نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کی حالت میں رونے پر اتنا کنٹرول کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ آواز پیدا نہ ہو لیکن اگر رونا خوف آخرت و للہیت کی وجہ سے ہو تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی شرط یہ ہے کہ سکتہ (انقطاع قرات) ایک رکن کے بقدر نہ ہو اور اگر ریا وغیرہ کے طور پر ہو تو حروف ظاہر ہوتے ہی نماز فاسد ہوجائے گی۔ سوال میں جس رونے کا ذکر ہے وہ کس بنیاد پر ہے۔ اس کو خود رونے والے پر چھوڑ دیا جائے وہ اپنی نیت کا حال خود جانتا ہے۔
’’یفسدہا (الصلاۃ) … والبکاء بصوت یحصل بہ حروف لوجع أو مصیبۃ لا لذکر جنۃ أو نار … أما خروج الدمع بلا صوت أو صوت لا حرف معہ فغیر مفسد‘‘(۱)

’’ولو أن في صلاتہ أو تأوہ أو بکی، فارتفع بکاؤہ فحصل لہ حروف، فإن کان من ذکر الجنۃ أو النار فصلاتہ تامۃ، وإن کان من وجع أو مصیبۃ فسدت صلاتہ۔ ولوتأوہ لکثرۃ الذنوب لا یقطع الصلاۃ، ولو بکی في صلاتہ، فإن سال دمعہ من غیر صوت لا تفسد صلاتہ‘‘(۱)

(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب : المواضع التي لا یجب فیھا السلام‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۸۔)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۹ مکتبہ فیصل دیوبند)۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص109

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:  وتر کی تیسری رکعت میں قنوت سے پہلے تکبیر کہنا واجب ہے اور تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھانا سنت ہے، اگر کوئی ہاتھ نہ اٹھائے تو بھی اس کی نماز ہو جائے گی؛ البتہ دعائے قنوت کے لیے تکبیر کہنا علماء کے نزدیک واجب ہے۔
علامہ ابن عابدینؒ نے صراحت کی ہے کہ قنوت سے پہلے تکبیر کہنا واجب ہے اور تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھانا سنت ہے۔ چناں چہ رد المحتار میں واجبات الصلاۃکے تحت لکھا ہے:
’’والثامن عشر والتاسع عشر تکبیرۃ القنوت وتکبیرۃ رکوعہ‘‘(۲)
مصنف ابن ابی شیبہ میں روایت ہے: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز وتر میں جب قرائت مکمل کرتے تو تکبیر کہتے پھر قنوت پڑھتے اور دوسری روایت میں اس بات کی صراحت ہے کہ قنوت وتر کی تکبیر کے وقت کانوں تک اپنا ہاتھ اٹھاتے۔
’’عن عبد الرحمن بن الاسود عن أبیہ أن عبد اللّٰہ بن مسعود کان إذا فرغ من القراء ۃ کبر ثم قنت فإذا فرغ من القنوت کبر ثم رکع … عن عبد الرحمن بن الاسود عن أبیہ عن عبد اللّٰہ أنہ کان یرفع یدیہ في قنوت الوتر‘‘(۱)
رد المحتار میں وتر کے بیان کے تحت مذکور ہے:
’’(قولہ ویکبر) أي وجوبا وفیہ قولان کما مرّ في الواجبات، وقدمنا ہناک عن البحر أنہ ینبغي ترجیح عدمہ (قولہ رافعا یدیہ) أي سنۃ إلی حذاء أذنیہ کتکبیرۃ الإحرام‘‘(۲)

(۲) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۸۔)
(۱) أخرجہ ابن أبي شیبۃ، في مصنفہ: ج ۲، ص: ۲۰۶۔)

(۲) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۹۔)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص336

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حدیث میں ہے کہ رات کو سوتے وقت دعاء ماثورہ پڑھ کر ہاتھ پر دم کرکے منہ اور جسم پر پھیرنا مسنون طریقہ ہے۔ اس طریقہ مسنون کو حرز جان بنانا چاہئے جو ثواب و برکت ذکر مسنون میں ہے وہ دیگر غیر مسنون اذکار میں وارد نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا: أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا آویٰ إلی فراشہ کل لیلۃ جمع کفیہ ثم نفث فیہما فقرأ فیہما قل ہو اللّٰہ أحد، وقل أعوذ برب الفلق، وقل أعوذ برب الناس۔ ثم یمسح بہماما استطاع من جسدہ بیدأ بہما علی رأسہ ووجہہ وما أقبل من جسدہ یفعل ذلک ثلاث مرات۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات، باب من یقرأ القرآن عند المنام‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۷)
وعن عروۃ عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہما، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا آویٰ فراشہ کل لیلۃ جمع کفیہ الخ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الأدب: أبواب النوم، باب ما یقول عند النوم: ج ۲، ص: ۶۸۹، رقم: ۵۰۵۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص377

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال عورتوں کو جماعت سے نماز کی عادت نہ ڈالنی چاہئے اس لیے کہ عورتوں کی جماعت کو فقہاء نے مکروہ تحریمی لکھاہے؛ لیکن پھر بھی عورتیں اپنی جماعت کریں تو ان کی امام اگلی صف میں چار انگلی کے برابر آگے نکل کر کھڑی ہوگی مردوں کی طرح سے نہیں۔
’’ویکرہ تحریماً جماعۃ النساء ولو في التراویح‘‘(۱)
’’ویکرہ حضورھن في الجماعۃ ولو لجمعۃ وعید ووعظ‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي ہل الأفضل الصلاۃ مع الشافعي أم لا؟‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۵۔
(۲) أیضًا: ص: ۳۰۷۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص511

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق: احناف وشوافع کے درمیان منی کی پاکی یا ناپاکی میں اگرچہ اختلاف ہے مگر محتلم پر وجوب غسل کے بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے؛ اس لیے صورت مذکورہ میں خود امام کی نماز فاسد واجب الاعادہ ہے؛ اس لیے مقتدیوں کی بھی نماز فاسد ہوگئی۔(۲)

(۲) موجبہ موت وحیض ونفاس ولادۃ بلا بلل في الأصح، وجنابۃ بدخول حشفۃ أو قدرہا فرجا، وبخروج مني من طریقہ المعتاد وغیرہ، والخلاصۃ: أن خروج المني ولو بحمل ثقیل أو سقوط من مکان مرتفع أو وجودہ في الثوب مطلقاً: موجب للغسل عند الشافعیۃ، سواء بشہوۃ أوغیرہا۔
(موسوعۃ الفقہ الإسلامي، ’’الطہارات: الفصل الخامس، الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۲، ۴۴۸، مکتبہ الاشرفیہ دیوبند)
قال والمعاني الموجبۃ للغسل إنزال المني علی وجہ الدفق والشہوۃ من الرجل والمرأۃ حالۃ النوم۔ (السراج الوہاج علی متن المنہاج: ص: ۲۱)
وعند الشافعي رحمہ اللّٰہ خروج المني کیف ما کان یوجب الغسل۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: فصل في الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۳۱، دار الکتاب دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص110

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: وبا اور مصیبت کے ایام میں قنوت نازلہ کا پڑھنا حدیث سے ثابت ہے۔ اور کتب فقہ میں علماء نے اس پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔
کرونا وائرس بھی ایک وبا ہے اس لیے اس سے بچنے اور حفاظت کی غرض سے قنوت نازلہ کا اہتمام کرنا از روئے شریعت جائز ہے۔
’’فائدۃ: في الدعاء برفع الطاعون: سئلت عنہ في طاعون سنۃ تسع وستین وتسع مائۃ بالقاہرۃ فأجبت بأنی لم أرہ صریحا، ولکن صرح في الغایۃ وعزاہ الشمنی إلیہا بأنہ إذا نزل بالمسلمین نازلۃ۔ قنت الإمام في صلاۃ الفجر، وہو قول الثوری وأحمد، وقال جمہور أہل الحدیث: القنوت عند النوازل مشروع في الصلاۃ کلہا (انتہی)۔ وفي فتح القدیر أن مشروعیۃ القنوت للنازلۃ مستمر لم ینسخ، وبہ قال جماعۃ من أہل الحدیث وحملوا علیہ حدیث أبي جعفر عن أنس رضي اللّٰہ عنہما ما زال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقنت حتی فارق الدنیا أي عند النوازل، وما ذکرنا من أخبار الخلفاء یفید تقررہ لفعلہم ذلک بعدہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم، وقد قنت الصدیق رضي اللّٰہ عنہ في محاربۃ الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم مسیلمۃ الکذاب وعند محاربۃ أہل الکتاب، وکذلک قنت عمر رضي اللّٰہ عنہ، وکذلک قنت علی رضي اللّٰہ عنہ في محاربۃ معاویۃ، وقنت معاویۃ في محاربتہ (انتہی)۔ فالقنوت عندنا في النازلۃ ثابت۔ وہو الدعاء برفعہا، ولا شک أن الطاعون من أشد النوازل، قال في المصباح: النازلۃ المصیبۃ الشدیدۃ تنزل بالناس (انتہی) وفي القاموس: النازلۃ الشدیدۃ (انتہی)، وفي الصحاح: النازلۃ الشدیدۃ من شدائد الدہر تنزل بالناس (انتہی)، وذکر في السراج الوہاج قال الطحطاوي: ولا یقنت في الفجر عندنا من غیر بلیۃ، فإن وقعت بلیۃ فلا بأس بہ کما فعل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فإنہ قنت شہرا فیہا، یدعو علی رعل وذکوان وبنی لحیان ثم ترکہ، کذا فی الملتقط (انتہی)‘‘(۱)
’’(ولا یقنت لغیرہ) إلا النازلۃ فیقنت الإمام في الجہریۃ، وقیل في الکل۔ و في الرد: (قولہ إلا لنازلۃ) قال في الصحاح: النازلۃ الشدیدۃ من شدائد الدہر، ولا شک أن الطاعون من أشد النوازل أشباہ‘‘(۱)
’’وہو صریح في أن قنوت النازلۃ عندنا مختص بصلاۃ الفجر دون غیرہا من الصلوات الجہریۃ أو السریۃ‘‘(۲)
’’(عن أبي ہریرۃ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا أراد أن یدعو علی أحد)، أي: لضررہ (أو یدعو لأحد)، أي: لنفعہ (قنت): وہو یحتمل التخصیص بالصبح أو تعمیم الصلوات وہو الأظہر، قال ابن حجر: أخذ منہ الشافعي أنہ یسن القنوت في أخیرۃ سائر المکتوبات للنازلۃ التي تنزل بالمسلمین عامۃ، کوباء وقحط وطاعون، وخاصۃ ببعضہم کأسر العالم أو الشجاع ممن تعدی نفعہ، وقول الطحاوي لم یقل بہ فیہا غیر الشافعي غلط منہ، بل قنت علی رضي اللّٰہ عنہ في المغرب بصفین۔ ونسبۃ ہذا القول إلی الطحاوي علی ہذا المنوال غلط؛ إذ أطبق علماؤنا علی جواز القنوت عند النازلۃ‘‘(۳)
’’قال الإمام النووي: القنوت مسنون في صلاۃ الصبح دائما، وأما في غیرہا ففیہ ثلاثۃ أقوال، والصحیح المشہور أنہ إذا نزلت نازلۃ کعدو أو قحط أو وباء أو عطش أو ضرر ظاہر في المسلمین، ونحو ذلک قنتوا في جمیع الصلوات المکتوبۃ، وإلا فلا۔ ذکرہ الطیبي، وفیہ أن مسنونیتہ في الصبح غیر مستفادۃ من ہذا الحدیث۔
’’والقنوت في الفجر لایشرع لمطلق الحرب عندنا، وإنما یشرع لبلیّۃ شدیدۃ تبلغ بہا القلوب الحناجر ولو لا ذلک یلزم الصحابۃ القائلین بالقنوت للنازلۃ أن یقنتوا أبدًا ولایترکوہ یومًا لعدم خلوّ المسلمین عن نازلۃ مّا غالبًا، لا سیّما في زمن الخلفاء الأربعۃ۔ قلت: وہذا ہو الذي یحصل بہ الجمع بین الأحادیث المختلفۃ في الباب‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار: ج ۲، ص: ۱۱۔)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار: ج ۲، ص: ۱۱۔)
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، شرح مشکاۃ المصابیح: ج ۳، ص: ۹۵۸۔)
(۳) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح: ج ۳، ص: ۹۵۸۔)
(۱) ظفر أحمد العثماني،إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب الوتر، تتمۃ في بقیۃ أحکام قنوت النازلۃ‘‘: ج ۶، ص: ۹۶، ط: ادارۃ القرآن کراچی۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص337

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 38/812

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: چالیس قدم پر اجروثواب احادیث سے ثابت ہے(مسنداحمد)، نماز جنازہ کی ثنا ء میں "وجل ثناؤک" بھی منقول ہے، اور مذکورہ دونوں امور استحباب کے درجہ میں ہیں۔ تفصیل کے لئے ردالمحتار اور الموسوعۃ الفقہیہ کا مطالعہ مفید ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 39 / 846

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ درود ابراہیمی سب درودوں میں افضل ہے  وہی پڑھنا چاہئے، تاہم جب اس کو پڑھنا مشکل ہو تو آپ پڑھیں: "اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد وبارک وسلم"۔ دعاء  ماثورہ کی جگہ پڑھیں: "ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار"/ یا "اللھم اغفرلی" تین بار پڑھیں۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:درست ہے کوئی وجہ ممانعت نہیں ہے۔ (۱)

(۱) {وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِيْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْأٰصَالِ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَہ۲۰۵} (سورۃ الأعراف: ۲۰۵)
عن ثوبان قال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم من قال: حین یمسی رضیت باللّٰہ ربا وبالإسلام دیناً وبمحمدٍ نبیاً کان حقاً علی اللّٰہ أن یُرضیہ: ہذا حدیث حسن غریب من ہذا الوجہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات: باب ما جاء في الدعاء إذا أصبح وإذا أمسیٰ‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۶، رقم: ۳۳۸۹)
عن أبي ہریرۃ أن أبابکر الصدیق رضي اللّٰہ عنہما، قال: یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: مرني بکلمات أقولہن إذا أصبحت وإذا أمسیت قال: قل اللہم فاطر السماوات والأرض عالم الغیب والشہادۃ رب کل شيء وملیکہ أشہد أن لا إلہ إلا أنت أعوذ بک من شر نفسي وشر الشیطان وشرکہ قال: قلہا إذا أصبحت وإذا أمسیت وإذا أخذت مضجعک۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’ کتاب الأدب، أبواب النوم، باب ما یقول إذا أصبح وإذا أمسیٰ‘‘: ج ۲، ص: ۶۹۱، رقم: ۵۰۶۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص378

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں عورتوں کو مسجد میں جانے کی اجازت تھی اور ساتھ ہی یہ بھی ارشاد تھا کہ {بیوتہن خیرلہن} یعنی ان کے گھر ان کے لیے مسجد سے زیادہ بہتر ہیں ام حمید ایک جاں نثار خاتون نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھ کو آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کا بہت شوق ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ٹھیک کہتی ہو؛ لیکن تمہارے لیے بند کوٹھری میں نماز پڑھنا صحن کی نماز سے بہتر ہے اور صحن کی نماز سے برآمدہ کی نماز بہتر ہے اس کے بعد سے ام حمیدؓ نے نماز کے لیے کوٹھری متعین کرلی اور وفات تک وہیں نماز پڑھتی رہی مسجد میں نہیں گئیں
جب حضرت عمرؓ کا دور آیا اور عورتوں کی حالت میںتبدیلی آگئی، عمدہ پوشاک، زیب و زینت اور خوشبو کا استعمال وغیرہ ہونے لگا تو حضرت عمرؓ نے اس کو دیکھ کر ان عورتوں کو مسجد میں آنے سے روکدیا تو تمام صحابہؓ نے اس کو پسند فرمایا کسی نے اس میں اختلاف نہیں کیا؛ البتہ بعض عورتوں نے حضرت عائشہؓ سے اس بات کی شکایت کی تو حضرت عائشہؓ نے بھی خلیفہ حضرت عمر فاروق سے اتفاق کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان چیزوں کو دیکھتے جو اب عورتوں میں نظر آتی ہیں تو آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ضرور عورتوں کو مسجد میں آنے سے منع فرما دیتے۔ حضرت عمرؓ جمعہ کے روز کھڑے ہوکر عورتوں کے کنکریاں مارتے ان کو مسجد سے نکالتے۔ یہ اُس دور کی بات ہے جب کہ عورتوں میں شرم و حیا اور تقویٰ و پرہیزگاری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور مردوں میں اکثریت نیکو کار کی تھی، فیوض و برکات کے حصول کا زریں موقعہ تھا اور مسجد نبوی کی فضیلت اور نماز باجماعت ادا کرنے کی شریعت میں سخت تاکید تھی، باوجود اس کے عورتیں مسجد کی حاضری سے روک دی گئیں، دور حاضر میں کیا حکم ہونا چاہئے۔ ’’قیاس کن زگلستان من بہار مرا‘‘
در مختار میں ہے۔
’’ویکرہ حضورہن الجماعۃ ولو لجمعۃ وعید وعظٍ مطلقاً ولو عجوزاً لیلاً علی المذہب المفتی بہ لفساد الزمان‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي …قبل الحنفي ہل الأفضل الصلاۃ مع الشافعي أم لا؟‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۷، زکریا دیوبند۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص511