فقہ

Ref. No. 971/41-117

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس سے مزید برکت حاصل ہوگی ان شاء اللہ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 1019

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: اس کا مدار اس پر ہے کہ الکحل کس چیز سے کشید کیا گیا ہے ، اگر الکحل انگور ، کھجور یا منقی  سے تیار شدہ ہے تو وہ ناپاک ہے اس کا استعمال ناجائز ہے۔آج کل جو پرفیوم بازاروں میں ملتے ہیں ان میں اکثر میں جو الکحل پایا جا تا ہے وہ سبزیوں اور دوسرے نباتات سے تیار کیا جاتا ہے اس لئے ایسے پرفیوم کے استعمال کرنے میں حرج نہیں ہے۔ تاہم جب تک الکحل کی تفصیل کا علم نہ ہو پرفیوم کے استعمال سے اجتناب ہی بہترہے۔ آج کل تو ایسے پرفیوم بھی بازار میں ملتے ہیں جن پر (الکحل فری) لکھاہوتا ہے، ان کو استعمال کرسکتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 2219/44-2355

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حضرت تھانوی رحم اللہ علیہ کی کتابیں اسلام کے سمجھنے میں مفید ہیں، لیکن حضرت کی کتابوں کی تعداد کا صحیح علم نہیں ہے اس لئے کہ بعض کتابیں حضرت نے خود تصنیف کی ہیں بعض کتابیں بعد میں ان کی کتابوں کی روشنی میں تیار ہوئی ہیں اور جتنی کتابوں کا علم ہے ان تمام کا یہاں احاطہ نہیں کیا جا سکتا ہے تاہم چند کتابیں یہ ہیں۔

(۱) اشرف الجواب (۲) احکام اسلام عقل کی نظر میں (۳) امداد الفتاوی (۴) آداب معاشرت (۵) بوادر النوادر (۶) الحیلۃ الناجزہ (۷) خطبات حکیم الامت (۸) تفسیر بیان القرآن (۹) بہشتی زیور (۱۰) نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب (۱۱) اغلاط العوام (۱۲) دین کی باتیں (۱۳) الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ (۱۴) حیات المسلمین (۱۵) اصلاح الرسوم (۱۶) المصالح العقلیہ (۱۷) جمال القرآن (۱۸) التکشف عن مہمات التصوف(۱۹) الانتباہات المفیدہ (۲۰) حقیقۃ الطریقۃ۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتابیں مختلف اور متنوع موضوعات پر ہیں، اس مناسبت سے ہر فن کی کچھ کتابوں کے نام لکھ دئے گئے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 39 / 974

الجواب وباللہ التوفیق    

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بینک کا پورا کاروبار سود پر مبنی ہوتا ہے، اور تنخواہ بھی سودی رقم سے دی جاتی ہے، جبکہ حدیث پاک میں سودی کاروبار میں کسی طرح کی شرکت اور تعاون  کو حرام قراردیا گیا ہے۔ اس لئے  ایسے پیسوں  سے ملنے والی تنخواہ  حلال کیسے کہی جاسکتی ہے۔ تاہم ذریعہ آمدنی بند ہوجانے سے دیگر مفاسد کا اندیشہ ہے اس لئے علماء کہتے ہیں کہ بینک کی ملازمت فی الحال جاری رکھے اور دوسری جائز ملازمت کی تلاش بھی کرتا رہے اور جب کوئی دوسری ملازمت مناسب مل جائے تو بینک کی ملازمت چھوڑدے۔  

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 41/1114

الجواب وباللہ التوفیق:

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غیراختیاری طور پر دل میں آنےوالی بات وسوسہ ہے، نیت  کا وجود ارادہ پر ہی موقوف ہے۔ لہذاا ٓپ کا وسوسہ نیت کے قائم مقام نہیں ہوگا اور اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ
کیا فقہ حنفی میں یہ مسلہ ہے کہ ایک آدمی الحمد اللہ کہنا چاہتا تھا منہ سے انت طالق نکل گیا تو بیوی کو طلاق واقع ہو جائے گی جبکہ امام بخاری اور تینوں امام اہل سنت امام شافعی امام مالک اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک نہیں ہوگی اسی طرح ایک مسلہ ہے کہ ایک آدمی کے بیٹے کا نام طلال ہو اور وہ کہنا چاہتا ہو کہ میں اپنی بیوی کو طلال دیتا ہوں منہ سے نکل جائے میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں تو کیا طلاق واقع ہو جائے گی جبکہ نیت نہ تھی اس بارے میں جمہور آئمہ کے مسلک پر عمل کرنا کیسا ہے اور باقی اماموں کی رائے کیا ہے

فقہ

Ref. No. 1456/42-888

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مشترکہ زمین کا وقف اسی صورت میں درست ہے جبکہ دیگر شرکاء  کی اس میں ملکیت ہو اور پھر وہ وقف کرنے پر راضی ہوں۔ صورت بالا میں جب بھائیوں نے اس زمین کی قیمت ادا نہیں کی اور نہ ہی اس زمین کے بدلہ کوئی زمین دی تو اس  موقوفہ زمین میں ان کی شرکت نہیں پائی گئی  اس لئے صورت مسئولہ میں وقف تام نہیں ہوا۔ وہ زمین بدستور اسی بھائی کی ملکیت میں ہے جس کی پہلے ملکیت تھی۔

وَقْفُ الْمُشَاعِ الْمُحْتَمِلِ لِلْقِسْمَةِ لَا يَجُوزُ عِنْدَ مُحَمَّدٍ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَبِهِ أَخَذَ مَشَايِخُ بُخَارَى وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى(الفتاوى الهندية،كتاب الوقف الباب الثاني  فيما يجوز وقفه، فصل في وقف المشاع،ج2ص354)

لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك غيره بلا إذنه أو  وكالةمنه أو  ولايةعليه،وإن فعل كان ضامنا.(شرح المجلة لسليم رستم باز،المادة:96ج1ص61)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ
خَرَجَ دَمٌ مِنْ الْقُرْحَةِ بِالْعَصْرِ وَلَوْلَاهُ مَا خَرَجَ نَقَضَ فِي الْمُخْتَارِ، كَذَا فِي الْوَجِيزِ لِلْكَرْدَرِيِّ وَهُوَ الْأَشْبَهُ، كَذَا فِي الْقُنْيَةِ. وَهُوَ الْأَوْجُهُ، كَذَا فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ لِلْحَلَبِيِّ. وَإِنْ قُشِرَتْ نُقْطَةٌ وَسَالَ مِنْهَا مَاءٌ أَوْ صَدِيدٌ أَوْ غَيْرُهُ إنْ سَالَ عَنْ رَأْسِ الْجُرْحِ نَقَضَ وَإِنْ لَمْ يَسِلْ لَا يَنْقُضُ هَذَا إذَا قَشَرَهَا فَخَرَجَ بِنَفْسِهِ أَمَّا إذَا عَصَرَهَا فَخَرَجَ بِعَصْرِهِ لَا يَنْقُضُ؛ لِأَنَّهُ مُخْرَجٌ وَلَيْسَ بِخَارِجٍ، كَذَا فِي الْهِدَايَا ان دو مسائل میں جو بظاہر تعارض ہے اسکا حل مطلوب ہے

فقہ

Ref. No. 40/1110

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پہلے اصل مسئلہ سمجھیں  کہ غیرسبیلین سے اگر کوئی چیز نکلے اور نکل کر اپنی جگہ سے بہہ جائے تو وضو ٹوٹ جاتاہے اور اگر اتنی معمولی مقدار میں ہے کہ وہ اپنی جگہ سے نہ بہے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے ۔ لیس فی القطرۃ والقطرتین من الدم وضوء الا ان یکون سائلا ۔ اس مسئلہ کی روشنی میں اگر غورفرمائیں تو پہلی عبارت درست ہے کہ زخم سے نجاست نکلی اور اتنی مقدار میں ہے کہ نچوڑنے کی صورت میں سیلان پایاجاے گا تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اگرچہ اس کی کیفیت یہ ہے کہ اگر نہ نچوڑا جاتا تو نہ بہتا۔ جہاں تک ہدایہ کی عبارت کا تعلق ہے اما اذا عصرھا فخرج بعصرہ لاینقض لانہ مخرج ولیس بخارج، یہ درست نہیں ہے، اس لئے کہ اس صورت میں بھی وضو ٹوٹ جائے گا۔ کیونکہ وضو کے ٹوٹنے کا مدار خارج پر ہے اور مخرج سے بھی خارج کا وجود ہوجاتا ہے۔  چنانچہ علامہ لکھنوی صاحب نے ہدایہ کی اس عبارت پر نقد کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ : وذکر فی الکافی الاصح ان المکڑج ناقض انتہی کیف لا؟ وجمیع الادلۃ من الکتاب والسنۃ والاجماع والقیاس تدل علی تعلیق النقض بالخارج النجس وھو الثابت فی المخرج۔ (حاشیہ ہدایہ 1/116)۔

  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 1545/43-1126

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر حدیث کی سند میں تابعی کے بعد راوی ساقط ہوں مثلا تابعی کہیں : قال رسول اللہ او فعل رسول اللہ ﷺ کذا ۔۔۔ تو اس روایت کو مرسل کہتے ہیں۔ اور اس کو منقطع بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس لئے کہ درمیان سند سے کسی بھی راوی کے ساقط ہونے سے سند میں انقطاع پیداہوجاتاہے اور اس انقطاع کی وجہ سے ضعف بھی پیداہوتاہے ، تاہم مرسل روایت حضرت امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک مطلقا قابل قبول ہے، اور امام شافعی کے نزدیک چند شرطوں کے ساتھ قابل قبول ہے، جمور محدثین کے نزدیک مرسل کا حکم توقف کا ہے۔

وان کان السقوط من آخرالسند فان کان بعد التابعی فالحدیث مرسل وھذا الفعل ارسال کقول التابعی قال رسول اللہ ﷺ ۔ وحکم المرسل التوقف عندجمہور العلماء۔ وعند ابی حنیفۃ ومالک المرسل مقبول مطلقا (مقدمہ شیخ عبدالحق )

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند