Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگرچہ ابتداء اسلام میں عورتوں کا مردوں کے ساتھ جماعت کرنا ثابت ہے؛ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد سے یہ عمل ترک ہو گیا اور عورتوں کا جماعت میں شامل ہونا مکروہ ہو گیا۔(۱)
(۱) إن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: لقد کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلي الفجر فیشہد معہ نسائٌ من المؤمنات متلفعات في مروطہن ثم یرجعن إلی بیوتہن ما یعرفہن أحد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب في کم تصلي المرأۃ في الثیاب‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، رقم: ۳۷۲)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تمنعوا نسائکم المساجد وبیوتہن خیرلہن۔ (أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب ماجاء في خروج النساء إلی المسجد: ج ۱، ص:۸۳، رقم: ۵۶۷)…عن عبد اللّٰہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: صلاۃ المرأۃ في بیتہا أفضل من صلاتہا في حجرتہا وصلاتہا في حجرتہا أفضل من صلاتہا فيبیتہا۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب التشدید في ذلک‘‘: ج ۱، ص: ۸۴، رقم:۰ ۵۷)
وکرہ لہن حضور الجماعۃ إلا للعجوز في الفجر والمغرب والعشاء، والفتویٰ الیوم علی الکراہۃ في کل الصلوات لظہور الفساد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم: ج ۱، ص: ۱۴۶)
وأما بیان من تجب علیہ الجماعۃ فالجماعۃ إنما تجب علی الرجال العاقلین الأحرار القادرین علیہا من غیر حرج فلا تجب علی النساء۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان والإقامۃ للفائتۃ، فصل في بیان محل وجوب الأذان: ج ۱، ص: ۳۸۰)
والفتویٰ الیوم علی الکراہۃ في کل صلوات لظہور الفساد۔ (عالم بن العلاء، التاتارخانیۃ، کتاب الصلاۃ، باب الجماعۃ، ج ۱، ص: ۱۵۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص502
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر والدہ کے بدن یا کپڑوں پر پیشاب نہ لگا ہو اور برابر میں جگہ ہو تو پیشاب کی جگہ سے معمولی سا الگ ہوجائے اور نماز پوری کرے نماز توڑنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر یہ نہ ہوسکے تو دوسری پاک جگہ پر نماز پڑھے۔ اور اگر بدن یا کپڑوں پر پیشاب لگ جائے تو نماز توڑ کر پاکی کے بعد نماز کا اعادہ کرے۔(۱)
(۱) اتفق المذاہب الأربعۃ علی أن بول الصبي نجس۔ (الکشمیري، معارف السنن: ج ۱، ص: ۲۶۸)
وبول غیر مأکول ولو من صغیر لم یطعم (در مختار) وفي الشامي: أي لا یأکل، فلا بد من غسلہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في طہارۃ بولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۳)
بول مایؤکل لحمہ کالاٰدمي ولو رضیعاً۔ قال الطحطاوي: ولو رضیعاً لم یطعم سواء کان ذکراً أو أنثیٰ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس والطہارۃ عنہا‘‘: ص:۱۵۴)
(ومن أصابہ من النجاسۃ المغلظۃ کالدم والبول) من غیر مأکول اللحم ولو من صغیر لم یطعم (والغائط والخمر) وخرء الطیر لا یزرق في الہواء کذجاج وبط وإوز (مقدار الدرہم فما دونہ جازت الصلاۃ معہ: لأن القلیل لا یمکن التحرز عنہ؛ فیجعل عفواً، وقدرناہ بقدر الدرہم أخذاً عن موضع الاستنجاء (فإن زاد) عن الدرہم (لم تجز) الصلاۃ، ثم یروی اعتبار الدرہم من حیث المساحۃ، وہو قدر عرض الکف في الصحیح، ویروي من حیث الوزن، وہو الدرہم الکبیر المثقال، وقیل في التوفیق بینہما: إن الأولی في الرقیق، والثانیۃ فی الکثیف، وفي الینابیع: وہذا القول أصح، … (وإن أصابتہ نجاسۃ مخففۃ کبول ما یؤکل لحمہ) ومنہ الفرس، … (جازت الصلاۃ معہ ما لم یبلغ ربع) جمیع (الثوب) … وقیل: ربع الموضع الذي أصابہ کالذیل والکم والدخریص، إن کان المصاب ثوبا۔ وربع العضو المصاب کالید والرجل، إن کان بدناً وصححہ في التحفۃ والمحیط والمجتبی والسراج، وفي الحقائق: وعلیہ الفتوی۔ (عبد الغني المیداني، اللباب في شرح الکتاب، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس‘‘: ص: ۶۸، ط، قدیمی)(شاملہ)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص280
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 40/910
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسا کرنا بے ادبی ہے، مکرہ ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ان کی نماز ادا ہوگئی۔ ایسی صورت میں جو عورت امام ہو اس کو چاہیے کہ مردوں کی طرح آگے نہ کھڑی ہو؛ بلکہ اگلی صف میں معمولی سی آگے بڑھ کر کھڑی ہو، لیکن تنہا عورتوں کی جماعت مکروہ تحریمی ہے اس لیے یہ طریقہ اختیار نہ کیا جائے۔(۱)
(۱) عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- إنہا کانت تؤذن وتقیم وتؤم النساء وتقوم وسطہن۔ (الحاکم المسند: ج ۱، ص: ۳۲۰، رقم: ۷۳۱)
ویکرہ تحریماً جماعۃ النساء ولو في التراویح فإن فعلن تقف الإمام وسطہن …فلو قدمت أثمت۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي ہل الأفضل الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۳۰۵)
ویکرہ للنساء أن یصلین وحدہن الجماعۃ فإن فعلن قامت الإمام وسطہن لأن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا فعلت کذلک وحمل فعلہا الجماعۃ علی ابتداء الإسلام۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص503
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں ناپاک پانی سے وضو بناکر جو نوافل شروع کی گئی ہیں تو ان کا شروع کرنا ہی متحقق نہیں ہوا اورتحریمہ منعقد نہیں ہوئی اس لیے ان کی قضاء واجب نہیں ہوگی بخلاف فرائض وواجبات کے، اس لیے کہ وہ اصل سے ہی فرض اور واجب ہے، لہٰذا اس کی قضا بھی ضروری ہوگی۔(۱)
(۱) ولزم نفل شرع فیہ بتکبیرۃ الإحرام أو بقیام الثالثۃ شروعاً صحیحاً قصداً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في صلاۃ الحاجۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۷۴،۴۷۵)
(أما) شرائط أرکان الصلاۃ: (فمنہا) الطہارۃ بنوعیہا من الحقیقیۃ والحکمیۃ، والطہارۃ الحقیقیۃ ہي طہارۃ الثوب والبدن ومکان الصلاۃ عن النجاسۃ الحقیقیۃ، والطہارۃ الحکمیۃ ہي طہارۃ أعضاء الوضوء عن الحدث، وطہارۃ جمیع الأعضاء الظاہرۃ عن الجنابۃ۔
(أما) طہارۃ الثوب وطہارۃ البدن عن النجاسۃ الحقیقیۃ فلقولہ تعالٰی: {وثیابک فطہر} المدثر: ۴)، وإذا وجب تطہیر الثوب فتطہیر البدن أولی۔
(وأما) الطہارۃ عن الحدث والجنابۃ فلقولہ تعالٰی: {یا أیہا الذین آمنوا إذا قمتم إلی الصلاۃ فاغسلوا وجوہکم} (المائدۃ: ۶) إلی قولہ: {لیطہرکم} (الأنفال: ۱۱)
وقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا صلاۃ إلا بطہور، وقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لا صلاۃ إلا بطہارۃ، وقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: مفتاح الصلاۃ الطہور۔ وقولہ تعالٰی: {وإن کنتم جنباً فاطہروا} (المائدۃ: ۶) وقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تحت کل شعرۃ جنابۃ ألا فبلوا الشعر وأنقوا البشرۃ، والإنقاء ہو التطہیر، فدلت النصوص علی أن الطہارۃ الحقیقیۃ عن الثوب والبدن، والحکمیۃ شرط جواز الصلاۃ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع’’کتاب الصلاۃ، بیان شرائط أرکان الصلاۃ، ج۱، ص: ۳۰۱، ۳۰۲)
وحدیث رفع عن أمتي الخطأ محمول علی رفع الإثم۔ (قولہ: رفع عن أمتي الخطأ) قال في الفتح: ولم یوجد بہذا اللفظ في شيء من کتب الحدیث، بل الموجود فیہا: إن اللّٰہ وضع عن أمتي الخطأ والنسیان وما استکرہوا علیہ، رواہ ابن ماجۃ وابن حبان والحاکم، وقال: صحیح علی شرطہما ح ، (قولہ: علی رفع الإثم) وہو الحکم الأخروي، فلا یراد الدنیوي وہو الفساد؛ لئلا یلزم تعمیم المقتضی، ح عن البحر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في الفرق بین السہو والنسیان‘‘: ج۲، ص: ۳۷۱، ۳۷۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص2282
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1957/44-1874
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔(1) جمعہ کے قیام کے لئے مصر یعنی شہر یا بڑے قصبہ کا ہونا شرط ہے۔ اس لئے اگر کسی جگہ جمعہ کے قیام کی شرائط بالکل نہ پائی جائیں تو وہاں جمعہ قائم کرنا جائز نہیں ہے۔ ایسے لوگوں پر چونکہ ظہر کی نماز فرض ہے، اس لئے دو رکعت جمعہ پڑھنے سے ظہر کی ذمہ داری سے سبکدوشی نہیں ہوگی۔ اور ایسے لوگوں پر ظہر کی نماز ہی فرض ہوگی۔ (2) اور اگر شہر ہونے میں شبہہ ہے تو ایسی صورت میں جمعہ پڑھنے سے ظہر کی فرضیت ساقط ہوجائے گی۔ (3) کفایت المفتی میں ہے: ’’گاؤں میں جمعہ کا صحیح ہونا یا نہ ہونا مجتہدین میں مختلف فیہ ہے، حنفیہ کے نزدیک جواز جمعہ کے لیے مصر ہونا شرط ہے لیکن مصر کی تعریف میں اختلاف عظیم ہے، تاہم جس مقام میں کہ زمانہ قدیم سے جمعہ قائم ہے وہاں جمعہ کو ترک کرانے میں جو مفاسد ہیں وہ ان مفاسد سے بدرجہا زیادہ سخت ہیں جو جمعہ پڑھنے کی صورت میں ہوسکتے ہیں، جو لوگ جمعہ کو جائز سمجھ کر جمعہ پڑھتے ہیں ان کا فرض ادا ہو جاتا ہے، نفل کی جماعت یا جہربقرأت نفل نہار یا ترک فرض لازم نہیں آتا۔ محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ‘‘. (کتاب الصلاۃ،ج:۳/ ۲۳)
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 137):
"(ويشترط لصحتها) سبعة أشياء:الأول: (المصر وهو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها) وعليه فتوى أكثر الفقهاء مجتبى لظهور التواني في الأحكام وظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير وقاض قدر على إقامة الحدود كما حررناه فيما علقناه على الملتقى.وفي القهستاني: إذن الحاكم ببناء الجامع في الرستاق إذن بالجمعة اتفاقا على ما قاله السرخسي وإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه فليحفظ.
(قوله: ويشترط إلخ) قال في النهر: ولها شرائط وجوبا وأداء منها: ما هو في المصلى. ومنها ما هو في غيره والفرق أن الأداء لايصح بانتفاء شروطه ويصح بانتفاء شروط الوجوب ونظمها بعضهم فقال:وحر صحيح بالبلوغ مذكر ... مقيم وذو عقل لشرط وجوبها ومصر وسلطان ووقت وخطبة ... وإذن كذا جمع لشرط أدائها
ط عن أبي السعود (قوله: ما لايسع إلخ) هذا يصدق على كثير من القرى ط (قوله: المكلفين بها) احترز به عن أصحاب الأعذار مثل النساء والصبيان والمسافرين ط عن القهستاني (قوله: وعليه فتوى أكثر الفقهاء إلخ) وقال أبو شجاع: هذا أحسن ما قيل فيه. وفي الولوالجية وهو صحيح بحر، وعليه مشى في الوقاية ومتن المختار وشرحه وقدمه في متن الدرر على القول الآخر وظاهره ترجيحه وأيده صدر الشريعة بقوله: لظهور التواني في أحكام الشرع سيما في إقامة الحدود في الأمصار (قوله: وظاهر المذهب إلخ) قال في شرح المنية: والحد الصحيح ما اختاره صاحب الهداية أنه الذي له أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود، وتزييف صدر الشريعة له عند اعتذاره عن صاحب الوقاية حيث اختار الحد المتقدم بظهور التواني في الأحكام مزيف بأن المراد القدرة على إقامتها على ما صرح به في التحفة عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره يرجع الناس إليه فيما يقع من الحوادث وهذا هو الأصح اهـإلا أن صاحب الهداية ترك ذكر السكك والرساتيق لأن الغالب أن الأمير والقاضي الذي شأنه القدرة على تنفيذ الأحكام وإقامة الحدود لا يكون إلا في بلد كذلك. اهـ. (قوله: له أمير وقاض) أي مقيمان فالاعتبار بقاض يأتي أحياناً يسمى قاضي الناحية ولم يذكر المفتي اكتفاء بذكر القاضي لأن القضاء في الصدر الأول كان وظيفة المجتهدين حتى لو لم يكن الوالي والقاضي مفتيا اشترط المفتي كما في الخلاصة. وفي تصحيح القدوري: أنه يكتفى بالقاضي عن الأمير شرح الملتقى. قال الشيخ إسماعيل: ثم المراد من الأمير من يحرس الناس ويمنع المفسدين ويقوي أحكام الشرع، كذا في الرقائق. وحاصله أن يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم كما فسره به في العناية. اهـ. (قوله: يقدر إلخ) أفرد الضمير تبعاً للهداية لعوده على القاضي لأن ذلك وظيفته بخلاف الأمير لما مر، وفي التعبير بيقدر رد على صدر الشريعة كما علمته. وفي شرح الشيخ إسماعيل عن الدهلوي ليس المراد تنفيذ جميع الأحكام بالفعل؛ إذ الجمعة أقيمت في عهد أظلم الناس وهو الحجاج وإنه ما كان ينفذ جميع الأحكام، بل المراد - والله أعلم - اقتداره على ذلك اهـونقل مثله في حاشية أبي السعود عن رسالة العلامة نوح أفندي.أقول: ويؤيده أنه لو كان الإخلال بتنفيذ بعض الأحكام مخلاً بكون البلد مصراً على هذا القول الذي هو ظاهر الرواية لزم أن لا تصح جمعة في بلدة من بلاد الإسلام في هذا الزمان بل فيما قبله من أزمان فتعين كون المراد الاقتدار على تنفيذ الأحكام، ولكن ينبغي إرادة أكثرهما وإلا فقد يتعذر على الحاكم الاقتدار على تنفيذ بعضها لمنع ممن ولاه وكما يقع في أيام الفتنة من تعصب سفهاء البلد بعضهم على بعض أو على الحاكم بحيث لا يقدر على تنفيذ الأحكام فيهم لأنه قادر على تنفيذها في غيرهم وفي عسكره على أن هذا عارض فلايعتبر، ولذا لو مات الوالي أو لم يحضر لفتنة ولم يوجد أحد ممن له حق إقامة الجمعة نصب العامة لهم خطيباً للضرورة كما سيأتي مع أنه لا أمير ولا قاضي ثمة أصلاً وبهذا ظهر جهل من يقول: لاتصح الجمعة في أيام الفتنة مع أنها تصح في البلاد التي استولى عليها الكفار كما سنذكره فتأمل (قوله: كما حررناه إلخ) هو حاصل ما قدمناه عن شرح المنية (قوله: وفي القهستاني إلخ) تأييد للمتن، وعبارة القهستاني تقع فرضاً في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعاً عليه، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لاتجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات، والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة؛ ألاترى أن في الجواهر: لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر، وهذا إذا لم يتصل به حكم، فإن في فتاوى الديناري إذا بني مسجد في الرستاق بأمر الإمام فهو أمر بالجمعة اتفاقاً على ما قال السرخسي اهـفافهم والرستاق القرى كما في القاموس. [تنبيه]
في شرح الوهبانية: قضاة زماننا يحكمون بصحة الجمعة عند تجديدها في موضع بأن يعلق الواقف عتق عبده بصحة الجمعة في هذا الموضع وبعد إقامتها فيه بالشروط يدعي المعلق عتقه على الواقف المعلق بأنه علق عتقه على صحة الجمعة في هذا الموضع وقد صحت ووقع العتق فيحكم بعتقه فيتضمن الحكم بصحة الجمعة، ويدخل ما لم يأت من الجمع تبعا اهـقال في النهر: وفي دخول ما لم يأت نظر، فتدبر. اهـ. أقول: الجواب عن نظره أن الحكم بصحة الجمعة مبني على كون ذلك الموضع محلاً لإقامتها فيه وبعد ثبوت صحتها فيه لا فرق بين جمعة وجمعة، فتدبر. وظاهر ما مر عن القهستاني أن مجرد أمر السلطان أو القاضي ببناء المسجد وأدائها فيه حكم رافع للخلاف بلا دعوى وحادثة. وفي قضاء الأشباه: أمر القاضي حكم كقوله: سلم المحدود إلى المدعي، والأمر بدفع الدين، والأمر بحبسه إلخ وأفتى ابن نجيم بأن تزويج القاضي الصغيرة حكم رافع للخلاف ليس لغيره نقضه (قوله: وإذا اتصل به الحكم إلخ) قد علمت أن عبارة القهستاني صريحة في أن مجرد الأمر رافع للخلاف بناء على أن مجرد أمره حكم".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 166):
"(تجب صلاتهما) في الأصح (على من تجب عليه الجمعة بشرائطها) المتقدمة (سوى الخطبة) فإنها سنة بعدها.
(قوله: بشرائطها) متعلق ب تجب الأول، والضمير للجمعة وشمل شرائط الوجوب وشرائط الصحة لكن شرائط الوجوب علمت من قوله على من تجب عليه الجمعة، فبقي المراد من قوله: بشرائطها القسم الثاني فقط".
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد میں جماعت ہوگئی یا شرعی عذر کی بنا پر مسجد میں نہ جاسکے، تو گھر میں بیوی، ماں، بہن وغیرہ کے ساتھ نماز با جماعت ادا کرسکتا ہے، یہ ہی بہتر ہے؛ تاکہ جماعت کا ثواب مل جائے، مگر عورت ایک ہو یا زیادہ ہوں، ہر صورت میں عورت کو امام کے پیچھے کھڑا ہونا چاہئے، امام کے برابر میں ایک مرد کی طرح عورت کا کھڑا ہونا درست نہیں، اس طرح کرنے سے نماز ادا نہیں ہوگی، مگر یہ بھی یاد رکھئے کہ بلا عذر شرعی ترک جماعت کی عادت بنا لینا گناہ ہے اور بروئے حدیث ایسا شخص عملی منافق کہلاتاہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ولقد رأیتنا وما یتخلف عن الصلاۃ إلامنافق قد علم نفاقہ أو مریض إن کان المریض لیمشي بین رجلین حتی یأتي الصلاۃ‘‘ ایک دوسری حدیث میںہے ’’ولو أنکم صلیتم في بیوتکم کما یصلي ہذا المتخلف في بیتہ لترکتم سنۃ نبیکم ولو ترکتم سنۃ نبیکم لضللتم الخ۔ (۱)
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ،…… باب صلاۃ الجماعۃ من سنن الہدیٰ‘‘: ج۱، ص: ۲۳۱، رقم: ۶۵۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص504
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر اس کو مٹایا نہیںجاسکتا تو مجبوری ہے نماز اس کی ہوجاتی ہے؛ البتہ اس کی نماز کراہت سے خالی نہ ہوگی۔ لیکن اس کی نماز جنازہ پڑھنی فرض کفایہ ہے نہ پڑھنے والے لوگ سخت گناہگار ہوں گے اور ان کا یہ فعل باعثِ عذاب ہوگا۔(۱)
(۱) یستفاد مما مرّ حکم الوشم في نحو الید، وہو أنہ کالاختضاب أو الصبغ بالمتنجس؛ لأنہ إذا غرزت الید أو الشفۃ مثلاً بإبرۃ، ثمّ حشي محلہا بکحل أو نیلۃ لیخضر، تنجس الکحل بالدم، فإذا جمد الدم، والتأم الجرح بقي محلہ أخضر، فإذا غسل طہر؛ لأنہ أثر یشق زوالہ؛ لأنہ لایزول إلا بسلخ الجلد أو جرحہ، فإذا کان لایکلف بإزالۃ الأثر الذي یزول بماء حار أو صابون فعدم التکلیف ہنا أولی۔ وقد صرح بہ في القنیۃ فقال: ولو اتخذ في یدہ وشماً لایلزمہ السلخ … الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب في حکم الوشم‘‘: ج ۱، ص: ۵۳۸)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم، حیث قال: لعن اللّٰہ الواصلۃ والمستوصلۃ، والواشمۃ والمستوشمۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب اللباس، باب الوصل في الشعر‘‘: ج۲، ص:۸۷۹، رقم: ۵۹۳۷)
الوشم وہي أن تغرز إبرۃ أو مسلۃ أو نحوہما في ظہر الکف أو المعصم أو الشفۃ أو غیر ذلک من بدن المرأۃ حتی یسیل الدم، ثم تحشو ذلک الموضع بالکحل أو النورۃ فیخضر … فإن طلبت فعل ذلک بہا فہي مستوشمۃ، وہو حرام علی الفاعلۃ والمفعول بہا باختیارہا والطالبۃ لہ … وسواء في ہذا کلہ الرجل والمرأۃ۔ (ابن الحجاج، المنہاج شرح صحیح مسلم، ’’کتاب اللباس والزینۃ: باب تحریم فعل الواصلۃ والمستوصلۃ والواشمۃ والمستوشمۃ‘‘: ج ۷، ص: ۲۳۱، رقم: ۲۱۲۵)(شاملہ)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص283
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: تنہائی میں اور محرم کے سامنے بھی ستر چھپانا لازم ہے اس لیے صورت مسئولہ میں جب کہ ستر کا حصہ کھلا ہوا ہے تو نماز نہیں ہوئی جلد از جلد ان نمازوں کی قضا کرلیں جتنی نمازیں اس حالت میں پڑھی ہیں کہنی چھپانی بھی لازم ہے خواہ دوپٹے ہی سے چھپائیں۔(۱)
(۱) وبدن الحرۃ عورۃ إلا وجہہا وکفیہا وقدمیہا۔ (ابن نجیم ، البحرالرائق شرح کنز الدقائق، ج۱، ص: ۴۶۸، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص106