Frequently Asked Questions
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر ان صفات کی نسبت کرنے میں غلو سے کام لے اور نبی کے حاضر وناظر وعالم الغیب ہونے اور اللہ کے عالم الغیب وحاضر ناظر ہونے میں کوئی فرق نہ کرے تو اسلام سے خارج ہے، اور اگر دونوں میں فرق کرتا ہے اور تاویل کرتا ہے، تو اس کو اسلام سے خارج نہیں کہا جائے گا۔ (۱)
(۱) لا یفتی بکفر مسلم أمکن حملہ علی محمل حسن۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب في حکم من شتم دین مسلم‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۷)
ولا نکفر مسلماً بذنب من الذنوب وإن کانت کبیرۃ إذا لم یستحلہا ولا نزیل عنہ اسم الإیمان ونسمیہ مؤمناً حقیقۃ۔ (أبو حنیفۃ، شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في أن الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الإیمان‘‘: ص: ۱۱۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص264
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ان تمام سوالات کے جوابات مختلف کتابوں میں موجود ہیں ان کو یہاں باحوالہ نقل کیا جاتا ہے:
(۱) بالقصد حضور اکرم B کا تصور نماز میں اس طرح جمانا کہ بالکل آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف دھیان رہے کسی دوسری چیز کا خیال دل میں نہ آئے، قطعاً منع ہے؛ بلکہ ایہام شرک ہے، کیونکہ اس صورت میں نماز اللہ تعالیٰ کی نہ رہے گی، کیونکہ سجدہ وغیرہ سب کچھ حضرت نبی اکرم B کے لئے ہوگا، اور اس کا موہم شرک ہونا ظاہر ہے۔
اور اگر خنزیر وغیرہ کا تصور آئے گا، تو حقیر وذلیل ہوکر آئے گا، اس کی کوئی تعظیم دل میں نہ ہوگی، لہٰذا شرک کا شائبہ نہیں، بخلاف حضور اقدس B کے تصور کے کہ وہاں تعظیم ملحوظ ہوتی ہے، جس میں شرک کا قوی اندیشہ ہے۔ (۱)
(۲) کوئی امتی کسی نبی کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا، ولایت کے اونچے مقامات پر پہنچنا بعید نہیں، مگر جو حضرات پہنچتے ہیں وہ دعویٰ نہیں کرتے، اور تکبر نہیں کرتے۔
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ صرف بھائی کے درجہ میں ہیں، اس سے زیادہ ان کی کوئی فضیلت نہیں یہ غلط ہے، انبیاء علیہم السلام کی شان میں توہین اور گستاخی کرنا کفر ہے۔
بلا تحقیق کسی کی طرف کوئی غلط عقیدہ منسوب کرنا درست نہیں تہمت ہے۔ (۲)
حدیث پاک میں ارشاد ہے ’’أنا سید ولد آدم ولا فخر‘‘ (۳) حضرت نبی اکرم B کا مرتبہ اللہ پاک کے نزدیک اتنا بلند ہے کہ نہ کوئی فرشتہ اس کو پا سکتا ہے، نہ کوئی پیغمبر، پھر بڑے بھائی کے برابر کیسے ہو سکتے ہیں؟ البتہ حضور مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بلند مرتبہ کے باوجود حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کو بھائی فرمایا ہے، اور امت کو بھی بھائی فرمایا ہے، جیسا کہ احادیث میں موجود ہے۔ (۱)
(۳) تحذیر الناس میں ہے کہ: ’’صورت اعمال میں بسا اوقات بظاہر امتی مساوی ہو جاتے ہیں، بلکہ بڑھ بھی جاتے ہیں‘‘۔
’’بظاہر‘‘ کی قید اس لیے ہے کہ امتی کا عمل دیکھنے میں کتنا زیادہ ہی کیوں نہ ہو، انبیاء علیہم السلام کی ایک حرکت وسکون سے زیادہ قیمتی نہیں ہو سکتا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا: ہمارے سارے اعمال، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی اس دھول کے برابر بھی نہیں ہو سکتے، جو دھول انہیں نبی کریم B کی رفاقت میں لگی ہوگی۔ جب صحابہؓ اور تابعین میں مقام کا یہ فرق ہے، تو نبی اور امتی کا فرق اسی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ہاں! بظاہر ہو سکتا ہے، جیسے کسی نے دس حج کر لئے، اور آپ علیہ السلام نے صرف ایک حج کیا؛ مگر حقیقت میں آپ کے ایک قدم کے برابر بھی نہیں۔(۲)
(۴) حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے عالم متبع سنت، شیخ طریقت بزرگ تھے، انہوں نے ہر گز حضور اکرم B کے علم مبارک کو پاگلوں اور جانوروں کے مثل نہیں فرمایا ہے۔
چنانچہ اس کتاب میں جس پر بریلوی حضرات نے کفر کا فتویٰ دیا ہے، یہ عبارت موجود ہے، نبوت کے لئے جو علوم لازم اور ضروری ہیں وہ آپ کو بتمامہا حاصل ہو گئے، غور کا مقام ہے کہ حضرت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے سرور کائنات B کے لیے تمام علوم نبوت کو حاصل مانا، اور صراحۃً تحریر فرما دیا، مگر یہ بریلوی حضرات ایسے بہتان تراش رہے ہیں، اس مسئلہ اور عبارت پر متعدد کتابیں تفصیل کے ساتھ لکھی گئیں، ’’بسط البنان، توضیح البیان، تکمیل العرفان، وغیرہ چونکہ بریلوی حضرات نے حضرت رسول مقبول B کو عالم الغیب تسلیم کیا اور لکھا ہے ان کے مذہب پر دو شقیں پیدا ہوتی ہیں، ایک شق پر حضرت نبی اکرم B کا علم، اللہ تعالیٰ کے علم کے برابر قرار پاتا تھا، جو کہ شرک ہے، دوسری شق پر حضرت فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم مبارک کی تنقیص وتوہین ہوتی تھی؛ اس لیے حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ عالم الغیب کا اطلاق اللہ تعالیٰ
کے سوا کسی پر جائز نہیں،کیونکہ نہ شرک کی گنجائش ہے، نہ حضرت رسول مقبول سید الانبیاء والمرسلین B کے کے علم مبارک کی توہین وتنقیص کی گنجائش ہے، یہ دونوں چیزیں اسلام کے خلاف ہیں، لہٰذا حضرت امام المرسلین سید الاولین والآخرین شفیع المذنبین B کو عالم الغیب کہنا درست نہیں ہے، بریلوی حضرات علم اور دلائل کی روشنی میں اس کا رد نہیں کر سکے، اور بات کو بگاڑ کر عوام کو مشتعل کرنے کے لئے یہ عنوان اختیار کیا اور کفر کا فتویٰ دیا ہے۔ ’’ہداہم اللّٰہ تعالیٰ إلی صراط مستقیم‘‘۔ (۱)
(۵) فتاوی رشیدیہ میں اس کی وضاحت ہے کہ:
امکان کذب کے جو معنی آپ نے سمجھے ہیں وہ تو بالاتفاق مردود ہیں یعنی اللہ تعالی کی طرف وقوع کذب کا قائل ہونا باطل ہے اور خلاف نص صریح ہے، نص صریح ہے: {ومن أصدق من اللّٰہ قیلا} وہ ذات پاک مقدس شائبہ نقص وکذب وغیرہ سے منزہ ہے، رہا خلاف علماء کا جو در بارۂ وقوع وعدم وقوع خلاف وعید ہے، جس کو صاحب براہین قاطعہ نے تحریر کیا ہے وہ در اصل کذب نہیں صورت کذب ہے اس کی تحقیق میں طول ہے۔
الحاصل امکان کذب سے مراد دخول کذب تحت قوت باری تعالیٰ ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جووعدہ وعید فرمایا ہے اس کے خلاف پر قادر ہے، اگرچہ وقوع اس کا نہ ہو، امکان وقوع لازم نہیں، بلکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شئ ممکن بالذات ہو اور کسی وجہ خارجی سے اس کو استحالہ لاحق ہوا ہو؛ پس مذہب جمیع محققین اہل اسلام وصوفیائے کرام وعلماء عظام کا اس مسئلہ میں یہ ہے کہ کذب داخل تحت قدرت باری تعالیٰ ہے، پس جو شبہات وقوع کذب پر متفرع ہوں وہ مندفع ہو گئے، کیونکہ وقوع کا کوئی بھی قائل نہیں ہے {قُلْ ھُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓی أَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا}(۲) {وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَأَنْتَ فِیْھِمْط} (۳) اس آیت ثانیہ میں ہے معنی عذاب کا وعدہ فرمایا اور ظاہر ہے کہ اگر اس کے خلاف ہو، تو کذب لازم آئے گا، مگر آیت اول سے اس کا تحت قدرت باری تعالیٰ داخل ہونا معلوم ہوا، پس ثابت ہوا کہ کذب داخل تحت قدرت باری تعالیٰ جل وعلیٰ ہے، کیوں نہ ہو کہ{وہو علی کل شیء قدیر} (القرآن)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کی شان میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کی آیت نازل کی {لِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَمنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ}(۱) فرمایا کہ ’’واللّٰہ ما أدري وأنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما یفعل بي ولا بکم‘‘ اور ’’کما قال اللّٰہ تعالیٰ: {وَاللّٰہُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَھُوَ یَھْدِی السَّبِیْلَہ۴}۔ (۲)
(۶) فتاوی رشیدیہ میں اس کی وضاحت لکھی ہوئی ہے کہ:
مٹی میں ملنے کے دو معنی ہیں ایک یہ کہ مٹی ہوکر، مٹی زمین کے ساتھ خلط ملط ہو جائے، جیسا کہ سب اشیاء زمین میں پڑ کر خاک ہو کر زمین ہی بن جاتی ہیں۔ دوسرے مٹی سے ملاقی ومتصل ہو جانا یعنی مٹی سے مل جانا، تو یہاں مراد دوسرے معنی ہیں اور جسد انبیاء کے خاک نہ ہونے کے مولانا بھی قائل ہیں، چونکہ مردہ کو چاروں طرف سے مٹی احاطہ کر لیتی ہے اور نیچے مردہ کی مٹی سے جسد مع کفن ملاحق ہوتا ہے، یہ مٹی میں ملنا اور مٹی سے ملنا کہلاتا ہے، کچھ اعتراض نہیں۔ (۳)
(۷) مذکورہ عبارت فتاوی میں نہیں ملی، فتاوی رشیدیہ میں عبارت یہ ہے: محرم میں ذکر شہادت حسین علیہ السلام کرنا اگرچہ بروایات صحیحہ ہو یا سبیل لگانا، شربت پلانا، یا چندہ سبیل اور شربت میں دینا یا دودھ پلانا سب نا درست ہے اور تشبہ روافض کی وجہ سے حرام ہیں۔ (۴)
حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے پیشتر بہت سے حنفی فقہاء نے اس تعلق سے لکھا ہے۔ چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ: ’’والغراب الذي یأکل الحب والزرع ونحوہا حلال بالاجماع‘‘ یعنی جو کوا دانہ، اناج اور اس جیسی چیزیں کھاتا ہے وہ بالاتفاق حلال ہے۔ اس کے علاوہ بدائع الصنائع، کنز البیان، قدوری، در مختار، شامی، شرح وقایہ، فتاویٰ سراجیہ، ہدایہ اور احکام القرآن للجصاص وغیرہ کتب معتبرہ مستندہ میں بھی لکھا ہے۔
حاصل یہ ہے کہ وہ کوا جو صرف نجاست کھاتا ہے وہ حرام ہے۔ اور جو صرف دانہ کھاتا ہے یا دانہ ونجاست دونوں کھاتا ہے وہ حلال ہے۔(۱)
(۹) یہ محفل چوں کہ زمانہ فخر عالم علیہ السلام میں اورزمانہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اورزمانہ تابعین اور تبع تابعین اور زمانہ مجتہدین میں نہیں ہوئی اس کی ایجاد بعد چھ سو سال کے ایک بادشاہ نے کی اس کو اکثر اہل تاریخ فاسق لکھتے ہیں، لہٰذا یہ مجلس بدعت ضلالہ ہے اس کے عدم جواز میں صاحب مدخل وغیرہ علما ء پہلے بھی لکھ چکے ہیں اور اب بھی بہت رسائل وفتاوی طبع ہو چکے ہیں زیادہ دلیل کی حاجت نہیں عدم جواز کے واسطے یہ دلیل بس ہے کہ کسی نے قرون خیر میں اس کو نہیں کیا زیادہ مفاسد اس کے دیکھنے ہوں، تو مطولات فتاویٰ کو دیکھ لیں۔
رشید احمد گنگوہی عفی عنہ
مجلس مولود مجلس خیر وبرکت ہے در صورت کہ ان قیودات مذکورہ سے خالی ہو فقط بلا قید وقت معین وبلا قیام وبغیر روایت موضوع مجلس خیر وبرکت ہے صورت موجودہ جو مروج ہے بالکل خلاف شرع ہے اور بدعت ضلالہ ہے۔ ’’ہکذا سمعت من أبي مولانا الحاج المحدث السہارنفوری المولوی احمد علي برد اللّٰہ مضجعہ وبہذا أفتی مولانا المرحوم محمد خلیل الرحمن مدرس مدرسہ اسلامیہ سہارنپور‘‘ مجلس میلاد شریف بہیئت معلومہ مروجہ لاریب بدعت وممنوع ہے فقط۔(۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص265
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال میں اگر رضاخانی سے مراد وہی شخص ہے جو مولانا احمد رضا خان بریلوی کو اعلی حضرت مانتے ہیں تو اہل حق سے کچھ امور میں ان کا اختلاف ہے وہ مبتدع ہیں ان کے بعض نظریات سے اہل حق کو اتفاق نہیں ہے(۱) اس کے باوجود وہ اسلام سے خارج نہیں اس لئے ان کی نماز جنازہ پڑھنے والے گناہ گار نہیں ہیں۔(۲)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)
(۲) الذي تحرر أنہ لا یفتی بتکفیر مسلم أمکن حمل کلامہ علی محمل أو کان في کفرہ اختلاف ولو روایۃ ضعیفۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر والجہاد: باب أحکام المرتدین‘‘: ج ۵، ص: ۱۲۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص271
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ اور اس طرح کے دیگر اعتراضات کے واضح جوابات سمجھنے کے لئے حضرت مولانا سرفراز خاں صفدر کی کتاب عبارات اکابر مطبوعہ مکتبہ مدنیہ دیوبند کا مطالعہ مفید ہوگا، اس تعلق سے کچھ اور کتابیں بھی ہیں۔ جو مخالفین کی الزام تراشیوں کو قطع کرنے کے لئے مفید ہیں، مذکورہ کتاب ’’عبارات اکابر‘‘ سہل اور مفید ہے۔ اسی طرح مولانا منظور نعمانیؒ صاحب کی کتاب ’’فیصلہ کن مناظرہ‘‘ بھی بڑی مفید ہے
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص273
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شیعوں کا وہ گروپ جو حضرت جبریل علیہ السلام کے وحی لانے میں اور وحی کو صحیح مقام تک پہونچانے میں ان کی غلطی کا قائل ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کو صحیح مانتا ہے اور حضرات صحابہؓ اور خصوصاً شیخین کی توہین کرتا ہے تو صراحتاً قرآن کا منکر ہونے کی وجہ سے اس گروپ پر فتویٰ کفر کا ہے؛ لیکن ہمارے علاقوں میں شیعہ عام طور پر ایسے نہیں ہیں؛ اس لئے مفتیان کرام ان کو مسلمان مانتے ہیں؛ کیونکہ ان کے عقائد پہلے گروپ جیسے نہیں ہیں، پس دوسری قسم کے شیعوں سے تعلقات، سلام وکلام اور ان کی دعوت قبول کرنا درست ہے، اگر وہ اپنے چند خاص پروگراموں میں بلائیں، تو قبول کرلینے کی صورت میں ان کے کسی غیر شرعی یا کسی بدعتی عمل میں شرکت نہ کی جائے اور صحیح بات تک لانے کی سعی کی جائے۔
اور اہانت شیخین جب کہ تمام صحابہؓ کا ان کی فضیلت پر اجماع ہے اور متعدد احادیث ان کی فضیلت میں ہیں اور اگر کوئی گروپ اس طرح کا ہے جو ان کی اہانت کا مرتکب ہو، تو مفتیان کرام نے ایسے گروپ کو فاسق وفاجر کہا ہے۔(۱)
(۱) بہذا ظہر أن الرافضي إن کان ممن یعتقد الألوہیۃ في علي رضي اللّٰہ عنہ أو أن جبرائیل علیہ السلام غلط في الوحي، أو کان ینکر صحبۃ الصدیق، أو یقذف السیدۃ الصدیقۃ فہو کافر لمخالفۃ القواطع المعلومۃ من الدین بالضرورۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب النکاح: فصل في المحرمات، مطلب مہم في وطئی السراري‘‘: ج ۴، ص: ۱۵۳)
فصل: وأما الشیعۃ فلہم أقسام، منہا: الشیعۃ والرافضۃ والغالیۃ والطاریۃ … أما الغالیۃ فیتفرق منہا إثنتا عشرۃ فرقۃ منہا البیانیۃ والطاریۃ والمنصوریۃ والمغیریۃ والخطابیۃ والمعمریۃ الخ … ومن ذلک تفضیلہم علیاً رضي اللّٰہ عنہ علی جمیع الصحابۃ وتنصیصہم علی إمامتہ بعد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وتبرؤہم من أبي بکر وعمر رضي اللّٰہ عنہما وغیرہما من الصحابۃ الخ۔ (غنیۃ الطالبین: القسم الثاني: العقائد والفرق، فصل في بیان مقالۃ الفرقۃ الضالۃ: ص: ۱۷۹ - ۱۸۰)
نعم لا شک في تکفیر من قذف السیدۃ عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أو أنکر صحبۃ الصدیق رضي اللّٰہ عنہ أو اعتقد الألوہیۃ في علي رضي اللّٰہ عنہ أو أن جبرئیل علیہ السلام غلط في الوحي أو نحو ذلک من الکفر الصریح المخالف للقرآن۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: فہم في حکم سب الشیخین‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص274
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شیعہ کے گھر کا کھانا کھانے کی گنجائش ہے، البتہ ان کی غیر شرعی رسموں میں شرکت نہیں کرنی چاہئے۔اسی طرح جو لوگ شیعہ کی دکان پر کام کرتے ہیں ان کے لیے کھانا درست ہے۔(۱)
(۱) الأول من الأقسام: سؤر طاہر مطہر بالاتفاق من غیر کراہۃ في استعمالہ وہو ما شرب منہ آدميٌّ لیس بفمہ نجاسۃ … ولا فرق بین الصغیر والکبیر والمسلم والکافر والحائض والجنب۔ (الشرنبلالي، نور الإیضاح، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص275
مذاہب اربعہ اور تقلید
لجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا شخص سخت گنہگار ہوگا، چونکہ وہ شخص سنی مسلمان نہیں ہے، بلکہ شیعہ ہے اور یہ عقیدہ شیعوں کا ہے جو بے اصل اور بے بنیاد اور لغو ہے، قرآن جیسے نازل ہوا تھا، عہد نبوی سے لے کر آج تک اسی حالت پر موجود ہے۔(۲)
(۲) إنا نحن نزلنا الذکر وإنا لہ لحافظون من التحریف والزیادۃ والنقصان ولا یتطرق إلیہ الخلل أبداً ویل للرافضۃ حیث قالوا قد تطرق الخلل إلی القرآن وقالوا إن عثمان وغیرہ حرقوہ وألقوہ منہ عشرۃ أجزاء۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر المظہري، ’’سورۃ الحجر: ۹‘‘: ج ۵، ص: ۱۵۵)
قال أبو محمد: القول بأن بین اللوحین تبدیلاً کفر صحیح وتکذیب لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: (محمد بن عبد الکریم الشہرستاني، الملل والنحل، ’’ذکر شنع الشیعۃ‘‘: ج ۴، ص: ۱۳۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص276
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:غالباً مقتدیوں نے ان کے عقائد کی وجہ سے اعتراض کیا ہوگا جو شیعہ ضروریات دین کے منکر ہیں، وہ مسلمان ہی نہیں اور ایشیاء میں ایسے شیعوں کا وجود خال خال ہے جن کو مسلمان نہ کہا جائے، فقہاء نے تصریح کی ہے جو قذف عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے مرتکب نہیں اور الوہیت علی کے قائل نہیں اور ضروریات دین کے منکر نہیں وہ مسلمان ہیں۔ فقہاء نے ان کو صرف بدعتی لکھا ہے؛ اس لئے مقتدیوں کو بلا وجہ اعتراض نہیں کرنا چاہئے، بہر حال ان کے گھر کا کھانا جو کہ اپنی خوشی سے دیتے ہیں، تو امام ومؤذن کو لینا جائز ہوگا اور ان کی دی ہوئی چیزوں کو مسجد میں استعمال کرنا بھی جائز ہوگا(۱)، وہ بھی قربت اور کار خیر سمجھ کر دیتے ہیں تو اس میں شبہ نہ کیا جائے؛ بلکہ قربت اور کار خیر سمجھ کر کافر بھی مسجد میں کچھ دیدے، تو اس کا لینا اور استعمال کرنا بھی جائز ہوگا؛ البتہ ایسا اختلاط جو اپنی دینداری پر اثر انداز ہو اس سے احتراز کرنا ضروری ہے۔(۱)
(۱) وکل من کان من قبلتنا لا یکفر بہا حتی الخوارج الذین یستحلون دماء نا …وأموالنا وسب الرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وینکرون صفاتہ تعالیٰ وجواز رویتہ لکونہ عن تاویل وشبہۃ قال الشامي: تحت قولہ حتی الخوارج أراد بہم من خرج عن معتقد أہل الحق لا خصوص الفرقۃ الذین خرجوا عن الإمام علي رضي اللّٰہ عنہ وکفروہ فیشمل المعتزلۃ والشیعۃ وغیرہم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأمامۃ، مطلب: البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص277
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شیعوں کا وہ فرقہ یا وہ افراد جو غالی ہوں کہ حضرت جبریل علیہ السلام کے وحی لانے میں غلطی کے قائل ہوں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو متہم کرتے ہوں، یا دیگر نصوص شرعیہ کے منکر ہوں، تو وہ کافر ہیں۔ اور جو فرقہ ایسا نہ ہو، تو وہ کافر نہیں ہے(۱) ان کی نماز جنازہ پڑھانے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے اور ان کی تجہیز وتکفین کرنے میں شرکت کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے(۲)، مذکورہ شخص کو بلا وجہ شرعی متہم کرنا درست نہیں ہے۔
(۱) الرافضي إذا کان یسب الشیخین ویلعنہما فہو کافر وإن کان یفضل علیا علیہما فہو مبتدع۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہا: باب المرتد، مطلب مہم: في حکم سب الشیخین: ج ۶، ص: ۳۷۷)
(۲) ولا یجوز الدعاء للمشرکین بالمغفرۃ ویجوز الدعاء بالمغفرۃ لجمیع المؤمنین جمیع ذنوبہم لغرض الشفقۃ علی إخوانہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان سننہا‘‘: ص: ۲۷۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص278
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو شیعہ کسی نص قطعی کا منکرہو، مثلاً: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاتا ہو، یا صحابہ کرام پر تبرا کرتا ہو، یا قرآن کریم میں تحریف کا قائل ہو، یا وحی میں غلطی کا قائل ہو، وہ بلاشبہ کافر ہے اور جو ایسا نہ ہو وہ کافر نہیں ہے۔ اگر مذکورہ فی السوال شیعہ پہلی قسم یعنی کسی نص شرعی کا انکار کرنے والوں میں سے ہو، تو ان کو قربانی میں شریک کرنا یا ان کے ساتھ مناکحت کے تعلقات قائم کرنا شرعاً جائز نہیں۔ باقی ان کے ساتھ کھانا، پینا وغیرہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اگر مصلحۃً ہو کہ وعظ ونصیحت کا موقعہ ملے ان کو اہل سنت والجماعت کی حقانیت بتلانے کا موقعہ ملے اور اگر موالات کے طور پر ہو، تو ناجائز ہے، اسی طرح ان سے چندہ وغیرہ لینا کہ اگر کسی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو تو شرعاً گنجائش ہے اور اگر ایسے شیعہ ہوں کہ ضروریات دین اور نصوص شرعیہ کے منکر نہیں؛ بلکہ فروعی اختلاف رکھتے ہوں، تو وہ چونکہ کافر نہیں ہیں؛ اس لئے ان سے مناکحت وغیرہ سب درست ہیں اور چونکہ شیعوں کا ایک بنیادی عقیدہ تقیہ ہے کہ اس کی وجہ سے ان کے عقیدے مخفی رہتے ہیں؛ اس لئے جہاں تک ہو سکے احتیاط لازم ہے۔ ہاں افہام وتفہیم کے طریقے حتی الامکان تلاش کئے جائیں۔ (۱)
(۱) وإن کان یفضل علیاً کرم اللّٰہ وجہہ علي أبي بکر رضي اللّٰہ عنہ لا یکون کافراً إلا أنہ مبتدع۔ (جماعۃ من علماء الہند: الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجباب الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم السلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۶)
نعم لا شک في تکفیر من قذف السیدۃ عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أو أنکر صحبۃ الصدیق رضي اللّٰہ عنہ أو اعتقد الألوہیۃ في علي رضي اللّٰہ عنہ أو أن جبرئیل علیہ السلام غلط في الوحي أو نحو ذلک من الکفر الصریح المخالف للقرآن۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہا: باب المرتد، مطلب مہم: في حکم سب الشیخین‘‘: ج ۶، ص: ۳۷۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص280