قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم سے اوپر بیٹھنا یا کھڑا ہونا، عذر کی وجہ سے ہو تو درست ہے اور اگر بلا عذر ہو، تو قرآن کے احترام کے خلاف ہے۔ دانستہ ایسا کرنا باعث گناہ ہے۔(۱)

(۱) مد الرجلین إلی جانب المصحف إن لم یکن بحذائہ لا یکرہ وکذا لو کان المصحف معلقا في الوتد وہو قد مد الرجل إلی ذلک الجانب لا یکرہ، کذا في الغرائب۔ (جماعۃ من العلماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الخامس: في آداب المسجد، والقبلۃ، والمصحف‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۳)
رجل وضع رجلہ علی المصحف إن کان علی وجہ الاستخفاف یکفر وإلا فلا، کذا في الغرائب۔ (’’أیضاً:‘‘)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص59
 

قرآن کریم اور تفسیر

Ref.  No. 2297/45-4127

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پہلا واقعہ کہ جب فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنا چاہا تو فرعون کی بیوی نے کہا کہ یہ بچہ ہے اور امتحان کے لئے آگ کا انگارا اور کھجور کا طشت دیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انگارے کو لیا اس واقعہ کو ابن کثیر اور رازی نے تفسیر کبیر میں ذکر کیا ہے، لیکن کوئی سند ذکر نہیں کی ہے، بعض حضرات نے اسے اسرائیلی روایت قرار دیا ہے جس کی ہم نہ تصدیق کرتے ہیں اور نہ ہی تکذیب کرتے ہیں، دوسرا واقعہ اجمالی طور پر قرآن میں اور تفصیلی طور پر احادیث میں مذکور ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2094/44-2143

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر گھر میں کوئی محرم نہیں ہے تو عورت کے لئے بلند آواز سے  تلاوت کرنے کی اجازت ہے، لیکن اگر عورت ایسی جگہ ہے کہ  بلند آواز سے تلاوت کرنے میں اس کی  آواز  غیر محرم کے کان میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو پھراس کی اجازت نہ ہو گی۔ عورت کی آواز فتنہ کا باعث ہوسکتی ہے، اس لئے غیرمحرم تک آواز نہیں پہونچنی چاہئے۔

مسألة): قال فى النوازل: نغمة المرأة عورة، و لهذا قال عليه السلام: التسبيح للرجال و التصفيق للنساء، قال ابن الهمام: و على هذا لو قيل: إن المرأة إذا جهرت بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجهًا ."(التفسير المظهري 1 / 1311)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 1171 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔سورہ مومنون کی آیت نمبر 14 ہے فتبارک اللہ احسن الخالقین۔ اس میں خالقین سے مراد پیداکرنے والے نہیں ہیں بلکہ صناع یعنی صرف جوڑ توڑ کرنے والے مراد ہیں۔ حقیقت میں حیات دینا اور بغیر کسی وسیلہ کے پیدا کرنا خاص اللہ ہی کا کام ہے۔ اور لفظ خلق کا اطلاق لغوی معنی کے اعتبارسے دوسرے صناع پر کردیا گیا ہے۔ لفظ خلق کے لغوی حقیقی معنی شیء معدوم کو بغیر کسی انسانی وسائل کے وجود میں لانا ہے جو صرف ذات باری تعالی پر ہی صادق آتا ہے۔ آیت مذکورہ میں ظاہری تقابل ہے مگر حقیقت میں دونوں میں کوئی مناسبت ہی نہیں ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن پاک اچھی آواز سے پڑھنا مراد ہے جو مستحب ہے، لیکن مروجہ گانے کی طرح آواز بنا کر پڑھنا مکروہ ہے۔(۲)

(۲) عن عبد الرحمن بن السائب، قال: قدم علینا سعد بن أبي وقاص، وقد کف بصرہ، فسلمت علیہ، فقال من أنت؟ فأخبرتہ، فقال: مرحباً بابن أخي، بلغني أنک حسن الصوت بالقرآن، سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: (إن ہذا القرآن نزل بحزن، فإذا قرأتموہ فأبکوا، فإن لم تبکوا فتباکوا،… وتغنوا بہ فمن لم یتغن بہ فلیس منا)۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلوٰۃ والسنۃ: باب في حسن الصوت بالقرآن‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۶، رقم: ۱۳۳۷)
والخلاف جار في الحدیث الأخر لیس منا من لم یتغن بالقرآن والصحیح أنہ من تحسین الصوت ویؤیدہ الروایۃ الأخری، یتغني بالقرآن یجہر بہ۔ (علامہ نووي، علی شرح المسلم، ’’کتاب فضائل القرآن: باب استحباب تحسین الصوت بالقرآن‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۸)
وقال النووي رحمہ اللّٰہ، أیضاً: قال القاضي أجمع العلماء علی استحباب تحسین الصوت بالقرأۃ وترتیلہا، قال أبو عبید: والأحادیث الواردۃ في ذلک محمولۃ علی التحزین والتشویق، قال: واختلفوا في القرأۃ بالألحان فکرہما مالک والجمہور رحمہم اللّٰہ لخروجہا عما جاء القرآن لہ من الخشوع والتفہم وأباحہا أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ وجماعۃ من السلف للأحادیث الخ۔ (’’أیضاً:‘‘)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص59

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسابقہ قرأت کا عنوان ہو یا مظاہرہ قرأت کا اس سے قرآن کو بہترین طریقہ پر پڑھنے کا رواج پیدا ہوتا ہے، جب کہ حدیث شریف میں بھی فرمایا کہ ’’حسنوا القرآن بأصواتکم‘‘ کہ قرآن پاک کو بہترین سے بہترین انداز پر پڑھو کہ اس میں شان اسلام کو سلام ہے؛ اس لیے یہ امر مستحسن ہے اور باقی رہا انعام کا معاملہ یہ ترغیب کے لیے ہے، اس کو بھی جائز قرار دیا جاسکتا کہ ترغیب عبادت اعانت علی الطاعت کے قبیل سے ہے جس پر وعدہ ثواب ہے۔
البتہ نمبر کی کمی زیادتی کی وجہ سے ممتحن کی غیبت کرنے والا گنہگار ہوگا۔ جب کہ یہ باتیں تمام امتحانات میں ہوتی ہیں، مدارس دینیہ اسلامیہ کے امتحانات ہوں یا اسکولوں اور کالجوں کے ، آپ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ آپ اس کے محاسن پر نظر ڈالیں۔(۱)

(۱) ویجوز إذا کان البدل من جانب واحد بأن قال إن سبقتک فلی کذا وإن سبقتني فلا شيء لک وإن کان البدل من الجانبین فہو حرام لأنہ قمارٌ إلا إذا أدخلا محلِّلاً بینہما … إلی … وما یفعلہ الأمراء فہو جائز بأن أن یقولوا الإثنین أیکما سبق فلہ کذا۔ (ابن عبادین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ‘‘: ج ۹، ص: ۳۱۰)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال ما أذن اللّٰہ لشيء ما أذن النبي حسن الصوت یتغني بالقرآن۔ (أخرجہ مسلم، في سننہ، ’’کتاب فضائل القرآن: باب استحباب تحسین الصوت بالقرآن: ج ۱، ص: ۲۶۸، رقم: ۷۹۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص60

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایک طرف قرآن کریم کا عربی متن ہو اور دوسری طرف دوسری زبان میں قرآن کریم لکھا جائے تاکہ جو لوگ عربی زبان میں قرآن نہیں پڑھ سکتے ہیں وہ دوسری زبان میں قرآن پڑھ لیں یہ مسئلہ اہل علم کے درمیان مختلف فیہ ہے، بعض حضرات اسے ناجائز کہتے ہیں؛ اس لیے کہ قرآن کریم کو رسم عثمانی کے علاوہ میں لکھنا درست نہیں ہے، جب کہ بعض حضرات نے ضرورت اور تبلیغ دین کی اشاعت کے پیش نظر اس کی گنجائش دی ہے۔ فقہ اکیڈمی انڈیا نے چند شرائط کے ساتھ اس کی گنجائش دی ہے۔ فقہ اکیڈمی کی تجویز کے الفاظ ہیں: اصل تو یہ ہے کہ صرف عربی رسم الخط میں قرآن کریم کی اشاعت کی جائے؛ لیکن ضرورتاً عربی متن کے ساتھ درج ذیل شرائط کے ساتھ اشاعت کی گنجائش ہے۔

(الف) قرآن کریم کی ترتیب نہ بدلے۔ (ب) مخارج کا حتی الامکان لحاظ کیا ہے۔ (ج) عثمانی رسم الخط کی تمام خصوصیات کے لیے جامع مانع اصطلاحات وضع کر کے اس زبان کے رسم الخط کو مکمل کرنے کی پوری کوشش کی جائے۔(۱)
’’سئل الإمام الشہاب الرملي ہل تحرم کتابۃ القرآن العزیز بالقلم الہندي أو غیرہ فأجاب بأنہ لا یحرم لأنہ دلالۃ علی لفظہ العزیز ولیس فیہا تغییر لہ وعبارۃ الاتقان للسیوطي ہل یحرم کتابتہ بقلم غیر العربي، قال الزرکشي لم أرفیہ کلاما لأحد من العلماء ویحتمل الجواز لأنہ قد یحسنہ من یقرأہ والأقرب المنع والمعتمد الأول‘‘۔(۲) وافتی شیخنا الرملي بجواز کتابۃ القرآن بالقلم الہندي وقیاسہ جوازہ بنحوالترکي أیضا:(۳)

(۱) نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے: ص: ۱۴۶
(۲) حاشیۃ الجمل علی شرح المنہج للجمل: ج ۱، ص: ۱۲۳۔
(۳) حاشیۃ الحیرمي: ج ۱، ص: ۳۷۴۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص61

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کے لیے جو اعضاء ذکر کئے گئے ہیں، جیسے: ہاتھ، پنڈلی ، وجہ وغیرہ اس بارے میں مفسرین کے دو قول ہیں:
 ایک یہ کہ ان اعضاء کو انسانی اعضاء پر قیاس نہ کیا جائے؛ بلکہ ان سے مراد وہ اعضاء نورانی ہیں جو شان الٰہی کے موافق ہوں(۱) اور دوسرے یہ کہ ایسے اعضاء بول کر ذات خداوند کی بعض صفات مراد ہیں، بہر کیف انسانی اعضاء کی طرح اللہ تعالیٰ کے اعضاء ہوں یہ مراد نہیں ہے؛ اس لیے کوئی تشبہ جسم وغیرہ میں پیدا نہیں ہوتا۔(۲)
 

(۱) وإنما یسلک في ہذا المقام مذہب السلف من ائمۃ المسلمین قدیماً وحدیثاً وہو إمرارہا کما جائت من غیر تکییف ولا تشبیہ ولا تعطیل۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ الأعراف: ۵۴‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس عقیدہ میں حضرات سلف کے مسلک پر ہوں کہ نصوص اپنی حقیقت پر ہیں مگر ’’کنہ‘‘ اس کی معلوم نہیں۔ (أشرف علي التھانوي، إمداد الفتاویٰ: ج ۶، ص: ۴۲۵)
(۲) وأما ما قال المتأخرون من ائمتنا في تلک الآیات یؤولونہا بتأویلات صحیحۃ سائغۃ في اللغۃ والشرع بأنہ یمکن أن یکون المراد من الاستواء الاستیلاء ومن الید القدرۃ إلی غیر ذلک تقریبا إلی أفہام القاصرین فحق أیضا عندنا۔ (خلیل أحمد سہارنفوري، المہند علی المفند: ص: ۱۲)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص63

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:طبرانی نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ قرآن پاک کے دس لاکھ ستائیس ہزار حروف ہیں۔(۱)

(۱) وأخرج الطبراني عن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ، مرفوعاً: القرآن ألف ألف حرف وسبعۃ وعشرون ألف حرف۔ (عبد الرحمن بن أبي بکر، الإتقان في علوم القرآن: ج ۱، ص: ۲۴۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص63

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر دل دل میں پڑھا جائے تب بھی ثواب ملتا ہے اور اگر زبان سے بھی پڑھ لیا جائے، تو اور زیادہ ثواب ملتا ہے؛ البتہ اگر آیت سجدہ صرف دل دل میں پڑھے، تو سجدہ تلاوت واجب نہ ہوگا؛ کیوں کہ یہ دنیاوی حکم ہے۔(۲)

(۲) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أنہ کان یقول قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لم یأذن اللّٰہ لشيء ما أذن أن یتغنی بالقرآن وقال صاحب لہ یرید یجہر بہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب فضائل القرآن: باب من لم یتغن بالقراء ۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۵۱، رقم: ۵۰۲۳)
(و) أدنی (الجہر إسماع غیرہ و) أدنی (المخافتۃ إسماع نفسہ) ومن بقربہ؛ فلو سمع رجل أو رجلان فلیس بجہر، والجہر أن یسمع الکل خلاصۃ (ویجري ذلک) المذکور (في کل ما یتعلق بنطق، کتسمیۃ علی ذبیحۃ ووجوب سجدۃ تلاوۃ وعتاق وطلاق واستثناء) وغیرہا۔… (قولہ وأدنی الجہر إسماع غیرہ إلخ) اعلم أنہم اختلفوا في حد وجود القراء ۃ علی ثلاثۃ أقوال: فشرط الہندواني والفضلي لوجودہا خروج صوت یصل إلی أذنہ، وبہ قال الشافعي۔
وشرط بشر المریسي وأحمد خروج الصوت من الفم وإن لم یصل إلی أذنہ، لکن بشرط کونہ مسموعا في الجملۃ، حتی لو أدنی أحد صماخہ إلی فیہ یسمع۔
ولم یشترط الکرخي وأبو بکر البلخي السماع، واکتفیا بتصحیح الحروف۔ واختار شیخ الإسلام وقاضي خان وصاحب المحیط والحلواني قول الہندواني، وکذا في معراج الدرایۃ۔ ونقل في المجتبی عن الہندواني أنہ لا یجزیہ ما لم تسمع أذناہ ومن بقربہ، وہذا لا یخالف ما مر عن الہندواني لأن ما کان مسموعا لہ یکون مسموعا لمن في قربہ کما في الحلیۃ والبحر۔ ثم إنہ اختار في الفتح أن قول الہندواني وبشر متحدان بناء علی أن الظاہر سماعہ بعد وجود الصوت إذا لم یکن مانع۔ وذکر في البحر تبعا للحلیۃ أنہ خلاف الظاہر، بل الأقوال ثلاثۃ۔ وأید العلامۃ خیر الدین الرملي في فتاواہ کلام الفتح بما لا مزید علیہ، فارجع إلیہ۔ وذکر أن کلا من قولي الہندواني والکرخي مصححان، وأن ما قالہ الہندواني أصح وأرجح لاعتماد أکثر علمائنا علیہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المختار، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۳۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص64