Frequently Asked Questions
فقہ
Ref. No. 2104/44-2127
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بارات سے پہلے دلہے کا دو رکعت بطور شکرانہ یا صلوۃ الحاجۃتنہا پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ اس کو ضروری نہ سمجھے اور ویڈیوگرافی اور دیگر خرافات سے بچے۔ البتہ شب زفاف میں میاں بیوی کاملاقات سے پہلے دو رکعت نفل پڑھنا احادیث سے ثابت ہے، اس کا اہتمام کرنا چاہئے اور خیر کی دعا کرنی چاہئے۔
"حدثنا ابن إدريس، عن داود، عن أبي نضرة، عن أبي سعيد، مولى أبي أسيد، قال: تزوجت وأنا مملوك، فدعوت نفراً من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فيهم ابن مسعود وأبوذر وحذيفة، قال: وأقيمت الصلاة، قال: فذهب أبو ذر ليتقدم، فقالوا: ’’إليك‘‘، قال: أو كذلك؟ قالوا: ’’نعم‘‘، قال: فتقدمت إليهم وأنا عبد مملوك وعلموني، فقالوا: ’’إذا أدخل عليك أهلك فصل عليك ركعتين، ثم سل الله تعالى من خير ما دخل عليك، وتعوذ به من شره، ثم شأنك وشأن أهلك‘‘. (کتاب النکاح، ما يؤمر به الرجل إذا دخل على أهله؟ (مصنف ابن أبي شیبه:: ۳/ ۵۶۰، ط: مكتبة الرشد، الرياض)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 40/1064
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسواک جس طرح مردوں کے لئے سنت ہے اسی طرح عورتوں کے لئےبھی سنت ہے۔ اگر مسواک کرنے میں کوئی دشواری ہو یا مسواک نہ ہو تو انگلی کا استعمال اس کے قائم مقام ہوجاتاہے اسی طرح اگر عورت بنیت مسواک علک (ایک خاص قسم کی گوند) کا استعمال کرے تو اس کو مسواک کی طرح ہی ثواب حاصل ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 971/41-117
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس سے مزید برکت حاصل ہوگی ان شاء اللہ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 1019
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: اس کا مدار اس پر ہے کہ الکحل کس چیز سے کشید کیا گیا ہے ، اگر الکحل انگور ، کھجور یا منقی سے تیار شدہ ہے تو وہ ناپاک ہے اس کا استعمال ناجائز ہے۔آج کل جو پرفیوم بازاروں میں ملتے ہیں ان میں اکثر میں جو الکحل پایا جا تا ہے وہ سبزیوں اور دوسرے نباتات سے تیار کیا جاتا ہے اس لئے ایسے پرفیوم کے استعمال کرنے میں حرج نہیں ہے۔ تاہم جب تک الکحل کی تفصیل کا علم نہ ہو پرفیوم کے استعمال سے اجتناب ہی بہترہے۔ آج کل تو ایسے پرفیوم بھی بازار میں ملتے ہیں جن پر (الکحل فری) لکھاہوتا ہے، ان کو استعمال کرسکتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 2219/44-2355
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حضرت تھانوی رحم اللہ علیہ کی کتابیں اسلام کے سمجھنے میں مفید ہیں، لیکن حضرت کی کتابوں کی تعداد کا صحیح علم نہیں ہے اس لئے کہ بعض کتابیں حضرت نے خود تصنیف کی ہیں بعض کتابیں بعد میں ان کی کتابوں کی روشنی میں تیار ہوئی ہیں اور جتنی کتابوں کا علم ہے ان تمام کا یہاں احاطہ نہیں کیا جا سکتا ہے تاہم چند کتابیں یہ ہیں۔
(۱) اشرف الجواب (۲) احکام اسلام عقل کی نظر میں (۳) امداد الفتاوی (۴) آداب معاشرت (۵) بوادر النوادر (۶) الحیلۃ الناجزہ (۷) خطبات حکیم الامت (۸) تفسیر بیان القرآن (۹) بہشتی زیور (۱۰) نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب (۱۱) اغلاط العوام (۱۲) دین کی باتیں (۱۳) الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ (۱۴) حیات المسلمین (۱۵) اصلاح الرسوم (۱۶) المصالح العقلیہ (۱۷) جمال القرآن (۱۸) التکشف عن مہمات التصوف(۱۹) الانتباہات المفیدہ (۲۰) حقیقۃ الطریقۃ۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتابیں مختلف اور متنوع موضوعات پر ہیں، اس مناسبت سے ہر فن کی کچھ کتابوں کے نام لکھ دئے گئے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 39 / 974
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بینک کا پورا کاروبار سود پر مبنی ہوتا ہے، اور تنخواہ بھی سودی رقم سے دی جاتی ہے، جبکہ حدیث پاک میں سودی کاروبار میں کسی طرح کی شرکت اور تعاون کو حرام قراردیا گیا ہے۔ اس لئے ایسے پیسوں سے ملنے والی تنخواہ حلال کیسے کہی جاسکتی ہے۔ تاہم ذریعہ آمدنی بند ہوجانے سے دیگر مفاسد کا اندیشہ ہے اس لئے علماء کہتے ہیں کہ بینک کی ملازمت فی الحال جاری رکھے اور دوسری جائز ملازمت کی تلاش بھی کرتا رہے اور جب کوئی دوسری ملازمت مناسب مل جائے تو بینک کی ملازمت چھوڑدے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 41/1114
الجواب وباللہ التوفیق:
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غیراختیاری طور پر دل میں آنےوالی بات وسوسہ ہے، نیت کا وجود ارادہ پر ہی موقوف ہے۔ لہذاا ٓپ کا وسوسہ نیت کے قائم مقام نہیں ہوگا اور اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
فقہ
Ref. No. 1456/42-888
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مشترکہ زمین کا وقف اسی صورت میں درست ہے جبکہ دیگر شرکاء کی اس میں ملکیت ہو اور پھر وہ وقف کرنے پر راضی ہوں۔ صورت بالا میں جب بھائیوں نے اس زمین کی قیمت ادا نہیں کی اور نہ ہی اس زمین کے بدلہ کوئی زمین دی تو اس موقوفہ زمین میں ان کی شرکت نہیں پائی گئی اس لئے صورت مسئولہ میں وقف تام نہیں ہوا۔ وہ زمین بدستور اسی بھائی کی ملکیت میں ہے جس کی پہلے ملکیت تھی۔
وَقْفُ الْمُشَاعِ الْمُحْتَمِلِ لِلْقِسْمَةِ لَا يَجُوزُ عِنْدَ مُحَمَّدٍ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَبِهِ أَخَذَ مَشَايِخُ بُخَارَى وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى(الفتاوى الهندية،كتاب الوقف الباب الثاني فيما يجوز وقفه، فصل في وقف المشاع،ج2ص354)
لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك غيره بلا إذنه أو وكالةمنه أو ولايةعليه،وإن فعل كان ضامنا.(شرح المجلة لسليم رستم باز،المادة:96ج1ص61)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند