Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:مذکورہ صورت میں پانی پینے سے منہ میں پانی چلا گیا، تو غسل کا ایک فرض کلی کرنا (منہ میں پانی پہونچانا) ادا ہو گیا، اور غسل درست ہو گیا۔(۳)
(۳) و شرب الماء عبأ یقوم مقام غسل الفم لامصاً۔ ( الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، کتاب الطہارۃ، فصل لبیان فرائض الغسل، ص:۱۰۲) ؛ وإذا نسي المضمضۃ والاستنشاق في الجنابۃ حتی صلی لم یجز(السرخسي، المبسوط، ’’باب الوضوء والغسل‘‘ ج۱، ص:۶۲، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)؛ و نسي المضمضۃ أو جزئً من بدنہ فصلی ثم تذکر فلو نفلا لم یعد لعدم صحۃ شروعہ قولہ (لعدم صحۃ شروعہ) أي والنفل إنما تلزم إعادتہ بعد صحۃ الشروع فیہ قصدا، و سکت عن الفرض لظہور أنہ یلزمہ الإتیان بہ مطلقا۔(ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل‘‘ج۱، ص:۲۸۹، مکتبۃ زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص296
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2598/45-4097
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دم سائل یعنی بہتاخون ناپاک ہے، بدن کے کسی بھی حصہ سے اگر خون بہہ کر اس حصہ تک آجائے جس کا غسل میں دھونا فرض ہے تو وضو ٹوٹ جاتاہے۔ کان یا ناک کے باہر اگر خون آرہاہو تو اس کو روئی سے پونچھ دیں اور کان کے باہری حصہ ، اور ناک کے بانسے کو پانی سے اچھی طرح دھولیں اور اگر اندر ہی رکا ہوا ہے ، کان کے باہر یا ناک کے نرم حصہ تک نہیں آیا تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا اس کو دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اوراگر ناک سے جماہوا خون نکلے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔
منھ سے اگر خون نکلے تو اگر خون تھوک پر غالب ہو یعنی تھوک کا رنگ سرخی مائل ہوجائے یا منھ میں خون کا ذائقہ آنے لگے تو اس سے وضو ٹوٹ جاتاہے ،کلی کرتے رہیں یہاں تک کہ تھوک سفید آنے لگےپھر وضو کریں۔ اور اگر وضو کے بعد ایسی صورت پیش آئے تو دوبارہ وضو کرنا ہوگا۔
وفي المنیة: انتثر فسقط من أنفہ کتلة دم لم ینتقض اھ، أي: لما تقدم من أن العلق خرج عن کونہ دما باحتراقہ وانجمادہ، شرح (رد المحتار، کتاب الطھارة، ۱: ۲۶۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
قال الشامی ناقلاً عن البحر: بل الظاہر إذا کان الخارج قیحاً أو صدیداً لنقض، سواء کان مع وجع أو بدونہلأنہما لا یخرجان إلا عن علةٍ، نعم ہٰذا التفصیل حسن فی ما إذا کان الخارج ماء لیس غیر۔ (شامی زکریا ۱/۲۷۹)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس مسئلہ کی تفصیل شامی میں یہ ہے کہ پیشاب کرنے کے بعد اگر انتشار باقی رہے اور اس حالت میں منی نکل آوے، تو دوبارہ غسل لازم ہوگا اور اگر انتشار باقی نہیں رہا تھا اس حالت میں منی نکل آئی، تو دوبارہ غسل لازم نہیں ہوگا۔(۱)
(۱) قولہ (ومحلہ) أي ما في الخانیۃ، قال في البحر: و یدل علیہ تعلیلہ في التجنیس بأن في حالۃ الانتشار و حد الخروج والانفصال جمیعاً علی وجہ الدفق والشھوۃ، و عبارۃ المحیط کما في الحلیۃ۔ رجل بال فخرج من ذکرہ مني، إن کان منتشراً فعلیہ الغسل لأن ذلک دلالۃ خروجہ عن شھوۃ۔ وفي الخانیۃ خرج مني بعد البول و ذکرہ منتشر، لزمہ الغسل قال فی البحر: و محلہ إن وجد الشھوۃ، وھو تقیید قولھم بعدم الغسل بخروجہ بعد البول۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: في تحریر الصاع والمد والرطل،‘‘ج۱، ص:۲۹۹) ؛ و(قولہ علی وجہ الدفق والشھوۃ) ھذا بإطلاقہ، لا یستقیم إلا علی قول أبي یوسف، لأنہ یشترط لوجوب الغسل ذلک۔ و أما علی قولھما فلا یستقیم، لأنھما جعلا سبب الغسل خروجہ عن شھوۃ ولم یجعلا الدفق شرطاً، حتی أنہ إذا انفصل عن مکانہ بشھوۃ، و خرج من غیر دفق و شھوۃ وجب الغسل عندھما۔ و عندہ یشترط الشھوۃ أیضاً عند خروجہ، و معنی قولہ علی وجہ الدفق أي نزل متتابعا، ولو احتلم أو نظر إلی إمرأۃ بشھوۃ فانفصل المني منہ بشھوۃ، فلما قارب الظھور شد علی ذکرہ حتی انکسرت شھوتہ ثم ترکہ فسال بغیر شھوۃ وجب الغسل عندھما، و عندہ لا یجب، و کذا إذا اغتسل المجامع قبل أن یبول أو ینام ثم خرج باقي المني بعد الغسل وجب علیہ إعادۃ الغسل عندھما، و عندہٗ لا یجب، و إن خرج بعد البول أوالنوم لایعیدُ إجماعاً۔الزبیدي، الجوھرۃ النیرۃ،’’کتاب الطہارۃ‘‘ج ۱، ص:۱۲(دارالکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص297
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:غسل خانہ میں پیشاب کرنا مکروہ ہے؛ اس لیے کہ اس کی بو سے دوسروں کو اذیت ہوتی ہے، پس ایسے عمل سے پر ہیز کرنا ضروری ہے۔(۱)
(۱) لقولہ علیہ السلام: لا یبولن أحدکم في مغتسلہ (بدرالدین العیني، عمدۃ القاري، ’’باب من تبرز علی لبنتین‘‘ ج۲، ص:۲۷۹) البول فیہ منھي عنہ سواء کان فیہ اغتسال أولا فإنہ ممنوع، والصواب أن النھي عن الجمع بدلیل التعلیل الآتي في نفس ھذا الحدیث، ولأنہ لو بال في المستحم ولم یغتسل فیہ بأن جعلہ مھجورا من الاغتسال فیہ أو اغتسل فیہ ابتداء ولم یبل فیہ یجوز لہ ذلک۔۔۔۔ قال ابن مالک لأنہ یصیر ذلک الموضع نجساً، فیقع في قلبہ وسوسۃ بأنہ ھل أصابہ منہ رشاش أم لا؟ و قال ابن حجر: لأن ماء الطھارۃ حینئذ یصیب أرضہ النجسۃ بالبول ثم یعود إلیہ فکرہ فیہ لذلک، ومن ثم لو کانت أرضہ بحیث لا یعود منھا رشاش أو کان لہ منفذ بحیث لا یثبت فیہ شيء من البول لم یکرہ البول فیہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الطہارۃ، باب آداب الخلاء‘‘ ج۲، ص:۶۵، مکتبۃ فیصل دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص297
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2599/45-4098
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بالوں کے جڑ سے اکھڑنے کے بعد اگر اس کی جڑ میں چکناہٹ موجود ہے تو وہ ناپاک ہے، چکناہٹ والے بال مقدار میں اگر اتنے زیادہ ہوں کہ چکناہٹ مجموعی طور پرایک ناخن کے بقدر یا اس سے زیادہ ہو تو اس کے قلیل پانی میں گرنے کی وجہ سے پانی ناپاک ہوجائے گا۔ اگرچکناہٹ قلیل ہے تو پانی ناپاک نہیں ہوگا۔ البتہ عام طور پر بالٹی وغیرہ میں جو بال جڑوالے یا بغیر جڑ والے گرجاتے ہیں ان سے کچھ بھی ناپاک نہیں ہوتاہے۔
"(وشعر الميتة) ... (وحافرها وقرنها) الخالية عن الدسومة ... (وشعر الإنسان) غير المنتوف ... ويفسد الماء بوقوع قدر الظفر من جلده لا بالظفر .
(قوله: وظاهر أنه لو كان فيه دسومة الخ) وقال السندي نقلا عن الرحمتي: ولم يحترز عن رطوبة في الظفر؛ لأنها إذا لم تبلغ حد السيلان فليس بنجس على الأصح أھ.
ويظهر أن ما أفسد الماء من الشعر المنتوف ونحوه لابد أن يكون ما فيه من النجاسة يبلغ حد السيلان، ولذا قالو: إن الذي مع الشعر المنتوف إن لم يبلغ قدر الظفر لايفسده الماء، تأمل." (فتاویٰ شامی، كتاب الطهارة، باب المياه، 1/ 207، ط: سعيد)
"شعر الميتة وعظمها طاهران وكذا العصب والحافر والخف والظلف والقرن والصوف والوبر والريش والسن والمنقار والمخلب وكذا شعر الإنسان وعظمه وهو الصحيح. هكذا في الاختيار شرح المختار هذا إذا كان الشعر محلوقا أو مجزوزا أما إذا كان منتوفا فإنه يكون نجسا."
(فتاویٰ عالمگیریہ، كتاب الطهارة، الباب الأول في الوضوء، الفصل الثاني فيما لا يجوز به التوضؤ،1/ 24، ط: رشيدية)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 815
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ٰالامٰ میں اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس میں غسل کا وجوب امر تعبدی ہے، اور امر تعبدی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی بندگی کے طور پر اس کا حکم بجالانا، اور بلا چوں چرا اس کو قبول کرنا ۔ لہذا امام شافعی علیہ الرحمہ کے نزدیک یہ ایک حکم خداوندی ہے جس کے لیے کسی مزید دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ )الام، باب المنی(۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1583/43-1115
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کپڑے پر نجاست مرئیہ (دکھائی دینے والی) لگی ہو تو عین نجاست کوزائل کرنے سے پاکی حاصل ہوجاتی ہے، اور اگر نجاست غیرمرئیہ(جو نظر نہیں آتی )ہے تو اس جگہ کو تین مرتبہ دھونے اور ہر بار نچوڑنے سے پاکی حاصل ہوگی۔ جس جگہ نجاست لگی ہو صرف اس حصہ کو پانی سے تین بار دھودیں پورا کپڑا دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگرتین بار اچھی طرح دھونے کے بعد بھی نجاست کا رنگ محسوس ہو تو اس سے پاکی میں کوئی فرق نہیں آئے گا بلکہ کپڑا پاک ہوجائے گا۔
المني إذا أصاب الثوب فإن كان رطبا يجب غسله وإن جف على الثوب أجزأ فيه الفرك استحسانا. كذا في العناية والصحيح أنه لا فرق بين مني الرجل والمرأة وبقاء أثر المني بعد الفرك لا يضر كبقائه بعد الغسل. هكذا في الزاهدي. (الھندیۃ الفصل الاول فی تطھیر الانجاس 1/44)
"والفصل الثاني: أنه ما دام رطبًا لايطهر إلا بالغسل (المبسوط للسرخسی«كتاب الطهارة»،«باب الوضوء والغسل» (1/ 81)،ط.دار المعرفة – بيروت)
(وأما) سائر النجاسات إذا أصابت الثوب أو البدن ونحوهما فإنها لا تزول إلا بالغسل، سواء كانت رطبة أو يابسة، وسواء كانت سائلة أو لها جرم ولو أصاب ثوبه خمر، فألقى عليها الملح، ومضى عليه من المدة مقدار ما يتخلل فيها، لم يحكم بطهارته، حتى يغسله. ولو أصابه عصير، فمضى عليه من المدة مقدار ما يتخمر العصير فيها، لا يحكم بنجاسته، وإن أصاب الخف أو النعل ونحوهما، فإن كانت رطبة لا تزول إلا بالغسل كيفما كانت. (بدائع الصنائع، فصل فی بیان ما یقع بہ التطھیر 1/84)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1061 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: عام حالات میں جمعہ کے دن غسل کرنا سنت ہے۔ ہاں اگر کسی شخص کو حدث اکبر لاحق ہو تواس پر غسل فرض ہوگا۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ،من توضا یوم الجمعة فبھا ونعمت ومن اغتسل فالغسل افضل یعنی جس نے جمعہ کے دن وضو کیا اس نے ٹھیک کیا اور جس نے غسل کیا تو اس نے افضل کام کیا۔ رہا سوال میں مذکور حدیث کا جواب، تو اس کے متعلق اسی جگہ حاشیہ میں اس کی تفصیل درج ہے، وہ یہ ہے۔ قال النووی المراد بالوجوب وجوب اختیار کقول الرجل لصاحبہ حقک واجب علی قالہ علی القاری وقال محمد فی موطاہ اخبرنا محمد بن ابان بن صالح عن حماد عن ابراہیم النخعی قال ای حماد سالتہ عن الغسل یوم الجمعة والغسل من الحجامة والغسل فی العیدین قال ان اغتسلت فحسن وان ترکت فلیس علیک فقلت لہ الم یقل رسول اللہ ﷺ من راح الی الجمعة فلیغتسل قال بلی ولکن لیس من الامور الواجبة وانما ھو کقولہ تعالی واشھدوا اذا تبایعتم الحدیث ویویدہ مااخرج ابوداود عن عکرمة ان ناسا من اھل العراق جاووا فقالوا یا ابن عباس اتری الغسل یوم الجمعة واجبا فقال لاولکنہ طھور وخیر لمن اغتسل ومن لم یغتسل فلیس علیہ بواجب۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صاحب مراقي الفلاح نے لکھا ہے:
’’وحدہ أي جملۃ الوجہ طولا من مبدأ سطح الجبہۃ سواء کان بہ شعر أم لا۔‘‘(۱) عام طور پر انسان کے جہاں سے سرکے بال اگتے ہیں اور جسے عرف میں پیشانی کہا جاتا ہے اس حصہ کا دھونا فرض ہے اس سے اوپر دھونا ضروری نہیں ہے۔ ’’أشار بہ إلی أن الأغم والاصلع والأقرع والأنزع فرض غسل الوجہ منہم ما ذکر‘‘ (۲)
خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی کے بال آدھے سر تک آگے کی طرف نہ ہوں، تو عرف میں جہاں تک پیشانی کہلاتی ہے اس سے اوپر دھونا ضروری نہیں ہے؛ بلکہ پیشانی کے بالوں کے آگے کی معروف جگہ تک دھونا فرض ہے۔
’’إذا الغالب فیہم طلوع الشعر من مبدأ سطح الجبہۃ ومن غیر الغالب الأغم وأخواہ‘‘(۳)
(۱) حسن بن عمار الشرنبلالي، مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في أحکام الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۔
(۲) الطحطاوي، مراقي الفلاح علی حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في أحکام الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۵۷۔
(۳) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الغسل، مطلب في معنیٰ الاشتقاق وتقسیمہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص198
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں چالیس دن کے بعد ابتداء کے بائیس دن استحاضہ کے شمار ہوں گے اور اس کے بعد چھ دن حیض کا شمار ہوگا اور آئندہ بھی اسی طرح بائیس دن استحاضہ (طہر) کے اور چھ دن حیض کے شمار ہوں گے۔
’’وأقل الطہر بین الحیضتین أو النفاس والحیض خمسۃ عشر یوماً ولیالیہا إجماعاً‘‘(۲)
’’والناقص عن أقلہ والزائد علی أکثرہ أو أکثر النفاس أو علی العادۃ وجاوز أکثرہما وما تراہ حامل استحاضۃ‘‘(۱)
’’عن المحیط مبتدأۃ رأت عشرۃ دما وسنۃ طہرا ثم استمر بہا الدم۔ قال أبو عصمۃ: حیضہا وطہرہا ما رأت، حتی إن عدتہا تنقضی إذا طلقت بثلاث سنین وثلاثین یوما‘‘(۲)
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۴۷۷۔
(۱) أیضاً، رقم: ۔
(۲) أیضاً، مبحث فی مسائل المتحیرۃ ج1 ص 478۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص393