Frequently Asked Questions
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی ولادت عام الفیل کے تین سال بعد ۵۷۴ء میں ہوئی۔(۱)
(۲) جس سال ابرہہ بادشاہ نے بیت اللہ پر حملہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے ابابیل پرندوں کے ذریعہ اپنے گھر کی حفاظت فرمائی اس واقعہ کے تیرہ سال کے بعد ۵۸۴ عیسوی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی پیدائش ہوئی اور آپ نے بعمر ۲۷؍ سال اسلام قبول کیا۔(۲)
(۳) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یکم محرم الحرام ۲۴ھ کو خلیفہ منتخب ہوئے۔ اور آپ کو اسود تجیی نے ۳۵ھ بروز جمعہ کو شہید کیا، حضرت حکیم بن حزام نے نماز جنازہ پڑھائی، ہفتہ کی شب میں جنت البقیع میں دفن کئے گئے، آپ کی کل عمر ۸۲ سال ہوئی۔ (۳)
(۱) أبو الحسن علی بن أبي الکرم، الکامل في التاریخ: ج۲، ص: ۴۱۹۔
(۲) جلال الدین السیوطي، تاریخ الخلفاء: ص: ۱۰۹۔
(۳) بدر الدین العیني، عمدۃ القاري: ج۳، ص: ۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص239
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’عن عبداللّٰہ بن بریدۃ عن أبیہ قال خطب أبوبکر وعمر رضي اللّٰہ عنہما فاطمۃ رضي اللّٰہ عنہا، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إنہا صغیرۃ ثم فخطبہا علي فزوجہا منہ‘‘(۱)
حدیث کے الفاظ اور عبارت سے ظاہر ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نکاح کا پیغام دیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح ان سے کرا دیا، اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ مجلس میں نہ ہوتے، تو قبول کون کرتا وہ مجلس میں موجود تھے اور قبول انہوں نے ہی کیا تھا، اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔(۲)
(۱) مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن: باب مناقب علي رضي اللّٰہ عنہ، الفصل الثالث‘‘: ج۲، ص: ۵۶۵، رقم: ۶۱۰۴۔
(۲) أخرجہ النسائي، في سننہ، ’’کتاب النکاح: باب تزوج المرأۃ مثلہا‘‘: ج۲، ص: ۵۸، رقم: ۳۲۲۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص240
حدیث و سنت
حدیث و سنت
Ref. No. 40/877
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محدثین کے درمیان اس حدیث کی صحت و ضعف کے تعلق سے کافی اختلاف ہے، ہم اجمالااًایمان لانے کے مکلف ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
حدیث و سنت
Ref. No. 1560/43-1081
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔نبی علیہ السلام کے سامنے سے جنازہ گزرا اور آپ کھڑے ہوگئے، صحابہ نے عرض کیا کہ یہ یہودی/کافر کا جنازہ ہے تو آپ نے فرمایا کہ کیا وہ ایک ذی روح نہیں ہے /موت یقینا ایک گھبراہٹ کی چیز ہے۔ یعنی جنازہ کو دیکھ کر آدمی کے اندر ایک خوف اور گھبراہٹ پیدا ہونی چاہئے۔ آپ نے اس سے زائد جو باتیں سوال میں ذکر کی ہیں اس کے بارے میں کوئی روایت ہم کو نہیں ملی۔
عن أبي سلمة، عن أبي هريرة. أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - مرت به جنازة يهودي فقام. فقيل له: يا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إنها جنازة يهودي، فقال: "إن للموت فزعًا". مسند احمد، شاکر، صحیفۃ ھمام بن منبہ 8/340)
قَالَ أَبُو يَعْلَى: وَجَدْتُ فِي كِتَابِي، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْجَعْدِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: كَانَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ، وَقَيْسُ بْنُ سَعْدٍ قَاعِدَيْنِ بِالْقَادِسِيَّةِ فَمَرَّتْ بِهِمَا جِنَازَةٌ، فَقَامَا فَقِيلَ لَهُمَا: إِنَّمَا هُوَ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، فَقَالَا: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّتْ بِهِ جِنَازَةٌ فَقَامَ، فَقِيلَ: إِنَّهَا جَنَازَةُ كَافِرٍ، فَقَالَ: «أَلَيْسَتْ نَفْسًا؟». قَالَ أَبُو يَعْلَى: وَجَدْتُ فِي كِتَابِي عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْجَعْدِ، عَنْ شُعْبَةَ وَلَيْسَ عَلَيْهِ عَلَامَةُ السَّمَاعِ فَشَكَكْتُ فِيهِ (مسند ابی یعلی الموصلی، 47-مسند قیس بن سعد، 3/26)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
Ref. No. 1019
الجواب وباللہ التوفیق:
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پندرہویں شعبان کی رات میں انفرادی طور پر دعاء، تلاوت، نماز وغیرہ عبادات میں مشغول ہونے اور دن میں روزہ رکھنے کی فضیلت روایات سے ثابت ہے۔ عن علي عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم إذا کانت لیلة النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارھا فإن اللہ تعالی ینزل فیہا لغروب الشمس إلی السماء الدنیا الخ ۔ ابن ماجہ شریف۔ اسوجہ سے دیگر نوافل کے مقابلہ میں اس رات کی نوافل کا ثواب زیادہ ہے۔اس کے علاوہ دیگر خرافات اور بدعات جو آج شروع ہوگئی ہیں مثلا حلوہ پکانا ، چراغاں کرنا، رات بھر جاگ کرمسجد اور قبرستان میں شور شرابہ کرنا یہ سب خلاف شریعت امور ہیں۔ قبرستان جانا بھی حدیث سےثابت ہے اسلئے اگر کبھی چلاجائے تو حرج نہیں تاہم اس کو رسم نہ بنایا جائے اور قبرستان کے تقدس کی پامالی اور شور وغل سے اجتنا ب کیا جائے، قبرستان جانے کا مقصد تذکیر آخرت اور اہل قبور کے احوال سے عبرت حاصل کرنا ہی ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
Ref. No. 1648/43-1227
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔حدیث کی کتابوں میں تلاش کرنے پر ہمیں ایسی کوئی روایت نہیں ملی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کا نام اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا(۱) اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کا نام زینب بنت مظعون رضی اللہ عنہا(۲) اور حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کے نکاح میں حضرت رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما تھیں۔ (۳)
(۱) أسماء بنت عمیس ہاجرت مع زوجہا جعفر إلی الحبشۃ فلما اشتشہد بموتۃ تزوجہا بعدہ أبو بکر رضي اللّٰہ عنہ (فولدت لہ محمداً)۔ (شمس الدین أبو عبد اللّٰہ محمد بن أحمد الذہبي، تاریخ الإسلام (حرف الباء): ج ۴، ص: ۱۷۸)
(۲) ذکر أولاد عمر رضي اللّٰہ عنہ کان لہ من الولد عبد اللّٰہ وعبد الرحمن وحفصۃ أمہم زینب بنت مظعون وزید الأکبر ورقیۃ أمہما أم کلثوم بنت علي وزید الأصغر وعبید اللّٰہ وأمہما أم کلثوم بنت جرول۔ (جمال الدین، ابن الجوزي، تلقیح فہو أہل الأثر، باب ذکر أولاد عمر رضي اللّٰہ عنہ: ج ۱، ص: ۷۶)
(۳) رقیۃ بنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمہا خدیجۃ تزوجہا عتبۃ بن أبي لہب قبل النبوۃ فلما بعث رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأنزل علیہ {تبت یدا أبي لہب} المسد قال أبو لہب لإبنہ رأسي حرام إن لم تطلق ابنتہ ففارقہا ولم یکن دخل بہا وأسلمت حین أسلمت أمہا خدیجۃ وبایعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہي وأخواتہا حین بایعہ النساء فتزوجہا عثمان بن عفان وہاجرت معہ إلی أرض الحبشۃ الہجرتین جمیعاً وکانت قد أسقطت من عثمان سقطا ثم ولدت لہ بعد ذلک عبد اللّٰہ الخ۔
أم کلثوم بنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمہا خدیجۃ تزوجہا عتبۃ ابن أبي لہب قبل النبوۃ وأمرہ أبوہ أن یفارقہا للسبب اللذي ذکرناہ في أمر رقیۃ ففارقہا ولم یکن دخل بہا فلم تزل بمکۃ مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأسلمت حین أسلمت أمہا وبایعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مع أخواتہا حین بایعہ النساء ہاجرت إلی المدینۃ حین ہاجر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلما توفیت رقیۃ تزوجہا عثمان بن عفان وتوفیت في حیاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في شعبان سنۃ تسع من الہجرۃ۔ (ابن الجوزي، تلقیح، باب ذکر الاناث من أولاد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ج ۱، ص: ۳۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص242