Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 38/812
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: چالیس قدم پر اجروثواب احادیث سے ثابت ہے(مسنداحمد)، نماز جنازہ کی ثنا ء میں "وجل ثناؤک" بھی منقول ہے، اور مذکورہ دونوں امور استحباب کے درجہ میں ہیں۔ تفصیل کے لئے ردالمحتار اور الموسوعۃ الفقہیہ کا مطالعہ مفید ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 39 / 846
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ درود ابراہیمی سب درودوں میں افضل ہے وہی پڑھنا چاہئے، تاہم جب اس کو پڑھنا مشکل ہو تو آپ پڑھیں: "اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد وبارک وسلم"۔ دعاء ماثورہ کی جگہ پڑھیں: "ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار"/ یا "اللھم اغفرلی" تین بار پڑھیں۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:درست ہے کوئی وجہ ممانعت نہیں ہے۔ (۱)
(۱) {وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِيْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْأٰصَالِ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَہ۲۰۵} (سورۃ الأعراف: ۲۰۵)
عن ثوبان قال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم من قال: حین یمسی رضیت باللّٰہ ربا وبالإسلام دیناً وبمحمدٍ نبیاً کان حقاً علی اللّٰہ أن یُرضیہ: ہذا حدیث حسن غریب من ہذا الوجہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات: باب ما جاء في الدعاء إذا أصبح وإذا أمسیٰ‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۶، رقم: ۳۳۸۹)
عن أبي ہریرۃ أن أبابکر الصدیق رضي اللّٰہ عنہما، قال: یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: مرني بکلمات أقولہن إذا أصبحت وإذا أمسیت قال: قل اللہم فاطر السماوات والأرض عالم الغیب والشہادۃ رب کل شيء وملیکہ أشہد أن لا إلہ إلا أنت أعوذ بک من شر نفسي وشر الشیطان وشرکہ قال: قلہا إذا أصبحت وإذا أمسیت وإذا أخذت مضجعک۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’ کتاب الأدب، أبواب النوم، باب ما یقول إذا أصبح وإذا أمسیٰ‘‘: ج ۲، ص: ۶۹۱، رقم: ۵۰۶۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص378
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں عورتوں کو مسجد میں جانے کی اجازت تھی اور ساتھ ہی یہ بھی ارشاد تھا کہ {بیوتہن خیرلہن} یعنی ان کے گھر ان کے لیے مسجد سے زیادہ بہتر ہیں ام حمید ایک جاں نثار خاتون نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھ کو آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کا بہت شوق ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ٹھیک کہتی ہو؛ لیکن تمہارے لیے بند کوٹھری میں نماز پڑھنا صحن کی نماز سے بہتر ہے اور صحن کی نماز سے برآمدہ کی نماز بہتر ہے اس کے بعد سے ام حمیدؓ نے نماز کے لیے کوٹھری متعین کرلی اور وفات تک وہیں نماز پڑھتی رہی مسجد میں نہیں گئیں
جب حضرت عمرؓ کا دور آیا اور عورتوں کی حالت میںتبدیلی آگئی، عمدہ پوشاک، زیب و زینت اور خوشبو کا استعمال وغیرہ ہونے لگا تو حضرت عمرؓ نے اس کو دیکھ کر ان عورتوں کو مسجد میں آنے سے روکدیا تو تمام صحابہؓ نے اس کو پسند فرمایا کسی نے اس میں اختلاف نہیں کیا؛ البتہ بعض عورتوں نے حضرت عائشہؓ سے اس بات کی شکایت کی تو حضرت عائشہؓ نے بھی خلیفہ حضرت عمر فاروق سے اتفاق کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان چیزوں کو دیکھتے جو اب عورتوں میں نظر آتی ہیں تو آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ضرور عورتوں کو مسجد میں آنے سے منع فرما دیتے۔ حضرت عمرؓ جمعہ کے روز کھڑے ہوکر عورتوں کے کنکریاں مارتے ان کو مسجد سے نکالتے۔ یہ اُس دور کی بات ہے جب کہ عورتوں میں شرم و حیا اور تقویٰ و پرہیزگاری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور مردوں میں اکثریت نیکو کار کی تھی، فیوض و برکات کے حصول کا زریں موقعہ تھا اور مسجد نبوی کی فضیلت اور نماز باجماعت ادا کرنے کی شریعت میں سخت تاکید تھی، باوجود اس کے عورتیں مسجد کی حاضری سے روک دی گئیں، دور حاضر میں کیا حکم ہونا چاہئے۔ ’’قیاس کن زگلستان من بہار مرا‘‘
در مختار میں ہے۔
’’ویکرہ حضورہن الجماعۃ ولو لجمعۃ وعید وعظٍ مطلقاً ولو عجوزاً لیلاً علی المذہب المفتی بہ لفساد الزمان‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي …قبل الحنفي ہل الأفضل الصلاۃ مع الشافعي أم لا؟‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۷، زکریا دیوبند۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص511
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں قطرہ آتے ہی وضو اور نماز دونوں ختم ہوگئی وضو بناکر اعادہ کرنا ضروری ہوگا۔
سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ معذور نہیں ہے اس لیے جو حکم معذور کا ہے اس پر لاگو نہیں ہوگا اس کا وضو بھی ٹوٹ گیا اور اس کی نماز بھی نہیں ہوئی۔(۱)
(۱) وینقضہ خروج کل نجس منہ أي من المتوضی الحي معتادا أولا من السبیلین أولا۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار’’کتاب الطہارۃ‘‘، ج۱، ص: ۲۶۰، ۲۶۱، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص111
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب واللہ الموفق: روایات سے قنوت نازلہ جماعت کی نماز کے ساتھ پڑھنا ثابت ہے؛ اس لیے گھروں میں خوا تین کا انفرادی نماز میں قنوت نازلہ پڑھنا درست نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ عبادت کا وہی طریقہ مشروع ہے جو احادیث سے ثابت ہے اور عہد نبوی یا قرون مشہود لہا میں عورتوں کا گھروں میں انفرادی طورپر قنوت نازلہ پڑھنا ثابت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرات فقہاء نے منفرد کو قنوت نازلہ پڑھنے سے منع کیا ہے۔
’’وھو صریح في أن قنوت النازلۃ عندنا مختص بصلاۃ الفجر دون غیرہا من الصلوات الجہریۃ أو السریۃ۔ ومفادہ أن قولہم بأن القنوت في الفجر منسوخ، معناہ: نسخ عموم الحکم لا نسخ أصلہ کما نبہ علیہ نوح أفندي، وظاہر تقییدہم بالإمام أنہ لا یقنت المنفرد‘‘(۱)
(۱) الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’باب الوتر والنوافل، مطلب في القنوت للنازلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۹، زکریا دیوبند۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص340
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر شوہر اپنی بیوی کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھے تو بیوی کو شوہر کے پیچھے کھڑا ہونا چاہئے۔ اگر بیوی اس کے دائیں یا بائیں محاذاۃ میں کھڑی ہوگئی تو نماز درست نہیں ہو گی۔
’’محاذاۃ المرأۃ الرجل مفسدۃ لصلاتہ ولہا شرائط: منہا) أن تکون المحاذیۃ مشتہاۃً تصلح للجماع ولا عبرۃ للسن وہو الأصح … (ومنہا) أن تکون الصلاۃ مطلقۃً وہي التي لہا رکوع وسجود … (ومنہا) أن تکون الصلاۃ مشترکۃً تحریمۃً وأدائً … (ومنہا) أن یکونا في مکان واحد … (ومنہا) أن یکونا بلا حائل … وأدنی الحائل قدر مؤخر الرحل وغلظہ غلظ الأصبع والفرجۃ تقوم مقام الحائل وأدناہ قدر ما یقوم فیہ الرجل، کذا في التبیین۔ (ومنہا) أن تکون ممن تصح منہا الصلاۃ … (ومنہا) أن ینوی الإمام إمامتہا أو إمامۃ النساء وقت الشروع … (ومنہا) أن تکون المحاذاۃ في رکن کامل … (ومنہا) أن تکون جہتہما متحدۃ … ثم المرأۃ الواحدۃ تفسد صلاۃ ثلاثۃ واحد عن یمینہا وآخر عن یسارہا وآخر خلفہا ولا تفسد أکثر من ذلک۔ ہکذا في التبیین۔ وعلیہ الفتوی۔ کذا في التتارخانیۃ والمرأتان صلاۃ أربعۃ واحد عن یمینہما وآخر عن یسارہما واثنان خلفہما بحذائہما،وإن کن ثلاثا أفسدت صلاۃ واحد عن یمینہن وآخر عن یسارہن وثلاثۃ خلفہن إلی آخر الصفوف وہذا جواب الظاہر۔ ہکذا في التبیین‘‘(۱)
(۱) ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامہ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم‘‘:ج ۱، ص: ۱۴۶؛ وأحمد بن محمد، حاشیہ الطحطاوی علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ‘‘: ص: ۳۲۹، ط: قدیمی)
(ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص513
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ریشمی کپڑا پہننا حرام ہے اس صورت میں نماز مکروہ ہوگی اور ریشم کو بچھاکر اس پر نماز پڑھنا اس کو فقہاء نے جائز کہا ہے۔ ’’کما ورد في المختار بخلاف الصلاۃ علی السجادۃ منہ إلی من الحریر لأن الحرام ہو اللبس دون الانتفاع‘‘ احتیاط یہ ہے کہ ریشم کے کپڑے پر نماز نہ پڑھی جائے کہ یہ ہی تقویٰ ہے۔ لیکن اگر اس کپڑے پر نماز پڑھ لی تو ادا ہوگئی اس کا اعادہ ضروری نہیں۔
’’عن عبد اللّٰہ بن زریر یعني الغافقي أنہ سمع علي بن أبي طالب یقول: إن نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذ حریراً فجعلہ في یمینہ، وأخذ ذہبا فجعلہ في شمالہ، ثم قال:إن ہذین حرام علی ذکور أمتي‘‘(۱)
’’عن سوید بن غفلۃ، أن عمر بن الخطاب خطب بالجابیۃ، فقال نہی نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن لبس الحریر إلا موضع إصبعین، أو ثلاث، أو أربع‘‘(۲)
’’عن ابن عمر قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إنما یلبس الحریر في الدنیا من لاخلاق لہ في الآخرۃ‘‘(۳)
(۱) أخرجہ أبوداود، فی سننہ، ’’کتاب اللباس، باب في الحریر للنساء‘‘: ج ۲، ص۵۶۱قم:۴۰۵۷، مکتبہ نعیمیہ)
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب اللباس والزینۃ، باب: تحریم استعمال إناء الذھب و الفضۃ‘‘:ج۲، ص۱۹۲ رقم: ۲۰۶۹، اعزازیہ دیوبند۔)
(۳) محمد بن إسماعیل، الصحیح البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب اللباس، باب لبس الحریر وافتراشہ للجال و قدر ما یجوز منہ‘‘: ج۲، ص۸۶۷ رقم: ۵۸۳۵۔مکتبہ اشرفیہ دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص112
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب واللّٰہ الموفق: فقہا احناف کے یہاں قنوت نازلہ کے سلسلے میں دوطرح کی روایات ہیں ایک تو تمام جہری نمازوں میں دعائے قنوت پڑھنے کی بات مذکورہ ہے؛ چناں چہ علامہ حصکفی لکھتے ہیں :
’’فیقنت الامام فی الجہریۃ‘‘(۲)
ملتقی میں ہے: ’’فیقنت الإمام في الصلاۃ الجہریۃ‘‘(۳)
علامہ انور شاہ کشمیریؒ کی بھی یہی رائے ہے:
’’فإن الشیخ العیني رحمہ اللّٰہ تعالٰی نقل عن الطحاوي ما یدل علی أنہا ثابتۃ عندنا أیضاً، وقنوت النازلۃ عندنا في الجہریۃ، کما في شرح الہدایۃ للأمیر الإتقاني، وفي شرح شمس الدین النووي: جوازہا في الصلوات مطلقاً‘‘(۱)
دوسری رائے یہ ہے کہ صرف فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھنا درست ہے، باقی جہری نمازوں میں قنوت نازلہ نہیں ہے۔ علامہ شامی نے اسی کو راجح قرار دیا، انہوں نے ایک خیال یہ ظاہر کیا ہے کہ اصل فقہاء احناف کے یہاں فجر ہے اسی کو غلطی سے جہر کردیا گیا؛ لیکن چوں کہ متعدد کتابوں میں ہے اس لیے دوسرا خیال یہ ظاہر کیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اس سلسلے میں احناف کے یہاں دو روایات ہوں ’’ولعل في المسئلۃ قولین‘‘(۲) اکثر ارباب فتاوی نے اسی دوسری رائے کو ترجیح دی ہے کہ صرف فجر کی نماز میں دعائے قنوت کا اہتمام کیاجائے لیکن اگر کبھی یا کسی جگہ مغرب میں بھی دعائے قنوت پڑھی گئی تو فقہاء کی عبارات کی روشنی میں اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص:۴۴۸، زکریا دیوبند۔)
(۳)إبراھیم الحلبي، ملتقی الأبحر علی ہامش المجمع: ج ۱، ص: ۱۲۹۔)
(۱) الکشمیري، فیض الباري: ج ۲، ص: ۳۷۶۔)
(۲)ابن عابدین، منحۃ الخالق علی ہامش البحر: ج ۲، ص: ۴۴۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص341