Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اتنی دیر پہلے فجر کی جماعت کی جائے کہ اگر کسی وجہ سے نماز فاسد یا باطل ہوجائے تو اطمینان سے دوبارہ جماعت ہوجائے اس سے زیادہ تاخیر میں مقتدیوں کی رعایت درست نہیں ہے۔(۱)
(۱) قالوا: یسفر بہا بحیث لوظہر فساد صلاتہ یمکنہ أن یعیدہا في الوقت بقراء ۃ مستحبۃ۔ (زین الدین بن إبراہیم بن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب وقت صلاۃ العشاء‘‘:ج۱، ص: ۴۲۹، زکریا)
أسفروا بالفجر فإنہ أعظم للأجر۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء في الإسفار بالفجر، ج۱، ص۴۰، رقم:۱۵۴)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص376
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اسلام میں نماز باجماعت کی بڑی اہمیت ہے اور مساجد باجماعت نماز کا محل ہیں،حدیث میں مسجد میں نماز پڑھنے کی بڑی تاکید آئی ہے، لیکن اگر مسجد میں نماز باجماعت فوت ہوجائے تو شریعت کا حکم یہ ہے کہ مسجد کے علاوہ کہیں بھی جماعت کے ساتھ نماز کا اہتمام کریں تاکہ جماعت کی فضیلت حاصل ہوجائے، لیکن اب جو صورت حال اقلیتی ممالک میں پیدا ہورہی ہے جہاں مساجد کی کمی ہوتی ہے اور عام جگہوں پر نماز پڑھنے میں دشواری کا سامنا ہے؛ بلکہ سڑک اور پبلک مقامات پر نماز پڑھنے پر فسادات کا خدشہ ہے اس لیے یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ کیا چرچ یا گرودوارہ میں نماز پڑھنا جائز ہے اسی طرح یورپی ممالک میں بھی مساجد کے نہ ہونے اور زمین خرید کر مساجد بنانے میں دشواری کی وجہ سے چرچ وغیرہ کرایہ پر لے کر جمعہ و عیدین کی نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔
یہ مسئلہ اختلافی ہے اس سلسلے میں تین اقوال ہیں:
پہلاقول: چرچ میں نماز پڑھنا مکروہ ہے کیوں کہ اس میں تصویریں ہوتی ہیں اور یہ قول حضرت عمرؓ اور حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے،اور یہی قول احناف کے علماء کی ایک جماعت کا بھی ہے،اور امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کا بھی یہی قول ہے۔ اور اسی طرح حنابلہ کا بھی یہی قول ہے کہ اگر چرچ میں کوئی تصویر وغیرہ ہو تو اس میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
دوسرا قول: چرچ میں نماز پڑھنا جائز ہے جب اس میں تصویر نہ ہو اور یہ قول حضرت حسن بصریؒ اور حضرت عمر ابن عبدالعزیز ؒ اور امام شعبی ؒ کا ہے اور یہی حنابلہ کا بھی مذہب ہے۔
تیسرا قول: چرچ میں نماز پڑھناحرام ہے کیوں کہ وہاں شیاطین ہوتے ہیں اور ایسی جگہ نماز کا پڑھنا اس میں ایک قسم کی ان کی تعظیم ہے۔ یہی احناف کا قول ہے۔
’’(تنبیہ) یؤخذ من التعلیل بأنہ محل الشیاطین کراہۃ الصلاۃ في معابد الکفار؛ لأنہا مأوی الشیاطین کما صرح بہ الشافعیۃ۔ ویؤخذ مما ذکروہ عندنا، ففي البحر من کتاب الدعوی عند قول الکنز: ولا یحلفون في بیت عباداتہم۔ وفي التتارخانیۃ یکرہ للمسلم الدخول في البیعۃ والکنیسۃ، وإنما یکرہ من حیث إنہ مجمع الشیاطین لا من حیث إنہ لیس لہ حق الدخول۔ اہـ۔ قال في البحر: والظاہر أنہا تحریمیۃ؛ لأنہا المرادۃ عند إطلاقہم، وقد أفتیت بتعزیر مسلم لازم الکنیسۃ مع الیہود۔ فإذا حرم الدخول فالصلاۃ أولی، وبہ ظہر جہل من یدخلہا لأجل الصلاۃ فیہا‘‘(۱)
احناف کا قول کراہت کا ہے اس لیے حتی ا لامکان کوشش کی جائے کہ مساجد میں نماز کا اہتمام ہو اور اگر مساجد کا کوئی نظم نہیں ہوسکتاہے تو ہال وغیرہ کرایہ پر لے کر نماز جماعت کی کوشش کی جائے لیکن اگر اس کی بھی کوئی سبیل نہ ہو تو پھرضرورتًا گرودوارہ یا چرچ میں بھی نماز ہوسکتی ہے؛ البتہ اس کا خیال کیا جائے کہ سامنے کوئی تصویر یا مجسمہ نہ ہو؛ بلکہ چرچ وغیرہ کے مرکزی جگہ سے ہٹ کر جماعت بنائی جائے اوراگر سامنے تصوریر ہو تو اس پر پردہ ڈال دیا جایے، مجمع الفقہ الاسلامی جدہ وغیرہ نے ضرورت کے موقع پر چرچ میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے بلا ضرروت مکروہ قرار دیا ہے۔ احناف کے یہاںبھی کراہت کا تعلق عام حالات سے ہے؛ لیکن اگر ضرروت ہو تو نماز ہوسکتی ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے چرچ میں نماز پڑھنا ثابت ہے۔
’’وقال عمر رضي اللّٰہ عنہ: إنا لا ندخل کنائسکم من أجل التماثیل التي فیہا الصور وکان ابن عباس: یصلي في البیعۃ إلا بیعۃ فیہا تماثیل‘‘(۱)
’’في فتاوی مجمع الفقہ الاسلامي: استئجار الکنائس للصلاۃ لا مانع منہ شرعا عند الحاجۃ، وتجتنب الصلاۃ إلی التماثیل والصور وتستر بحائل إذا کانت باتجاہ القبلۃ‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب تکرہ الصلاۃ في الکنیسۃ ‘‘: ج۲، ص: ۴۳۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ في البیعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۲، رقم: ۴۳۸۔
(۲) مجلۃ المجمع: ص: ۴۷۔(شاملہ)
(تنبیہ) یؤخذ من التعلیل بأنہ محل الشیاطین کراہۃ الصلاۃ في معابد الکفار؛ لأنہا مأوی الشیاطین کما صرح بہ الشافعیۃ۔ ویؤخذ مما ذکروہ عندنا، ففي البحر من کتاب الدعوی عند قول الکنز: ولا یحلفون في بیت عباداتہم۔ وفي التتارخانیۃ یکرہ للمسلم الدخول في البیعۃ والکنیسۃ، وإنما یکرہ من حیث إنہ مجمع الشیاطین لا من حیث إنہ لیس لہ حق الدخول۔ اہـ۔ قال في البحر: والظاہر أنہا تحریمیۃ؛ لأنہا المرادۃ عند إطلاقہم، وقد أفتیت بتعزیر مسلم لازم الکنیسۃ مع الیہود۔ اھـ۔ فإذا حرم الدخول فالصلاۃ أولی، وبہ ظہر جہل من یدخلہا لأجل الصلاۃ فیہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب تکرہ الصلاۃ في الکنیسۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۳)
فإما أن تقطع رء وسہا أو تتخذ وسائد فتوطأ وإن لم تکن مقطوعۃ الرئوس فتکرہ الصلاۃ فیہ، سواء کانت في جہۃ القبلۃ أو في السقف أو عن یمین القبلۃ أو عن یسارہا، فأشد ذلک کراہۃ أن تکون في جہۃ القبلۃ؛ لأنہ تشبہ بعبدۃ الأوثان، ولو کانت في مؤخر القبلۃ، أو تحت القدم لا یکرہ لعدم التشبہ في الصلاۃ بعبدۃ الأوثان۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في شرائط أرکان الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص:۳۰۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص276
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2646/45-4006
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسئلہ درست ہے، کہ نماز کا رکن فوت ہونے کی وجہ سے نماز درست نہیں ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: وضو یا سنت میں مشغول نمازیوں کی رعایت کرتے ہوئے جماعت میں تاخیر کی گنجائش ہے تاہم امام صاحب کا تاخیر کی عادت بنا لینا درست نہیں ہے، اگر کبھی اتفاقاً چار، پانچ منٹ کی تاخیر ہوجائے تو اس پر مقتدیوں کو بھی ناراض نہیں ہونا چاہئے۔(۲)
(۲) وینتظر المؤذن الناس ویقیم للضعیف المستعجل ولا ینتظر رئیس المحلۃ وکبیرہا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘:ج۱، ص: ۵۷)
ینبغي للمؤذن مراعاۃ الجماعۃ فإن رآہم اجتمعوا أقام وإلا انتظرہم۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج۱، ص: ۴۴۹)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص377
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: وقت سے پہلے نماز نہیں ہوتی اگرکسی نے وقت سے پہلے نماز پڑھ لی تو دوبارہ پڑھنی ضروری ہے۔(۱)
(۱) (ومنہا) الوقت لأن الوقت کما ہو سبب لوجوب الصلاۃ فہو شرط لأدائہا، قال اللّٰہ تعالی: {اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًاہ۱۰۳} (سورۃ النساء: ۱۰۳)، أي فرضا موقتا حتی لا یجوز أداء الفرض قبل وقتہ الخ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في شرائط أرکان الصلاۃ‘‘: الصلاۃ في جوف الکعبۃ، ج۱، ص:۳۱۵)
قولہ: بأنہ سبب للأداء من حیث تعلق الوجوب بہ وإفضاؤہ إلیہ قولہ: وظرف للمؤدی لأنہ یسعہ ویسع غیرہ قولہ: وشرط للوجوب من حیث توقف وجوب فعل الصلاۃ علی وجودہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ وأرکانہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۵)
(اعلم) أن الصلاۃ فرضت لأوقاتہا قال اللہ تعالی: {أقم الصلاۃ لدلوک الشمس} (سور الإسراء: ۷۸) ولہذا تکرر وجوبہا بتکرار الوقت وتؤدی في مواقیتہا، قال اللّٰہ تعالی: {اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًاہ۱۰۳} (سورۃ النساء: ۱۰۳)، أي فرضا موقتا۔ (السرخسي، المبسوط، ’’کتاب الصلاۃ، باب مواقیت الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص279
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1954/44-1877
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دوران حمل اگر خون جاری ہوجائے تو وہ یقینی طور پر بیماری کا خون ہے جس کو استحاضہ کہاجاتاہے، ایسی حالت میں عورت وضو کرکے نماز پڑھے گی۔ دوران حمل رحم کا منھ بند ہوتاہے، اس لئے رحم سے خون نہیں آسکتاہے، اس لئے جوخون نظر آرہاہے وہ حیض یا نفاس نہیں ہے۔
(والناقص) عن أقلہ (والزائد) علی أکثرہ أو أکثرالنفاس أوعلی العادة وجاوز أکثرہما. (وما تراہ) صغیرة دون تسع علی المعتمد وآیسة علی ظاہر المذہب (حامل) ولو قبل خروج أکثر الولد (استحاضة.)(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 1/ ط:زکریا، دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: چوری کرنا گناہ کبیرہ اور اس کا مرتکب فاسق ہے(۲) اس لیے مذکورہ شخص کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے، اس کے پیچھے بکراہت تحریمی نماز ادا ہوتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اس کو امامت سے الگ کردیا جائے؛ تاہم اگر وہ توبہ کرلے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا بغیر کسی کراہت کے درست ہے۔
’’وکرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ‘‘(۱)
(۲) {وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَھُمَا جَزَآئً م بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِط وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌہ۳۸} (سورۃ المائدۃ: ۳۸)
(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ج ،ص: ۳۰۲، شیخ الہند۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص176
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: یہ شخص سخت گناہگار ہے کہ اس سے جماعت میں شریک لوگوں کو تکلیف بھی ہوگی؛ لیکن اگر جماعت میں شریک ہوکر نماز اداء کرے، تو وہ نماز درست ہوگی ہاں اگر نشہ کی حالت میں ہو، تو بھگا دینا اور ہٹا دینا چاہئے کہ اس سے دوسروں کی نماز میں خلل اور فساد کی نوبت آسکتی ہے۔(۱)
(۱) {یاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَأَنْتُمْ سُکٰرٰی} (سورۃ النساء: ۴۳)
قولہ تعالیٰ: {حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ} یدل علی أن السکران الذي منع من الصلاۃ ہو الذي قد بلغ بہ السکر إلی حال لایدري مایقول۔ (الجصاص، أحکام القرآن: ج ۲، ص: ۲۵۴)
وأیضا ہنا علتان أذی المسلمین وأذی الملائکۃ فبالنظر إلی الأولیٰ یعذر في ترک الجماعۃ وحضور المسجد۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب یفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في الغرس في المسجد‘‘:ج ۲، ص: ۴۳۵)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص378
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عورت کے لیے نماز کی حالت میں ہاتھوں اور پیروں کا چھپانا شرط نہیں ہے اس لیے دستانوں و موزوں کے بغیر عورتوں کی نماز بالکل درست ہے زید کا قول غلط ہے اور دستانوں وموزوں کی شرط بلا دلیل ہے۔(۱)
(۱) وبدن الحرۃ کلہا عورۃ، إلا وجہہا وکفیہا، لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: المرأۃ عورۃ مستورۃ واستثناء العضوین للابتلاء بإبدائہما، قال رضي اللّٰہ عنہ: وہذا تنصیص علی أن القدم عورۃ، ویروي أنہا لیست بعورۃ، وہو الأصح۔ قولہ: للابتلاء بإبدائہما ہذا تعلیل الاستثناء أي لوجود الابتلاء بإظہار الوجہ والکفین عندنا۔ ولہ الابتلاء في یدہا وفي کشف وجہہا خصوصا عند الشہادۃ والمحاکمۃ والنکاح۔ وفي المحیط إلا الوجہ والیدین إلی الرسغین والقدمین إلی الکعبین۔ وفي الوتری: جمیع بدن الحرۃ عورۃ إلا ثلاثۃ أعضاء الوجہ والیدان إلی الرسغین والقدمین۔ (العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ التي تتقدمہا‘‘ عورۃ الحرۃ: ج ۲، ص: ۱۲۴، ۱۲۵)
عورۃ (الحرۃ) أي جمیع أعضائہا (عورۃ إلا وجہہا وکفیہا وقدمیہا) فإنہا لا تجد بدا من مزاولۃ الأشیاء بیدیہا وفي کفیہا زیادۃ ضرورۃ ومن الحاجۃ إلی کشف وجہہا خصوصا في الشہادۃ والمحاکمۃ والنکاح وتضطر إلی المشی في الطرقات وظہور قدمیہا خصوصا الفقیرات منہن وہو معنی قولہ تعالی علی ما قالوا {إلا ما ظہر منہا} (سورۃ النور: ۳۱) أي ما جرت العادۃ والجبلۃ علی ظہورہ۔ (محمد بن فرامرز، درر الحکام شرح غرر الأحکام، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۹(شاملہ)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص280