Frequently Asked Questions
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر دل دل میں پڑھا جائے تب بھی ثواب ملتا ہے اور اگر زبان سے بھی پڑھ لیا جائے، تو اور زیادہ ثواب ملتا ہے؛ البتہ اگر آیت سجدہ صرف دل دل میں پڑھے، تو سجدہ تلاوت واجب نہ ہوگا؛ کیوں کہ یہ دنیاوی حکم ہے۔(۲)
(۲) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أنہ کان یقول قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لم یأذن اللّٰہ لشيء ما أذن أن یتغنی بالقرآن وقال صاحب لہ یرید یجہر بہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب فضائل القرآن: باب من لم یتغن بالقراء ۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۵۱، رقم: ۵۰۲۳)
(و) أدنی (الجہر إسماع غیرہ و) أدنی (المخافتۃ إسماع نفسہ) ومن بقربہ؛ فلو سمع رجل أو رجلان فلیس بجہر، والجہر أن یسمع الکل خلاصۃ (ویجري ذلک) المذکور (في کل ما یتعلق بنطق، کتسمیۃ علی ذبیحۃ ووجوب سجدۃ تلاوۃ وعتاق وطلاق واستثناء) وغیرہا۔… (قولہ وأدنی الجہر إسماع غیرہ إلخ) اعلم أنہم اختلفوا في حد وجود القراء ۃ علی ثلاثۃ أقوال: فشرط الہندواني والفضلي لوجودہا خروج صوت یصل إلی أذنہ، وبہ قال الشافعي۔
وشرط بشر المریسي وأحمد خروج الصوت من الفم وإن لم یصل إلی أذنہ، لکن بشرط کونہ مسموعا في الجملۃ، حتی لو أدنی أحد صماخہ إلی فیہ یسمع۔
ولم یشترط الکرخي وأبو بکر البلخي السماع، واکتفیا بتصحیح الحروف۔ واختار شیخ الإسلام وقاضي خان وصاحب المحیط والحلواني قول الہندواني، وکذا في معراج الدرایۃ۔ ونقل في المجتبی عن الہندواني أنہ لا یجزیہ ما لم تسمع أذناہ ومن بقربہ، وہذا لا یخالف ما مر عن الہندواني لأن ما کان مسموعا لہ یکون مسموعا لمن في قربہ کما في الحلیۃ والبحر۔ ثم إنہ اختار في الفتح أن قول الہندواني وبشر متحدان بناء علی أن الظاہر سماعہ بعد وجود الصوت إذا لم یکن مانع۔ وذکر في البحر تبعا للحلیۃ أنہ خلاف الظاہر، بل الأقوال ثلاثۃ۔ وأید العلامۃ خیر الدین الرملي في فتاواہ کلام الفتح بما لا مزید علیہ، فارجع إلیہ۔ وذکر أن کلا من قولي الہندواني والکرخي مصححان، وأن ما قالہ الہندواني أصح وأرجح لاعتماد أکثر علمائنا علیہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المختار، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۳۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص64
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:وہ دو آیتیں ہیں:
(۱) {قد جاء کم بصائر من ربکم} (الآیۃ)
(۲) {أفغیر اللّٰہ أبتغي حکماً} (الآیۃ)(۱)
(۱) عبد الرحمن بن أبي بکر، الإتقان في علوم القرآن: ج ۱، ص: ۴۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص65
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آیت کریمہ تمام مؤمنین کے لئے ہے، تخصیص کی جو صورت سوال میں مذکور ہے وہ بلا دلیل ہے۔(۱)
(۱) بأن المراد نہیہ عن عدم الفعل لا عن القول۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ آل عمران: ۹۸ إلی ۱۱۵‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۹)
إنہا نزلت في شأن القتال۔ (أبو محمد الحسین، البغوي، ’’سورۃ الصف: ۶۱‘‘: ج ۵، ص: ۷۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص66
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن پاک کی جملہ آیات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں، سب سے پہلے ’’سورۂ إقرأ‘‘ نازل ہوئی۔(۱)
دیگر انبیاء علیہم السلام پر جو کتابیں نازل ہوئیں ان کے نام ہیں، مثلاً: ’’زبور‘‘ حضرت داؤد علیہ السلام پر، ’’تو رات‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر، ’’انجیل‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔(۲)
(۱) قال ہذہ أول سورۃ أنزلت علی محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ العلق‘‘: ج ۱۶، ص: ۳۱۹)
(۲) عن أبي ذر قال: قلت: یا رسول اللّٰہ کم انزل اللّٰہ من کتاب قال مأۃ کتاب وأربعۃ کتب أنزل علی شیث خمسین صحیفۃ وعلی إدریس ثلاثین صحیفۃ وعلی إبراہیم عشر صحائف وعلی موسیٰ قبل التوراۃ عشر صحائف وأنزل التوراۃ والإنجیل، والزبور والفرقان۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني: تفسیر ’’سورۃ الأعلی‘‘: ۱۹)
{وَّ أٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا ہ۵۵} (سورۃ الإسراء: ۵۵)
{ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلٰٓی أٰثٰرِھِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّیْنَا بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَأٰتَیْنٰہُ الْإِنْجِیْلَ ۵لا وَجَعَلْنَا فِيْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ رَاْفَۃً وَّرَحْمَۃً ط وَرَھْبَانِیَّۃَ نِ ابْتَدَعُوْھَا مَا کَتَبْنٰھَا عَلَیْھِمْ إِلَّا ابْتِغَآئَ رِضْوَانِ اللّٰہِ فَمَا رَعَوْھَا حَقَّ رِعَایَتِھَاج فَأٰ تَیْنَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا مِنْھُمْ أَجْرَھُمْج وَکَثِیْرٌ مِّنْھُمْ فٰسِقُوْنَہ۲۷} (سورۃ الحدید: ۲۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص67
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کی آیات کی تعداد: ۶۶۶۶؍ ہے۔(۳) اور جمل میں ۶۵۰۰؍ ہے۔(۱)
دوسرا قول یہ ہے کہ ۶۶۱۶؍ آیات ہیں۔
(۱) وأما جملۃ عدد آیاتہ فہو ستۃ آلاف وخمسمأیۃ۔ (الجمل: ج ۱، ص: ۵)
وقال غیرہ: سبب اختلاف السلف في عدد الآي أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقف علی رؤوس الآي للتوقیف فإذا علم محلہا وصل للتمام فیحسب السامع حینئذ أنہا لیست فاصلۃ۔ (عبد الرحمن بن أبي بکر، الإتقان في علوم القرآن، ’’النوع التاسع عشر: في عدد سورۃ وآیاتہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص67
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 2787/45-4458
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اتنی تجوید کہ ہر حرف دوسرے حرف سے ممتاز ہو جائے فرض عین ہے، بغیر اس کے نماز قطعاً باطل ہوگی ۔ ایسی غلطی جس سے لفظ تو نہ بدلے مگر اس کی خوبصورتی باقی نہ رہے مثلا غنہ، پُر اور باریک کی غلطی کرنا مکروہ ہے، اس سے ثواب میں کمی آتی ہے، رموز واوقاف کی رعایت بھی لازم ہے بعض صورتوں میں نماز فاسد ہونے کا اندیشہ ہے، مد کی دو بڑی اقسام ہیں مد اصلی اور مد فرعی، مد اصل لازم ہے اور مد فرعی کی ایک قسم مد متصل ہے اس کو مد واجب بھی کہا جاتا ہے، مد منفصل اور مد غیر لازم کے مستحسن ہونے پر قراء کااتفاق ہے، جو شخص جس قدر تجوید جانتا ہو اس قدر دوسروں کوسکھا سکتا ہے، اس کے لئے حافظ ہونا شرط نہیں ہے۔
جو خود تجوید کی رعایت نہ کرتا ہو حروف کی ادائیگی صحیح نہ کرتا ہو اس کے لئے دوسروں کو تعلیم دینا بھی درست نہیں ہے، اگر صحیح پڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور سکھانے میں ادائیگی ٹھیک کرتا ہے تو تعلیم کی اجازت ہے، اگر غلط سکھائے گا تو گنہگار ہوگا۔ ہر لحن جلی سے نماز فاسد نہیں ہوتی ہے اس لئے جو بھی صورت پیش آئے اس کا حکم معلوم کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 1288/42-628
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی معقول وجہ سے یا انجانے میں ایسا ہوجانے میں کوئی گناہ کی بات نہیں۔ البتہ اگر کوئی توہین کی غرض سے ، یا کسی اور فاسد نیت سے ڈیلیٹ کرے گا تو ااس کی نیت کے مطابق گناہ ہوگا۔ بعض مرتبہ حفاظت کے لئے یا بے حرمتی سے حفاظت کے لئےڈیلیٹ کرنا ہوتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ کار ثواب سمجھا جائے گا۔ عن عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى (بخاری)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 2100/44-2148
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔
ہر فرض نماز کے بعدآیت کریمہ: فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَاءَ کَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ سات مرتبہ پڑھ کر اور انگلیوں کے سروں پر دم کرکے آنکھوں پر پھیرلیا کریں، إن شاء اللہ آپ کی بینائی ٹھیک ہوجائے گی۔ہرنماز کے بعد گیارہ مرتبہ ”یا نورُ“ پڑھ کر انگلی پر دم کرکے آنکھوں پر پھیر نا بھی بہت مفید ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 2008/44-1964
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ عمل قرآن کے ساتھ بے ادبی شمار نہیں ہوتاہے، اس لئے اس طرح گھڑی یا کسی بھی پاک چیز کو قرآن پر رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 2103/44-2126
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تجوید وقراءت کے استاذ کو بھی استاذ ہی کہاجائے گا۔ تجوید کے ساتھ قرآن کریم پڑھنا ہر ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے، اگر کسی علاقہ میں لوگوں کی تجوید درست نہ ہو تو اس کا الزام مدرسہ والوں پر نہیں ڈالا جاسکتاہے، اورمدرسہ والے گنہگار نہیں ہوں گے۔ مدرسہ اپنی حیثیت کے مطابق تمام دینی کام کے لئے تیار رہتاہے اور ہرممکن کوشش بھی کرتاہے۔ جن لوگوں کو تجوید پڑھنی ہو وہ مدرسہ والوں سے رابطہ کریں گے تو کوئی حل نکل آئے گا ان شاء اللہ۔ یا پھر علاقہ میں کسی قاری صاحب کے پاس جاکر بھی تجوید پڑھ سکتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند