرقات میں لکھتے ہیں : وأن المسلمين ما زالوا في كل مصر وعصر يجتمعون ويقرءون لموتاهم من غير نكير، فكان ذلك إجماعا، ذكر ذلك كله الحافظ شمس الدين بن عبد الواحد المقدسي الحنبلي في جزء ألفه في المسألة، ثم قال السيوطي: وأما القراءة على القبر فجاز بمشروعيتها أصحابنا وغيرهم.(مرقات المفاتیح،باب دفن المیت ، 3/1229)۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2055/44-2267

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر قرآن کی سورت یاد ہو تو زبانی اور یاد نہ ہو تو اسکرین شاٹ دیکھ کر یا موبائل میں دیکھ کر پڑھنا اور  دم کرنا جائز ہے۔ ایسا کرنے میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ وضو  اور غسل کے بغیر بھی قرآن کی ریکارڈنگ سنی جاسکتی ہے۔ البتہ غسل کی ضرورت ہو تو قرآن کی تلاوت ممنوع ہے، اور وضو نہ ہو تو تلاوت بھی ممنوع نہیں ہے بلکہ بے وضوقرآن کو ہاتھ لگانا ممنوع ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 1510/42-989

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح دعا مانگنا  جس میں اپنے زمانہ کے تمام لوگوں کی ہدایت  مراد ہو، ثابت اوردرست ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن  اس طرح کی دعاء سے یہ مراد لینا کہ از اول تا آخر سب کو ہدایت ملے تو یہ نصوص کے خلاف ہے؛  ایسی دعا غیرمشروع ہے ۔   

"إن الله تعالى لم يبعثني طعانا ولا لعانا، ولكن بعثني داعية ورحمة، اللهم اهد قومي فإنهم لا يعلمون" (شعب الایمان، فصل فی بیان النبی ﷺ 3/45) والأولى أن يدعى لكل حي بالهداية (فتح الباری لابن حجر، باب اذا القی علی ظھر المصلی قذر 1/352) قال تعالى: فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ {هود:105}، وقال تعالى: وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ {هود:119}، وقال تعالى: فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ {الشورى:7}، وقال تعالى: وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا وَلَكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ {السجدة:13)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ تو کوئی عذر نہیں ہے کہ عربی پڑھنی نہیں آتی، ویسے رغبت قرآن کے لیے اردو کاترجمہ پڑھا جاسکتا ہے۔ عربی، عربی ہے، اس کا ترجمہ، ترجمہ ہے، ترجمہ پڑھنے کا ثواب تو ہے؛ لیکن عربی کا قرآن پڑھنے کے برابر تو نہیں اس لیے اصل قرآن سیکھنا چاہئے۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الماہر بالقرآن مع السفرۃ الکرام البررۃ والذي یقرأ القرآن ویتتعتع فیہ وہو علیہ شاق لہ أجران۔
والذي یقرأ القرآن ویتتعتع فیہ)، أي یتردد ویتبلد علیہ لسانہ ویقف في قراء تہ لعدم مہارتہ، والتعتعۃ في الکلام التردد فیہ من حصرٍ أو عيٍّ، یقال: تعتع لسانہ إذ توقف في الکلام ولم یطعہ لسانہ (وہو) أي القرآن، أي حصولہ أو ترددہ فیہ (علیہ)، أي علی ذالک القاري (شاق)، أي شدید یصیبہ مشقۃ جملۃ حالیۃ (لہ أجران)، أي أجر لقراء تہ أجر لتحمل مشقتہ وہذا تحریض علی تحصیل القراء ۃ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب فضائل القرآن: الفصل الأول‘‘: ج ۴، ص: ۹، رقم: ۲۱۱۲)
{إِنَّآ أَنْزَلْنٰہُ قُرْئٰ نًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَہ۲  } (سورۃ یوسف: ۲)
فلا یکون الفارسي قرآناً فلا یخرج بہ عن عہد الأمر، ولأن القرآن معجزٌ، والإعجاز من حیث اللفظ یزول بزوال النظم العربي فلا یکون الفارسي قرآنا لانعدام الإعجاز۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’فصل وأما أرکانہا خمسۃ: منہا القیام‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۲)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص55

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگروہ صدق دل سے آئیں اور ان کی ہدایت کی امید ہو یا ان کے شر کا اندیشہ نہ ہو، تو ان کو قرآن کی تعلیم دینے میں حرج نہیں ہے(۱)۔ اور ان کو تعلیم دینے کے لیے کسی ماہر اور سنجیدہ عالم کا ہونا ضروری ہے۔ تاہم اگر ان کی بدنیتی واضح ہوجائے یا ان سے کسی شر کا اندیشہ ہو، تو گریز کرنا چاہئے۔

(۱) إذا قال الکافر من أہل العرب أو من أہل الذمۃ علمني القرآن فلا بأس بأن یعلمہ ویفقہہ في الدین قال القاضي علي السغدي إلا أنہ لا یمس المصحف فإن اغتسل ثم مسہ فلا بأس بہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الکراہیۃ: فصل في البیع‘‘: ج ۸، ص: ۳۷۳)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص56

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اس خط کا تذکرہ فرمایا ہے، جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکۂ بلقیس کے نام لکھا تھا، اس خط کے شروع میں  حضرت سلیمان علیہ السلام نے لکھا فرمایا ’’إنہ من سلیمان وإنہ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ (۱)  معلوم ہوا کہ ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ اپنے ان ہی الفاظ کے ساتھ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے سے بھی پہلے سے جاری ہے۔
 نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مقدس نازل ہوا تو ’’بسم اللّٰہ‘‘ سے اور پہلی وحی بھی ’’إقرأ بسم ربک الذي خلق‘‘(۲) ہے، اس میں بھی ’’بسم اللّٰہ‘‘ ہے، مگر ان مشہور الفاظ کے ساتھ نہیں ہے اور نہ ہی کسی روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس پہلی وحی میں ’’بسم اللّٰہ‘‘ کے الفاظ نازل ہوئے ہو سکتا ہے کہ فصل ما بین السورتین کے لیے اس کو پڑھے جانے کا حکم ہوا یا جب دوسری سورت نازل ہوئی، تو فصل کے لئے علیحدہ نازل ہوئی اتنا متعین ہے۔ کہ ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ پہلے ہی سے ان ہی الفاظ کے ساتھ رائج تھی اور ذبح کی دعاء اس وقت سے رائج ہے، جب سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی دینے کے لئے گلے پر چھری رکھی اور چلائی تھی، پھر ان کی جگہ دنبہ ذبح فرمایا۔ گویا قربانی ہر قوم میں رہی، مگر اس طریقہ رائج کے موافق نہ تھی۔(۳)

(۱) سورۃ النحل: ۳۰۔
(۲) سورۃ العلق:۱۔
(۳) وقال الشعبي: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مکتب في بدء الأمر علی رسم قریش باسمک اللہم حتی نزلت، {وَقَالَ ارْکَبُوْا فِیْھَا بِسْمِ اللّٰہِ مَجْراؔھَا} (سورۃ الہود: ۴۱) فکتب باسم اللّٰہ حتی نزلت {قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ أَوِادْعُوا الرَّحْمٰنَط} (سورۃ الإسراء: ۱۱۰) فکتب بسم اللّٰہ الرحمن حتی نزلت آیۃ {اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِہلا ۳۰} (سورۃ النمل: ۳۰)۔ (أبو محمد حسین البغوي، تفسیر بغوي، ’’سورۃ الفاتحہ‘‘: ج ۱، ص:
۷۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص56