Frequently Asked Questions
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ نے جو سمجھا وہ غلط سمجھا، حدیث مذکور(۱) کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بطور جرمانہ کے نصف دینار پہلے ادا کرکے حالت حیض میں صحبت کرلے؛ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حالت حیض میں صحبت حرام ہے(۲) جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے؛ لیکن اگر کسی نے صحبت کرلی، تو بطور جرمانہ وسزا کے نصف دینار صدقہ کرے(۳) جیسا کہ فاسد روزے کی سزا وجرمانہ کفارہ ہے۔ {یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِط قُلْ ھُوَ أَذًیلا فَاعْتَزِلُوا النِّسَآئَ فِي الْمَحِیْضِلا وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْھُرْنَج}(۴)
(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: إذا وقع الرجل بأہلہ وہي حائض فلیتصدق بنصف دینار، رواہ الترمذي وأبوداود والنسائي والدارمي وابن ماجہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الحیض، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۵۶، رقم: ۵۵۳)
(۲) ولو أتاہا مستحلا کفر وعالماً بالحرمۃ ارتکب کبیرۃ ووجبت التوبۃ ویتصدق بدینار أو بنصفہ استحباباً۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارت: باب الحیض والاستحاضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۴، حاشیہ: ۹)
(۳) ویندب تصدقہ بدینار أو نصفہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض، متصل مطلب في حکم وطء المستحاضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۴)
(۴) سورۃ البقرۃ: ۲۲۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص76
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مرتبہ میں تو کوئی بھی نبی کے برابر نہیں ہوسکتا، اب اس قول کا مطلب یہ ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے انبیاء سے دعوت اور دین کی اشاعت کا کام لیا، ایسے ہی یہ کام امت محمدیہ کے علماء بھی کریں گے۔(۱) یہ حدیث انتہائی ضعیف ہے؛ لیکن اس کا مفہوم کسی دینی امر سے معارض نہیں ہے۔(۲)
(۱) معناہ صحیح لکنہ ضعیف من حیث أنہ مسند إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (العثیمین، شرح الأربعین: ج ۱، ص: ۴۵)
(۲) علماء أمتي کأنبیاء بني إسرائیل، حدیث متکلم فیہ والصحیح من قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: العلماء أمناء الرسل والعلماء أمناء اللّٰہ علی خلقہ۔ (محمد عبدالرؤف المناوي، فیض القدیر: ج ۱، ص: ۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص77
حدیث و سنت
Ref. No. 39 / 806
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حدیث کی کتابوں میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ملا، اس لئے اس کو بیان کرنے اور دوسروں تک پہونچانے سے گریز کرنا چاہئے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ ارشاد گرامی تو صغیرہ گناہوں کے بارے میں اطمینان ویقین دلاتا ہے، کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے ہیں، ان احادیث کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے بھروسے پر گناہ کرنے لگے؛ بلکہ اپنے گناہوں پر نادم ہوں اور پاک باز بننے کی سعی کریں، تویہ چیز اس میں مددگار ثابت ہوگی۔(۳)
(۳) إن المراد بہذا وأمثالہ غفران الصغائر۔ (عمدۃ القاري، ’’کتاب الطہارۃ: باب الاستنثار في الوضوء‘‘: ج ۳، ص: ۱۳، رقم: ۱۶۰؛ علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي علی الترمذي: ج ۱، ص: ۴)
یکفر کل شيء إلا الدین ظاہر أنہ یکفر الکبائر حقوق اللّٰہ أیضاً: والمشہور إنہا لا تکفر إلا بالتوبۃ۔ (شبیر أحمد العثماني، فتح الملہم: ج ۳، ص: ۴۱۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص78
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایک عورت چا ر مردوں کو جہنم میں لے کر جائے گی۔ اس کے لیے عربی عبارت اس طرح ذکر کی جاتی ہے ’’إذا دخلت امرأۃ النار ادخلت معہا أربعۃ، أباہا و زوجہا و أخاہا و إبنہا‘‘۔ اس طرح صراحت کے ساتھ کوئی روایت میری نظرسے نہیں گزری ہے۔ غور کیا جائے، تو معلوم ہوتاہے کہ یہ روایت اصول شریعت کے بھی خلاف ہے؛ اس لیے کہ قرآن میں ہے {وَلَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَیْھَاج وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃ۔ٌ وِّزْرَ أُخْرٰیج}(۱) کہ کل قیامت میں کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، یعنی کوئی کسی کے گناہ کی سزاکسی دوسرے کو نہیں دی جائے گی۔ اسی طرح دوسری آیت میں بھی یہی مضمون بیان کیا گیا ہے۔ {أَمْ لَمْ یُنَبَّأْ بِمَا فِي صُحُفِ مُوسَی{۳۶} وَإِبْرَاہِیمَ الَّذِي وَفَّی{۳۷} أَلا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرَی{۳۸} وَأَنْ لَیْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَی}(۲) ایک حدیث ترمذی میں ہے کہ کوئی جنایت کرتا ہے، تو اس کی سزا اسی کو ہوگی، کسی کے باپ کے جرم کی سزا اس کے بیٹے کو یا بیٹے کے جرم کی سزا باپ کو نہیں دی جائے گی ’’إن دمائکم وأموالکم وأعراضکم بینکم حرام کحرمۃ یومکم ہذا في بلدکم ہذا، ألا لا یجني جان إلا علی نفسہ، ألا لا یجني جان علی ولدہ ولا مولود علی والدہ‘‘(۱)
حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی جہنم میں جائیں گی؛ لیکن ان کے شوہر حضرت لوط اور حضرت نوح علیہ السلام جنت میں جائیں گے؛ اس لیے اصول شریعت پر یہ حدیث منطبق نہیں ہوتی ہے؛ البتہ بعض دوسری روایات سے اس کی تائید ضرور ہوتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ تم میں سے ہر ایک ذمہ دار اور نگراں ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ امام نگراں ہے، اس سے اس کی رعایہ کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور مرد نگراں ہے، اس سے اس کی بیوی بچوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے، اس سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
’’أن عبد اللّٰہ بن عمر، یقول: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: کلکم راع، وکلکم مسئول عن رعیتہ، الإمام راع ومسئول عن رعیتہ، والرجل راع في أہلہ وہو مسئول عن رعیتہ، والمرأۃ راعیۃ في بیت زوجہا ومسئولۃ عن رعیتہا، والخادم راع في مال سیدہ ومسئول عن رعیتہ‘‘(۲) بہت ممکن ہے کہ اس طرح کی روایت کو سامنے رکھ کر یہ مضمون بنایا گیا ہو، ورنہ سوال میں درج کردہ الفاظ احادیث کے ذخیرہ میں نہیں ملتے ہیں۔
(۱) سورۃ الأنعام: ۱۶۴۔
{وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُھُمْ أَوْلِیَآئُ بَعْضٍم یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَیُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ ط أُولٰٓئِکَ سَیَرْحَمُھُمُ اللّٰہُط إِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌہ۷۱} (سورۃ التوبۃ: ۷۱)
(۲) سورۃ النجم: ۳۶ - ۳۹۔
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الفتن: باب ما جاء دماؤکم وأموالکم علیکم حرام‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۸، رقم: ۲۱۵۹۔
(۲) أخرجہ البخاری، في صححیہ، ’’کتاب الجمعۃ: باب الجمعۃ، في القریٰ والمدن‘‘: ج ۱، ص: ۸۲۰، رقم: ۸۹۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص79
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ حدیث مسلم شریف کی ہے، جس میںحضرت ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ اپنی قوم کی طرف سے نمائندہ بن کر آئے تھے اور اسلام کی ماہیت وحقیقت کے بارے میں سوال نہیں کیا تھا؛ بلکہ شرائع اسلام کے بارے میں سوال کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے نماز کے بارے میں بتایا کہ پانچ نمازیں فرض ہیں، انہوں نے پوچھا کہ کیا اس کے علاوہ بھی نمازیں فرض ہیں، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اس کے علاوہ فرض نہیں ہیں؛ الا یہ کہ تم نفل نماز پڑھو، تو اب شروع کرنے کی وجہ سے وہ تمہارے اوپر لازم اور ضروری ہوجائیں گی، اس کے بعد آپ نے فرمایا: کہ رمضان کے روزے فرض ہیں، انہوں نے سوال کیا کہ کیا اس کے علاوہ اور بھی روزے فرض ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں؛ مگر یہ کہ تم نفل روزے رکھو، پھر آپ نے زکوۃ کا تذکرہ کیا، انہوں نے پوچھا کیا فرض زکوۃ کے علاوہ مزید مال کا کوئی حق ہے، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں؛ مگر یہ کہ تم نفلی صدقات ادا کیا کرو، وہ صحابی چلے گئے اور جاتے وقت یہ کہا کہ خدا کی قسم میں نہ اس پر اضافہ کروں گا اور نہ ہی میں اس میں کوئی کمی کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جذبہ اور خلوص کو محسوس کرکے فرمایا: یہ کامیاب ہوگیا، اگر اپنی بات میں سچا ہے۔ مسلم کی روایت میں اسی قدر ہے؛ لیکن بخاری میں اسماعیل بن جعفر کی روایت میں یہ اضافہ ہے ’’فأخبرہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بشرائع الإسلام‘‘ (۱) کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اسلام کے تمام احکام ہی بتلائے، ان الفاظ کے عموم میں تمام مامورات، منہیات، حج، وتر، صدقہ فطر، اور نوافل وسنن وغیرہ تمام احکام آگئے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہوا، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تمام احکام کی اطلاع دی، اور انہوں نے جاتے ہوئے یہ کہا، کہ خدا کی قسم میں ان باتوں کی تبلیغ میں اور خود بھی ان باتوں پر عمل کرنے میں کوئی کمی زیادتی نہیں کروں گا۔
مذکورہ باتوں سے حدیث کا مطلب بالکل واضح ہوجاتا ہے، بعض حضرات اس روایت سے نفل کے غیر ضروری ہونے پر استدلال کرتے ہیں، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف پانچ نمازوں کو فرض قرار دیا اور باقی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفل قرار دیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ فرض پڑھنا ضروری ہے اور اس کے علاوہ ضروری نہیں ہے۔ حالاں کہ اگر روایت کے ظاہر کو دیکھا جائے، تو جو حضرات یہ استدلال کرتے ہیں، ان پر بھی اعتراض ہوجائے گا، روایت میں صدقہ فطر کا تذکرہ نہیں ہے، جب کہ بہت سے ائمہ کے یہاں صدقہ فطر واجب اور فرض ہے۔ اسی طرح وتر کا تذکرہ نہیں ہے، جب کہ وتر کے بارے میں خودحضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’الوتر حق فمن لم یؤتر فلیس مني‘‘ وتر واجب ہے، جو وتر نہ پڑھے، وہ ہم میں سے نہیں ہے، یہ جملہ آپ نے تین مرتبہ فرمایا (۲) اسی طرح حدیث میں صرف مامورات کا بیان ہے، منہیات کا بیان نہیں ہے۔ کیا کوئی شخص صرف فرائض کو بجا لاکر، منہیات سے بچے بغیر کامیاب ہوسکتا ہے اور کیا کوئی اس حدیث کی بناء پر ترک منہیات کو غیر ضروری کہہ سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے؛ بلکہ فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ منہیات سے بچنا بھی ضروری ہے، اس لیے مذکورہ روایت سے سنت کے ترک یا فرض کے علاوہ تمام نوافل کے غیر ضروری ہونے پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔ بخاری کی روایت کو سامنے رکھ کر یہی کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام احکام کا تذکرہ کیا تھا اور انہوں نے ان تمام احکام کو قبول کرتے ہوئے یہ کہا کہ میں ان احکام میں کمی یا زیادتی نہیں کروں گا۔ بخاری کی بعض روایت میں یہ بھی ہے کہ ’’لا أتطوع شیئا ولا أنقص مما فرض اللّٰہ علی شیئا‘‘ یعنی صرف فرائض پر عمل کر وں گا، نہ فرائض میں کمی کروں گا اور نہ ہی نفلی عبادت کروں گا، بظاہر اسماعیل بن جعفر کی دونوں روایت میں تعارض ہے؛ اس لیے ان میں سے ایک کے الفاظ صحیح ہیں اور دوسری روایت بالمعنی ہیں۔
’’لا أزید علی ہذا و لا أنقص‘‘ کا حضرات محدثین نے مختلف جوابات دیئے ہیں۔ علامہ ابن بطال فرماتے ہیں: اس حدیث کا مطلب اوامر کی محافظت کا اور اہتمام سے ان کو بجا لانے کا عہد اور خبر ہے اور یہ قول اس درجہ میںہے کہ جب جب اس کے سامنے اللہ یا رسول اللہ کا کوئی امر آئے گا، خواہ فرض سے متعلق ہو یا سنت سے متعلق ہو، وہ اس کی طرف سبقت کرے گا؛ لہٰذا یہ کہناکہ سنت کے ترک میں کوئی حرج نہیں اور کوئی گناہ نہیں، اس کا مذکورہ حدیث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
’’یحتمل أن یکون قولہ: تمت واللّٰہ لا أزید علی ہذا ولا أنقص علی معنی التأکید في المحافظۃ علی الوفاء بالفرائض المذکورۃ، من غیر نقصان شیئٍ من حدودہا، کما یقول العبد لمولاہ إذا أمرہ بأمر مہم عندہ: واللّٰہ لا أزید علی ما أمرتني بہ ولا أنقص، أي أفعلہ علی حسب ما حددتہ لي، لا أخل بشیئٍ منہ، ولا أزید فیہ من عند نفسي غیر ما أمرتني بہ، ویکون الکلام إخبارًا عن صدق الطاعۃ وصحیح الائتمار۔ ومن کان فی المحافظۃ علی ما أُمِرَ بہ بہذہ المنزلۃ، فإنہ متی ورد علیہ أمرٌ للّٰہ تعالیٰ أو لرسولہ فإنہ یبادر إلیہ، ولا یتوقف عنہ، فرضًا کان أو سُنَّۃً۔ فلا تعلق في ہذا الحدیث لمن احتج أن تارک السُّنن غیر حَرجٍ ولا آثمٍ، لتوعد اللّٰہ تعالیٰ علی مخالفۃ أمر نبیہ۔ وبہذا التأویل تتفق معاني الأٓثار والکتاب، ولا یتضاد شيء من ذلک‘‘(۱)
(۱)أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصوم: باب وجوب صوم رمضان‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۰، رقم: ۱۸۹۱۔
(۲) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في من لن یوتر‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۱، رقم: ۱۴۱۸۔
(۱)ابن بطال، شرح صحیح البخاري لابن بطال: ج۱، ص: ۱۹۵۔
(۱) علامہ أنور شاہ الکشمیري، فیض الباري، ’’باب الزکاۃ من الإسلام‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۱، رقم: ۴۶۔
(۲) مولانا اکرام علي، نفع المسلم: ص: ۱۲۳۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ‘‘: ج ۹، ص: ۲۲۰۔
(۲) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الضحیۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۰۵۔
(۳) السرخسي، أصول السرخسي، ’’فصل في بیان المشروعات من العبادات وأحکامہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص81
حدیث و سنت
Ref. No. 39 / 824
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔احادیث کی معتبر کتابوں میں اس کا ذکر ہمیں نہیں ملا۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
Ref. No. 2256/44-2411
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ کھانا کھانے کے لئے بیٹھنے میں تواضع کی ہیئت اختیار کرنی چاہئے، لہذا جس طرح تشہد میں دو زانو بیٹھتے ہیں، اس طرح کھانے کے لئے دو زانو بیٹھنا یا دو نوں قدموں کے بل اکڑوں ہوکربیٹھنا یا دائیں پیر کو اٹھاکر اور بائیں پیر کو بچھا کر بیٹھنا سنت طریقہ ہے۔ تاہم اگر کسی کو کوئی عذر ہو تو وہ حسبِ سہولت جس طرح چاہے بیٹھ سکتاہے، اس معاملے میں کسی پر سختی سے نکیر کرنا ہر گز درست نہیں، بلکہ ترغیب سے کام لینا چاہیے۔
2۔ مولانا سعد صاحب کا نسب نامہ مجھے معلوم نہیں، براہِ راست ان سے ہی اس کو معلوم کرنا چاہئے، یا پھر اس طرح کی غیرمفید بحث سے اجتناب کرنا چاہئے۔
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اٰکل کما یأکل العبد، وأجلس کما یجلس العبد؛ فإنما أنا عبد۔ (شعب الإیمان للبیہقي ۵؍۱۰۷ رقم: ۵۹۷۵)
عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مُقعِیًا یأکل تمرًا۔ (صحیح مسلم، کتاب الأشربۃ / باب استحباب تواضع الآکل وصفۃ قعودہ ۲؍۱۸۰ رقم: ۲۰۴۴)
عن أپی جحیفة قال: قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: لا أکل متکئًا ۔ رواہ البخاری (مشکاة المصابیح: ۳۶۳، کتاب الأطعمة الفصل الأول)
فالمستحب في صفۃ الجلوس للآکل أن یکون جاثیًا علی رکبتیہ وظہور قدمیہ، أو ینصب الرجل، یجلس علی الیسریٰ۔ (فتح الباري، کتاب الأطعمۃ / باب الأکل متکأً، الجزء التاسع ۱۲؍۶۷۶ تحت رقم: ۵۳۹۹)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ نے جو کچھ دیکھا اور جو کچھ لوگو ں سے سنا وہ سچ ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی پوری کوشش کریں، درود شریف کا ورد کثرت سے کریں، مایوس اور پریشان کن حالات میں اس سے دلوں کو راحت ملتی ہے، اللہ پر بھروسہ رکھئے اور جس میدان میں بھی کامیابی چاہتی ہیں، اس کے لئے پوری کوشش جاری رکھئے، آپ کی مراد ان شاء اللہ ضرور پوری ہوگی، آپ خوش بخت ہیں اور جب تک سنت کو مضبوطی سے تھامے رہیں گی آپ کی خوش بختی قائم رہے گی۔(۱)
(۱) إن أبا ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: (من رآني في المنام فسیراني في الیقظۃ، ولا یتمثل الشیطان بي) قال أبو عبد اللّٰہ:… قال: ابن سیرین: إذا رآہ في صورتہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التعبیر: باب من رأی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في المنام‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۳۵، رقم: ۶۹۹۳)
عن أبي سعید الخدري، رضي اللّٰہ عنہ: سمع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: (من رآني فقد رأی الحق، فإن الشیطان لا یتکونني)۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التعبیر: باب من رأی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۳۵، رقم: ۶۹۹۷)
{أَلَّذِیْنَ أٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ ط أَلاَ! بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُہط ۲۸} (سورۃ الرعد: ۲۸)
عن الطفیل بن أبي بن کعب عن أبیہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا ذہب ثلثا اللیل قام فقال: یآ أیہا الناس أذکروا اللّٰہ أذکروا اللّٰہ جائت الراجفۃ تتبعہا الرادفۃ جاء الموت بما فیہ جاء الموت بما فیہ، قال أبي قلت: یا رسول اللّٰہ إني أکثر الصلاۃ علیک فکم أجعل لک من صلاتي؟ فقال: ما شئت قال: قلت الربع، قال: ما شئت فإن زدت فہو خیر لک، قلت النصف، قال: ما شئت فإن زدت فہو خیر لک، قال: قلت: فالثلثین، قال: ما شئت، فإن زدت، فہو خیر لک، قلت: أجعل لک صلاتي کلہا، قال: إذا تکفي ہمک ویغفرلک ذنبک۔ قال أبو عیسیٰ: ہذا حدیث حسن صحیح۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب صفۃ القیامۃ، باب منہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۰، رقم: ۲۴۵۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص169
حدیث و سنت
Ref. No. 2819/45-4421
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں مذکور باتوں کا ثبوت کسی صحیح و مستند کتاب میں نہیں ہے، بلا تحقیق کسی بات کی نسبت رسول اکرم ﷺ کی طرف کرنا موجب خسارہ ہے، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا 'من کذب علی متعمدا فقد کفر '۔ اس لئے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ ایسی باتوں کی تشہیر سے احتراز کرے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند