طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حیض کے ایام کے دوران رک کر دوبارہ آنے والا خون حیض ہی کا ہوگا اگرچہ وہ خون تھوڑا ہی کیوں نہ ہو؛ اس لیے مذکورہ صورت میں کپڑوں پر داغ لگنے والا خون حیض ہی کا شمار ہوگا فقہاء احناف کے نزدیک حیض کی کم از کم مدت تین دن اور تین راتیں ہیں جب کہ زیادہ سے زیادہ مدت دس دن اور دس راتیں ہیں۔ امام دار قطنی نے ایک روایت نقل کی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کسی کنواری اور شادی شدہ عورت کا حیض تین دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہیں ہوتا، دس دن کے بعد نکلنے والا خون استحاضہ ہے، حائضہ ایام حیض کے بعد کی نمازوں کی قضا کرے، حیض میں سرخی مائل سیاہ گاڑھا خون ہوتا ہے اور استحاضہ میں زرد رنگ کا پتلا خون ہوتا ہے۔
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا یکون الحیض للجاریۃ والثیب الذی قد أیست من الحیض أقل من ثلاثۃ أیام ولا أکثر من عشرۃ أیام، فإذا رأت الدم فوق عشرۃ أیام فہي مستحاضۃ فما زاد علی أیام أقرائہا قضت، ودم الحیض أسود خاثر تعلوہ حمرۃ، ودم المستحاضۃ أصفر رقیق‘‘(۱)
ایک اور روایت میں ہے:
’’عن واثلۃ بن الأسقع قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أقل الحیض ثلاثۃ أیام وأکثرہ عشرۃ أیام‘‘(۲)
احناف کے نزدیک تین دن اور تین راتوں سے کم حیض نہیں ہے اور مدت حیض میں خون شروع ہو کر درمیان میں رک کر دوبارہ خون جاری ہو جاتا ہے اس سلسلے میں صاحب ہدایہ رحمۃ اللہ علیہ احناف کا موقف بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’والطہر إذا تخلل بین الدمین في مدۃ الحیض فہو کالدم المتوالي قال: وہذہ إحدی الروایات عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ ووجہہ أن استیعاب الدم مدۃ الحیض لیس بشرط بالإجماع فیعتبر أولہ وآخرہ کالنصاب في باب الزکاۃ‘‘(۳)
اور وہ طہر جو دو خونوں کے درمیان متخلل یعنی خلل انداز ہو وہ بھی مسلسل آنے والے خون کی طرح ہے، صاحب ہدایہ فرماتے ہیں کہ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے مروی روایات میں سے ایک روایت ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ خون کا پوری مدتِ حیض کو گھیرنا بالاجماع شرط نہیں ہے؛ لہٰذا اس کے اول اور آخر کا اعتبار کیا جائے گا، جیسے زکوٰۃ کے باب میں نصاب ہے۔
خلاصہ:
حیض کی مدت کم از کم تین دن اور تین راتیں ہیں اورزیادہ سے زیاد دس دن ہے اور جو دس دن سے زیادہ یا تین دن سے کم ہو وہ استحاضہ ہے۔
لہٰذا اگر حیض کے ایام میں چار دن خون آنے کے بعد دو دن کے لیے بند ہو جاتا ہے اور پھر آنا شروع ہو جاتا ہے تو یہ تمام مدت حیض ہی شمار ہوگی۔ جیسا کہ صاحب ہدایہ نے بیان فرمایا ہے:
’’أقل الحیض ثلاثۃ أیام ولیالیہا، وما نقص من ذلک فہو استحاضۃ‘‘(۴)
البتہ حیض کا ایک دور ختم ہونے کے بعد دوسرا دور شروع ہونے کی کم سے کم مدت پندرہ دن ہے۔ اگر پندرہ دن سے پہلے خون آجائے تو وہ استخاضہ شمار کیا جائے گا۔ اس صورت میں جسم اور کپڑوں کو پاک کر کے عبادات بھی انجام دی جائیں گی اور ہر نماز کے لیے نئی وضو کر کے نماز بھی ادا کی جائے گی۔

(۱) أخرجہ دار قطني، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: کتاب الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۸، رقم: ۵۹۔
(۲) أیضاً، رقم: ۶۱۔
(۳) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: باب الحیض والاستحاضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۶۔
(۴) أیضاً:

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص394

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2803/45-4391

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز کے بعد اگرآپ نے  عضو خاص پر بالیقین تری دیکھی یا ہاتھوں سے چکناہت محسوس کی تو ظاہر ہے کہ وضو جاتا رہا اور نماز نہیں ہوئی، اس لئے نماز کا اعادہ واجب ہوگا،۔ کمرے میں جاکر آپ نے دیکھا تو تری نظر نہیں آئی اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ کمرے میں جاتے ہوئے کپڑے میں مس ہو کر تری کپڑے میں جذب ہوگئی  جو کمرے میں پہونچنے پر نظر نہیں آئی۔ ایسی حالت میں پڑھی گئی نماز  لوٹالی جائے اور قرآن کو بلاوضو چھونے پر توبہ واستغفار کیا جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2748/45-4283

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ استنجا میں اگر نجاست اپنے مخرج سے تجاوز نہ کرے تو استنجا کرنا سنت ہے، اس صورت میں ناپاکی قابل عفو ہے، لیکن اگر نجاست مخرج سے تجاوز کر جائے اور پانی یا ڈھیلا استعمال نہ کرے تو وہ جگہ ناپاک ہے اس کو پاک کرنا ضروری ہے۔

’’وہو سنة مؤکدة مطلقا ویجب أي بفرض غسله أن جاوز المخرج نجس مائع فیما وراء موضع الاستنجاء‘‘ (در مختار مع رد: ج ١، ص: ٩٣٣)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2777/45-4327

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھونے کے بعد اگر  ہاتھ پر تری باقی ہو تو اس سے سر کا مسح کرنا کافی ہوگا، سر کے مسح کے لئے نیا پانی لینا ضروری نہیں ہے۔ البتہ سر کے مسح کے لئے نیا پانی لینا سنت ہے۔

  عن الربیع ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم مسح براسہ من فضل ماء کان فی یدہ(ابوداؤد

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بہتر تو یہ ہے کہ پانی اور ڈھیلا دونوں کو جمع کرلیا جائے دوسرے نمبر پر صرف پانی پر اکتفاء کیا جائے؛ لیکن اگر پانی نہ ہو، تو مجبوراً ڈھیلے پر اکتفا کیا جاسکتا ہے۔(۱)

(۱) ثم إعلم أن الجمع بین الماء والحجر أفضل،  و یلیہ في الفضل، الاقتصار علی الماء، و یلیہ الاقتصار علی الحجر، و تحصل السنۃ بالکل و إن تفاوت الفضل۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب إذا دخل المستنجي في ماء قلیل،‘‘ ج۱، ص:۵۵۰)؛ والاستنجاء بالماء أفضل (علي بن عثمان، الفتاویٰ السراجیہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الاستنجاء،‘‘ ج۱، ص:۶۱)؛ و الإستنجاء نوعان: أحدھما بالماء، والثاني بالحجر أو بالمدر أو ما یقوم مقامھما من الخشب أو التراب، والاستنجاء بالماء أفضل (عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، نوع منہ في بیان سنن الوضوء و آدابہ،‘‘ ج ۱، ص:۲۱۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص87

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2829/45-4416

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حیض کے بند ہونے کی مختلف صورتیں  ہیں؛ بعض مرتبہ خون بند ہوتاہے حیض کی اکثر مدت پوری ہونے پر، اور بعض مرتبہ عورت کی عادت کے مطابق  اور بعض مرتبہ عورت کی ایام عادت سے پہلے ہی حیض بند ہوجاتاہے۔ اس لئے اگر حیض اپنی پوری مدت یعنی دس دن پورے ہوجانے پر بند ہوا ہے تو خون بند ہوتےعورت کے غسل کرنے سے پہلے عورت  سے ہمبستری کرنا درست ہے، اگرچہ بہتر یہ ہے کہ غسل کے بعدہمبستری کرے۔اور اگر عورت کی عادت  کے مطابق چھ یا سات روز میں حیض بند ہوگیا تو حیض ختم ہونے کے بعد جب عورت غسل کر لے یا ایک نماز کا وقت گزر جائے (جس میں غسل کرکے کپڑے پہن کر نماز شروع کرسکے)  اس کے بعد ہی  اس سے ہمبستری جائز ہوگی۔  اور اگر عادت کے ایام سے پہلے ہی خون بند ہوگیا  مثلا عادت چھ یا سات روز کی تھی اور پانچ دن میں خون بند ہوگیا تو اس صورت میں عادت کے ایام مکمل ہونے سے پہلے اس سے ہمبستری کرنا جائز نہیں ہے۔

''(ويحل وطؤها إذا انقطع حيضها لاكثره) بلا غسل وجوبابل ندبا.(وإن) انقطع لدون أقله تتوضأ وتصلي في آخر الوقت، وإن (لاقله) فإن لدون عادتها لم يحل، أي الوطء وإن اغتسلت؛ لأن العود في العادة غالب بحر، وتغتسل وتصلي وتصوم احتياطا، وإن لعادتها، فإن كتابية حل في الحال وإلا (لا) يحل (حتى تغتسل) أو تتيمم بشرطه(أو يمضي عليها زمن يسع الغسل) ولبس الثياب." (شامی، (1/294،ط:دارالفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو کاغذ استنجے کے لیے بنائے گئے ہیں، ان کا استعمال ڈھیلے سے استنجاء کرنے کے مانند ہے؛ اگرچہ اس میں مٹی والے فوائد نہیں ہیں؛ لیکن پانی کے قائم مقام یہ کاغذ نہیں ہے؛ لہٰذا اس کاغذ کو استعمال کرنے کے بعد پانی کا استعمال کیا جانا چاہیے، اگر مجبوری ہو (پانی اور ڈھیلا نہ ملے، یا بیماری کی وجہ سے پانی نقصان دہ ہو)، تو اس کاغذ پر اکتفاء کرنے میں مضائقہ نہیں ہے۔(۱)

(۱) و یسنّ أن یستنجي بحجر منق و نحوہ من کل طاھر مزیل بلا ضرر، ولیس متقوما ولا محترماً قولہ (و نحوہ من کل طاھر الخ) کالمدر، وھو الطین الیابس، والتراب، والخلقۃ البالیۃ، والجلد الممتھن۔ قال في المفید: و کل شيء طاھر غیر متقوم یعمل عمل الحجر۔ (طحطاوي، حاشیۃالطحطاوي علی المراقي، ج۱، ص:۴۵)؛  و کرہ تحریماًبعظم و طعام و روث و آجرّ و خزف و زجاج و شيء محترم۔ قال الشامي : و قولہ (و شيء محترم) … أما غیر المحترم … فیجوز الاستنجاء بہ۔(ابن عابدین، رد المحتار علی الدر ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب: إذا دخل المستنجي في ماء قلیل،‘‘ ج۱، ص:۵۴۸، مکتبۃ زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص87