مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس موضوع سے متعلق ایک کتاب ’’عقد الجید في أحکام الاجتہاد والتقلید‘‘ کے نام سے آن لائن موجود ہے، اس کو نیٹ سے لوڈ کر کے مطالعہ کر لیا جائے۔(۲)  دوسری کتاب ’’اجتہاد وتقلید‘‘ ہے جو حجۃ الاسلام اکیڈمی دار العلوم وقف دیوبند سے شائع ہوئی ہے۔(۱) تیسری کتاب ’’تقلید کی شرعی حیثیت‘‘ ہے۔(۲) ان کتابوں کا مطالعہ ضرور کریں۔ پہلی کتاب عربی اور باقی دونوں اردو میں ہیں۔

(۲) مصنفہ: الشاہ ولی اللہ محدث الدہلوی۔

(۱) مصنفہ: حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ۔تحقیق و تخریج: محمد حسنین ارشد قاسمی

(۲) مصنفہ: مفتي محمد تقي العثماني۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص255

 

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دیگر مسالک کے لوگوں کا بھی احترام لازم ہے، اچھے اخلاق سے پیش آنا ایمان کی علامت ہے،(۱) اسے بہرحال ملحوظ رکھنا چاہئے۔ دوسروں کا مذاق بنانے اور نازیبا حرکت کرنے سے کسی خیرکی توقع نہیں کی جاسکتی۔(۲) ان کو اچھے اور مشفقانہ لہجے میں سمجھانا  چاہئے، ان سے اچھے تعلقات اگر رکھیں گے، تو وہ آپ کی بات سنیں گے اور حق کو قبول کریں گے، ان کے دل میں صحابہ کرامؓ کی عظمت پیدا کرنے کے لئے صحابہ کرامؓ کے واقعات سنائے جائیں۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا، جبکہ وہ صحابہؓ کی شان اپنے اندر پیداکریں؛ اس لئے اہل حق کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے ۔(۱)

(۱) لا تحقرن من المعروف شیئاً ولو أن تلقی أخاک بوجہ طلق۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب البر والصلاۃ والآداب: استحباب طلاقۃ الوجہ عند اللقاء‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۵، رقم: ۲۶۲۶)

(۲) {لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی أَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ} (سورۃ الحجرات: ۱۱)

(۱) {إِدْفَعْ بِالَّتِيْ ھِيَ أَحْسَنُ السَّیِّئَۃَ ط نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَہ۹۶} (سورۃ المؤمنون: ۹۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص254

 

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اہل حدیث وغیر مقلد ایک ہی فرقہ ہے اور یہ مسلمان ہیں؛ لیکن تقلید کے منکر ہیں، حالاں کہ تقلید ائمہ کے بغیر پورے طور پر راہِ راست پر رہنا مشکل ہے، اس سلسلے میں (فتاویٰ رحیمیہ: ص: ۲۳۴، ج۱) کا مطالعہ مفید ہوگا۔(۳)

(۳) وترک الأشعري: مذہبہ واشتغل ہو ومن تبعہ بإبطال رأی المعتزلۃ وإثبات ما ورد بہ السنۃ أي الحدیث ومضی علیہ الجماعۃ أي: السلف أو الصحابۃ خاصۃ بقرینۃ ما مر والمآل واحد فسموا بأہل السنۃ والجماعۃ أي: أہل الحدیث وإتباع الصحابۃ: (محمد عبدالعزیز، النبراس، شرح العقائد: ص: ۳۱)

قال في خزانۃ الروات: العالم الذي یعرف معنی النصوص والأخبار وہو من أہل الدرایۃ یجوز لہ أن یعمل علیہا وإن کان مخالفاً لمذہبہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’مطلب لا تقبل الشہادۃ بلفظ اعلم أو أتیقن‘‘: ج ۷، ص: ۷۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص256

 

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عمل تو قرآن وحدیث پر ہوتا ہے، البتہ جب تک بصیرت تامہ نہ ہو اس کے صحیح مفہوم تک رسائی ہر شخص کے بس کی بات نہیں(۱)۔ قرآن پاک کی تفسیر احادیث ہیں، پھر احادیث کے سبب ورود کی معلومات ضروری ہوتی ہیں، پھر نظائر کے تحت اجماع کا درجہ ہے، عام لوگوں کے بس کی بات نہیں کہ سب کو سمجھ سکیں؟ اب سوچنے والے عموماً علماء سے بدظن ہوتے ہیں، جو ان کے لئے خطرناک ہے۔(۲)

(۱) لیس في قوۃ أحد بعد الأئمۃ الأربعۃ أن یبتکر الأحکام ویستخرجہا من الکتاب والسنۃ فیما نعلم أبداً۔ (النافع الکبیر: ص: ۱۵،  اللباب في الجمع بین السنۃ والکتاب، أبو محمد علي بن زکریا، المنجبي: ص: ۱۰)
(۲) یخاف علیہ الکفر إذا شتم عالماً أو فقیہا من غیر سبب، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، منہا: ما یتعلق بالعلم والعلماء‘‘: ج ۲، ص: ۲
۸۲)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص161

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہر غیر مقلد کے بارے میں ایسے الفاظ کا استعمال درست نہیں ہے،(۱) اور مذکورہ حدیث سے استدلال کرکے صرف قرآن وحدیث کو ماننا، اور آثار صحابہؓ واجماع امت وغیرہ چھوڑدینا درست نہیں ہے؛ اس لئے کہ آثار صحابہؓ واجماع امت، نیز قیاسِ صحیح کا حجت ہونا، قرآن وحدیث سے ثابت ہے، جو ایسا کہے وہ گمراہ کن اور غلطی کا باعث ہے وہ خود بھی گمراہ ہے، اس کی بات پر عمل کرنا درست نہیں ہے۔(۲)

(۱) عن أبي ذر رضي اللّٰہ عنہ قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یرمي رجل رجلا بالفسوق ولا یرمیہ بالکفر إلا ارتدت علیہ إن لم یکن صاحبہ کذلک۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأدب: باب ما ینہي السباب واللعن‘‘: ج ۲، ص: ۸۹۳، رقم: ۶۰۴۵)
(۲) عن عرفجۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ، قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إنہ سیکون ہناتٌ وہناتٌ فمن أراد أن یفرق أمر ہذہ الأمۃ وہي جمیع فاضربوہ بالسیف کائناً من کان، رواہ مسلم۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإمارۃ والقضاء‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۰، رقم: ۳۶۷۷)
وعن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ لا یجمع أمتي، أو قال أمۃ محمدٍ علی ضلالۃ وید اللّٰہ علی الجماعۃ ومن شذَّ شذَّ في النار، رواہ الترمذي۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: بالإعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۳۰، رقم: ۱۷۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص257

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:غیر مقلد اگر ائمہ اربعہ کو برا نہیں کہتا، تو اس کے پیچھے نماز درست ہے بشرطیکہ طہارت وغیرہ میں مواقع اختلاف کی رعایت رکھتا ہو، تاکہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس کی امامت درست ہوجائے۔(۱)

(۱) وعن عبادۃ ابن الصامت، قال: بایعنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی السمع والطاعۃ في العسر والیسر والمنشط والمکرہ وعلی أثرۃ علینا وعلی أن لا ننازع الأمر أہلہ وعلی أن نقول بالحق أینما کنا لا نخاف في اللّٰہ لومۃ لائم، وفي روایۃ: وعلی أن لا ننازع الأمر أہلہ إلا أن تروا کفراً بواحاً عند کم من اللّٰہ فیہ برہان، متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإمارۃ والقضاء، الفصل الأول‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۹، رقم: ۳۶۶۶)

أن تیقن المراعاۃ لم یکرہ أو عدمہا لم یصح۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص258

 

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) جماعت اسلامی کے کفر کا کوئی بھی قائل نہیں ہے، اکابرین میں سے بھی کسی معتبر شخصیت نے اس جماعت کی تکفیر نہیں کی؛ اس لئے جماعت اسلامی کو کافر کہنا قطعاً درست نہیں ہے۔ (۱)

(۲) اس صورت میں والد صاحب کا اپنے لڑکے کو گھر سے نکالنا اور وراثت سے محروم کرنا جائز نہیں ہے۔ (۲)

(۳) رشتۂ نکاح کو ختم کر دینا یا شادی نہ کرنا بھی شرعاً درست نہیں ہے؛ بلکہ بغیر شرعی وجہ کے ایسا کرنا قطع رحمی ہے۔

(۴) بھائی کو ہی گھر سے نکالنا جائز نہیں ہے، امی تو بے قصور ہے اس کی تو والد کے باطل خیال کے اعتبار سے بھی کوئی خطاء نہیں ہے؛ اس لئے اس کو گھر سے باہر نکالنے یا دھمکی دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

(۵) جماعت اسلامی کے مختلف وکثیر مصنفین ہیں، کسی کی کتاب دیکھے بغیر اس پر کلام نہیں کیا جا سکتا، اتنا ضرور ہے کہ ’’مولانا ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ‘‘ کی بعض کتابوں سے اور ان کے خیالات سے علماء حق کو اختلاف ہے، اس لئے ان کی وہ کتابیں کہ جن سے اختلاف ہے، نہ پڑھی جائیں۔ ہر آدمی اس بات کو نہیں سمجھ سکتا کہ کہاں پر کون سی بات حق ہے کون سی ناحق ہے، رطب ویا بس میں فرق معتمد علماء ہی کر سکتے ہیں؛ اس لئے کم سمجھدار اور کم علم حضرات احتیاط کریں تو بہتر ہے، مولانا ابو اللیث صاحب کی کتابوں سے اس طرح کا کوئی اختلاف نہیں، ان کے خیالات شریعت کے معارض نہیں حتی کہ بعض مقامات پر انھوں نے ’’مولانا ابو الاعلیٰ مودودی‘‘ سے اختلاف بھی کیا ہے۔ اسی طرح دیگر مصنفین کی کتابیں پڑھنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں، اور اگر کسی متعین کتاب سے علماء حق کو شرعی اختلاف ہو، اس میں غلطیاں ہوں تو ایسی کتاب کے بارے میں دیکھ کر ہی کچھ کہا جا سکتا ہے، مذکورہ وضاحت کی روشنی میں اپنے بھائی کو کتابیں پڑھنے اور نہ پڑھنے کی ترغیب دیجئے، نیز آپ بھی بھائی کے ساتھ اپنے رویہ میں ترمیم کریں آپ کا عمل بھی درست نہیں، گھر سے نکالنا شادی نہ کرنا یا وراثت سے محروم کرنا سب غلط ہیں۔

(۶) باپ کو چاہئے کہ وہ بیٹے جیسا برتاؤ کرے، اور بھائی کو بھائی سمجھ کر اس کا تعاون کرنا چاہئے جب کہ صلہ رحمی شرعاً مطلوب ہے، اور قطع رحمی ناجائز ومبغوض ہے بلاوجہ شرعی قطع تعلقی جائز نہیں ہے۔ (۱)

(۱) وفي روایۃ: وعلی أن لا ننزع الأمر أہلہ إلا أن تروا کفراً بواحاً عند کم من اللّٰہ فیہ برہان۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الأمارۃ والقضاء‘‘: ج ۶، ص: ۲۳۹۳، رقم: ۳۶۶۶)

(۲) إعدلوا بین أبنائکم إعدلوا بین أبنائکم إعدلوا بین أبنائکم۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب الہبۃ وفضلہا والتحریض علیہا، باب الہبۃ للولد‘‘: ج ۲، ص: ۹۱۴، رقم: ۲۴۴۷)

إعدلوا بین أولادکم إعدلوا بین أبنائکم۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الإجارۃ: باب في الرجل یفضل بعض ولدہ في النحل‘‘: ج ۳، ص: ۲۹۳، رقم: ۳۵۴۴)

(۱) {الَّذِیْنَ یُوْفُوْنَ بِعَھْدِ اللّٰہِ وَلَا یَنْقُضُوْنَ الْمِیْثَاقَہلا ۲۰} (سورۃ الرعد: ۲۰)

عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحب أن یبسط لہ في رزقہ وینسأ لہ في أثرہ فلیصل رحمہ، متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الأدب:   …باب البر والصلاۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۹، رقم: ۴۹۱۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص259

 

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سمجھدار عالم کے لیے مطالعہ درست ہے کہ تفسیر کو وہی تحقیق سے پڑ ھ سکتا ہے۔(۲)

(۲) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قال في القرآن بغیر علم فلیتبوأ مقعدہ من النار، ہذا حدیث حسن۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’باب ما جاء في الذي یفسر القرآن برأیہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۳، رقم: ۲۹۵۲)
قال السیوطي: اختلف الناس في تفسیر القرآن ہل یجوز لکل أحد الخوض فیہ؟ فقال: لا یجوز لأحد أن یتعاطی تفسیر شيء من القرآن وإن کان عالماً أدیباً منسما في معرفۃ الأدلۃ والفقہ والنحو والأخبار والآثار الخ۔ (جلال الدین السیوطي، الإتقان في علوم القرآن، ’’باب النوع الثامن والسبعون‘‘: ج ۴، ص: ۲۱۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص261

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:تمام بریلوی مشرک نہیں ہیں، بلکہ جو لوگ قبروں پر سجدہ کرتے ہیں اور صاحب قبر کو مشکل کشا وحاجت روا اور مختار سمجھتے ہیں، ان کے بارے میں اندیشۂ کفر ہے۔ تاہم تاویل کی گنجائش ہے؛ اس لئے ان کو مشرک نہیں کہیں گے(۱)۔ غیرمسلم اور مشرک دونوں کا درجہ ایک ہی ہے۔ اسلام کے بنیادی عقائد سمجھائے جائیں کہ اسلام میں اصل شرک وبت پرستی سے روکنا اور تمام امور میں اللہ تعالیٰ کو ہی مشکل کشا وحاجت روا ہونے کا عقیدہ رکھنا ضروری ہے۔ دین کی بنیادی باتوں کا انکار کفر ہے۔ (۲) البتہ جو بریلوی حضرات شرکیہ اعمال میں مبتلا ہیں اور ان کے اعمال کی کوئی مناسب تاویل کی جا سکتی ہے، تو ان کو مشرک قرار دینے سے گریز کریں گے، ہمارے اکابر کا مزاج؛ بلکہ اصول یہ ہے کہ وہ کسی کلمہ گو مسلمان کو کافر قرار دینے میں عجلت سے کام نہیں لیا کرتے تھے۔

(۱) {لاَ تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِيْ خَلَقَہُنَّ إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَہ۳۷} (سورۃ حٓم سجدۃ: ۳۷)

لا یفتی بکفر مسلم أمکن حمل کلامہ علی محمل حسن۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد:  باب المرتد، مطلب في حکم من شتم دین مسلم‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۷)

(۲) وإن أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ کفر بہا۔ (ابن عابدین،  الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:  باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۰)

ولا نکفر مسلماً بذنب من الذنوب وإن کانت کبیرۃ إذا لم یستحلہا ولا نزیل عنہ اسم الإیمان ونسمیہ مؤمناً حقیقۃ۔ (أبو حنیفۃ، شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في أن الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الإیمان‘‘: ص: ۱۱۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص263

 

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر ان صفات کی نسبت کرنے میں غلو سے کام لے اور نبی کے حاضر وناظر وعالم الغیب ہونے اور اللہ کے عالم الغیب وحاضر ناظر ہونے میں کوئی فرق نہ کرے  تو اسلام سے خارج ہے، اور اگر دونوں میں فرق کرتا ہے اور تاویل کرتا ہے، تو اس کو اسلام سے خارج نہیں کہا جائے گا۔ (۱)

(۱) لا یفتی بکفر مسلم أمکن حملہ علی محمل حسن۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد:  باب المرتد، مطلب في حکم من شتم دین مسلم‘‘: ج ۶، ص: ۳۶۷)

ولا نکفر مسلماً بذنب من الذنوب وإن کانت کبیرۃ إذا لم یستحلہا ولا نزیل عنہ اسم الإیمان ونسمیہ مؤمناً حقیقۃ۔ (أبو حنیفۃ، شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في أن الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الإیمان‘‘: ص: ۱۱۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص264