Frequently Asked Questions
قرآن کریم اور تفسیر
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 1450/42-928
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن کریم کتابِ ہدایت اور دستور حیات ہے، اس لئے ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ قرآن کریم سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے، تاہم سمجھ کر تلاوت کرے یا بغیر سمجھے تلاوت کرے دونوں صورتوں میں ثواب ملتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 1443/42-945
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وباللہ التوفیق:۔مذکورہ سوال کے تین اجزاء ہیں:
(۱) تفسیر بالرائے: تفسیر بالرائے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی کسی آیت،جملہ یا کلمہ کی تشریح توضیح محض ذاتی رائے اور سمجھ کی بنیاد پر کی جائے، قرآن فہمی کے جو اصول وشرائط ہیں ان کی رعایت اور پاسداری نہ کی جائے اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے،ایک اور روایت ہے: فرمایا جس نے علم کے بغیر قرآن میں کوئی بات کہی تو اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے،ایک جگہ اور ارشاد ہے:جس نے قرآن کریم میں اپنی رائے سے کچھ کہا اور درست کہا، تب بھی اس نے غلطی کی، (مرقاۃ المفاتیح: ج ۱، ص: ۵۴۴) مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ بغیر علم کے قرآن کی تفسیر یا مفہوبیان کرناتکلیف دہ اور جرأت کی بات کے ساتھ ساتھ انتہائی غیر ذمہ دارانہ اقدام ہے اس لئے آئندہ اس کا خاص خیال رکھا جائے۔
(۲) دونوں آیتوں کا صحیح مفہوم: (وقالوا أإذا کنا عظاما الخ) یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم مر کر ہڈیاں اور چورا یعنی ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا اس کے بعد قیامت میں ہم از سر نو پیدا اور زندہ کئے جائیں گے اول تو مر کر زندہ ہونا مشکل ہے، (قل کونوا حجارۃ أو حدیدا) اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:آپ فرما دیجئے کہ تم ہڈیوں سے حیات کو بعید کہتے ہو اور ہم کہتے ہیں کہ تم پتھر، لوہا یا اور کوئی ایسی مخلوق ہو کر دیکھ لو جو تمہارے ذہن میں قبول حیات سے بعید ہو دیکھو زندہ کئے جاؤ گے یا نہیں؟ یعنی یقینا تم ضرور دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے۔ (مفتی محمد شفیع، بیان القرآن: ج 2، ص: 150)
(یا معشر الجن والإنس إن ستطعتم الخ) اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے جنات اور انسانوں اگر تمہیں یہ گمان ہو کہ ہم کہیں بھی بھاگ جائیں اور ملک الموت کے تصرف سے بچ جائیں گے یا میدان حشر سے بھاک کر نکل جائیں گے اور حساب و کتاب سے بچ جائیں گے تو تم اپنی قوت آزمالو اگر تمہیں اس پر قدرت ہے کہ آسمان و زمین کے دائروں سے باہر نکل جاؤگے تو نکل کر دکھلاؤیہ کوئی آسان کام نہیں ہے اس کے لئے تو بہت بڑی قوت وقدرت درکار ہے جو جناتوں اور انسانوں کی کی دونوں قوموں کو حاصل نہیں ہے، اس آیت کے مفہوم سے ان خلائی سفروں اور سیارات پر پہونچنے کے واقعات کا کوئی تعلق نہیں ہے۔(معارف القرآن ص:255،ج:8)
(۳) دونوں آیتوں (قل کونوا حجارۃ الخ) اور (یا معشر الجن والإنس الخ) کی تفسیر جو آپ نے کی ہے وہ آپ کے سوال سے ظاہر ہے کہ دونوں آیتوں کا صحیح مفہوم جواب کا دوسرا جز میں ذکر ہو چکا ہے اس لئے آئندہ کے لئے احتیاط برتیں، کسی بھی آیت کا مطلب بغیر علم کے خود سے ہر گز نہ بتائیں،کسی عالم دین سے سمجھ لیں پھر بیان کریں،آپ نے جن دوستوں کو غلط مطلب بتا یا ہے ان سے اب دونوں آیتوں کا صحیح مفہوم کی وضاحت کردیں (إن شاء اللّٰہ) مواخذہ نہیں ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سورہ فیل کا جو مصور خاکہ آپ نے تحریر سوال کے ساتھ ارسال کیا ہے اس کو دیکھا تو تعجب ہوا کہ تجارت کے فروغ یا نفس امارہ کی خوشنودی کے لئے کوئی نام کا مسلمان شیطان کا آلہ کار بن کر اسلامی اقدار سے نیچے بھی گرسکتا ہے اور یہ صورت تصحیف کی بھی ہے اور تحریف کی بھی ہے اور جاندار کی صورت میں آیات قرآنی لکھنا، قرآن کی عظمت کے خلاف ہے؛ بلکہ توہین آمیز عمل ہے جس نے ایسا کیا یا کر رہا ہے، اگر وہ دانستہ طور پر ایسا کر رہا ہے، تو شرعی اعتبار سے وہ اسلام سے خارج ہے۔ توبہ واستغفار اور تجدید ایمان اس پر ضروری ہے اور تجدید نکاح بھی ضروری ہے۔ مسلمانوں کو مذکورہ خاکوں کا خریدنا، اپنے پاس رکھنا بھی قطعاً ناجائز ہے اور اگر وہ قرآن کریم کی عظمت وتقدس کا قائل ہے اور دل سے اسے اللہ کا کلام ولائق احترام سمجھتا ہے، پھر بھی اس نے غفلت میں یا اسے ایک اچھا نمونہ سمجھ کر ایسا کیا ہے، تو وہ دائرۂ ایمان سے تو خارج نہیں؛ لیکن غلطی پر ہے اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے، اس پر توبہ واستغفار لازم ہے۔(۱
(۱) قال في الإتقان وقال أشہب: سئل مالک ہل یکتب المصحف علی ما أحدثہ الناس من الہجاء؟ فقال: لا إلا علی کتبۃ الأولیٰ۔ (الإتقان، ’’النوع السادس والسبعون: مرسوم الخط‘‘: ج ۴، ص: ۱۶۸؛ بحوالہ: إمداد الأحکام، کتاب العلم: ج ۱، ص: ۲۴۰)
)
فقط: واللہ اعلم بالصواب
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 1424/42-927
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح سوچنا غلط نہیں ہے، سمعنا منادیا للایمان کی تفسیر میں بعض مفسرین نے منادی آپﷺ کو قراردیا ہے اور بعض مفسرین نے قرآن کو منادی قراردیاہے ۔ اس طرح علماء وداعیان کو بھی منادی قراردیاجاسکتاہے۔ اور یہ تفسیر تو ماثور ہے اس کو تفسیر بالرائے نہیں کہاجائے گا۔
رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ قال ابن عباس وأكثر المفسرين المنادي هو محمد صلّى الله عليه وسلّم ويدل على صحة هذا قوله تعالى: ادْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وقوله: وَداعِياً إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وقال محمد بن كعب القرظي المنادي هو القرآن قال إذ ليس كل أحد لقي النبي صلّى الله عليه وسلّم ووجه هذا لقول أن كل أحد يسمع القرآن ويفهمه فإذا وفقه الله تعالى للإيمان به فقد فاز به. وذلك لأن القرآن مشتمل على الرشد والهدى وأنواع الدلائل الدالة على الوحدانية فصار كالداعي إليها (تفسیر الخازن، سورۃ آل عمران 1/333)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 2123/44-2226
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس آیت میں عام ضابطہ بیان کیاگیا ہے کہ اللہ نے طبائع میں جوڑرکھا ہے،۔ بدکار مرد و بدکار عورتوں میں ایک دوسرے کی طرف رغبت ، اسی طرح نیک مرد اور نیک عورتوں میں ایک دوسرے کی طرف رغبت طبعی طورپر رکھی گئی ہے؛ ہر ایک اپنی رغبت کے مطابق اپنا جوڑ ڈھونڈ لیتاہے، اور اس کو وہی مل جاتاہے اور وہی اس کے مناسب ہوتاہے۔ البتہ بعض مرتبہ اس کے خلاف بھی ہونا ممکن ہے کہ نیک مرد کو بدکار یا بدکار مرد کو نیک عورت مل جائے۔ شرعا یہ تمام نکاح درست ہیں، اور اس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ (ماخوز از معارف القرآن سورہ النور پار ہ 18)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 1007 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مولانا مودودی صاحب کی چند باتیں جمہور سے مختلف ہیں ۔ اس لئےاحتیاط کا مشورہ دیاجاتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 2705/45-4183
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس نے قرآن کریم حفظ کیا اور اس کو یاد رکھنے میں حتی المقدور کوشش کی تو وہ بھی حافظ قرآن کے زمرے میں ہی ہوگا۔ حافظ قرآن ہونا بڑی سعادت کی بات ہے اور جس قدر قرآن پختہ ہو اسی قدر سعادت کا درجہ بھی ہے تاہم بار بار یاد کرنے پر بھی کچھ حصہ کا پختہ نہ ہونا قیامت میں سرخروئی کے لئے مانع نہیں ہوگا۔ ان شاء اللہ ۔ بہرحال ، مسواک کا اہتمام،تقوی و پر ہیزگاری کو لازم پکڑنا، بدنگاہی اور بدزبانی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا، اور اہل حق مشائخ سے رابطہ قوی رکھنا حفظ قرآن میں سہولت کا باعث ہوگا،ان شاء اللہ تعالیٰ۔
:-’’اَلْمَاہِرُ بِالْقُرْأٰنِ مَعَ السَّفَرَۃِ الْکِرَامِ الْبَرَرَۃِ ،وَالَّذِیْ یَقْرَئُ الْقُرْأٰنَ وَ یَتَتَعْتَعُ فِیْہِ وَہُوَ عَلَیْہِ شَاقٌّ لَہٗ أَجْرَانِ۔‘‘ (رواہ البخاری ، ج:۱، ص:۲۶۹)
:-’’مَنْ قَرَأَ الْقُرْأٰنَ اسْتَدْرَجَ النُّبُوَّۃَ بَیْنَ کَتِفَیْہِ إِلَّا أَنَّہٗ لَا یُوْحٰی إِلَیْہِ لَا یَنْبَغِیْ لِصَاحِبِ الْقُرْأٰنِ أَنْ یَّحِدَّ مَعَ مَنْ یَّحِدُّ وَلَا یَجْہَلَ مَعَ مَنْ یَجْہَلُ وَفِيْ جَوْفِہٖ کَلَامُ اللّٰہِ۔‘‘ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان والحاکم فی المستدرک ، قلت: قال الحاکم فی المستدرک علی شرط الشیخین، ج:۱،ص:۵۵۲ )
اَلْقُرْآنُ أَفْضَلُ مِنْ کُلِّ شَيْئٍ فَمَنْ وَقَّرَ الْقُرْأٰنَ فَقَدْ وَقَّرَ اللّٰہَ وَمَنِ اسْتَخَفَّ بِالْقُرْآنِ اسْتَخَفَّ بِحَقِّ اللّٰہِ تَعَالٰی، حَمَلَۃُ الْقُرْآنِ ہُمُ الْمَحْفُوْفُوْنَ بِرَحْمَۃِ اللّٰہِ الْمُعَظِّمُوْنَ کَلَامَ اللّٰہِ الْمُلْبَسُوْنَ نُوْرَ اللّٰہِ فَمَنْ وَالَاہُمْ فَقَدْ وَالَی اللّٰہَ وَمَنْ عَادَاہُمْ فَقَدِ اسْتَخَفَّ بِحَقِّ اللّٰہِ تَعَالٰی۔(الجامع لاحکام القرآن للقرطبیؒ، ج:۱،ص:۲۶)
:-’’إِنَّ عَدَدَ دَرَجِ الْجَنَّۃِ بِعَدَدِ آیِ الْقُرْآنِ، فَمَنْ دَخَلَ الْجَنَّۃَ مِمَّنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَلَیْسَ فَوْقَہٗ أَحَدٌ۔‘‘ (البیہقی فی شعب الایمان بسند حسن ، الجامع الصغیر،ج:۲،ص:۴۵۸)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 2247/44-2381
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لوگوں کو قرآن کریم سے قریب کرنے اور تجوید وقراءت کی ترغیب دینے کے لئے شرعی حدود میں رہ کر محفل حسن قراءت کا انعقاد فی نفسہ جائز ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 1020
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والنا لہ الحدید(اور ہم نے ان کے لئے لوہا نرم کردیا) کی تفسیر میں ائمہ تفسیر حضرت حسن بصری، قتادہ، اعمش وغیرہم نے فرمایا کہ یہ اللہ نے بطور معجزہ لوہے کو ان کے لئے موم کی طرح نرم بنادیا تھا(معارف القرآن ج7 ص261)۔ دوسری بات :اللہ کا ان کاموں کو اپنی طرف منسوب کرناکہ میں نے ایسا کردیا اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے کہ یہ ایک معجزہ تھا ایک خرق عادت امر تھا۔ نبی کے ہاتھ پر خرق عادت امر کا ظاہر ہونا ہی معجزہ کہلاتا ہے۔تیسری بات :یہاں پر حضرت داؤد علیہ السلام کی خصوصیات کا بیان ہے اگر ان کو معجزہ نہ مانا جائے تو آپؑ کے مخصوص فضل وشرف کے بیان میں ان کا شمار کرنا بے معنی ہوجائے گا(العیاذ باللہ) ۔ چوتھی بات: ذاتی کارنامے دنیاوی اسباب پر منحصر ہوتے ہیں ،جبکہ معجزات کی بنیاد اسباب پر نہیں ہوتی ۔ ھذا ماظہر لی واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند