طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مجنون شریعت کا مکلف نہیں ہے، جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے:
’’إن القلم رفع عن المجنون حتی یفیق وعن الصبي حتی یدرک وعن النائم حتی یستیقظ‘‘(۱)
پانی کے مستعمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس سے نجاست کو زائل کیا گیا ہو یا ثواب کی نیت سے استعمال کیا گیا ہو، مجنون اگر کسی پانی سے وضو کرے ، تو چونکہ وہ شریعت کی نظر میں ثواب کی نیت کرنے کا اہل نہیں ہے، اس لیے اس کی نیت معتبر نہیں ہوگی اور اس کے وضو کرنے سے پانی مستعمل نہیں ہوگا۔
بچہ اگر سمجھ دار ہے، تو اس کے وضو کا پانی مستعمل شمار ہوگا اور اگر وہ سمجھ دار نہیں ہے اور اس کے بدن یا کپڑے وغیرہ پر کوئی نجاست وغیرہ بھی لگی ہوئی نہیں ہے، تو بچہ کے پانی میں ہاتھ ڈالنے یا پانی  میں گرنے کی وجہ سے وہ پانی ناپاک نہیں ہوگا ایسے پانی کو وضو، غسلِ جنابت اور کپڑے وغیرہ پاک   کرنے کے لئے استعمال کرنا جائز ہے اور اگر بچہ سمجھدار نہیں ہے، تو اس کا حکم بھی مجنون کی طرح ہے یعنی وہ ماء مستعمل شمار نہیں ہوگا۔
’’وإذا أدخل یدہ الصبي في إناء علی قصد إقامۃ (القربۃ)؛ ذکر في ہذہ المسألۃ في شيء من الکتب، وقد وصل إلینا أن ہذہ المسألۃ صارت واقعۃ فاختلف فیہا فتوی الصدر الشہید حسام الدین عمر، وفتوی القاضي الإمام جمال الدین …  قال رحمہما اللّٰہ: والأشبہ أن یصیر مستعملا إذا کان الصبي عاقلا؛ لأنہ من أہل القربۃ، ولہذا صح إسلامہ وصحت عباداتہ حتی أمر بالصلاۃ إذا بلغ سبعا ویضرب علیہا إذا بلغ عشرا‘‘(۱)
’’ولو توضأ الصبي یصیر الماء مستعملًا‘‘(۲)
’’وإذا أدخل الصبي یدہ في الإناء علی قصد القربۃ فالأشبہ أن یکون الماء مستعملًا إذا کان الصبي عاقلًا؛ لأنہ من أہل القربۃ‘‘
(۳)
خلاصہ:
مجنون یا وہ بچہ جو سمجھدار نہ ہو، پاکی اور ناپاکی کو نہ سمجھتا ہو ایسا بچہ یا مجنون اگر پانی میں ہاتھ ڈال دے، اور دوسرا پانی دستیاب ہو، تو بہتر ہے کہ اس نئے پانی کو وضو، غسل اور کپڑے وغیرہ دھونے میں استعمال کرے؛ اس لئے کہ عام طور پر بچہ اور مجنون پاکی اور ناپاکی میں احتیاط نہیں کر پاتے ہیں۔
علامہ حصکفيؒ نے لکھا ہے: پانی کو اگر حدث اصغر یا اکبر کو دور کرنے یا ثواب کے حصول کے لیے یا فرض کو ساقط کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تو وہ پانی بھی ماء مستعمل شمار ہوگا۔
’’(أو) بماء (استعمل لأجل (قربۃ) أي ثواب ولو مع رفع حدث أو من ممیز أو حائض لعادۃ أو عبادۃ أو غسل میت أو ید لأکل أو منہ بنیۃ السنۃ (أو) لأجل (رفع حدث) ولو مع قربۃ کوضوء محدث ولو للتبرد، فلو توضأ متوضئ لتبرد أو تعلیم أو لطین بیدہ لم یصر مستعملًا اتفاقًا کزیادۃ علی الثلاث بلا نیۃ قربۃ وکغسل نحو فخذ أو ثوب طاہر أو دابۃ تؤکل (أو) لأجل (إسقاط فرض) ہو الأصل في الاستعمال کما نبہ‘‘
’’(قولہ: أو من ممیز) أي إذا توضأ یرید بہ التطہیر کما في الخانیۃ وہو معلوم من سیاق الکلام، وظاہرہ أنہ لو لم یرد بہ ذلک لم یصر مستعملًا، تأمل‘‘ (۱)

(۱) برہان الدین محمود بن أحمد، المحیط البرہاني في الفقہ النعماني، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الرابع في المیاہ التي یجوز، ومما یتصل بہذا الفصل، بیان حکم الأسار‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳۔(دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان)
(۲) عثمان بن علي، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق وحاشیۃ الشلبي، ’’کتاب الطہارۃ: الماء المستعمل‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۔(زکریا بک ڈپو دیوبند)
(۳) بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: المقصود بالماء المستعمل وأقسامہ‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۳۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مبحث الماء المستعمل‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۸ - ۳۴۹۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص78

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر بدن پر کوئی ظاہری نجاست لگی ہو، تو اس طرح دھویا جائے کہ بالٹی میں وہ پانی نہ گرے، اس لیے کہ نجاست ملا ہوا پانی ناپاک ہے اور اگر بدن پر کوئی ظاہری نجاست نہ ہو، یا نجاست دور کردی گئی ہو، تو بدن پر جو پانی لگ کر گر رہا ہے وہ مستعمل تو ہے لیکن ناپاک نہیں، فقہاء کی اصطلاح میں اسے طاہر غیر مطہر کہتے ہیں، اگر اس کی چھینٹیں بالٹی میں گر جائیں، تو بالٹی کا پانی ناپاک نہیں ہوگا؛ نیز جنابت کی حالت میں جو نجاست ہوتی ہے وہ حکمی نجاست ہے، حقیقی نجاست وہ ہے جو بدن پر لگی ہو، خواہ جنابت والی نجاست ہو یا دیگر کوئی نجاست لگی ہو، تا ہم بہتر یہ ہے کہ بالٹی اس طرح رکھی جائے کہ اس میں چھینٹیں نہ جائیں اور بیٹھ کر حدیث کے مطابق غسل کرنا چاہیے۔(۱)

(۱) وھو (الماء المستعمل) طاھر ولیس بطھور (علاء الدین الحصکفي، تنویر الأبصار مع الدر، ’’کتاب الطہارۃ، باب المیاہ في تفسیر القربۃ والثواب‘‘ج۱، ص:۳۵۲) ؛ و قال الشامی : قولہ : (وھو طاھر) رواہ محمد عن الإمام، و ھذہ الروایۃ ھی المشھورۃ عنہ، واختارھا المحققون: قالوا: علیھا الفتوی، لا فرق في ذلک بین الجنب والمحدث (ایضاً)
اتفق أصحابنا رحمھم اللّٰہ : أن الماء المستعمل لیس بطھور حتی لا یجوز…التوضؤ بہ، واختلفوا في طھارتہ، قال محمدؒ: ھو طاھر، وھو روایۃ عن أبي حنیفۃؒ، وعلیہ الفتویٰ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الثاني: فیما لا یجوز بہ التوضؤ‘‘ج۱،ص:۷۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص294

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر ٹینک میں کبوتر گر کر مر گیا، تو ٹینک کا پانی ناپاک ہو گیا ٹینک کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پورا پانی نکال دیا جائے کبوتر بھی نکالا جائے ،پھر اس میں پاک پانی بھر دیا جائے۔
اگر کبوتر کے گرنے کا صحیح وقت معلوم نہ ہو، تو ایسی صورت میںجب کہ پھٹا پھولا نہیں، جس وقت کبوتر کو ٹینک میں دیکھا گیا اسی وقت سے نجاست کا حکم لگے گا اور اب تک جو نمازیں اس پانی سے وضو وغسل کر کے پڑھی گئیں ان کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے اور کپڑے جو اس پانی سے دھوئے گئے وہ بھی پاک ہیں۔ اور اگر پھول پھٹ گیا ہے تو تین دن تین رات کی نمازیں لوٹانی ہو گی۔
’’ویحکم بنجاستہا مغلظۃ من وقت الوقوع إن علم … ومذ ثلثۃ أیام بلیالیہا إن انتفخ أو تفسخ استحساناً وقالا من وقت العلم فلا یلزمہم شيء قبلہ قیل وبہ یفتی‘‘(۱)
’’وإذا علم وقت الوقوع أي وقت حیوان مات في البئر حکم بالتنجس من وقتہ أي من وقت الوقوع وإلا أي وإن لم یعلم فمن یوم ولیلۃ إن لم ینتفخ الواقع أو لم یتفسخ لأن أقل المقادیر في باب الصلوٰۃ یوم ولیلۃ فإن ما دون ذلک ساعات لا یمکن ضبطہا لتفاوتہا ومن ثلثۃ أیام ولیا لیہا إن انتفخ أو تفسخ لأن الانتفاخ دلیل التقادم فیقدر وقوعہ منذ ثلثۃ أیام لأنہا أقل الجمع‘‘ (۲)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في البئر‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۸۔
(۲) عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب الطہارۃ: فصل تنزح البئر لوقوع نجس‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص80

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:غسل میں کلی کرنا فرض ہے اس طرح کہ تمام منہ میں پانی پہونچ جائے اور غرغرہ غسل میں سنت ہے، مگر روزہ دار کے لیے غرغرہ نہیں ہے کہ اس سے روزے کے فساد کا سخت اندیشہ ہوتا ہے۔(۱)

(۱)أبوسلمۃ بن عبدالرحمن قال: حدثتني عائشۃ، أن رسول اللّٰہ ﷺ کان إذا ما اغتسل من الجنابۃ مضمض واستنشق ثلاثا۔ (أخرجہ ابن أبي شیبہ، في مصنفہ، ج۱، ص:۶۸، رقم:۹۳)  عن فضیل بن عمر قال: قال عمر: إذا اغتسلت من الجنابۃ فتمضمض: ثلاثا فإنہ أبلغ۔ (أخرجہ ابن أبی شیبہ، فی مصنفہ، ’’کتاب الطھارۃ، في المضمضۃ والاستنشاق‘‘ج۱، ص:۷۷۳ بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان) ؛ و قولہ، غسل الفم والأنف أي بدون مبالغۃ فیھما فإنھا سنۃ فیہ۔ (الطحطاوي، حاشیہ الطحطاوي علی مراقي الفلاح شرح نورالإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ، فصل لبیان فرائض الغسل‘‘ ج۱، ص:۱۰۲)، غسل کل فمہ و أنفہ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل‘‘ ج۱، ص:۲۸۴)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص295

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2597/45-4096

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اگر چپل میں یقینی طور پر نجاست لگی ہے  اور پانی  اس چپل سے لگ کر گزررہا ہے تو  وہ پانی اور اس کی چھینٹیں بھی ناپاک ہوں گی اور جوتے چپل اور مسجد کا فرش جس پر نجس پانی لگا وہ سب ناپاک  ہوں گے۔  جسم پر اگر کوئی نجاست لگ کر سوکھ گئی  تو بھی بدن ناپاک ہی رہے گا ، اس پر جو پسینہ ظاہر ہوگا وہ بھی ناپاک ہوگا۔  لیکن محض شک کی بناء پر ناپاکی کا حکم نہیں ہوگا۔

ففی الفتاوى الهندية: ولو وضع رجله المبلولة على أرض نجسة أو بساط نجس لا يتنجس وإن وضعها جافة على بساط نجس رطب إن ابتلت تنجست ولا تعتبر النداوة هو المختار كذا في السراج الوهاج ناقلا عن الفتاوى اھ (1/ 47)
وفی الدر المختار: نام أو مشى على نجاسة، إن ظهر عينها تنجس وإلا لا. ولو وقعت في نهر فأصاب ثوبه، إن ظهر أثرها تنجس وإلا لا. لف طاهر في نجس مبتل بماء إن بحيث لو عصر قطر تنجس وإلا لا. ولو لف في مبتل بنحو بول، إن ظهر نداوته أو أثره تنجس وإلا لا. اھ (1/ 345)
وفی حاشية ابن عابدين: (قوله: مشى في حمام ونحوه) أي: كما لو مشى على ألواح مشرعة بعد مشي من برجله قذر لا يحكم بنجاسة رجله ما لم يعلم أنه وضع رجله على موضعه للضرورة فتح. وفيه عن التنجيس: مشى في طين أو أصابه ولم يغسله وصلى تجزيه ما لم يكن فيه أثر النجاسة؛ لأنه المانع إلا أن يحتاط اھ (1
/ 350)

"ولو ابتل فراش أو تراب نجسا" وكان ابتلالهما "من عرق نائم" عليهما "أو" كان من "بلل قدم وظهر أثر النجاسة" وهو طعم أو لون أو ريح "في البدن والقدم تنجسا" لوجودها بالأثر "وإلا" أي وإن لم يظهر أثرها فيهما "فلا" ينجسان. (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح: (باب الأنجاس و الطهارة عنها، ص: 158، ط: دار الكتب العلمية)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اگر ٹنکی میں کوئی نجاست وغیرہ نہیں گری ہے تو وہ ٹنکی خواہ بڑی ہو یا چھوٹی اس کا پانی پاک ہے، اس ٹنکی کے پانی سے گھریلو کام کاج (مثلاً: کھانا بنانے اور کپڑے وغیرہ دھونے) وضو اور غسل وغیرہ میں استعمال کرنا بلاکراہت درست ہے؛ البتہ اگر ٹنکی ناپاک ہو، تو ٹنکی پاک کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ٹنکی کے پانی کو (جو ماء راکد کے حکم میں ہے) کسی طرح جاری کر دیا جائے اس کی بہتر اور آسان صورت یہ ہے کہ ایک طرف موٹر چلا دیا جائے جس سے پانی ٹینک میں داخل ہونا شروع ہو جائے گا اور دوسری طرف اس ٹینک سے نکلنے والا پائپ کا نل (ٹونٹی) کھولدیا جائے جب اتنا پانی جتنا موجود تھا نکل جائے اور پانی سے نجاست کا اثر رنگ، بو، مزہ وغیرہ ختم ہو جائے تو اب یہ ٹینک اور اس کا پانی پاک ہو جائے گا۔
’’ویجوز التوضوء بالماء الجاري، ولا یحکم بتنجسہ لوقوع النجاسۃ فیہ مالم یتغیر طعمہ أو لونہ أو ریحہ وبعد ما تغیر أحد ہذہ الأوصاف وحکم بنجاسۃ لا یحکم بطہارتہ ما لم یزل ذلک التغیر بأن یزاد علیہ ماء طاہر حتی نزیل ذلک التغیر وہذا؛ لأن إزالۃ عین النجاسۃ عن الماء غیر ممکن فیقام زوال ذلک التغیر الذي حکم بالنجاسۃ لأجلہ مقام زوال عین النجاسۃ‘‘(۱)
’’فتاوی عالمگیر یہ‘‘ میں ہے:
’’حوض صغیر تنجّس ماؤہ فدخل الماء الطّاہر فیہ من جانب وسال ماء الحوض من جانب آخر کان الفقیہ أبوجعفر یقول: کما سال ماء الحوض من الجانب الآخر یحکم بطہارۃ الحوض الخ‘‘(۱)
(۱) برہان الدین محمود بن أحمد، المحیط البرہاني، ’’کتاب الطہارۃ: الماء المستعمل‘‘: ج ۱، ص: ۸۳۔
(۱)  جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الثالث في المیاہ، الفصل الأول فیما یجوز بہ التوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص82

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حوض کے کنارہ پر یا حوض کے اندر غسل جنابت نہیں کرنا چاہئے، اس لیے کہ اس سے دوسرے مسلمانوں کو طبعاً تکلیف ہوگی جو مسلمان کی شان کے خلاف ہے(۱) اور اس سے مستعمل پانی حوض میں جائے گا؛ اگرچہ حوض کا پانی دہ در دہ ( کثیر پانی) ہونے کی وجہ سے ناپاک نہیں ہوگا۔(۲)

(۱) أنہ سمع عبداللّٰہ بن عمرو بن العاص یقول: إن رجلاً سأل رسول اللّٰہ ﷺ، فقال: أي المسلمین خیر؟ فقال: من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’باب بیان تفاضل الإسلام، و أي أمورہ أفضل‘‘ ج۱،ص:۴۸، رقم:۸۸، مکتبہ نعیمیہ دیوبند)  قال النوويؒ: ’’قولہ ﷺ : من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ‘‘ معناہ: من لم یؤذ مسلماً قط بقول ولا فعل، و خصّ الید بالذکر، لأن معظم الأفعال بھا۔ (النووي، شرح المسلم علی حاشیۃ مسلم ، ایضاً، بیروت : دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۲)الماء الجاري إذا وقعت فیہ نجاسۃ جاز الوضوء منہ إذا لم یر لھا أثر لأنھا لا تستقر مع جریان الماء۔ (المرغینانی، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الماء الذي یجوز بہ الوضوء و مالا یجوز بہ‘‘ ج۱، ص:۳۵-۳۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص295

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا مٹیالا پانی جس کی رقت وسیلان باقی ہو اور اس کو پانی ہی کہا جاتا ہو اس سے وضو کرنا اور کپڑے کو پاک کرنا درست ہے؛ اس لیے صورت مسئولہ میں گدلے پانی سے وضو کرنا درست ہے۔
’’الطین والجص والنورۃ فإن التوضؤ بالماء الذي اختلط بہ ہذہ الأشیاء یجوز بالاتفاق إذا کان الخلط بہ قلیلاً … فإن کانت رقتہ باقیۃ جاز الوضوء بہ وإن صار ثخیناً بحیث زالت عنہ رقتہ الأصلیۃ لم یجز‘‘(۲)
’’الماء الذي خالطہ شيء من الطین یجوز الوضوء بہ اجماعاً لبقاء اسم الماء المطلق‘‘(۳)
(۲)  بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہاۃر: الطہارۃ بالماء الذي خالطہ شيء طاہر‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۵۔
(۳) عبد اللّٰہ بن محمود الحنفي، الاختیار لتعلیل المختار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الماء الذین یجوز التطہیر بہ، حکم الماء الراکد‘‘: ج ۱، ص: ۶۶۔(دارالرسالۃ العالمیۃ، لبنان)


 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص83

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:مذکورہ صورت میں پانی پینے سے منہ میں پانی چلا گیا، تو غسل کا ایک فرض کلی کرنا (منہ میں پانی پہونچانا) ادا ہو گیا، اور غسل درست ہو گیا۔(۳)

(۳) و شرب الماء عبأ یقوم مقام غسل الفم لامصاً۔ ( الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، کتاب الطہارۃ، فصل لبیان فرائض الغسل، ص:۱۰۲) ؛ وإذا نسي المضمضۃ والاستنشاق في الجنابۃ حتی صلی لم یجز(السرخسي، المبسوط، ’’باب الوضوء والغسل‘‘ ج۱، ص:۶۲، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)؛ و نسي المضمضۃ أو جزئً من بدنہ فصلی ثم تذکر فلو نفلا لم یعد لعدم صحۃ شروعہ قولہ (لعدم صحۃ شروعہ) أي والنفل إنما تلزم إعادتہ بعد صحۃ الشروع فیہ قصدا، و سکت عن الفرض لظہور أنہ یلزمہ الإتیان بہ مطلقا۔(ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل‘‘ج۱، ص:۲۸۹، مکتبۃ زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص296

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2598/45-4097

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  دم سائل یعنی بہتاخون ناپاک ہے، بدن کے کسی بھی حصہ سے  اگر خون بہہ کر اس حصہ تک آجائے  جس کا غسل میں دھونا فرض ہے تو وضو ٹوٹ جاتاہے۔  کان یا ناک  کے باہر اگر خون آرہاہو تو اس کو روئی سے پونچھ دیں اور کان کے باہری حصہ ، اور ناک کے بانسے کو  پانی سے اچھی طرح دھولیں  اور اگر اندر ہی رکا ہوا ہے ، کان کے باہر یا ناک کے نرم حصہ تک نہیں آیا تو اس سے  وضو نہیں ٹوٹے گا اس کو دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔  اوراگر ناک سے جماہوا خون نکلے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔

منھ سے اگر خون نکلے تو اگر خون تھوک پر غالب ہو  یعنی تھوک کا رنگ سرخی مائل ہوجائے یا منھ میں خون کا ذائقہ آنے لگے تو اس سے وضو ٹوٹ جاتاہے ،کلی کرتے رہیں یہاں تک کہ تھوک سفید آنے لگےپھر وضو کریں۔ اور اگر وضو کے بعد ایسی صورت پیش آئے تو دوبارہ وضو کرنا ہوگا۔

وفي المنیة: انتثر فسقط من أنفہ کتلة دم لم ینتقض اھ، أي: لما تقدم من أن العلق خرج عن کونہ دما باحتراقہ وانجمادہ، شرح (رد المحتار، کتاب الطھارة، ۱: ۲۶۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

قال الشامی ناقلاً عن البحر: بل الظاہر إذا کان الخارج قیحاً أو صدیداً لنقض، سواء کان مع وجع أو بدونہلأنہما لا یخرجان إلا عن علةٍ، نعم ہٰذا التفصیل حسن فی ما إذا کان الخارج ماء لیس غیر۔ (شامی زکریا ۱/۲۷۹)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند