Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:غسل خانہ میں پیشاب کرنا مکروہ ہے؛ اس لیے کہ اس کی بو سے دوسروں کو اذیت ہوتی ہے، پس ایسے عمل سے پر ہیز کرنا ضروری ہے۔(۱)
(۱) لقولہ علیہ السلام: لا یبولن أحدکم في مغتسلہ (بدرالدین العیني، عمدۃ القاري، ’’باب من تبرز علی لبنتین‘‘ ج۲، ص:۲۷۹) البول فیہ منھي عنہ سواء کان فیہ اغتسال أولا فإنہ ممنوع، والصواب أن النھي عن الجمع بدلیل التعلیل الآتي في نفس ھذا الحدیث، ولأنہ لو بال في المستحم ولم یغتسل فیہ بأن جعلہ مھجورا من الاغتسال فیہ أو اغتسل فیہ ابتداء ولم یبل فیہ یجوز لہ ذلک۔۔۔۔ قال ابن مالک لأنہ یصیر ذلک الموضع نجساً، فیقع في قلبہ وسوسۃ بأنہ ھل أصابہ منہ رشاش أم لا؟ و قال ابن حجر: لأن ماء الطھارۃ حینئذ یصیب أرضہ النجسۃ بالبول ثم یعود إلیہ فکرہ فیہ لذلک، ومن ثم لو کانت أرضہ بحیث لا یعود منھا رشاش أو کان لہ منفذ بحیث لا یثبت فیہ شيء من البول لم یکرہ البول فیہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الطہارۃ، باب آداب الخلاء‘‘ ج۲، ص:۶۵، مکتبۃ فیصل دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص297
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2599/45-4098
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بالوں کے جڑ سے اکھڑنے کے بعد اگر اس کی جڑ میں چکناہٹ موجود ہے تو وہ ناپاک ہے، چکناہٹ والے بال مقدار میں اگر اتنے زیادہ ہوں کہ چکناہٹ مجموعی طور پرایک ناخن کے بقدر یا اس سے زیادہ ہو تو اس کے قلیل پانی میں گرنے کی وجہ سے پانی ناپاک ہوجائے گا۔ اگرچکناہٹ قلیل ہے تو پانی ناپاک نہیں ہوگا۔ البتہ عام طور پر بالٹی وغیرہ میں جو بال جڑوالے یا بغیر جڑ والے گرجاتے ہیں ان سے کچھ بھی ناپاک نہیں ہوتاہے۔
"(وشعر الميتة) ... (وحافرها وقرنها) الخالية عن الدسومة ... (وشعر الإنسان) غير المنتوف ... ويفسد الماء بوقوع قدر الظفر من جلده لا بالظفر .
(قوله: وظاهر أنه لو كان فيه دسومة الخ) وقال السندي نقلا عن الرحمتي: ولم يحترز عن رطوبة في الظفر؛ لأنها إذا لم تبلغ حد السيلان فليس بنجس على الأصح أھ.
ويظهر أن ما أفسد الماء من الشعر المنتوف ونحوه لابد أن يكون ما فيه من النجاسة يبلغ حد السيلان، ولذا قالو: إن الذي مع الشعر المنتوف إن لم يبلغ قدر الظفر لايفسده الماء، تأمل." (فتاویٰ شامی، كتاب الطهارة، باب المياه، 1/ 207، ط: سعيد)
"شعر الميتة وعظمها طاهران وكذا العصب والحافر والخف والظلف والقرن والصوف والوبر والريش والسن والمنقار والمخلب وكذا شعر الإنسان وعظمه وهو الصحيح. هكذا في الاختيار شرح المختار هذا إذا كان الشعر محلوقا أو مجزوزا أما إذا كان منتوفا فإنه يكون نجسا."
(فتاویٰ عالمگیریہ، كتاب الطهارة، الباب الأول في الوضوء، الفصل الثاني فيما لا يجوز به التوضؤ،1/ 24، ط: رشيدية)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 815
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: حضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ٰالامٰ میں اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس میں غسل کا وجوب امر تعبدی ہے، اور امر تعبدی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی بندگی کے طور پر اس کا حکم بجالانا، اور بلا چوں چرا اس کو قبول کرنا ۔ لہذا امام شافعی علیہ الرحمہ کے نزدیک یہ ایک حکم خداوندی ہے جس کے لیے کسی مزید دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ )الام، باب المنی(۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1583/43-1115
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کپڑے پر نجاست مرئیہ (دکھائی دینے والی) لگی ہو تو عین نجاست کوزائل کرنے سے پاکی حاصل ہوجاتی ہے، اور اگر نجاست غیرمرئیہ(جو نظر نہیں آتی )ہے تو اس جگہ کو تین مرتبہ دھونے اور ہر بار نچوڑنے سے پاکی حاصل ہوگی۔ جس جگہ نجاست لگی ہو صرف اس حصہ کو پانی سے تین بار دھودیں پورا کپڑا دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگرتین بار اچھی طرح دھونے کے بعد بھی نجاست کا رنگ محسوس ہو تو اس سے پاکی میں کوئی فرق نہیں آئے گا بلکہ کپڑا پاک ہوجائے گا۔
المني إذا أصاب الثوب فإن كان رطبا يجب غسله وإن جف على الثوب أجزأ فيه الفرك استحسانا. كذا في العناية والصحيح أنه لا فرق بين مني الرجل والمرأة وبقاء أثر المني بعد الفرك لا يضر كبقائه بعد الغسل. هكذا في الزاهدي. (الھندیۃ الفصل الاول فی تطھیر الانجاس 1/44)
"والفصل الثاني: أنه ما دام رطبًا لايطهر إلا بالغسل (المبسوط للسرخسی«كتاب الطهارة»،«باب الوضوء والغسل» (1/ 81)،ط.دار المعرفة – بيروت)
(وأما) سائر النجاسات إذا أصابت الثوب أو البدن ونحوهما فإنها لا تزول إلا بالغسل، سواء كانت رطبة أو يابسة، وسواء كانت سائلة أو لها جرم ولو أصاب ثوبه خمر، فألقى عليها الملح، ومضى عليه من المدة مقدار ما يتخلل فيها، لم يحكم بطهارته، حتى يغسله. ولو أصابه عصير، فمضى عليه من المدة مقدار ما يتخمر العصير فيها، لا يحكم بنجاسته، وإن أصاب الخف أو النعل ونحوهما، فإن كانت رطبة لا تزول إلا بالغسل كيفما كانت. (بدائع الصنائع، فصل فی بیان ما یقع بہ التطھیر 1/84)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1061 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: عام حالات میں جمعہ کے دن غسل کرنا سنت ہے۔ ہاں اگر کسی شخص کو حدث اکبر لاحق ہو تواس پر غسل فرض ہوگا۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ،من توضا یوم الجمعة فبھا ونعمت ومن اغتسل فالغسل افضل یعنی جس نے جمعہ کے دن وضو کیا اس نے ٹھیک کیا اور جس نے غسل کیا تو اس نے افضل کام کیا۔ رہا سوال میں مذکور حدیث کا جواب، تو اس کے متعلق اسی جگہ حاشیہ میں اس کی تفصیل درج ہے، وہ یہ ہے۔ قال النووی المراد بالوجوب وجوب اختیار کقول الرجل لصاحبہ حقک واجب علی قالہ علی القاری وقال محمد فی موطاہ اخبرنا محمد بن ابان بن صالح عن حماد عن ابراہیم النخعی قال ای حماد سالتہ عن الغسل یوم الجمعة والغسل من الحجامة والغسل فی العیدین قال ان اغتسلت فحسن وان ترکت فلیس علیک فقلت لہ الم یقل رسول اللہ ﷺ من راح الی الجمعة فلیغتسل قال بلی ولکن لیس من الامور الواجبة وانما ھو کقولہ تعالی واشھدوا اذا تبایعتم الحدیث ویویدہ مااخرج ابوداود عن عکرمة ان ناسا من اھل العراق جاووا فقالوا یا ابن عباس اتری الغسل یوم الجمعة واجبا فقال لاولکنہ طھور وخیر لمن اغتسل ومن لم یغتسل فلیس علیہ بواجب۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صاحب مراقي الفلاح نے لکھا ہے:
’’وحدہ أي جملۃ الوجہ طولا من مبدأ سطح الجبہۃ سواء کان بہ شعر أم لا۔‘‘(۱) عام طور پر انسان کے جہاں سے سرکے بال اگتے ہیں اور جسے عرف میں پیشانی کہا جاتا ہے اس حصہ کا دھونا فرض ہے اس سے اوپر دھونا ضروری نہیں ہے۔ ’’أشار بہ إلی أن الأغم والاصلع والأقرع والأنزع فرض غسل الوجہ منہم ما ذکر‘‘ (۲)
خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی کے بال آدھے سر تک آگے کی طرف نہ ہوں، تو عرف میں جہاں تک پیشانی کہلاتی ہے اس سے اوپر دھونا ضروری نہیں ہے؛ بلکہ پیشانی کے بالوں کے آگے کی معروف جگہ تک دھونا فرض ہے۔
’’إذا الغالب فیہم طلوع الشعر من مبدأ سطح الجبہۃ ومن غیر الغالب الأغم وأخواہ‘‘(۳)
(۱) حسن بن عمار الشرنبلالي، مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في أحکام الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۔
(۲) الطحطاوي، مراقي الفلاح علی حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في أحکام الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۵۷۔
(۳) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الغسل، مطلب في معنیٰ الاشتقاق وتقسیمہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص198
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں چالیس دن کے بعد ابتداء کے بائیس دن استحاضہ کے شمار ہوں گے اور اس کے بعد چھ دن حیض کا شمار ہوگا اور آئندہ بھی اسی طرح بائیس دن استحاضہ (طہر) کے اور چھ دن حیض کے شمار ہوں گے۔
’’وأقل الطہر بین الحیضتین أو النفاس والحیض خمسۃ عشر یوماً ولیالیہا إجماعاً‘‘(۲)
’’والناقص عن أقلہ والزائد علی أکثرہ أو أکثر النفاس أو علی العادۃ وجاوز أکثرہما وما تراہ حامل استحاضۃ‘‘(۱)
’’عن المحیط مبتدأۃ رأت عشرۃ دما وسنۃ طہرا ثم استمر بہا الدم۔ قال أبو عصمۃ: حیضہا وطہرہا ما رأت، حتی إن عدتہا تنقضی إذا طلقت بثلاث سنین وثلاثین یوما‘‘(۲)
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۴۷۷۔
(۱) أیضاً، رقم: ۔
(۲) أیضاً، مبحث فی مسائل المتحیرۃ ج1 ص 478۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص393
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حیض کے ایام کے دوران رک کر دوبارہ آنے والا خون حیض ہی کا ہوگا اگرچہ وہ خون تھوڑا ہی کیوں نہ ہو؛ اس لیے مذکورہ صورت میں کپڑوں پر داغ لگنے والا خون حیض ہی کا شمار ہوگا فقہاء احناف کے نزدیک حیض کی کم از کم مدت تین دن اور تین راتیں ہیں جب کہ زیادہ سے زیادہ مدت دس دن اور دس راتیں ہیں۔ امام دار قطنی نے ایک روایت نقل کی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کسی کنواری اور شادی شدہ عورت کا حیض تین دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہیں ہوتا، دس دن کے بعد نکلنے والا خون استحاضہ ہے، حائضہ ایام حیض کے بعد کی نمازوں کی قضا کرے، حیض میں سرخی مائل سیاہ گاڑھا خون ہوتا ہے اور استحاضہ میں زرد رنگ کا پتلا خون ہوتا ہے۔
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا یکون الحیض للجاریۃ والثیب الذی قد أیست من الحیض أقل من ثلاثۃ أیام ولا أکثر من عشرۃ أیام، فإذا رأت الدم فوق عشرۃ أیام فہي مستحاضۃ فما زاد علی أیام أقرائہا قضت، ودم الحیض أسود خاثر تعلوہ حمرۃ، ودم المستحاضۃ أصفر رقیق‘‘(۱)
ایک اور روایت میں ہے:
’’عن واثلۃ بن الأسقع قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أقل الحیض ثلاثۃ أیام وأکثرہ عشرۃ أیام‘‘(۲)
احناف کے نزدیک تین دن اور تین راتوں سے کم حیض نہیں ہے اور مدت حیض میں خون شروع ہو کر درمیان میں رک کر دوبارہ خون جاری ہو جاتا ہے اس سلسلے میں صاحب ہدایہ رحمۃ اللہ علیہ احناف کا موقف بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’والطہر إذا تخلل بین الدمین في مدۃ الحیض فہو کالدم المتوالي قال: وہذہ إحدی الروایات عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ ووجہہ أن استیعاب الدم مدۃ الحیض لیس بشرط بالإجماع فیعتبر أولہ وآخرہ کالنصاب في باب الزکاۃ‘‘(۳)
اور وہ طہر جو دو خونوں کے درمیان متخلل یعنی خلل انداز ہو وہ بھی مسلسل آنے والے خون کی طرح ہے، صاحب ہدایہ فرماتے ہیں کہ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے مروی روایات میں سے ایک روایت ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ خون کا پوری مدتِ حیض کو گھیرنا بالاجماع شرط نہیں ہے؛ لہٰذا اس کے اول اور آخر کا اعتبار کیا جائے گا، جیسے زکوٰۃ کے باب میں نصاب ہے۔
خلاصہ:
حیض کی مدت کم از کم تین دن اور تین راتیں ہیں اورزیادہ سے زیاد دس دن ہے اور جو دس دن سے زیادہ یا تین دن سے کم ہو وہ استحاضہ ہے۔
لہٰذا اگر حیض کے ایام میں چار دن خون آنے کے بعد دو دن کے لیے بند ہو جاتا ہے اور پھر آنا شروع ہو جاتا ہے تو یہ تمام مدت حیض ہی شمار ہوگی۔ جیسا کہ صاحب ہدایہ نے بیان فرمایا ہے:
’’أقل الحیض ثلاثۃ أیام ولیالیہا، وما نقص من ذلک فہو استحاضۃ‘‘(۴)
البتہ حیض کا ایک دور ختم ہونے کے بعد دوسرا دور شروع ہونے کی کم سے کم مدت پندرہ دن ہے۔ اگر پندرہ دن سے پہلے خون آجائے تو وہ استخاضہ شمار کیا جائے گا۔ اس صورت میں جسم اور کپڑوں کو پاک کر کے عبادات بھی انجام دی جائیں گی اور ہر نماز کے لیے نئی وضو کر کے نماز بھی ادا کی جائے گی۔
(۱) أخرجہ دار قطني، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: کتاب الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۸، رقم: ۵۹۔
(۲) أیضاً، رقم: ۶۱۔
(۳) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: باب الحیض والاستحاضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۶۔
(۴) أیضاً:
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص394
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2803/45-4391
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز کے بعد اگرآپ نے عضو خاص پر بالیقین تری دیکھی یا ہاتھوں سے چکناہت محسوس کی تو ظاہر ہے کہ وضو جاتا رہا اور نماز نہیں ہوئی، اس لئے نماز کا اعادہ واجب ہوگا،۔ کمرے میں جاکر آپ نے دیکھا تو تری نظر نہیں آئی اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ کمرے میں جاتے ہوئے کپڑے میں مس ہو کر تری کپڑے میں جذب ہوگئی جو کمرے میں پہونچنے پر نظر نہیں آئی۔ ایسی حالت میں پڑھی گئی نماز لوٹالی جائے اور قرآن کو بلاوضو چھونے پر توبہ واستغفار کیا جائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2748/45-4283
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ استنجا میں اگر نجاست اپنے مخرج سے تجاوز نہ کرے تو استنجا کرنا سنت ہے، اس صورت میں ناپاکی قابل عفو ہے، لیکن اگر نجاست مخرج سے تجاوز کر جائے اور پانی یا ڈھیلا استعمال نہ کرے تو وہ جگہ ناپاک ہے اس کو پاک کرنا ضروری ہے۔
’’وہو سنة مؤکدة مطلقا ویجب أي بفرض غسله أن جاوز المخرج نجس مائع فیما وراء موضع الاستنجاء‘‘ (در مختار مع رد: ج ١، ص: ٩٣٣)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند