قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وہ دو آیتیں ہیں:
(۱) {قد جاء کم بصائر من ربکم} (الآیۃ)
(۲) {أفغیر اللّٰہ أبتغي حکماً} (الآیۃ)(۱)

(۱) عبد الرحمن بن أبي بکر، الإتقان في علوم القرآن: ج ۱، ص: ۴۷۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص65

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آیت کریمہ تمام مؤمنین کے لئے ہے، تخصیص کی جو صورت سوال میں مذکور ہے وہ بلا دلیل ہے۔(۱)

(۱) بأن المراد نہیہ عن عدم الفعل لا عن القول۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ آل عمران: ۹۸ إلی ۱۱۵‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۹)
 إنہا نزلت في شأن القتال۔ (أبو محمد الحسین، البغوي، ’’سورۃ الصف: ۶۱‘‘: ج ۵، ص: ۷۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص66

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن پاک کی جملہ آیات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں، سب سے پہلے ’’سورۂ إقرأ‘‘ نازل ہوئی۔(۱)
دیگر انبیاء علیہم السلام پر جو کتابیں نازل ہوئیں ان کے نام ہیں، مثلاً: ’’زبور‘‘ حضرت داؤد علیہ السلام پر، ’’تو رات‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر، ’’انجیل‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔(۲)

(۱) قال ہذہ أول سورۃ أنزلت علی محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ العلق‘‘: ج ۱۶، ص: ۳۱۹)
(۲) عن أبي ذر قال: قلت: یا رسول اللّٰہ کم انزل اللّٰہ من کتاب قال مأۃ کتاب وأربعۃ کتب أنزل علی شیث خمسین صحیفۃ وعلی إدریس ثلاثین صحیفۃ وعلی إبراہیم عشر صحائف وعلی موسیٰ قبل التوراۃ عشر صحائف وأنزل التوراۃ والإنجیل، والزبور والفرقان۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني: تفسیر ’’سورۃ الأعلی‘‘: ۱۹)
{وَّ أٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا ہ۵۵} (سورۃ الإسراء: ۵۵)
{ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلٰٓی أٰثٰرِھِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّیْنَا بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَأٰتَیْنٰہُ الْإِنْجِیْلَ  ۵لا   وَجَعَلْنَا فِيْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ رَاْفَۃً  وَّرَحْمَۃً ط وَرَھْبَانِیَّۃَ  نِ ابْتَدَعُوْھَا مَا کَتَبْنٰھَا عَلَیْھِمْ إِلَّا ابْتِغَآئَ رِضْوَانِ اللّٰہِ فَمَا رَعَوْھَا حَقَّ رِعَایَتِھَاج فَأٰ تَیْنَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا مِنْھُمْ أَجْرَھُمْج وَکَثِیْرٌ مِّنْھُمْ فٰسِقُوْنَہ۲۷} (سورۃ الحدید: ۲۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص67

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کی آیات کی تعداد: ۶۶۶۶؍ ہے۔(۳) اور جمل میں ۶۵۰۰؍ ہے۔(۱)
دوسرا قول یہ ہے کہ ۶۶۱۶؍ آیات ہیں۔

(۱) وأما جملۃ عدد آیاتہ فہو ستۃ آلاف وخمسمأیۃ۔ (الجمل: ج ۱، ص: ۵)
وقال غیرہ: سبب اختلاف السلف في عدد الآي أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقف علی رؤوس الآي للتوقیف فإذا علم محلہا وصل للتمام فیحسب السامع حینئذ أنہا لیست فاصلۃ۔ (عبد الرحمن بن أبي بکر، الإتقان في علوم القرآن، ’’النوع التاسع عشر: في عدد سورۃ وآیاتہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص67

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2787/45-4458

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اتنی تجوید کہ ہر حرف دوسرے حرف سے ممتاز ہو جائے فرض عین ہے، بغیر اس کے نماز قطعاً باطل ہوگی ۔ ایسی غلطی جس سے لفظ تو نہ بدلے مگر اس کی خوبصورتی باقی نہ رہے مثلا غنہ، پُر اور باریک کی غلطی کرنا مکروہ ہے، اس سے ثواب میں کمی آتی ہے، رموز واوقاف کی رعایت بھی لازم ہے بعض صورتوں میں نماز فاسد ہونے کا اندیشہ ہے، مد کی دو بڑی اقسام ہیں مد اصلی اور مد فرعی، مد اصل لازم ہے اور مد فرعی کی ایک قسم مد متصل ہے اس کو مد واجب بھی کہا جاتا ہے، مد منفصل اور مد غیر لازم کے مستحسن ہونے پر قراء کااتفاق ہے، جو شخص جس قدر تجوید جانتا ہو اس قدر دوسروں کوسکھا سکتا ہے، اس کے لئے حافظ ہونا شرط نہیں ہے۔

جو خود تجوید کی رعایت نہ کرتا ہو حروف کی ادائیگی صحیح نہ کرتا ہو اس کے لئے دوسروں کو تعلیم دینا بھی درست نہیں ہے، اگر صحیح پڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور سکھانے میں ادائیگی ٹھیک کرتا ہے تو  تعلیم کی اجازت ہے، اگر غلط سکھائے گا تو گنہگار ہوگا۔  ہر لحن جلی سے نماز فاسد نہیں ہوتی ہے اس لئے جو بھی صورت پیش آئے اس کا حکم معلوم کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 1288/42-628

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی معقول وجہ سے یا انجانے میں ایسا ہوجانے میں کوئی گناہ  کی بات نہیں۔ البتہ اگر کوئی توہین کی غرض سے ، یا کسی اور فاسد نیت سے ڈیلیٹ کرے گا تو ااس کی نیت کے مطابق گناہ ہوگا۔ بعض مرتبہ حفاظت کے لئے یا بے حرمتی سے حفاظت کے لئےڈیلیٹ کرنا ہوتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ کار ثواب سمجھا جائے گا۔   عن عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى (بخاری)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2100/44-2148

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  

ہر فرض نماز کے بعدآیت کریمہ: فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَاءَ کَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ  سات مرتبہ پڑھ کر اور انگلیوں کے سروں پر دم کرکے آنکھوں پر پھیرلیا کریں، إن شاء اللہ آپ کی بینائی ٹھیک ہوجائے گی۔ہرنماز کے بعد گیارہ مرتبہ ”یا نورُ“ پڑھ کر انگلی پر دم کرکے آنکھوں پر پھیر نا بھی بہت مفید ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2008/44-1964

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ عمل قرآن کے ساتھ بے ادبی شمار نہیں ہوتاہے، اس لئے اس طرح گھڑی یا کسی بھی پاک چیز کو قرآن پر رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2103/44-2126

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تجوید وقراءت کے استاذ کو بھی استاذ ہی کہاجائے گا۔ تجوید کے ساتھ قرآن کریم پڑھنا ہر ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے، اگر کسی علاقہ میں لوگوں کی تجوید درست نہ ہو تو اس کا الزام مدرسہ والوں پر نہیں ڈالا جاسکتاہے، اورمدرسہ والے گنہگار نہیں ہوں گے۔ مدرسہ اپنی حیثیت کے مطابق تمام دینی کام کے لئے  تیار رہتاہے اور ہرممکن کوشش  بھی کرتاہے۔ جن لوگوں کو تجوید پڑھنی ہو وہ مدرسہ والوں سے رابطہ کریں گے تو کوئی حل نکل آئے گا ان شاء اللہ۔ یا پھر علاقہ میں کسی قاری صاحب کے پاس جاکر بھی تجوید پڑھ سکتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم پڑھتے اورپڑھاتے وقت ابتداء میں تلاوت شروع کرتے ہوئے تعوذ اور ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھنا سنت ہے: جیسا کہ معارف القرآن میں حضرت مفتی شفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا: تلاوت قرآن کے علاوہ کسی دوسرے کلام یا کتاب پڑھنے سے پہلے ’’أعوذ باللّٰہ‘‘ پڑھنا سنت نہیں ہے وہاں صرف ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھنی چاہئے۔(۲)
مفسر کے درسِ قرآن کا مقصد قرأت قرآن کریم نہیں ہے؛ اس لئے ابتداء میں ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھ لینا کافی ہے جیسا کہ علامہ ابن عابدینؒ نے لکھا ہے:
’’وحاصلہ أنہ إذا أراد أن یأتي بشيء من القرآن کالبسملۃ والحمدلۃ، فإن قصد بہ القراء ۃ تعوذ قبلہ وإلا فلا، وکما لو أتی بالبسملۃ في افتتاح الکلام کالتلمیذ حین یبسمل في أول درسہ للعلم فلا یتعوذ، وکما لو قصد بالحمدلۃ الشکر، وکذا إذا تکلم بغیر ما ہو من القرآن فلا یسن التعوذ بالأولیٰ‘‘(۱)
فتاویٰ عالمگیر میں ہے:
’’إذا أراد أن یقول بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم، فإن أراد افتتاح أمر لا یتعوذ، وإن أراد قراء ۃ القرآن یتعوذ، کذا فی السراجیۃ‘‘(۲)
قرأت کا ارادہ ہو تو ’’أعوذ باللّٰہ‘‘ اور ’’بسم اللّٰہ‘‘ دونوں پڑھنا چاہئے اور اگر قرأت کا ارادہ نہ ہو؛ بلکہ درس وتدریس یا تفسیر کا ہو تو تعوذ پڑھنا بھی کوئی ضروری نہیں ہے
’’قال العلامۃ آلوسي رحمہ اللّٰہ: {فَإِذا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّہِ} أي إذا أردت قراء ۃ القرآن فاسألہ عز جارہ أن یعیذک مِنَ وساوس الشَّیْطانِ الرَّجِیمِ کی لا یوسوسک في القراء ۃ‘‘(۳)

(۲) مفتي شفیع عثمانيؒ، معارف القرآن، ’’سورۃ النحل: ۸۹‘‘: ج ۵، ص: ۳۸۹۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: فروع قرأ بالفارسیۃ أو التوراۃ أو الإنجیل‘‘: ج ۱، ص: ۴۸۹۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع: في الصلوٰۃ والتسبیح وقراء ۃ القرآن‘‘: ج ۵، ص: ۳۶۵۔
(۳) علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ النحل: ۹۸‘‘: ج ۸، ص: ۳۳۷۔


 فتاوی  دارالعلوم وقف  دیوبند ج2ص68