طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بہتر تو یہ ہے کہ پانی اور ڈھیلا دونوں کو جمع کرلیا جائے دوسرے نمبر پر صرف پانی پر اکتفاء کیا جائے؛ لیکن اگر پانی نہ ہو، تو مجبوراً ڈھیلے پر اکتفا کیا جاسکتا ہے۔(۱)

(۱) ثم إعلم أن الجمع بین الماء والحجر أفضل،  و یلیہ في الفضل، الاقتصار علی الماء، و یلیہ الاقتصار علی الحجر، و تحصل السنۃ بالکل و إن تفاوت الفضل۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب إذا دخل المستنجي في ماء قلیل،‘‘ ج۱، ص:۵۵۰)؛ والاستنجاء بالماء أفضل (علي بن عثمان، الفتاویٰ السراجیہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الاستنجاء،‘‘ ج۱، ص:۶۱)؛ و الإستنجاء نوعان: أحدھما بالماء، والثاني بالحجر أو بالمدر أو ما یقوم مقامھما من الخشب أو التراب، والاستنجاء بالماء أفضل (عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، نوع منہ في بیان سنن الوضوء و آدابہ،‘‘ ج ۱، ص:۲۱۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص87

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2829/45-4416

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حیض کے بند ہونے کی مختلف صورتیں  ہیں؛ بعض مرتبہ خون بند ہوتاہے حیض کی اکثر مدت پوری ہونے پر، اور بعض مرتبہ عورت کی عادت کے مطابق  اور بعض مرتبہ عورت کی ایام عادت سے پہلے ہی حیض بند ہوجاتاہے۔ اس لئے اگر حیض اپنی پوری مدت یعنی دس دن پورے ہوجانے پر بند ہوا ہے تو خون بند ہوتےعورت کے غسل کرنے سے پہلے عورت  سے ہمبستری کرنا درست ہے، اگرچہ بہتر یہ ہے کہ غسل کے بعدہمبستری کرے۔اور اگر عورت کی عادت  کے مطابق چھ یا سات روز میں حیض بند ہوگیا تو حیض ختم ہونے کے بعد جب عورت غسل کر لے یا ایک نماز کا وقت گزر جائے (جس میں غسل کرکے کپڑے پہن کر نماز شروع کرسکے)  اس کے بعد ہی  اس سے ہمبستری جائز ہوگی۔  اور اگر عادت کے ایام سے پہلے ہی خون بند ہوگیا  مثلا عادت چھ یا سات روز کی تھی اور پانچ دن میں خون بند ہوگیا تو اس صورت میں عادت کے ایام مکمل ہونے سے پہلے اس سے ہمبستری کرنا جائز نہیں ہے۔

''(ويحل وطؤها إذا انقطع حيضها لاكثره) بلا غسل وجوبابل ندبا.(وإن) انقطع لدون أقله تتوضأ وتصلي في آخر الوقت، وإن (لاقله) فإن لدون عادتها لم يحل، أي الوطء وإن اغتسلت؛ لأن العود في العادة غالب بحر، وتغتسل وتصلي وتصوم احتياطا، وإن لعادتها، فإن كتابية حل في الحال وإلا (لا) يحل (حتى تغتسل) أو تتيمم بشرطه(أو يمضي عليها زمن يسع الغسل) ولبس الثياب." (شامی، (1/294،ط:دارالفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو کاغذ استنجے کے لیے بنائے گئے ہیں، ان کا استعمال ڈھیلے سے استنجاء کرنے کے مانند ہے؛ اگرچہ اس میں مٹی والے فوائد نہیں ہیں؛ لیکن پانی کے قائم مقام یہ کاغذ نہیں ہے؛ لہٰذا اس کاغذ کو استعمال کرنے کے بعد پانی کا استعمال کیا جانا چاہیے، اگر مجبوری ہو (پانی اور ڈھیلا نہ ملے، یا بیماری کی وجہ سے پانی نقصان دہ ہو)، تو اس کاغذ پر اکتفاء کرنے میں مضائقہ نہیں ہے۔(۱)

(۱) و یسنّ أن یستنجي بحجر منق و نحوہ من کل طاھر مزیل بلا ضرر، ولیس متقوما ولا محترماً قولہ (و نحوہ من کل طاھر الخ) کالمدر، وھو الطین الیابس، والتراب، والخلقۃ البالیۃ، والجلد الممتھن۔ قال في المفید: و کل شيء طاھر غیر متقوم یعمل عمل الحجر۔ (طحطاوي، حاشیۃالطحطاوي علی المراقي، ج۱، ص:۴۵)؛  و کرہ تحریماًبعظم و طعام و روث و آجرّ و خزف و زجاج و شيء محترم۔ قال الشامي : و قولہ (و شيء محترم) … أما غیر المحترم … فیجوز الاستنجاء بہ۔(ابن عابدین، رد المحتار علی الدر ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب: إذا دخل المستنجي في ماء قلیل،‘‘ ج۱، ص:۵۴۸، مکتبۃ زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص87