فقہ

Ref. No. 2128/44-2172

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگرعورت  حالت حیض و نفاس میں ہو تو قرآن کریم کی تلاوت ممنوع ہے، البتہ ترجمہ پڑھ سکتی ہے، اس کی تشریح کرسکتی ہے، اور جس کتاب میں قرآن  کریم کی آیات کم ہوں،  اور دیگر عبارات مثلا تفسیر احادیث اور تشریحات زیادہ ہوں ، اس  کتاب کو چھوسکتی ہے تاہم بہتر ہے کہ دستانے پہن کر ایسی کتاب کو چھوئے اور آیات کی تفسیر میں قرآن کی آیت تلاوت نہ کرے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بدعت کہتے ہیں کہ کوئی ایسا کام کرنا جس کی شریعت میں کوئی اصل ثابت نہ ہو اور اس کو اپنے لئے شریعت سمجھ کر لازم اور ضروری قرار دے لینا۔(۱)
ابجد کے قاعدہ سے حروف کے جو عدد ہوتے ہیں ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ کا عدد نکالا گیا تو ۷۸۶؍ نکلا، ۷۸۶؍ کا عدد تحریر کے شروع میں بطور لزوم یا یہ سمجھ کر نہیں لکھا جاتا کہ اس میں خیر وبرکت ہے، بلکہ مقصد بے ادبی سے تحفظ ہوتا ہے(۲)ا ور چونکہ یہ سمجھ کر مذکورہ اعداد لکھے جاتے ہیں کہ یہ ’’بسم اللّٰہ‘‘ کی جانب مشیر اعداد ہیں، تو مدار ثواب ہے چونکہ نیت بھی ہے؛ اس لئے اس سے بھی محرومی نہیں ہوئی۔(۳)

(۱) البدعۃ: کل ما خالف أصول الشریعۃ ولم یوافق السنۃ۔ (شرح أبي داؤد للعیني، ’’باب في التثویب‘‘: ج ۳، ص: ۷)
إحداث ما لم یکن لہ أصل في عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (العیني، عمدۃ القاري، ’’باب إمامۃ المفتون والمبتدع‘‘: ج ۵، ص: ۲۳۰، رقم: ۶۹۴) 

(۲) {لَّا یَمَسُّہٗٓ إِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَہط ۷۹} (سورۃ الواقعۃ: ۷۹)
(۳) عن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إنما الأعمال بالنیات؛ وأخرجہ البخاري في صحیحہ، باب کیف کان بدء الوحي، ج۱، ص:۳، رقم:۱


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص162

فقہ
الجواب وباللہ التوفیق:-بسم اللہ الرحمٰن الرحیم: بشرط صحت سوال مذکورہ صورت میں ہبہ درست ہوگیا۔ کچھ سامان کا رکھا رہنا ہبہ درست ہونے کے لئے مانع نہیں ہے۔ واللہ تعالی اعلم دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:تعلیمی معاملہ ہو یا اس قسم کا دوسرا مسئلہ ہو اس میں برادری اور قومیت کے اعتبار سے امتیاز برتنا اور مذکورہ جملے استعمال کرنا زید کے لئے درست نہیں(۲)، علم دین جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث ہے (۱)، جس میں ہر مومن مسلمان کا حق برابر کا ہے کہ وہ آئے اور میراث محمدی سے حصہ پائے، کسی کو منع کرنے، روکنے کا حق نہیں ہے، ایسے حضرات جو منع کرنے والوں میں ہوں سخت گنہگار ہوں گے طلب علم عبادت ہے اور عبادت سے روکنا گناہ ہے۔(۲)

(۲) الناس سواء لا فضل لعربي علی عجمي إنما الفضل بالتقویٰ وقال تعالیٰ: {إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقٰئکُمْط} (شرح القسطلاني، إرشاد السامي، ’’باب الأکفاء في الدین‘‘: ج ۸، ص: ۱۹)  قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إنما الناس کأسنان المشط وإنما یتفاضلون بالعافیۃ۔ (الکنی والأسماء للدولابي، باب من کنیۃ أبو خزیمۃ: ج ۲، ص: ۵۲۳)
(۱) إن العلماء ورثۃ الأنبیاء، إن الأنبیاء لم یورثوا دیناراً ولا درہماً إنما ورثوا العلم فمن أخذہ أخذ بحظ وافر۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’مقدمہ، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم‘‘: ج ۱، ص: ۲۰، رقم: ۲۲۳)
(۲) العالم والمتعلم شریکان في الأجر ولا خیر في سائر الناس۔ (’’أیضاً‘‘: رقم: ۲۲۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص163

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دنیاوی علم سے مراد وہ علم ہے، جس کا تعلق اس دنیا کے مسائل وضروریات سے ہے اور دینی علم سے مراد وہ علم ہے، جس کا تعلق آخرت کے مسائل وضروریات سے ہے۔ اپنی دنیاوی زندگی کے مسائل کو سمجھنے، انھیں حل کرنے اور دنیاوی ضروریات پوری کرنے کے لیے دنیاوی علم بھی ضروری ہے، علم کو دو حصوں میں اس طرح تقسیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم دونوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔(۱)

(۱) عن یحیٰ بن حسان سمعت الشافعي یقول: العلم علمان: علم الدین وہو الفقہ، وعلم الدنیا وہو الطب وما سواہ من الشعر وغیرہ فعناء وعبثٌ۔ (شمس الدین، سیر أعلام النبلاء: ج ۸، ص: ۲۵۲)
وعن الحسن قال: (العلم علمان فعلم في القلب فذاک العلم النافع وعلم علی اللسان فذاک حجۃ اللّٰہ عز وجل علی ابن آدم)۔ رواہ الدارمي۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۴، رقم: ۲۷۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص164

فقہ

Ref. No. 1747/43-1453

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غیرمسلم کے یہاں مذکورہ کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ اگر کارڈ بنانے میں کسی حرام کا ارتکاب کرنا پڑتاہو تو دوسری ملازت تلاش کرلینی چاہئے۔ غیروں کے یہاں حلت وحرمت  کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتاہے، لیکن ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر کام کو حلت و حرمت کے دائرے میں لانے کے بعد س کے مطابق عمل کرے ۔ اور حرام چیزوں کو انجام دینے اور ان  میں تعاون سے بھی گریز کرے۔ اللہ کا حق ہر ایک کےحق سے مقدم ہے۔

وتعاونوا على البر والتقوى ۖ ولا تعاونوا على الإثم والعدوان ۚ واتقوا الله ۖ إن الله شديد العقاب (سورۃ المائدۃ 2)

اتفقوا علی انہ لا یجوز للمسلم ان یؤجر نفسہ للکافر لعمل لا یجوز لہ فعلہ کعصر الخمر ورعی الخنازیر وما اشبہ ذلک(موسوعہ فقھیہ کویتیہ، جلد 19، صفحہ 45، مطبوعہ کویت)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 1117/42-343

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نابالغ کی امامت درست نہیں ، اس لئے جن لوگوں نے نابالغ کی اقتداء میں نماز پڑھی وہ اس نماز کو لوٹائیں۔

و لايصح اقتداء رجل بامرأة وخنثی وصبي مطلقاً ولو في جنازة ونفل علی الأصح (درمختار مع الشامی: 1/577

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ
الجواب وباللہ التوفیق بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کا سوال واضح نہیں ہے۔ پیش آمدہ مسئلہ کی پوری صورت لکھ کر دوبارہ سوال کریں۔ دارالافتاء دار العلوم وقف دیوبند

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی بھی زمانے کے مستند علماء کی ایک بڑی تعداد کو جمہور علماء سے تعبیر کیا جا تا ہے۔(۲)

(۲) اتفاق علماء العصر علی حکم النازلۃ، تعریف الإجماع علی کل من ہذین الاتفاقین ووجہ الجواز أنہ یجوز أن یظہر مستند جلی یجمعون علیہ۔ (القاضي أبو یعلی، العدۃ في أصول الفقہ: ج ۱، ص: ۱۷۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص165

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عرف میں کسی معتبر ادارہ سے علوم دینیہ کے مخصوص نصاب کوپڑھ کر فارغ ہونے والے شخص کو عالم کہا جاتا ہے، جب کہ حقیقت میں عالم اسے کہتے ہیں جس کے اندر علم دین کی وجہ سے خشیت الٰہی پیدا ہو جائے؛ اس لئے عالم بننے کے لئے کسی ادارے سے فارغ ہونا ضروری نہیں ہے۔(۲)

(۲) {إِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُاط إِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ غَفُوْرٌہ۲۸} (سورۃ الفاطر: ۲۸)
وأفادت الآیۃ الکریمۃ أن العلماء ہم أہل الخشیۃ وأن من لم یخف من ربہ فلیس بعالم: ابن کثیر۔
ولہٰذا قال شیخ الإسلام عن الآیۃ: وہذا یدل علی أن کل من خشي اللّٰہ فہو عالم وہو حق ولا یدل علی أن کل عالم یخشاہ۔ (ابن تیمیہ، انتہی من مجموع الفتاویٰ: ج ۷، ص: ۵۳۹)
قال الذہبي رحمہ اللّٰہ: لیس العلم عن کثرۃ الروایۃ ولکنہ نور یقذفہ اللّٰہ في القلب وشرطہ الإتباع والفرار من الہوی والابتداع۔ (جامع بیان القرآن: ج ۲، ص: ۲۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص166