مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شیعہ حضرات میں متعدد فرقے ہیں کچھ وہ ہیں جو اصول و نصوص کے صراحۃً منکر ہیں مثلاً اس کے قائل ہیں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام سے رسالت کو پہونچانے میں غلطی ہوئی ہے یاقرآن کریم میں تحریف کے قائل ہیں یا حضرت عائشہؓ پر لگائی گئی تہمت کو سچ مانتے ہیں وغیرہ۔ ایسے لوگ ایمان سے خارج ہیں ان کا ذبیحہ مردار ہے اس کو کھانا جائز نہیں ہے باقی جن حضرات پر کفر عائد نہیں ہوتا اور وہ شرعی طریقہ پر ذبح کریں تو ان کا ذبیحہ حلال ہے۔(۱)

(۱)اور جو لوگ کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو خلفائے ثلاثہ پر صرف افضل مانتے ہیں ان کے ہاتھ کا ذبیحہ جائز ہے۔ (کفایت المفتی، ’’باب الفرق‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۵)
وإن کان یفضل علیاً کرم اللّٰہ وجہہ علي أبي بکر رضي اللّٰہ عنہ لا یکون کافراً إلا أنہ مبتدع۔ (جماعۃ من علماء الہند: الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم السلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۶)
نعم لا شک في تکفیر من قذف السیدۃ عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أو أنکر صحبۃ الصدیق رضي اللّٰہ عنہ أو اعتقد الألوہیۃ في علي رضي اللّٰہ عنہ أو أن جبرئیل علیہ السلام غلط في الوحي أو نحو ذلک من الکفر الصریح المخالف للقرآن۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہا: باب المرتد، مطلب فہم: في حکم سب الشیخین‘‘: ج ۴، ص: ۱۳۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص281

مذاہب اربعہ اور تقلید

Ref. No. 2771/45-4470

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  حنفیہ کے نزدیک جہری نمازوں میں بھی آمین آہستہ کہنا افضل ہے، آمین ایک دعاء ہے اور دعاء میں اصل اخفا ہے، اس لئے آمین آہستہ کہنا افضل اور بہتر ہوگا، یہی مالکیہ کا مسلک بھی ہے، البتہ شوافع وحنابلہ کے نزدیک آمین بالجہر اولی ہے، نماز سے باہر سورہ فاتحہ کے ختم پر آمین کہنا بہتر ہے، واجب نہیں ہے اور اس سلسلہ میں سراً قراءت ہو توآمین  سراً اور جہری قراءت ہو تو جہراً کہنے کی گنجائش ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند