نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 802

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                         

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  احناف کے نزدیک مغرب سے قبل نفل پڑھنا متروک اس وجہ سے ہے کہ مغرب میں تعجیل کا حکم ہے۔ لیکن جبکہ آپ کے یہاں تاخیر ہوتی ہی ہے تو آپ بھی دو رکعت ادا کرسکتے ہیں۔  واللہ اعلم  بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1020/41-180

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   قصدا اقامت ترک کرنا مکروہ ہے، تاہم نماز ہوجائے گی۔ ایک ہی شخص کا اقامت اور امامت کرنا بھی درست ہے۔

والأفضل أن يصلي بالأذان والإقامة كذا في التمرتاشي وإذا لم يؤذن في تلك المحلة يكره له تركهما ولو ترك الأذان وحده لا يكره كذا في المحيط ولو ترك الإقامة يكره. كذا في التمرتاشي". (عالمگیری 1/54)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خواتین نماز کے لیے مسجد میں آیا کرتی تھیں؛ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اتفاق سے عورتوں کو مسجد میں آنے سے منع کردیا گیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ بھی خیر القرون کا زمانہ تھا؛ لیکن اس زمانہ میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فتنہ کے خوف سے عورتوں کو مسجد میں آنے سے منع کردیا؛ اسی لیے حضرات فقہاء نے عورتوں کے لیے مسجد میں جماعت سے نماز کو مکروہ قرار دیا ہے۔ عبادات میں سب سے افضل اور اہم عبادت نماز ہے، جب عورتوں کو نماز کے لیے مسجد آناپسندیدہ نہیں ہے، تو دیگر اصلاحی پرو گراموں کے لیے آنا بھی پسندیدہ نہیں ہوگا۔ بہتر ہے کہ خواتین کا مسجد کے علاوہ کسی گھر یا مقام پر پروگرام کیا جائے، جہاں مردوں سے اختلاط نہ ہو۔ اور اگر عورتوں کے لیے مسجد میں علاحدہ نظم ہو جس میں کسی قسم کا اختلاط نہ ہو تو دینی پروگرام کرنے کی گنجائش ہے۔(۱)

(۱) إن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: لقد کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم …یصلي الفجر فیشہد معہ نسائٌ من المؤمنات متلفعات في مروطہن ثم یرجعن إلی بیوتہن ما یعرفہن أحد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب کم تصلي المرأۃ في الثیاب‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، رقم: ۳۷۲)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تمنعوا نسائکم المساجد وبیوتہن خیرلہن۔ (أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب ماجاء في خروج النساء إلی المسجد‘‘: ج ۱، ص:۸۳، رقم: ۵۶۷)
عن عبد اللّٰہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: صلاۃ المرأۃ في بیتہا أفضل من صلاتہا في حجرتہا وصلاتہا في حجرتہا أفضل من صلاتہا فيبیتہا۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب التشدید في ذلک‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، رقم:۰ ۵۷)
وکرہ لہن حضور الجماعۃ إلا للعجوز في الفجر والمغرب والعشاء، والفتویٰ الیوم علی الکراہۃ في کل الصلوات لظہور الفساد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم: ج ۱، ص: ۱۴۶)
وأما بیان من تجب علیہ الجماعۃ فالجماعۃ إنما تجب علی الرجال العاقلین الأحرار القادرین علیہا من غیر حرج فلا تجب علی النساء۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، باب الجماعۃ، فصل بیان من تجب علیہ الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۴)
والفتویٰ الیوم علی الکراہۃ في کل صلوات لظہور الفساد۔ (عالم بن العلاء، التاتار خانیۃ، کتاب الصلاۃ، باب الجماعۃ: ج ۱، ص: ۱۵۷)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص505

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسی صورت میں جب کہ کوئی شخص نمازی کو تبدیلی سمت قبلہ پر متنبہ کرے تو نمازی کو کچھ توقف کرکے اپنی رائے سے سمت قبلہ کی طرف گھوم جانا چاہئے تاکہ اس کی نماز درست ہوجائے اور اگر غیر نمازی کے کہنے پر فوراً (بغیر توقف کئے) گھوم گیا تو ’’استمداد عن الغیر‘‘ کی بناء پر اس کی نماز نہیںہوگی۔ دوبارہ پڑھنی ضروری ہوگی۔(۱)
(۱) لو جذبہ آخر فتأخر الأصح لا تفسد صلاتہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۳)
وإن اشتبہت علیہ القبلۃ ولیس بحضرتہ من یسأل عنہا اجتہد وصلّی کذا في الہدایۃ، فإن علم أنہ أخطأ بعد ما صلی لا یعیدہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۱، مکتبہ اتحاد)
وقید بالتحري لأن من صلّی ممن اشتبہت علیہ بلا تحرّ فعلیہ الإعادۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب شروط الصلوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۱، مکتبہ زکریا دیوبند)
وإن شرع بلا تحرّ لم یجز وإن أصاب لترکہ فرض التحري، إلا إذا علم إصابتہ بعد فراغہ فلا یعید اتفاقًا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب إذا ذکر في مسألۃ ثلاثۃ أقوال‘‘: ج۲، ص: ۱۱۹، دار الکتاب دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص284



 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جہری نمازیں انفرادی طور پر پڑھنے میں نمازی کو اختیار ہے کہ پہلی دو رکعتوں میں قرأت جہرا کرے یا سراً، آخری دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کی قرأت سرا ہے نہ کہ جہراً اگر مذکورہ شخص نے آخری دو رکعتوں میں جہراً سورہ فاتحہ پڑھی اور سجدہ سہو نہ کیا تو نماز فاسد ہوگئی، اگر جہر سے مراد صرف بلند آواز سے تکبیر کہنا ہے تو نماز درست ہوگئی۔(۲)

(۲) ویخیر المنفرد في الجہر وہو أفضل ویکتفی بأدناہ إن أدی، وفي السریۃ یخافت حتما علی المذہب، الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ج۲، ص: ۲۵۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص106

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1019/41-198

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ۱،۲:- سنن و نوافل دونوں کا اس سلسلہ میں ضابطہ  ایک  ہے کہ یہ دو دو رکعت واجب ہوتی ہیں۔ لہذا اگرکوئی  چار رکعت کی نیت سے سنت موکدہ  شروع کرکے  نماز فاسد کردے  تو اس میں بھی  صرف دو رکعتوں کی قضا لازم ہوگی ۔ لیکن صورت مسئولہ میں جب اس نے دو رکعت پر سلام پھیردیا تو اس کی دو رکعت نماز پوری ہوگئی؛ اب چار رکعت  سنت بطور قضا اس کے ذمہ واجب نہیں۔ چار رکعت  سنت موکدہ ہی اس کے ذمہ ہے جو نماز کے وقت  کے اندرادا کرلینی چاہئے۔ اگر ادا نہیں کرسکا تو وقت گزرنے کے بعد ظہر کی چار رکعت سنت  صرف اس وجہ سے اس پر واجب نہیں ہوجائے گی کہ اس نے چار رکعت کی نیت سے شروع کرکے دو رکعت پر سلام پھیردی تھی۔

واما بیان مقدار مایلزم منہ بالشروع فنقول لایلزمہ بالافتاح اکثر من رکعتین وان نوی اکثر من ذلک فی ظاھر الروایۃ عن اصحابنا الا یعارض الاقتداء۔ ۔(بدائع مکتبہ نعیمیہ دیوبند ۲/۷)

۳:۔  اگر کوئی فرض یاواجب نماز جو ادا کرچکا ہے مگر اس خیال سے شروع کردیا کہ وہ اس کے ذمہ باقی ہے اور پھر یاد آنے پر توڑدیا  تو اس کے  ذمہ اس شروع کرنے کی بنا پر کچھ بھی لازم نہیں۔ 

وکذا الشروع فی الصلوۃ المظنونۃ غیر موجب، حتی لو شرع فی الصلوۃ علی ظن انھا علیہ ثم تبین انھا لیست علیہ لایلزمہ المضی ولو افسد لایلزمہ القضاﺀ عند اصحابنا الثلاثۃ خلافا لزفر (بدائع مکتبہ نعیمیہ دیوبند ۲/۷)

۴:۔  بلا وضو اگر کسی نے نماز شروع کردی اور پھر توڑدی تو وجوب متحقق نہیں ہوا لہذا اس کی قضا بھی واجب نہیں ہوگی۔ 

فاما اذا لم یصح فلا، حتی لوشرع فی التطوع علی غیروضوﺀ او فی ثوب نجس لایلزمہ القضاﺀ۔ (بدائع مکتبہ نعیمیہ دیوبند ۲/۷)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مساجد یا دیگر مقامات میں لوگوں کو جمع کرکے ذکر بالجہر کا اہتمام کرنا احادیث سے ثابت نہیں ہے اس سے آئندہ ایک نئی چیز کے ایجاد کا خطرہ ہے(۱) ہاںاگر کوئی صاحبت نسبت عالم دین ہے جن کو اپنے اکابر سے اجازت ملی ہوئی ہے، تو اپنی نگرانی میں اپنے متعلقین کو اکٹھا کر کے ذکر کی مشق کرائے، تو اکابر سے اس کا ثبوت ہے، ہر کس و ناکس کو اس کی اجازت نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (مشکوٰۃالمصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)
(۱) و أجمع العلماء خلفا وسلفا علی استحباب ذکر اللّٰہ جماعۃ في المساجد وغیرہا من غیر نکیر إلا أن یشوش جہر ہم بالذکر علی نائم أو مصل أو قاري قرآن کما ہو مقرر في کتب الفقہ۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’فصل في صفۃ الأذکار‘‘: ص: ۳۱۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص374

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: تنہا خواتین کی جماعت بغیر مرد کی امامت کے مکروہ ہے عورتوں کے لیے اصل حکم یہ ہے کہ گھروں میں تنہا تنہا نماز پڑھ لیا کریں اور اگر گھر میں مرد امام نماز پڑھا رہا ہو، تو عورتیں ان کے ساتھ جماعت میں بھی شریک ہو جائیں۔ اگر تنہا عورتوں نے جماعت کر ہی لی تو ایسی صورت میں عورت امام آگے نہیں کھڑی ہوگی؛ بلکہ درمیان صف میں کھڑی ہو گی؛ لیکن عورتوں کی جماعت کا معمول یا نظام بنانا مکروہ ہے۔ عہد نبوی یا عہد صحابہؓ سے انفرادی طور پر جماعت کے نماز کا ثبوت ملتا ہے؛ لیکن باضابطہ نظام بنانے کا ثبوت نہیں ملتاہے جب کہ بعض آثار سے ممانعت بھی ثابت ہے۔
’’عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا خیر في جماعۃ النساء … الخ‘‘(۱)
’’فعلم أن جماعۃ النساء وحدہن مکروہۃ‘‘(۲)
’’عن علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ أنہ قال: لاتؤم المرأۃ، قلت: رجالہ کلہم ثقات‘‘(۳)
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:
’’(و) یکرہ تحریما (جماعۃ النساء) ولو في التراویح في غیر صلاۃ جنازۃ (لأنہا لم تشرع مکررۃ)، فلو انفردن تفوتہن بفراغ إحداہن؛ … (فإن فعلن تقف الإمام وسطہن) فلو قدمت أثمت‘‘ (قولہ: ویکرہ تحریما) صرح بہ في الفتح والبحر (قولہ: ولو في التراویح) أفاد أن الکراہۃ في کل ما تشرع فیہ جماعۃ الرجال فرضا أو نفلا … (قولہ: فلو تقدمت) أثمت، أفاد أن وقوفہا وسطہن واجب، کما صرح بہ في الفتح، وأن الصلاۃ صحیحۃ، وأنہا إذا توسطت لاتزول الکراہۃ، وإنما أرشدوا إلی التوسط؛ لأنہ أقل کراہیۃ من التقدم، کما في السراج بحر‘‘(۱)
’’حدثنا وکیع، عن ابن أبي لیلی، عن عطاء، عن عائشۃ، أنہا کانت تؤم النساء تقوم معہن في الصف‘‘(۲)
’’عن قتادۃ، عن أم الحسن، أنہا رأت أم سلمۃ زوج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تؤم النساء تقوم معہن في صفہن‘‘(۳)

(۱) رواہ الإمام أحمد   في مسندہ، ’’ ‘‘: ج ۶، ص: ۱۵۴۔
(۲)ظفر أحمد عثماني،  إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفات المؤذن‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۷، (ادارۃ القرآن و العلوم الإسلامیۃ، کراچی)
(۳)ظفر أحمد عثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ، باب کراہۃ جماعۃ النساء‘‘: ج ۴، ص: ۲۴۳
(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي ہل الأفضل الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۵۔
(۲) مصنف ابن أبي شیبۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب المرأۃ  تؤم النساء‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۰، رقم: ۴۹۵۴۔
(۳) أیضًا۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص507

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: بچہ کا پیشاب بھی اسی طرح ناپاک ہے جس طرح بڑے کا ناپاک ہے۔ یہ پیشاب نجاست غلیظہ ہے، اگر بچہ کا پیشاب کپڑے پر ایک درھم سے زائد لگ جائے تو اس کا دھونا اور پاک کرنا ضروری ہے، ورنہ نماز نہیں ہوگی۔ اور اگر ایک درھم سے کم لگاہو تو نمازگرچہ درست ہوجائے گی مگر جان بوجھ کر ایسے کپڑے میں نماز پڑھنا ٹھیک نہیں ہے۔
’’وکذلک بول الصغیر والصغیرۃ، أکلاَ أو لا، کذا في الاختیار شرح المختار‘‘(۱)
’’وقال الطحاوي: النضح الوارد في بول الصبي المراد بہ الصبّ لما روي ھشام بن عروۃ عن أبیہ عن عائشۃ قالت: أتی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بصبي فبال علیہ، فقال صبّوا علیہ الماء صبًّا‘‘(۲)
’’النجاسۃ إذا کانت غلیظۃ وھي أکثر من قدر الدرھم فغسلھا فریضۃ والصلاۃ بھا باطلۃ وإن کانت مقدار درھم فغسلھا واجب والصلاۃ معھا جائز وإن کانت اقل من قدر الدرھم فغسلھا سنۃ‘‘(۳)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ، النوع الأول: المغلظۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۰۔
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الطہارۃ، باب تطہیر النجاسات، الفصل الثاني‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۸، ۱۸۹۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الأول في الطہارۃ وستر العورۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص285

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مرد یا عورت کا ستر حالت نماز میں اگر غلطی یا بھولے سے چوتھائی حصہ کھل گیا اور وہ ایک رکن یعنی تین مرتبہ سبحان اللہ کہنے کے بقدر کھلا رہا تو نماز فاسد ہوجائے گی اور اگر ستر چوتھائی سے کم کھلا یا ایک رکن سے کم کھلا رہا تو نماز فاسد نہیں ہوگی اور اگر چوتھائی ستر عمداً و جان بوجھ کر کھولا تو نماز فوراً فاسد ہوجائے گی خواہ ایک رکن سے کم ہی کھلا ہو، نماز میں عورت کی کہنی کا بھی وہ ہی حکم ہے ، جو مرد کے ناف و گھٹنہ کے درمیان کا ہے۔
’’والرابع ستر عورتہ ووجوبہ عام ولو في الخلوۃ علی الصحیح… وہي للرجل ما تحت سرتہ إلی ما تحت رکبتہ … وللمرأۃ جمیع بدنہا حتی شعرہا النازل في الأصح خلا الوجہ والکفین والقدمین علی المعتمد‘‘(۱)

(۱) (قولہ : ویمنع إلخ) ہذا تفصیل ما أجملہ بقولہ: وستر عورتہ ح ۔ (قولہ: حتی انعقادہا) منصوب عطفا علی محذوف: أی ویمنع صحۃ الصلاۃ حتی انعقادہا۔ والحاصل أنہ یمنع  الصلاۃ فی الابتداء ویرفعہا في البقاء ح۔ (قولہ : قدر أداء رکن) أي بسنتہ منیۃ۔ قال شارحہا: وذلک قدر ثلاث تسبیحات اہـ۔ وکأنہ قید بذلک حملا للرکن علی القصیر منہ للاحتیاط، وإلا فالقعود الأخیر والقیام المشتمل علی القراء ۃ المسنونۃ أکثر من ذلک، ثم ما ذکرہ الشارح قول أبي یوسف۔ واعتبر محمد أداء الرکن حقیقۃ، والأول المختار للاحتیاط کما في شرح المنیۃ، واحترز عما إذا انکشف ربع عضو أقل من قدر أداء رکن فلا یفسد اتفاقا، لأن الانکشاف الکثیر من الزمان القلیل عفو کالانکشاف القلیل في الزمن الکثیر، وعما إذا أدی مع الانکشاف رکنا فإنہا تفسد اتفاقا، قال ح: واعلم أن ہذا التفصیل في الانکشاف الحادث في أثناء الصلاۃ، أما المقارن لابتدائہا فإنہ یمنع انعقادہا مطلقا اتفاقا بعد أن یکون المکشوف ربع العضو، وکلام الشارح یوہم أن قولہ: قدر أداء رکن، قید في منع الانعقاد أیضا۔ (قولہ بلا صنعہ) فلو بہ فسدت في الحال عندہم قنیۃ قال ح: أي وإن کان أقل من أداء رکن اھـ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’مطلب في ستر العورۃ‘‘: ج۲، ص: ۸۱، ۸۲؛ و الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’ باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۵ تا ۷۸، زکریا۔)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص107