Frequently Asked Questions
فقہ
فقہ
Ref. No. 1580/43-1112
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صلاتک ایپ ہم نے استعمال کیا ہے، اور دائمی کلینڈر سے اس کو چیک کیا توبہت مناسب ایپ لگا۔ اس لئے اس ایپ کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اوقات صلوۃ میں اس پر اعتبار کیا جاسکتاہے البتہ اس طرح کے تمام ایپ نیٹ سے مربوط ہوتے ہیں ، اس ایپ کو کھولنے سے پہلے موبائل کا انٹرنیٹ اور لوکیشن (Location)بھی چیک کرلیں تاکہ صحیح وقت کی معرفت حاصل ہوسکے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 998/41-184
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔
درہم: تین گرام، اکسٹھ ملی گرام، آٹھ میکروملی گرام
دینار: چار گرام تین سو چوہتر ملی گرام
رطل بغدادی: چارسو گرام نو سو پانچ ملی گرام
صاع: تین کلو ایک سو اننچاس گرام دو سو اسی ملی گرام
قیراط: دوسو اٹھارہ ملی گرام سات میکروملی گرام
وسق: ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔ صاع کی جو مقدار لکھی گئی ہے اس کو ساٹھ گنا کرلیں۔ (الاوزان المحمودۃ ص17، 39، 69)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
فقہ
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس خواب سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دادی مرحومہ کو اللہ تعالیٰ نے بلند مقام عطا فرمایا ہے، اور مغفرت فرمادی ہے۔ اور اس کی خصوصی وجہ قرآن کریم سیکھنا ہے۔ اور یہ کہ باقی مذکورہ افراد بھی خوش وخرم ہیں۔(۱)
(۱) (سورۃ القرآن) التي تقرأ علی الأموات غالباً قرائتہا في المنام تدل علی موت المریض وقرائۃ سورۃ تصاریف المریض سرور وأفراح ورزق وتجدید۔ (العبد الغني بن إسماعیل، …بقیہ …تعطیرالأنام: ج ۱، ص: ۱۵۰)
(قرآن) ہو في المنام قرائتہ من مصحف أمر ونہي وشرف وسرور ونصر۔ (ومن رأی) أنہ یقرأ القرآن ظاہراً من غیر مصحف، فإنہ رجل یخاصم في حق ودعواہ حق ویؤدي ما في یدہ من الأمانۃ ویکون مؤمناً خاشعاً یأمر بالمعروف وینہی عن المنکر۔ (العبد الغني بن إسماعیل، تعطیرالأنام: ج ۱، ص: ۲۷۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص175
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ خواب خوش آئند ہے، خواب دیکھنے والے کو کوئی خوشی میسر آئے گی، درود شریف کثرت سے پڑھیں حالت نارمل ہو جائے گی۔ (إن شاء اللّٰہ)(۱)
(۱) ورؤیۃ الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم تدل علی الخیر والبرکۃ علی حسب منازلہم ومقادیرہم المعروفۃ في سیرہم وطریقتہم وربما دلت رؤیۃ کل واحد منہم علی ما نزل بہ، وما کان في أیامہ من فتنۃ أو عدل فمن رأی أنہ حشر مع أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فإنہ من یطلب الاستقامۃ في الدین۔ (العبد الغني بن إسماعیل، تعطیرالأنام: ج ۱، ص: ۱۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص176
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ولید بن عبد الملک کے زمانہ میں حضرت عمر بن عبد العزیز نے مسجد نبوی کی محراب بنوائی تھی۔(۱)
(۱) أول من أحدث ذلک عمر بن عبد العزیز وہو یومئذ عامل للولید بن عبد الملک علی المدینۃ۔ (مرقاۃ المفاتیح، شرح مشکوۃالمصابیح، ’’باب المساجد ومواضع الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۲۴، رقم: ۷۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص177
فقہ
Ref. No. 38/828
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: اس طرح ذبح کرنے سے گریز کرنا چاہئے تاہم اگر کرنٹ لگنے سے اس کی موت واقع نہ ہو تو اس کو ذبح کردینے سے جانور حلال ہوجائے گا۔ البتہ اس میں کوشش ہو کہ جانور کو تکلیف کم سے کم ہو۔ پھر کرنٹ لگنے پر اگر کوئی جانور مرگیا اور اس کی جان نکل چکی ہے تو اب چھری پھیردینے سے وہ حلال نہ ہوگا۔ حلت وحرمت کا معاملہ ہے اس لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 1588/43-1125
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت بالا میں تین دن نفاس کا خون آکر بند ہوگیا اور عورت نےپاکی سمجھ کر غسل کرلیا اور نماز و روزہ بھی اس سے شروع کردیا یہاں تک کہ شوہر نے اس سے صحبت بھی کی لیکن پھر سولہ دن بعد نفاس کا خون جاری ہوگیا جبکہ نفاس کی مدت ابھی باقی تھی یعنی چالیس دن۔ اس لئے دوبارہ جو خون جاری ہوا یہ نفاس کا ہی مانا جائے گا۔ عورت نے جو نماز وغیرہ عبادات کیں یا شوہر سے صحبت ہوئی اس پر کوئی گناہ نہیں، کیونکہ یہ سب کچھ لاعلمی میں ہوا، البتہ چونکہ خلاف شرع امور انجانے میں ہوئے ہیں اسلئے افضل ہے کہ کچھ صدقہ وغیرہ کردے۔
[تتمة] الطهر المتخلل بين الأربعين في النفاس لا يفصل عند أبي حنيفة سواء كان خمسة عشر أو أقل أو أكثر، ويجعل إحاطة الدمين بطرفيه كالدم المتوالي وعليه الفتوى. وعندهما الخمسة عشر تفصل، فلو رأت بعد الولادة يوما دما وثمانية وثلاثين طهرا ويوما دما؛ فعنده الأربعون نفاس وعندهما الدم الأول؛ ولو رأت من بلغت بالحبل بعد الولادة خمسة دما ثم خمسة عشر طهرا ثم خمسة دما ثم خمسة عشر طهرا ثم استمر الدم؛ فعنده نفاسها خمسة وعشرون؛ وعندهما نفاسها الخمسة الأولى وحيضها الخمسة الثانية، وتمامه في التتارخانية.(شامی باب الحیض 1/290)
ثم أبو حنيفة - رحمه الله تعالى - مر على أصله فقال: الأربعون للنفاس كالعشرة للحيض ثم الطهر المتخلل في العشرة عنده لا يكون فاصلا، وإذا كان الدم محيطا بطرفي العشرة يجعل الكل كالدم المتوالي فكذلك في النفاس إذا أحاط الدم بطرفي الأربعين وأبو يوسف - رحمه الله تعالى - مر على أصله أن الطهر المتخلل إذا كان أقل من خمسة عشر لا يصير فاصلا، ويجعل كالدم المتوالي فإذا بلغ خمسة عشر يوما صار فاصلا بين الدمين، فهذا مثله. (المبسوط للسرخسی، باب النفاس 3/211)
ثم الطهر المتخلل بين دمي النفاس لا يفصل، وإن كثر عند أبي حنيفة نحو ما إذا ولدت فرأت ساعة دما ثم طهرت تسعة وثلاثين ثم رأت على الأربعين دما فالأربعون كلها نفاس عند أبي حنيفة وعندهما إن كان الطهر المتخلل أقل من خمسة عشر يوما ما لم يفصل وإن كان خمسة عشر فصاعدا فصل فيكون الأول نفاسا والآخر حيضا إن كان ثلاثة أيام فصاعدا، وإن كان أقل فهو استحاضة،(الجوھرۃ النیرۃ علی القدوری، دم النفاس 1/35)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند