Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: کوئی ایسا کام کرنا جس سے دیکھنے والے کو یہ یقین ہو کہ یہ شخص نماز نہیں پڑھ رہا ہے عمل کثیر کہلاتا ہے۔ یہ ہی قول عام مشائخ کا ہے اور مفتی بہ ہے اور احتیاط کے قریب ہے۔
’’فیہ أقوال خمسۃ، أصحہا مالا یشک بسببہ الناظر من بعید في فاعلہ أنہ لیس فیہا وإن شک أنہ فیہا أم لا فقلیل الخ‘‘(۱)
’’قولہ: وفیہ أقوال … صححہ في البدائع، وتابعہ الزیلعي والولوالجي وفي المحیط أنہ الأحسن۔ وقال الصدر الشہید: إنہ الصواب۔ وفي الخانیۃ والخلاصۃ: إنہ اختیار العامۃ۔ وقال في المحیط وغیرہ: رواہ الثلجی عن أصحابنا ۔ حلیہ … قولہ: ما یشک، أي عمل لا یشک: أي بل یظن ظناً غالباً ‘‘ (شرح المنیۃ … والناظر فاعل یشک ، والمراد بہ من لیس لہ علم بشروع المصلي بالصلاۃ کما في الحلیۃ والبحر‘‘ (أیضاً)
’’والثالث أنہ لو نظر إلیہ ناظر من بعید، إن کان لا یشک أنہ في غیر الصلاۃ فہو کثیر مفسد وإن شک فلیس بمفسد وہذا ہو الأصح، ہکذا في التبیین وہو أحسن، کذا في محیط السرخسي وہو اختیار العامۃ، کذا في فتاوی قاضي خان والخلاصۃ‘‘(۱)
(۱)الحصکفي ، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۵۔)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’النوع الثاني في الأفعال المفسدۃ للصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۰۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص108
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:التزام کے ساتھ سنتوں کے بعد اجتماعی دعا کرنا بدعت اور واجب الترک ہے۔(۱)
(۱) إعلم أن الذکر علی ثلثۃ مراتب: أحدہا الجہر ورفع الصوت بہا وذلک مکروہ إجماعاً إلا إذا دعت إلیہ داعیۃ وتقتضیہ حکمۃ فحینئذٍ قد یکون أفضل من الإخفاء کالأذان والتلبیۃ ونحو ذلک ولعل الصوفیۃ الچشتیۃ قدس اللّٰہ تعالیٰ أسرارہم اختاروا الجہر للمبتدي لاقتضاء حکمۃ وہي طرد الشیطان ودفع الغفلۃ والنسیان وحرارۃ القلب واشتغال نائرۃ الحب بالریاضۃ ومع ذلک یشترط لذلک الاحتراز عن الریاء والسمعۃ، ثانیہا الذکر باللسان سرا: وہو المراد بقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا یزال لسانک رطبا من ذکر اللّٰہ رواہ الترمذي وابن ماجۃ {أُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃًط} (محمد ثناء اللّٰہ، تفسیر المظہري، ’’سورۃ الأعراف: ۵۵‘‘: ج ۳۶، ص: ۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص376
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: محرم عورتوں کے ساتھ اگر غیر محرم عورتیں پچھلی صفوں میں ہوں تو بلا کراہیت نماز درست ہو جائے گی۔(۱)
(۱) تکرہ إمامۃ الرجل لہن في بیت لیس معہن رجل غیرہ ولا محرم منہ) کأختہ (أو زوجتہ أو أمتہ، أما إذا کان معہن واحد ممن ذکر أو أمہن في المسجد لا) یکرہ بحر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي ہل الأفضل الصلاۃ…مع الشافعي أم لا؟‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۷)
لو کان بین صف النساء وصف الرجال سترۃ قدر مؤخر الرحل کان ذلک سترۃ للرجال ولا تفسد صلاۃ واحد منہم، وکذلک لو کان بینہم حائط قدر الذراعِ وإن کان أقل من ذلک لا یکون سترۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الخامس في بیانِ مقام الإمام والمأموم‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص510
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز پڑھنے کے لیے جگہ کا پاک ہونا شرط ہے، اور اس سے مراد وہ جگہ ہے، جہاں نمازی کے دونوں پاؤں رہتے ہیں، اور سجدے کی حالت میں جہاں دونوں گھٹنے، دونوں ہاتھ، پیشانی اور ناک رکھی جاتی ہو۔ اس لیے پنڈلی کے نیچے کی جگہ جس سے پنڈلی مس نہ ہوتی ہو، اس کا ناپاک رہنا مضر نہیں، نماز درست ہوجائے گی۔
’’یشترط طہارۃ موضع القدمین … و منہا طہارۃ موضع الیدین والرکبتین علی الصحیح لافتراض السجود علی سبعۃ أعظم … و منہا طہارۃ موضع الجبہۃ علی الأصح من الروایتین عن أبي حنیفۃ وہو قولہم رحمہم اللّٰہ لیتحقق السجود علیہا لأن الفرض وإن کان یتأدی بمقدار الأرنبۃ علی القول المرجوح یصیر الوضع معدوما حکما بوجودہ علی النجس ولو أعادہ علی طاہر في ظاہر الروایۃ ولا یمنع نجاسۃ في محل أنفہ مع طہارۃ باقي المحال بالاتفاق لأن الأنف أقل من الدرہم ویصیر کأنہ اقتصر علی الجبہۃ مع الکراہۃ‘‘(۱)
’’وإن کانت النجاسۃ تحت قدمي المصلي منع الصلاۃ۔ کذا في الوجیز للکردي ولا یفترق الحال بین أن یکون جمیع موضع القدمین نجسا، وبین أن یکون موضع الأصابع نجسا وإذا کان موضع إحدی القدمین طاہرا وموضع الأخری نجسا فوضع قدمیہ، اختلف المشایخ فیہ، الأصح أنہ لا تجوز صلاتہ، فإن وضع إحدی القدمین التي موضعہا طاہر، ورفع القدم الأخری التي موضعہا نجس وصلی فإن صلاتہ جائزۃ۔ کذا في المحیط۔ وإن کانت النجاسۃ تحت یدیہ أو رکبتیہ في حالۃ السجود لم تفسد صلاتہ في ظاہر الروایۃ واختار أبو اللیث أنہا تفسد وصححہ في العیون۔ کذا في السراج الوہاج‘‘(۱)
(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ وأرکانہا‘‘: ص: ۲۰۹، ۲۱۰۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثاني في طھارۃ مایستر بہ العورۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص288
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کی حالت میں رونے پر اتنا کنٹرول کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ آواز پیدا نہ ہو لیکن اگر رونا خوف آخرت و للہیت کی وجہ سے ہو تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی شرط یہ ہے کہ سکتہ (انقطاع قرات) ایک رکن کے بقدر نہ ہو اور اگر ریا وغیرہ کے طور پر ہو تو حروف ظاہر ہوتے ہی نماز فاسد ہوجائے گی۔ سوال میں جس رونے کا ذکر ہے وہ کس بنیاد پر ہے۔ اس کو خود رونے والے پر چھوڑ دیا جائے وہ اپنی نیت کا حال خود جانتا ہے۔
’’یفسدہا (الصلاۃ) … والبکاء بصوت یحصل بہ حروف لوجع أو مصیبۃ لا لذکر جنۃ أو نار … أما خروج الدمع بلا صوت أو صوت لا حرف معہ فغیر مفسد‘‘(۱)
’’ولو أن في صلاتہ أو تأوہ أو بکی، فارتفع بکاؤہ فحصل لہ حروف، فإن کان من ذکر الجنۃ أو النار فصلاتہ تامۃ، وإن کان من وجع أو مصیبۃ فسدت صلاتہ۔ ولوتأوہ لکثرۃ الذنوب لا یقطع الصلاۃ، ولو بکی في صلاتہ، فإن سال دمعہ من غیر صوت لا تفسد صلاتہ‘‘(۱)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب : المواضع التي لا یجب فیھا السلام‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۸۔)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۹ مکتبہ فیصل دیوبند)۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص109
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: وتر کی تیسری رکعت میں قنوت سے پہلے تکبیر کہنا واجب ہے اور تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھانا سنت ہے، اگر کوئی ہاتھ نہ اٹھائے تو بھی اس کی نماز ہو جائے گی؛ البتہ دعائے قنوت کے لیے تکبیر کہنا علماء کے نزدیک واجب ہے۔
علامہ ابن عابدینؒ نے صراحت کی ہے کہ قنوت سے پہلے تکبیر کہنا واجب ہے اور تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھانا سنت ہے۔ چناں چہ رد المحتار میں واجبات الصلاۃکے تحت لکھا ہے:
’’والثامن عشر والتاسع عشر تکبیرۃ القنوت وتکبیرۃ رکوعہ‘‘(۲)
مصنف ابن ابی شیبہ میں روایت ہے: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز وتر میں جب قرائت مکمل کرتے تو تکبیر کہتے پھر قنوت پڑھتے اور دوسری روایت میں اس بات کی صراحت ہے کہ قنوت وتر کی تکبیر کے وقت کانوں تک اپنا ہاتھ اٹھاتے۔
’’عن عبد الرحمن بن الاسود عن أبیہ أن عبد اللّٰہ بن مسعود کان إذا فرغ من القراء ۃ کبر ثم قنت فإذا فرغ من القنوت کبر ثم رکع … عن عبد الرحمن بن الاسود عن أبیہ عن عبد اللّٰہ أنہ کان یرفع یدیہ في قنوت الوتر‘‘(۱)
رد المحتار میں وتر کے بیان کے تحت مذکور ہے:
’’(قولہ ویکبر) أي وجوبا وفیہ قولان کما مرّ في الواجبات، وقدمنا ہناک عن البحر أنہ ینبغي ترجیح عدمہ (قولہ رافعا یدیہ) أي سنۃ إلی حذاء أذنیہ کتکبیرۃ الإحرام‘‘(۲)
(۲) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۸۔)
(۱) أخرجہ ابن أبي شیبۃ، في مصنفہ: ج ۲، ص: ۲۰۶۔)
(۲) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۹۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص336
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حدیث میں ہے کہ رات کو سوتے وقت دعاء ماثورہ پڑھ کر ہاتھ پر دم کرکے منہ اور جسم پر پھیرنا مسنون طریقہ ہے۔ اس طریقہ مسنون کو حرز جان بنانا چاہئے جو ثواب و برکت ذکر مسنون میں ہے وہ دیگر غیر مسنون اذکار میں وارد نہیں ہے۔(۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا: أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا آویٰ إلی فراشہ کل لیلۃ جمع کفیہ ثم نفث فیہما فقرأ فیہما قل ہو اللّٰہ أحد، وقل أعوذ برب الفلق، وقل أعوذ برب الناس۔ ثم یمسح بہماما استطاع من جسدہ بیدأ بہما علی رأسہ ووجہہ وما أقبل من جسدہ یفعل ذلک ثلاث مرات۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات، باب من یقرأ القرآن عند المنام‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۷)
وعن عروۃ عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہما، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا آویٰ فراشہ کل لیلۃ جمع کفیہ الخ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الأدب: أبواب النوم، باب ما یقول عند النوم: ج ۲، ص: ۶۸۹، رقم: ۵۰۵۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص377
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال عورتوں کو جماعت سے نماز کی عادت نہ ڈالنی چاہئے اس لیے کہ عورتوں کی جماعت کو فقہاء نے مکروہ تحریمی لکھاہے؛ لیکن پھر بھی عورتیں اپنی جماعت کریں تو ان کی امام اگلی صف میں چار انگلی کے برابر آگے نکل کر کھڑی ہوگی مردوں کی طرح سے نہیں۔
’’ویکرہ تحریماً جماعۃ النساء ولو في التراویح‘‘(۱)
’’ویکرہ حضورھن في الجماعۃ ولو لجمعۃ وعید ووعظ‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي ہل الأفضل الصلاۃ مع الشافعي أم لا؟‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۵۔
(۲) أیضًا: ص: ۳۰۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص511
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا اللّٰہ التوفیق: احناف وشوافع کے درمیان منی کی پاکی یا ناپاکی میں اگرچہ اختلاف ہے مگر محتلم پر وجوب غسل کے بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے؛ اس لیے صورت مذکورہ میں خود امام کی نماز فاسد واجب الاعادہ ہے؛ اس لیے مقتدیوں کی بھی نماز فاسد ہوگئی۔(۲)
(۲) موجبہ موت وحیض ونفاس ولادۃ بلا بلل في الأصح، وجنابۃ بدخول حشفۃ أو قدرہا فرجا، وبخروج مني من طریقہ المعتاد وغیرہ، والخلاصۃ: أن خروج المني ولو بحمل ثقیل أو سقوط من مکان مرتفع أو وجودہ في الثوب مطلقاً: موجب للغسل عند الشافعیۃ، سواء بشہوۃ أوغیرہا۔
(موسوعۃ الفقہ الإسلامي، ’’الطہارات: الفصل الخامس، الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۲، ۴۴۸، مکتبہ الاشرفیہ دیوبند)
قال والمعاني الموجبۃ للغسل إنزال المني علی وجہ الدفق والشہوۃ من الرجل والمرأۃ حالۃ النوم۔ (السراج الوہاج علی متن المنہاج: ص: ۲۱)
وعند الشافعي رحمہ اللّٰہ خروج المني کیف ما کان یوجب الغسل۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: فصل في الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۳۱، دار الکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص110
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: وبا اور مصیبت کے ایام میں قنوت نازلہ کا پڑھنا حدیث سے ثابت ہے۔ اور کتب فقہ میں علماء نے اس پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔
کرونا وائرس بھی ایک وبا ہے اس لیے اس سے بچنے اور حفاظت کی غرض سے قنوت نازلہ کا اہتمام کرنا از روئے شریعت جائز ہے۔
’’فائدۃ: في الدعاء برفع الطاعون: سئلت عنہ في طاعون سنۃ تسع وستین وتسع مائۃ بالقاہرۃ فأجبت بأنی لم أرہ صریحا، ولکن صرح في الغایۃ وعزاہ الشمنی إلیہا بأنہ إذا نزل بالمسلمین نازلۃ۔ قنت الإمام في صلاۃ الفجر، وہو قول الثوری وأحمد، وقال جمہور أہل الحدیث: القنوت عند النوازل مشروع في الصلاۃ کلہا (انتہی)۔ وفي فتح القدیر أن مشروعیۃ القنوت للنازلۃ مستمر لم ینسخ، وبہ قال جماعۃ من أہل الحدیث وحملوا علیہ حدیث أبي جعفر عن أنس رضي اللّٰہ عنہما ما زال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقنت حتی فارق الدنیا أي عند النوازل، وما ذکرنا من أخبار الخلفاء یفید تقررہ لفعلہم ذلک بعدہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم، وقد قنت الصدیق رضي اللّٰہ عنہ في محاربۃ الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم مسیلمۃ الکذاب وعند محاربۃ أہل الکتاب، وکذلک قنت عمر رضي اللّٰہ عنہ، وکذلک قنت علی رضي اللّٰہ عنہ في محاربۃ معاویۃ، وقنت معاویۃ في محاربتہ (انتہی)۔ فالقنوت عندنا في النازلۃ ثابت۔ وہو الدعاء برفعہا، ولا شک أن الطاعون من أشد النوازل، قال في المصباح: النازلۃ المصیبۃ الشدیدۃ تنزل بالناس (انتہی) وفي القاموس: النازلۃ الشدیدۃ (انتہی)، وفي الصحاح: النازلۃ الشدیدۃ من شدائد الدہر تنزل بالناس (انتہی)، وذکر في السراج الوہاج قال الطحطاوي: ولا یقنت في الفجر عندنا من غیر بلیۃ، فإن وقعت بلیۃ فلا بأس بہ کما فعل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فإنہ قنت شہرا فیہا، یدعو علی رعل وذکوان وبنی لحیان ثم ترکہ، کذا فی الملتقط (انتہی)‘‘(۱)
’’(ولا یقنت لغیرہ) إلا النازلۃ فیقنت الإمام في الجہریۃ، وقیل في الکل۔ و في الرد: (قولہ إلا لنازلۃ) قال في الصحاح: النازلۃ الشدیدۃ من شدائد الدہر، ولا شک أن الطاعون من أشد النوازل أشباہ‘‘(۱)
’’وہو صریح في أن قنوت النازلۃ عندنا مختص بصلاۃ الفجر دون غیرہا من الصلوات الجہریۃ أو السریۃ‘‘(۲)
’’(عن أبي ہریرۃ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا أراد أن یدعو علی أحد)، أي: لضررہ (أو یدعو لأحد)، أي: لنفعہ (قنت): وہو یحتمل التخصیص بالصبح أو تعمیم الصلوات وہو الأظہر، قال ابن حجر: أخذ منہ الشافعي أنہ یسن القنوت في أخیرۃ سائر المکتوبات للنازلۃ التي تنزل بالمسلمین عامۃ، کوباء وقحط وطاعون، وخاصۃ ببعضہم کأسر العالم أو الشجاع ممن تعدی نفعہ، وقول الطحاوي لم یقل بہ فیہا غیر الشافعي غلط منہ، بل قنت علی رضي اللّٰہ عنہ في المغرب بصفین۔ ونسبۃ ہذا القول إلی الطحاوي علی ہذا المنوال غلط؛ إذ أطبق علماؤنا علی جواز القنوت عند النازلۃ‘‘(۳)
’’قال الإمام النووي: القنوت مسنون في صلاۃ الصبح دائما، وأما في غیرہا ففیہ ثلاثۃ أقوال، والصحیح المشہور أنہ إذا نزلت نازلۃ کعدو أو قحط أو وباء أو عطش أو ضرر ظاہر في المسلمین، ونحو ذلک قنتوا في جمیع الصلوات المکتوبۃ، وإلا فلا۔ ذکرہ الطیبي، وفیہ أن مسنونیتہ في الصبح غیر مستفادۃ من ہذا الحدیث۔
’’والقنوت في الفجر لایشرع لمطلق الحرب عندنا، وإنما یشرع لبلیّۃ شدیدۃ تبلغ بہا القلوب الحناجر ولو لا ذلک یلزم الصحابۃ القائلین بالقنوت للنازلۃ أن یقنتوا أبدًا ولایترکوہ یومًا لعدم خلوّ المسلمین عن نازلۃ مّا غالبًا، لا سیّما في زمن الخلفاء الأربعۃ۔ قلت: وہذا ہو الذي یحصل بہ الجمع بین الأحادیث المختلفۃ في الباب‘‘(۱)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار: ج ۲، ص: ۱۱۔)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار: ج ۲، ص: ۱۱۔)
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، شرح مشکاۃ المصابیح: ج ۳، ص: ۹۵۸۔)
(۳) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح: ج ۳، ص: ۹۵۸۔)
(۱) ظفر أحمد العثماني،إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب الوتر، تتمۃ في بقیۃ أحکام قنوت النازلۃ‘‘: ج ۶، ص: ۹۶، ط: ادارۃ القرآن کراچی۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص337