نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کسی شخص کو قرض دیتے وقت کوئی چیز رہن رکھ دی جائے، تو شرعاً درست ہے؛ لیکن سود یا شبہ سود کی صورت نہ ہو۔شرائط رہن کی پابندی ضروری ہے جو شخص ایسا کرے اس کی امامت شرعاً درست ہے۔(۱)

(۱) الودیعۃ أمانۃ في ید المودع إذا ہلکت لم یضمنہا، لقولہ علیہ السلام: لیس علی المستعیر غیر المغل ضمان ولا علی المستودع غیر المغل ضمان ولأن بالناس حاجۃ إلی الاستیداع فلو ضمناہ یمتنع الناس عن قبول الودائع فیتعطل مصالحہم۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الودیعۃ‘‘:ج۳، ص: ۲۷۳، دارالکتاب دیوبند)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص53

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: ٹخنوں سے نیچے شلوار یا جبہ لٹکانا ناجائز اور حرام ہے اور یہ صریح حدیث سے ثابت ہے اور جان بوجھ کر ٹخنے سے نیچے لٹکانے والا گنہگار اور فاسق ہے اور نماز میں شلوار ٹخنے سے نیچے پہننا اور بھی برا ہے؛ اس لیے اس کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔ بخاری شریف میں ہے:
’’ما أسفل من الکعبین من الإزار في النار‘‘ یعنی جو شخص اپنا کپڑا ٹخنے سے نیچے لٹکائے گا وہ جہنم میں جائے گا۔(۱)
ایک حدیث میں ہے کہ جو آدمی ازار لٹکاکر نماز پڑھے گا اس کی نماز قبول نہ ہوگی۔
’’عن أبي ہریرۃ: بینما رجل یصلي مسبلا إزارہ إذ قال لہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذہب فتوضأ فذہب فتوضأ ثم جاء ثم قال: إذہب فتوضأ ثم جاء، فقال لہ رجل یا رسول اللّٰہ! ما لک أمرتہ أن یتوضا؟ فقال: إنہ کان یصلي وہو مسبل إزارہ وإن اللّٰہ جل ذکرہ لا یقبل صلاۃ مسبل إزارہ‘‘(۲)
’’ولایجوز الإسبال تحت الکعبین إن کان للخیلاء، وقد نص الشافعي علی أن التحریم مخصوص بالخیلاء؛ لدلالۃ ظواہر الأحادیث علیہا، فإن کان للخیلاء فہو ممنوع منع تحریم، وإلا فمنع تنزیہ‘‘(۳)
’’کرہ إمامۃ ’’الفاسق‘‘ العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعا فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ‘‘(۱)

(۱) أخرج البخاري في صحیحہ، ’’کتاب اللباس، باب ما أسفل من الکعبین ففی النار‘‘: ج ۳، ص: ۴۸، رقم:۵۷۸۷۔
(۲) أخرجہ أبوداود في سننہ، ’’کتاب اللباس، باب الإسبال في الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۵، رقم: ۴۰۸۶۔
(۳) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۷۔
(۱) ملا علي قاري، مرقاۃ المفا تیح، ’’کتاب اللباس، الفصل الأول‘‘: ج ۸، ص: ۱۹۸، رقم: ۴۳۱۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص179

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ عذر کی وجہ سے مسجد کی چھت پر جماعت کر سکتے ہیں، بلا عذر ایسا کرنا مکروہ ہے۔(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الخامس في آداب المسجد‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۲، زکریا دیوبند)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص516

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں بھی جمعہ کی اذان کے سلسلہ میں معمول یہ تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جمعہ کے لیے تشریف لاتے اور منبر پر بیٹھتے تو اذان کہی جاتی تھی۔ زمانہ رسالت کے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی یہی معمول رہا۔
جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے اور انہوں نے دیکھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے
زمانہ میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی اور جو تھے وہ بھی مسجد کے قریب سکونت پذیر تھے؛ بلکہ بیشتر مسلمان تو ہمہ وقت بارگاہ نبوت کے حاضر باش ہی تھے اور اب صرف مسلمانوں کی تعداد ہی نہیں بڑھی تھی؛ بلکہ بہت سے لوگ تو مسجد سے دور دراز علاقوں میں رہتے بھی تھے اور کاروبار بھی کرتے تھے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مناسب سمجھا کہ جب نماز جمعہ کا وقت ہوجائے تو اذان کہی جائے تاکہ دور دراز کے مسلمان بھی خطبہ میں آجایا کریں۔ اسی وقت سے اذان اول بھی کہی جانے لگی یہ چوں کہ خلیفہ ثالث کا عمل ہے اور تمام موجود صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے اس لیے یہ بھی سنت ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے۔
’’عن السائب بن یزید قال: النداء یوم الجمعۃ أوّلہ إذا جلس الإمام علی المنبر علی عہد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأبي بکر وعمر رضي اللّٰہ عنہما فلما کان عثمان رضي اللّٰہ عنہ وکثر الناس زاد النداء الثالث علی الزوراء، قال أبو عبد اللّٰہ: الزوراء موضع بالسوق بالمدینۃ‘‘(۱)
 حدیث میں تیسری اذان سے مراد پہلی اذان ہے کیوں کہ پہلی اذان خطیب کے منبر پر بیٹھنے کے وقت ہوتی تھی اور دوسری تکبیر۔ اور تیسری اس کو کہا گیا ہے جو ہمارے زمانہ میں پہلی ہے۔
جمعہ کی دوسری اذان چوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی منبر کے سامنے دی جاتی تھی؛ اس لیے مسنون یہی ہے کہ دوسری اذان منبر کے سامنے دی جائے؛ لیکن اگر کبھی کبھار کسی وجہ سے تخلف ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ، باب الأذان یوم الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۴، رقم: ۹۱۲۔
وکذا الجلوس علی المنبر قبل الشروع في الخطبۃ والأذان بین یدیہ جری بہ التوارث۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ:  باب الجمعۃ‘‘ ص: ۵۱۵، شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص156

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بے شک فرائض کے بعد ’’اللّٰہم أنت السلام الخ‘‘ والی دعاء مسنون ہے؛ اس لیے اکثر اسی کو پڑھا جاتا ہے، لیکن دوسری دعاء یا درود شریف پڑھنے سے؛ بلکہ اس قدر خاموش بیٹھنے سے بھی سنت ادا ہوجاتی ہے، لہٰذا کسی دوسری دعاء کو خلاف سنت کہنا صحیح نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن ثوبان رضي اللّٰہ عنہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ إذا انصرف من صلاتہ استغفر ثلاثا وقال: اللہم أنت السلام ومنک السلام تبارک ذو الجلال والإکرام، قال الولید: فقلت للأوزاعي: کیف الاستغفار؟ قال تقول استغفر اللّٰہ، استغفر اللّٰہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ: باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ وبیان صفتہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۸، رقم: ۵۹۱)
عن کعب بن عجرۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: معقباتٌ لا یخیب قائلہن، أو فاعلہن، دبر کل صلاۃ مکتوبۃ ثلاثٌ وثلاثون تسبیحۃ، ثلاث وثلاثون تحمیدۃ وأربعٌ وثلاثون تکبیرۃ۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ: باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ وبیان صفتہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۸، رقم: ۵۹۶)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من سبح اللّٰہ في دبر کل صلاۃ ثلاث وثلاثین وحمد اللّٰہ ثلاث وثلاثین وکبر اللّٰہ ثلاث وثلاثین فتلک تسعۃ وتسعون، وقال تمام المأۃ لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شيء قدیر غفرت خطایاہ وإن کانت مثل زبد البحر۔ (أخرجہ مسلم  في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ: باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ وبیان صفتہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۸، رقم: ۵۹۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص425

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر عورت کی نماز کے دوران شوہر نے اس کو شہوت سے چھوا یا اس کا بوسہ لے لیا تو عورت کی نماز فاسد ہو جائے گی، شوہر کو نماز کے دوران ایسا نہیں کرنا چاہئے، عورت ایسی صورت میں دوبارہ نماز پڑھے۔
’’ولو مس المصلیۃ بشہوۃ أو قبلہا بدونہا فإن صلاتہا تفسد‘‘(۲)

(۲)أیضاً: ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في التشبہ بأہل الکتاب‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۵، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص123

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنت کے لیے فرض کو نہ توڑے ’’ولو تذکر في الفجر أنہ لم یصل رکعتي الفجر لم یقطع‘‘(۳)

(۳) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۸، زکریا دیوبند۔)
ومن انتہی إلی الإمام في صلاۃ الفجر وہو لم یصل رکعتي الفجر إن خشي أن تفوتہ رکعۃ ویدرک الأخریٰ یصلي رکعتي الفجر عند باب المسجد ثم یدخل لأنہ أمکنہ الجمع بین الفضیلتین وإن خشي فوتہا دخل مع الإمام لأن ثواب الجماعۃ أعظم۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب ادراک الفریضہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۲، دار الکتاب دیوبند)
ولو أدرک الإمام في الرکوع ولم یدر أنہ في الرکوع الأول أو الثاني، یترک السنۃ ویتابع الإمام، کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب العاشر في ادراک الفریضۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۷۹، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص349

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1066

 

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  نماز سکون اور اطمینان اور سنن و آداب کی رعایت کے ساتھ ہی پڑھنا چاہیے،  نمازیں اگر زیادہ ہیں تو ان کو ہر نماز  کے وقت جتنی بسہولت پڑھی جاسکتی ہوں پڑھے۔ نوافل پڑھنے کے  بجاءے قضاء نمازیں ہی پڑھیں تاکہ جلد پوری ہوسکیں۔  جتنے دنوں کی نمازیں قضاء ہوں ان کی ایک لسٹ بنالیں اور پڑھ کر نشان لگاتے رہیں، اس سے بسہولت حساب کرسکیں گے کہ کتنی نمازیں آپ کے ذمہ باقی ہیں اور کتنے دنوں میں پوری ہون گی۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں امام صاحب نے قربانی کے جانور کی قیمت، اس سے متعلق اخراجات قربانی کرانے والوں سے لیے اس میں کوئی حرج نہیں تھا، پھر کچھ نمازیوں کے کہنے پر وہ کام بھی بند کردیا یہ اور بھی اچھی بات ہوئی تو بظاہر امام صاحب کی طرف سے کوئی کمی نہیں ہے اس لیے بشرطِ صحت سوال ان کی امامت درست ہے ان کی اقتدا چھوڑ کر کوئی انتشار پیدا کرنا غلط ہے۔ (۱)

(۱) وأما الإجماع فإن الأمۃ اجمعت علی ذلک قبل وجود الأصم حیث یعقدون عقد الإجارۃ من زمن الصحابۃ رضي اللہ تعالیٰ عنہم إلی یومنا ہذا من غیر نکیر فلا یعبأ بخلافہ إذ ہو خلاف الإجماع۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، کتاب الإجارۃ،’’فصل في رکن الإجارۃ ومعناہا‘‘:ج۴، ص:۱۷۴، المکتبۃ العلمیۃ، بیروت)
لوأم قوما وھم لہ کارھون إن الکراھۃ لفساد فیہ أو لأنھم أحق بالإمامۃ منہ کرہ ذلک تحریما۔ وإن ھو أحق لا والکراھۃ علیھم۔ ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار ج۲، ص۸۹۲، زکریا، دیوبند
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص52

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: اگر وہ شخص واقعی طور پر مدرسہ نہ ہونے کے باوجود دھوکہ دے کر، جھوٹ بول کر مدرسہ کا چندہ کرتا ہے تو یہ شخص فاسق ہے اور اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ نماز جیسے اہم فریضہ کی ادائیگی کے لیے کسی متقی، دیندار، پرہیز گار شخص کو امام مقرر کیا جائے۔(۲)

(۲) ولذا کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ، وإذا تعذر منعہ ینتقل عنہ إلی غیر مسجدہ للجمعۃ وغیرہا وإن لم یقم الجمعۃ إلا ہو تصلي معہ۔ (أحمد بن محمد،  حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في بیان الاحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، ۳۰۲، شیخ الہند دیوبند) ولو صلی خلف مبتدع أو فاسق فہو محرز ثواب الجماعۃ لکن لابنال مثل ما ینال خلف تقي، کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص180