فقہ

Ref. No. 39 / 895

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  تقدیر کی بحث وتحقیق  میں زیادہ پڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ بچنا چاہئے۔ مختصرا سمجھ لیجئے کہ تقدیر کی دو قسمیں ہیں، تقدیر معلق اور تقدیر مبرم۔  تقدیر مبرم میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں البتہ تقدیر معلق میں اس کا امکان ہے ۔ 

    واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 2206/44-2327

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  فقہی بصیرت کے لئے بنیادی طور پر دوچیزیں ضروری ہیں، کتب فقہیہ کا مطالعہ اور فقہ وفتاویٰ سے مزاولت۔ بہتر ہوگا کہ علاقہ کے کسی دارالافتاء سے منسلک ہوجائیں اور مطالعہ کی روشنی میں استفتاء کے جوابات تیار کریں، اور کچھ دن کسی ماہر مفتی کو معائنہ کرادیاکریں۔

کتب فتاویٰ کے مطالعہ میں متون سے مطالعہ کا آغاز کرنا بہتر ہے، من حفظ المتون نال الفنون۔ حوالہ میں بھی متون کی سب سے زیادہ اہمیت ہے، فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر متون و شروح میں ٹکراؤ ہوجائے تو متون کو مقدم کیاجائے گا، اس لئے کہ متون نقلِ مذہب کے لئے ہی لکھی گئی ہیں۔ عربی فتاویٰ میں مذکورہ فتاویٰ کا مطالعہ مفید ہوگا:  رد المحتار، بدائع الصنائع، عالمگیری، البحرالرائق، فتح القدیر، المبسوط وغیرہ۔ اردو میں امداد الفتاویٰ ، فتاویٰ محمودیہ، کفایت المفتی، فتاویٰ دارالعلوم ، احسن الفتاویٰ، کتاب الفتاویٰ مفید ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 1037/41-265

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بشرط صحت سوال، مذکورہ زمین پر اقبال مرحوم کے تینوں بیٹوں کا حق یقینی ہے، کیونکہ وہ بھی اقبال مرحوم کے وارث ہیں۔  اقبال مرحوم کی کل جائداد کو 24 حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں سے بیوی کو تین  حصے اور ہر ایک بیٹے کو سات ساتھ حصے ملیں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 1262/42-605

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   بشرط صحت سوال مذکورہ صورت میں والدین کی کل جائداد  کو آٹھ حصوں میں تقسیم کریں گے۔ ہر بیٹے کو دو حصے اور ہر بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔ اگر ترکہ میں کل اٹھائیس لاکھ  روپئے ہی صرف ہیں تو اس طرح تقسیم کریں کہ ہر ایک بیٹے کو سات لاکھ روپئے اور ہر ایک بیٹی کو تین لاکھ پچاس ہزار روپئے دیدئے جائیں۔ جس بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے اس کا حصہ  (سات لاکھ) اس کی بیوی اور اولاد میں تقسیم کریں گے۔ مرحوم بیٹے کے حصہ میں سے آٹھواں حصہ اس کی بیوی کودینے کے بعد  بقیہ مال اس کی اولاد میں اس طرح تقسیم کریں  کہ لڑکوں کو دوہرا اور لڑکیوں کو اکہرا حصہ ملے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 39/1143

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   ہمارے اصحاب کا اگر کوئی قول کسی آیت  کے خلاف ہے تو ظاہر ہے اس کا مطلب یہ  نہیں لیا جاسکتا ہے کہ ان ماہرین کی نظر یہاں تک نہیں پہونچی ہوگی  بلکہ یہ سمجھا جائے گا کہ ان کو اس آیت کے منسوخ ہونے کا علم حاصل ہوگیا تھا اس لئے انھوں نے آیت پر عمل نہیں کیا اور ان کا قول آیت کے بظاہر خلاف ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے وہ آیت کے خلاف نہیں ہے ۔  یا بعض مرتبہ ایسا ہوا کہ دو آیتوں میں تعارض ہوگیا اورانکا تاریخ نزول کا ہمیں علم نہیں تو اب ان میں سے کس پر عمل کیا جائے اس میں ہمارے اصحاب کا قول  یقینا الگ ہوگا اور بظاہر آیت کے خلاف  معلوم ہوگا حالانکہ جب ان آیتوں پر عمل کرنا تاریخ نزول کا صحیح علم نہ ہونے کی  وجہ سے ممکن نہیں رہا تو کسی اور قول کا قائل ہونا امر لابدی ہے تاکہ اس سلسلہ میں دیگر نصوص  کو ترجیح حاصل ہو۔ جب اس طرح سے دوسری نصوص کو ترجیح دی جائے گی تو اس کے نتیجے میں احناف کے قول اور آیت میں تعارض ختم ہوگا اور موافقت کی راہ خود بخود نکل آئے گی۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 39 / 905

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس کی تنخواہ حلال ہے، تاہم کسی دوسری مناسب ملازمت وغیرہ کی کوشش جاری رکھنی چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 1264/42-608

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  چندہ جس مقصد کے لئے جمع کیا گیا ہے اسی مقصد میں صرف ہوناضروری ہے، کسی دوسرے مصرف میں لگانے کے لئے چندہ دینے والوں سے اجازت لینا ضروری ہے، اس کے بعد مسجد اور مدرسہ میں بھی اس کو لگانا جائز ہے، کسی بھی رفاہی کام میں اس کو  لگایا  جاسکتاہے، اور کسی دوسرے اجتماع کے لئے بھی اس کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 2210/44-2341

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگرشوہر نے اس عورت کو طلاق دیدی اور عدت گزرگئی تو اسی کے ساتھ نذر بھی ختم ہوگئی، اب اگر شوہر کا وہ کام ہوگیا تو عورت کے لئے نذر پوری کرنا لازم  نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 2082/44-2092

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ ہینڈ پمپ عام طور پر صدقہ نافلہ کے طور پر دئے جاتے ہیں، اس لئے یا تو یہ پمپ  رفاہ عام کے لئے ہوتاہے  جس سے امیر غیرب سب پانی پی سکتے ہیں، یا کسی غریب کے ذاتی استعمال کےلئے ہوتاہے، لیکن کسی امیر شخص کا اس کو لے کر اپنے گھر میں لگانا اور اس کا ذاتی استعمال  میں لانا مناسب نہیں ہے۔

وفي المنتقی: إذا أراد أن یبنی کنیفا أو ظلة علی طریق العامة فإنی أمنعہ عن ذلک وإن بنی ثم اختصموا نظرت فی ذلک فإن کان فیہ ضرر أمرتہ أن یقلع وإن لم یکن فیہ ضرر ترکتہ علی حالہ وقال محمد- رحمہ اللہ تعالی - إذا أخرج الکنیف ولم یدخلہ فی دارہ ولم یکن فیہ ضرر ترکتہ وإن أدخلہ دارہ منع عنہ (فتاوی ہندیہ: ۵/۴۲۷، ط: اتحاد دیوبند) ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 40/000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسی صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ یقین سے طلاق کا لفظ بول دیا تو طلاق واقع ھوگی ورنہ نہیں ہوگی۔ وساوس پر دھیان نہ دیں۔    واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند