Frequently Asked Questions
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:فتوی کے ذریعہ قرآن وحدیث کا حکم بتلایا جاتا ہے، فتوی دینے والا در اصل اللہ تعالیٰ کا حکم بتلاتا ہے، دارالافتاء فتوی دیتا ہے ماننے پر مجبور نہیں کرتا، اس کا ماننا اور اس پر عمل کرنا ایک مسلمان کا دینی فریضہ ہوتا ہے، اس سے انکار کرنابے جا جرأت اوربے دینی کا عمل ہے، ہاں اگر فتوی میں کوئی بات سمجھ میں نہ آئے یاقابل اشکال ہو، تو اس کو دوبارہ معلوم کیا جاسکتا ہے۔ (۱)
(۱) رجل عرض علیہ خصمہ فتوی الأئمۃ فردہا وقال: ’’چہ بار نامہ فتوی آوردہ‘‘ قیل یکفر لأنہ رد حکم الشرع وکذا لو لم یقل شیئاً لکن ألقی الفتویٰ علی الأرض وقال: ’’ایں چہ شرع است‘‘ کفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفرأنواع، ومنہا: ما یتعلق بالعلم والعلماء‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳)
الہازل أو المستہزئ إذا تکلم استخفافاً واستہزاء ومزاحاً یکون کفراً عند الکل، وإن کا اعتقادہ خلاف ذلک۔ (أیضا: ’’ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص158
فقہ
Ref. No. 1472/42-918
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جريمة اللواط من أعظم الجرائم ، وأقبح الذنوب ، وأسوأ الأفعال۔ اللواط من اشد المعاصی التی تخوفتھا الشریعۃ علی الامۃ لفسادہ للفطرۃ البشریۃ ، قال رسول اللہ ﷺ ان اخوف مااخاف علی امتی من عمل قوم لوط۔ (ابن ماجہ 2563)۔ وذهب الشافعي في ظاهر مذهبه والإمام أحمد في الرواية الثانية عنه إلى أن عقوبته وعقوبة الزاني سواء . وذهب الإمام أبو حنيفة إلى أن عقوبته دون عقوبة الزاني وهى التعزير ".
و لکن ھناك أمر مھم یجب ان یتضح ان الحدود والعقوبات ھی مسؤولية قاضي الحكومة الإسلامية فی المملکۃ الاسلامیۃ خاصۃ۔ ھو یقدرھا وینفذھا لا غیر۔ ویحرم علی المرء ان ینفذ الحدود والعقوبات بنفسہ۔ بل علیہ ان یتوب توبۃ نصوحا و يتخلى عن السيئات جملة ويصمم على عدم الاقتراب منها مرة أخرى،و یصلی ركعتين للتوبۃ معربا عن الندم والعار علی ما اقترفہ من عمل شنیع۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحتِ سوال صورت مسئولہ میں اجتہاد کہتے ہیں کسی چیز کی تلاش میں اپنی پوری طاقت خرچ کرنا اور اس سے مراد ہے کسی قضیہ (مسئلہ) کو قیاس کے طریقے سے کتاب وسنت کی طرف لوٹانا۔
’’الاجتہاد بذل الوسع في طلب الأمر، والمراد بہ رد القضیۃ من طریق القیاس إلی الکتاب والسنۃ‘‘(۱) کسی فقیہ کا کسی حکم شرعی کو حاصل (استنباط) کرنے کے لئے اپنی پوری طاقت خرچ کرنے کو بھی اجتہاد کہا جاتا ہے۔
اجتہاد کی شرعی حیثیت یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے: {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْٓا أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْج فَأِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْئٍ فَرُدُّوْہُ إِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْأٰخِرِط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّأَحْسَنُ تَأْوِیْلاًہع ۵۹}(۲)
اس آیت کریمہ میں ادلۃ اربعہ (چاروں دلیلوں) کی طرف اشارہ ہے۔ {أَطِیْعُوا اللّٰہَ} سے مراد قرآن کریم ہے {أَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ} سے مراد سنت ہے {أُولِی الْأَمْرِ} سے مراد علماء اور فقہا ہیں۔ ان میں اگر اختلاف وتنازع نہ ہو؛ بلکہ اتفاق ہو جائے تو اسے اجماعِ فقہاء کہتے ہیں اور اگر {أُولِی الْأَمْرِ} میں علماء وفقہاء کا اختلاف ہو تو ہر ایک مجتہد اپنی رائے سے اجتہاد کرتا ہے اس نئے اور غیر واضح اختلافی مسئلے کا قرآن وسنت کی طرف لوٹانا اور استنباط کرنا اجتہادِ شرعی یا قیاسِ مجتہد کہلاتا ہے۔
’’قال أبو بکر الجصاص: إن أولی الأمر ہم الفقہاء لأنہ أمر سائر الناس بطاعتہم ثم قال فإن تنازعتم في شيء فردوہ إلی اللّٰہ والرسول فأمر أولی الأمر برد المتنازع فیہ إلی کتاب اللّٰہ وسنۃ نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا کانت العامۃ ومن لیس من أہل العلم لیست ہذہ منزلتہم لأنہم لا یعرفون کیفیۃ الرد إلی کتاب اللّٰہ والسنۃ ووجوہ دلائلہما علی أحکام الحوادث فثبت أنہ خطاب للعلماء‘‘(۱)
لہٰذا عوام الناس اور غیر عالم کا یہ مقام نہیں ہے کہ اختلافی مسائل کو کتاب وسنت کی طرف لوٹائے؛ اس لیے کہ لوٹانے کا کیا طریقہ ہے یہ اسے معلوم نہیں ہے اور نہ ہی انہیں نت نئے مسائل مستنبط کرنے کے دلائل کے طریقوں کا علم ہوتا ہے؛ اس لئے یہ مقام اور یہ خطاب علماء اور فقہاء ہی کا ہے۔
اجتہاد کا دروازہ ہرایک کے لیے کھلا ہوا ہو اس کی شریعت اسلامیہ میں گنجائش نہیں ہے، البتہ عام تحقیق وتلاش کتاب وسنت میں تدبر وتفکر، ان کے لطائف اور حقائق کا استخراج ہر زمانے کے تکوینی حوادث سے تشریعی مسائل کو تطبیق دے کر مناسب فتاوی دینا ایسے ہی معاندین اسلام کے نئے نئے شکوک وشبہات اور اعتراضات کی تردید کے لیے نصوص شرعیہ سے استنباط کرنا اصول اسلام کے اثبات اور تحقیق کے لئے کتاب وسنت سے تائید پیدا کرنے کا کام ہر دور میں اہل علم کے لیے باقی ہے اور ہر دور میں اہل عمل کے لئے (مذکورہ) میدان باقی ہے اجتہاد کی یہی نوع کل بھی تھی اور آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔(۲)
(۱) محمد بن محمد الحسیني، تاج العروس من جواہر القاموس: ج ۷، ص: ۵۳۹۔
(۲) سورۃ النساء: ۵۹۔
(۱) أحمد بن علی أبوبکر الجصاص، أحکام القرآن، (سورۃ النساء: ۵۹) ’’باب في طاعۃ أولی الأمر‘‘: ج ۳، ص: ۱۷۷۔
(۲) حکیم الإسلام قاري محمد طیب صاحب، تحقیق: محمد حسنین أرشد قاسمي، اجتہاد اور تقلید: ص: ۷۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص159
فقہ
Ref. No. 2128/44-2172
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگرعورت حالت حیض و نفاس میں ہو تو قرآن کریم کی تلاوت ممنوع ہے، البتہ ترجمہ پڑھ سکتی ہے، اس کی تشریح کرسکتی ہے، اور جس کتاب میں قرآن کریم کی آیات کم ہوں، اور دیگر عبارات مثلا تفسیر احادیث اور تشریحات زیادہ ہوں ، اس کتاب کو چھوسکتی ہے تاہم بہتر ہے کہ دستانے پہن کر ایسی کتاب کو چھوئے اور آیات کی تفسیر میں قرآن کی آیت تلاوت نہ کرے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بدعت کہتے ہیں کہ کوئی ایسا کام کرنا جس کی شریعت میں کوئی اصل ثابت نہ ہو اور اس کو اپنے لئے شریعت سمجھ کر لازم اور ضروری قرار دے لینا۔(۱)
ابجد کے قاعدہ سے حروف کے جو عدد ہوتے ہیں ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ کا عدد نکالا گیا تو ۷۸۶؍ نکلا، ۷۸۶؍ کا عدد تحریر کے شروع میں بطور لزوم یا یہ سمجھ کر نہیں لکھا جاتا کہ اس میں خیر وبرکت ہے، بلکہ مقصد بے ادبی سے تحفظ ہوتا ہے(۲)ا ور چونکہ یہ سمجھ کر مذکورہ اعداد لکھے جاتے ہیں کہ یہ ’’بسم اللّٰہ‘‘ کی جانب مشیر اعداد ہیں، تو مدار ثواب ہے چونکہ نیت بھی ہے؛ اس لئے اس سے بھی محرومی نہیں ہوئی۔(۳)
(۱) البدعۃ: کل ما خالف أصول الشریعۃ ولم یوافق السنۃ۔ (شرح أبي داؤد للعیني، ’’باب في التثویب‘‘: ج ۳، ص: ۷)
إحداث ما لم یکن لہ أصل في عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (العیني، عمدۃ القاري، ’’باب إمامۃ المفتون والمبتدع‘‘: ج ۵، ص: ۲۳۰، رقم: ۶۹۴)
(۲) {لَّا یَمَسُّہٗٓ إِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَہط ۷۹} (سورۃ الواقعۃ: ۷۹)
(۳) عن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إنما الأعمال بالنیات؛ وأخرجہ البخاري في صحیحہ، باب کیف کان بدء الوحي، ج۱، ص:۳، رقم:۱
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص162
فقہ
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:تعلیمی معاملہ ہو یا اس قسم کا دوسرا مسئلہ ہو اس میں برادری اور قومیت کے اعتبار سے امتیاز برتنا اور مذکورہ جملے استعمال کرنا زید کے لئے درست نہیں(۲)، علم دین جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث ہے (۱)، جس میں ہر مومن مسلمان کا حق برابر کا ہے کہ وہ آئے اور میراث محمدی سے حصہ پائے، کسی کو منع کرنے، روکنے کا حق نہیں ہے، ایسے حضرات جو منع کرنے والوں میں ہوں سخت گنہگار ہوں گے طلب علم عبادت ہے اور عبادت سے روکنا گناہ ہے۔(۲)
(۲) الناس سواء لا فضل لعربي علی عجمي إنما الفضل بالتقویٰ وقال تعالیٰ: {إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقٰئکُمْط} (شرح القسطلاني، إرشاد السامي، ’’باب الأکفاء في الدین‘‘: ج ۸، ص: ۱۹) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إنما الناس کأسنان المشط وإنما یتفاضلون بالعافیۃ۔ (الکنی والأسماء للدولابي، باب من کنیۃ أبو خزیمۃ: ج ۲، ص: ۵۲۳)
(۱) إن العلماء ورثۃ الأنبیاء، إن الأنبیاء لم یورثوا دیناراً ولا درہماً إنما ورثوا العلم فمن أخذہ أخذ بحظ وافر۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’مقدمہ، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم‘‘: ج ۱، ص: ۲۰، رقم: ۲۲۳)
(۲) العالم والمتعلم شریکان في الأجر ولا خیر في سائر الناس۔ (’’أیضاً‘‘: رقم: ۲۲۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص163
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:دنیاوی علم سے مراد وہ علم ہے، جس کا تعلق اس دنیا کے مسائل وضروریات سے ہے اور دینی علم سے مراد وہ علم ہے، جس کا تعلق آخرت کے مسائل وضروریات سے ہے۔ اپنی دنیاوی زندگی کے مسائل کو سمجھنے، انھیں حل کرنے اور دنیاوی ضروریات پوری کرنے کے لیے دنیاوی علم بھی ضروری ہے، علم کو دو حصوں میں اس طرح تقسیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم دونوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔(۱)
(۱) عن یحیٰ بن حسان سمعت الشافعي یقول: العلم علمان: علم الدین وہو الفقہ، وعلم الدنیا وہو الطب وما سواہ من الشعر وغیرہ فعناء وعبثٌ۔ (شمس الدین، سیر أعلام النبلاء: ج ۸، ص: ۲۵۲)
وعن الحسن قال: (العلم علمان فعلم في القلب فذاک العلم النافع وعلم علی اللسان فذاک حجۃ اللّٰہ عز وجل علی ابن آدم)۔ رواہ الدارمي۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۴، رقم: ۲۷۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص164
فقہ
Ref. No. 1747/43-1453
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غیرمسلم کے یہاں مذکورہ کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ اگر کارڈ بنانے میں کسی حرام کا ارتکاب کرنا پڑتاہو تو دوسری ملازت تلاش کرلینی چاہئے۔ غیروں کے یہاں حلت وحرمت کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتاہے، لیکن ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر کام کو حلت و حرمت کے دائرے میں لانے کے بعد س کے مطابق عمل کرے ۔ اور حرام چیزوں کو انجام دینے اور ان میں تعاون سے بھی گریز کرے۔ اللہ کا حق ہر ایک کےحق سے مقدم ہے۔
وتعاونوا على البر والتقوى ۖ ولا تعاونوا على الإثم والعدوان ۚ واتقوا الله ۖ إن الله شديد العقاب (سورۃ المائدۃ 2)
’اتفقوا علی انہ لا یجوز للمسلم ان یؤجر نفسہ للکافر لعمل لا یجوز لہ فعلہ کعصر الخمر ورعی الخنازیر وما اشبہ ذلک‘(موسوعہ فقھیہ کویتیہ، جلد 19، صفحہ 45، مطبوعہ کویت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 1117/42-343
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نابالغ کی امامت درست نہیں ، اس لئے جن لوگوں نے نابالغ کی اقتداء میں نماز پڑھی وہ اس نماز کو لوٹائیں۔
و لايصح اقتداء رجل بامرأة وخنثی وصبي مطلقاً ولو في جنازة ونفل علی الأصح (درمختار مع الشامی: 1/577
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند