Frequently Asked Questions
حدیث و سنت
Ref. No. 2256/44-2411
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ کھانا کھانے کے لئے بیٹھنے میں تواضع کی ہیئت اختیار کرنی چاہئے، لہذا جس طرح تشہد میں دو زانو بیٹھتے ہیں، اس طرح کھانے کے لئے دو زانو بیٹھنا یا دو نوں قدموں کے بل اکڑوں ہوکربیٹھنا یا دائیں پیر کو اٹھاکر اور بائیں پیر کو بچھا کر بیٹھنا سنت طریقہ ہے۔ تاہم اگر کسی کو کوئی عذر ہو تو وہ حسبِ سہولت جس طرح چاہے بیٹھ سکتاہے، اس معاملے میں کسی پر سختی سے نکیر کرنا ہر گز درست نہیں، بلکہ ترغیب سے کام لینا چاہیے۔
2۔ مولانا سعد صاحب کا نسب نامہ مجھے معلوم نہیں، براہِ راست ان سے ہی اس کو معلوم کرنا چاہئے، یا پھر اس طرح کی غیرمفید بحث سے اجتناب کرنا چاہئے۔
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اٰکل کما یأکل العبد، وأجلس کما یجلس العبد؛ فإنما أنا عبد۔ (شعب الإیمان للبیہقي ۵؍۱۰۷ رقم: ۵۹۷۵)
عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مُقعِیًا یأکل تمرًا۔ (صحیح مسلم، کتاب الأشربۃ / باب استحباب تواضع الآکل وصفۃ قعودہ ۲؍۱۸۰ رقم: ۲۰۴۴)
عن أپی جحیفة قال: قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: لا أکل متکئًا ۔ رواہ البخاری (مشکاة المصابیح: ۳۶۳، کتاب الأطعمة الفصل الأول)
فالمستحب في صفۃ الجلوس للآکل أن یکون جاثیًا علی رکبتیہ وظہور قدمیہ، أو ینصب الرجل، یجلس علی الیسریٰ۔ (فتح الباري، کتاب الأطعمۃ / باب الأکل متکأً، الجزء التاسع ۱۲؍۶۷۶ تحت رقم: ۵۳۹۹)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ نے جو کچھ دیکھا اور جو کچھ لوگو ں سے سنا وہ سچ ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی پوری کوشش کریں، درود شریف کا ورد کثرت سے کریں، مایوس اور پریشان کن حالات میں اس سے دلوں کو راحت ملتی ہے، اللہ پر بھروسہ رکھئے اور جس میدان میں بھی کامیابی چاہتی ہیں، اس کے لئے پوری کوشش جاری رکھئے، آپ کی مراد ان شاء اللہ ضرور پوری ہوگی، آپ خوش بخت ہیں اور جب تک سنت کو مضبوطی سے تھامے رہیں گی آپ کی خوش بختی قائم رہے گی۔(۱)
(۱) إن أبا ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: (من رآني في المنام فسیراني في الیقظۃ، ولا یتمثل الشیطان بي) قال أبو عبد اللّٰہ:… قال: ابن سیرین: إذا رآہ في صورتہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التعبیر: باب من رأی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في المنام‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۳۵، رقم: ۶۹۹۳)
عن أبي سعید الخدري، رضي اللّٰہ عنہ: سمع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: (من رآني فقد رأی الحق، فإن الشیطان لا یتکونني)۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التعبیر: باب من رأی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۳۵، رقم: ۶۹۹۷)
{أَلَّذِیْنَ أٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ ط أَلاَ! بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُہط ۲۸} (سورۃ الرعد: ۲۸)
عن الطفیل بن أبي بن کعب عن أبیہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا ذہب ثلثا اللیل قام فقال: یآ أیہا الناس أذکروا اللّٰہ أذکروا اللّٰہ جائت الراجفۃ تتبعہا الرادفۃ جاء الموت بما فیہ جاء الموت بما فیہ، قال أبي قلت: یا رسول اللّٰہ إني أکثر الصلاۃ علیک فکم أجعل لک من صلاتي؟ فقال: ما شئت قال: قلت الربع، قال: ما شئت فإن زدت فہو خیر لک، قلت النصف، قال: ما شئت فإن زدت فہو خیر لک، قال: قلت: فالثلثین، قال: ما شئت، فإن زدت، فہو خیر لک، قلت: أجعل لک صلاتي کلہا، قال: إذا تکفي ہمک ویغفرلک ذنبک۔ قال أبو عیسیٰ: ہذا حدیث حسن صحیح۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب صفۃ القیامۃ، باب منہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۰، رقم: ۲۴۵۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص169
حدیث و سنت
Ref. No. 2819/45-4421
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں مذکور باتوں کا ثبوت کسی صحیح و مستند کتاب میں نہیں ہے، بلا تحقیق کسی بات کی نسبت رسول اکرم ﷺ کی طرف کرنا موجب خسارہ ہے، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا 'من کذب علی متعمدا فقد کفر '۔ اس لئے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ ایسی باتوں کی تشہیر سے احتراز کرے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس میں نماز کی پابندی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، اور یہ اطلاع ہے کہ اس کے ذریعہ سے آپ کی ہر طرح سے حفاظت ہوگی۔(۱)
(۱) {وَظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ وَأَنْزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰیط کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ ط…وَمَا ظَلَمُوْنَا وَلٰکِنْ کَانُوْٓا أَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَہ۵۷} (سورۃ البقرۃ: ۵۷)
{وَظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ} وہو السحاب الأبیض، ظللوا بہ في التیہ لیقیہم حر الشمس، کما رواہ النسائي وغیرہ عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما في حدیث الفتون، قال: ثم ظلل علیہم فيالتیہ بالغمام۔ وقال ابن جریر وآخرون: وہو غمام أبرد من ہذا وطیب، (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ البقرۃ: ۵۷‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۶)
قال ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ: {وَظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ} قال: غمام أبرد من ہذا وطلب، وہو الذي یأتي اللّٰہ فیہ في قولہ: {ھَلْ یَنْظُرُوْنَ إِلَّآ أَنْ یَّأْتِیَھُمُ اللّٰہُ فِيْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ} (البقرۃ: ۲۱۰) وہو اللذي جائت فیہ الملائکۃ یوم بدرٍ، قال ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما: وکان معہم في التیہ۔ (’’أیضاً‘‘)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص170
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سائل کو چاہئے کہ مرحومین کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام کرے، ہری گھاس سر سبز وشادابی کی علامت ہے، ترقی، امن وعافیت اور پریشانی سے نجات کی طرف اشارہ ہے۔(۱)
(۱) مر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی قبرین فقال إنہما یعذبان وما یعذبان في کبیر، أما ہذا فکان لا یستنزہ من البول، وأما ہذا فکان یمشي بالنمیمۃ، ثم دعا بعسیب رطب فشقہ بإثنین، ثم غرس علی ہذا واحداً وعلی ہذا واحداً، وقال: لعلہ یخفف عنہما ما لم ییبسا۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الاستبراء من البول‘‘: ج ۱، ص: ۱۷، رقم: ۲۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص171
حدیث و سنت
Ref. No. 2821/45-4419
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے فرمایا کہ 'اللہ خالق کل شیئ' جس سے معلوم ہوتاہے کہ ہرچیز کے خالق اللہ تعالی ہیں۔ عوام میں مشہور بات کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
Ref. No. 2826/45-4420
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کی کوئی روایت ہماری نظر سے نہیں گزری۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند