Frequently Asked Questions
حدیث و سنت
حدیث و سنت
Ref. No. 1560/43-1081
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔نبی علیہ السلام کے سامنے سے جنازہ گزرا اور آپ کھڑے ہوگئے، صحابہ نے عرض کیا کہ یہ یہودی/کافر کا جنازہ ہے تو آپ نے فرمایا کہ کیا وہ ایک ذی روح نہیں ہے /موت یقینا ایک گھبراہٹ کی چیز ہے۔ یعنی جنازہ کو دیکھ کر آدمی کے اندر ایک خوف اور گھبراہٹ پیدا ہونی چاہئے۔ آپ نے اس سے زائد جو باتیں سوال میں ذکر کی ہیں اس کے بارے میں کوئی روایت ہم کو نہیں ملی۔
عن أبي سلمة، عن أبي هريرة. أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - مرت به جنازة يهودي فقام. فقيل له: يا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إنها جنازة يهودي، فقال: "إن للموت فزعًا". مسند احمد، شاکر، صحیفۃ ھمام بن منبہ 8/340)
قَالَ أَبُو يَعْلَى: وَجَدْتُ فِي كِتَابِي، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْجَعْدِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: كَانَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ، وَقَيْسُ بْنُ سَعْدٍ قَاعِدَيْنِ بِالْقَادِسِيَّةِ فَمَرَّتْ بِهِمَا جِنَازَةٌ، فَقَامَا فَقِيلَ لَهُمَا: إِنَّمَا هُوَ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، فَقَالَا: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّتْ بِهِ جِنَازَةٌ فَقَامَ، فَقِيلَ: إِنَّهَا جَنَازَةُ كَافِرٍ، فَقَالَ: «أَلَيْسَتْ نَفْسًا؟». قَالَ أَبُو يَعْلَى: وَجَدْتُ فِي كِتَابِي عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْجَعْدِ، عَنْ شُعْبَةَ وَلَيْسَ عَلَيْهِ عَلَامَةُ السَّمَاعِ فَشَكَكْتُ فِيهِ (مسند ابی یعلی الموصلی، 47-مسند قیس بن سعد، 3/26)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
Ref. No. 1019
الجواب وباللہ التوفیق:
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پندرہویں شعبان کی رات میں انفرادی طور پر دعاء، تلاوت، نماز وغیرہ عبادات میں مشغول ہونے اور دن میں روزہ رکھنے کی فضیلت روایات سے ثابت ہے۔ عن علي عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم إذا کانت لیلة النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارھا فإن اللہ تعالی ینزل فیہا لغروب الشمس إلی السماء الدنیا الخ ۔ ابن ماجہ شریف۔ اسوجہ سے دیگر نوافل کے مقابلہ میں اس رات کی نوافل کا ثواب زیادہ ہے۔اس کے علاوہ دیگر خرافات اور بدعات جو آج شروع ہوگئی ہیں مثلا حلوہ پکانا ، چراغاں کرنا، رات بھر جاگ کرمسجد اور قبرستان میں شور شرابہ کرنا یہ سب خلاف شریعت امور ہیں۔ قبرستان جانا بھی حدیث سےثابت ہے اسلئے اگر کبھی چلاجائے تو حرج نہیں تاہم اس کو رسم نہ بنایا جائے اور قبرستان کے تقدس کی پامالی اور شور وغل سے اجتنا ب کیا جائے، قبرستان جانے کا مقصد تذکیر آخرت اور اہل قبور کے احوال سے عبرت حاصل کرنا ہی ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
Ref. No. 1648/43-1227
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔حدیث کی کتابوں میں تلاش کرنے پر ہمیں ایسی کوئی روایت نہیں ملی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کا نام اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا(۱) اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کا نام زینب بنت مظعون رضی اللہ عنہا(۲) اور حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کے نکاح میں حضرت رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما تھیں۔ (۳)
(۱) أسماء بنت عمیس ہاجرت مع زوجہا جعفر إلی الحبشۃ فلما اشتشہد بموتۃ تزوجہا بعدہ أبو بکر رضي اللّٰہ عنہ (فولدت لہ محمداً)۔ (شمس الدین أبو عبد اللّٰہ محمد بن أحمد الذہبي، تاریخ الإسلام (حرف الباء): ج ۴، ص: ۱۷۸)
(۲) ذکر أولاد عمر رضي اللّٰہ عنہ کان لہ من الولد عبد اللّٰہ وعبد الرحمن وحفصۃ أمہم زینب بنت مظعون وزید الأکبر ورقیۃ أمہما أم کلثوم بنت علي وزید الأصغر وعبید اللّٰہ وأمہما أم کلثوم بنت جرول۔ (جمال الدین، ابن الجوزي، تلقیح فہو أہل الأثر، باب ذکر أولاد عمر رضي اللّٰہ عنہ: ج ۱، ص: ۷۶)
(۳) رقیۃ بنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمہا خدیجۃ تزوجہا عتبۃ بن أبي لہب قبل النبوۃ فلما بعث رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأنزل علیہ {تبت یدا أبي لہب} المسد قال أبو لہب لإبنہ رأسي حرام إن لم تطلق ابنتہ ففارقہا ولم یکن دخل بہا وأسلمت حین أسلمت أمہا خدیجۃ وبایعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہي وأخواتہا حین بایعہ النساء فتزوجہا عثمان بن عفان وہاجرت معہ إلی أرض الحبشۃ الہجرتین جمیعاً وکانت قد أسقطت من عثمان سقطا ثم ولدت لہ بعد ذلک عبد اللّٰہ الخ۔
أم کلثوم بنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمہا خدیجۃ تزوجہا عتبۃ ابن أبي لہب قبل النبوۃ وأمرہ أبوہ أن یفارقہا للسبب اللذي ذکرناہ في أمر رقیۃ ففارقہا ولم یکن دخل بہا فلم تزل بمکۃ مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأسلمت حین أسلمت أمہا وبایعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مع أخواتہا حین بایعہ النساء ہاجرت إلی المدینۃ حین ہاجر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلما توفیت رقیۃ تزوجہا عثمان بن عفان وتوفیت في حیاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في شعبان سنۃ تسع من الہجرۃ۔ (ابن الجوزي، تلقیح، باب ذکر الاناث من أولاد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ج ۱، ص: ۳۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص242
حدیث و سنت
Ref. No. 1845/43-1664
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کس کا حشر کس کے ساتھ ہوگا، یہ قیاسی چیز نہیں ہے، بلکہ ان کا تعلق نص سےہے، اس لئے نص سے جن لوگوں کا حشر انبیاء کے ساتھ ہونا ثابت ہے، ہم اس پر یقین رکھیں، اور جن کے بارے میں نص خاموش ہے ہم بھی ان کے بارے میں کوئی حتمی بات نہ کریں۔ نیز یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ کسی کا خواب حجت شرعیہ نہیں ہے۔ اس لئےکسی کے خواب سے بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتاہے۔ اس سلسلہ میں سکوت اختیار کرکے دعوت کے کام پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتاہے کہ تبلیغ دین ایک فضیلت والا عمل ہے۔ اللہ تعالی بہترین اجر دینے والے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
Ref. No. 2309/44-3472
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ واقعہ حیاۃ الصحابہ میں موجود ہے اور طبرانی کے حوالہ سے اس پر حسن ہونے کا حکم لگایاہے، اس لئے روایت درست ہے، آپ کو اس پر کیا اعتراض ہے؟ آٹھ رکعت تراویح کی روایت تو اس کے علاوہ بھی کتب حدیث میں موجودہے، تاہم احناف نے بیس رکعت تراویح کو ترجیح دی ہے، اس لئے کہ بیس رکعت تراویح بھی روایت اور تواترعمل سے ثابت ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
Ref. No. 2639/45-4013
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) حضور ﷺ کا اپنے سر مبارک پر تیل استعمال کرنا تو ثابت ہے البتہ کونسا تیل استعمال کرتے تھے اس کی صراحت کسی حدیث کی کتاب میں ہمیں نہیں ملی۔ تاہم زیتون کے تیل کوکھانے اور مالش میں استعمال کے متعلق حدیث موجود ہے۔ (2) احادیث میں مطلق سرکہ کا استعمال مفید بتایاگیا ہے، اور اس کی ترغیب دی گئی ہے اور نبی ﷺ نے استعمال فرمایا ہے، مگر سرکہ کس چیز کا بناہوا تھا اس کی صراحت سے تذکرہ کسی کتاب میں ہمیں نہیں ملا۔ (3) ریحان کا ذکر قرآن میں سورہ رحمن میں ہے، یہ جنت کی خوشبو سے ہے۔ ریحان کوئی خاص قسم کی خوشبو ہے یا عام خوشبو اس سے مراد ہے اس میں اختلاف ہے، تاہم 'اسلام اور جدید میڈیکل سائنس ص533' میں لکھاہے کہ ریحان 'تلسی ' کو کہاجاتاہے، نیز حضرت الامام شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ نے ریحان کا ترجمہ 'نازبو' سے کیا ہے جس کو اردو میں تلسی کہتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ نے جو سمجھا وہ غلط سمجھا، حدیث مذکور(۱) کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بطور جرمانہ کے نصف دینار پہلے ادا کرکے حالت حیض میں صحبت کرلے؛ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حالت حیض میں صحبت حرام ہے(۲) جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے؛ لیکن اگر کسی نے صحبت کرلی، تو بطور جرمانہ وسزا کے نصف دینار صدقہ کرے(۳) جیسا کہ فاسد روزے کی سزا وجرمانہ کفارہ ہے۔ {یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِط قُلْ ھُوَ أَذًیلا فَاعْتَزِلُوا النِّسَآئَ فِي الْمَحِیْضِلا وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْھُرْنَج}(۴)
(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: إذا وقع الرجل بأہلہ وہي حائض فلیتصدق بنصف دینار، رواہ الترمذي وأبوداود والنسائي والدارمي وابن ماجہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الحیض، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۵۶، رقم: ۵۵۳)
(۲) ولو أتاہا مستحلا کفر وعالماً بالحرمۃ ارتکب کبیرۃ ووجبت التوبۃ ویتصدق بدینار أو بنصفہ استحباباً۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارت: باب الحیض والاستحاضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۴، حاشیہ: ۹)
(۳) ویندب تصدقہ بدینار أو نصفہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض، متصل مطلب في حکم وطء المستحاضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۴)
(۴) سورۃ البقرۃ: ۲۲۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص76