نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 3205/46-7052

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حدیث شریف میں آیاہے کہ  جس نے شراب پی، اس کی چالیس روز کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ نماز کے قبول نہ ہونے کا مطلب سچی توبہ کرنے سے پہلے اس کی نماز کا کوئی ثواب نہیں ملے گا، اور اللہ کی رضا حاصل نہ ہوگی۔ البتہ نماز کا فریضہ ذمہ سے ساقط ہوجائے گا، اور اگر سچی توبہ کرکے نماز پڑھے گا تو اجر بھی ملے گا اور نماز بھی مقبول ہوگی اور اللہ کی رضا بھی حاصل ہوگی ان شاء اللہ۔

نبی  کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص (پہلی مرتبہ ) شراب پیتا ہے (اور توبہ نہیں کرتا ) تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کرتا، پھر اگر وہ (خلوص دل سے ) توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے، پھر اگر وہ (دوسری مرتبہ ) شراب پیتا ہے تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کرتا اور پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے،  پھر اگر وہ (تیسری مرتبہ ) شراب پیتا ہے تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کرتا اور پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ چوتھی مرتبہ شراب پیتا ہے تو اللہ تعالیٰ (نہ صرف یہ کہ) چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کرتا (بلکہ) اگر وہ توبہ کرتا ہے تو اس کی توبہ (بھی) قبول نہیں کرتا اور (آخرت میں) اس کو دوزخیوں کی پیپ اور لہو کی نہر سے پلائے گا۔  (ترمذی 2/8)

" عبد الله بن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: "من شرب الخمر لم يقبل الله له صلاة أربعين صباحًا، فإن تاب تاب الله عليه. فإن عاد لم يقبل الله له صلاة أربعين صباحًا، فإن تاب تاب الله عليه، فإن عاد لم يقبل الله له صلاة أربعين صباحًا، فإن تاب تاب الله عليه، فإن عاد في الرابعة لم يقبل الله له صلاة أربعين صباحًا، فإن تاب لم يتب الله عليه وسقاه من نهر الخبال." (رواه الترمذي، (2/8) قدیمی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 3195/46-7040

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کسی شخص نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی، تو اس پر گناہ ہے، کیونکہ نماز دین کا اہم ترین رکن ہے اور اسے جان بوجھ کر ترک کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ تاہم اگر اس شخص نے بعد میں توبہ کرلی،  پھر نمازوں کو درست طریقے سے پڑھنا شروع کردیا، تو اللہ کی رحمت سے اُمید ہے کہ اس کی توبہ قبول ہو جائے گی۔اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے، اور وہ اپنے بندوں کو معاف کرنے والا ہے، بشرطیکہ وہ سچے دل سے توبہ کرے، نادم ہو اور آئندہ کے لیے نماز کو ترک نہ کرنے کا پختہ عزم کرے۔

اس لئے اگر کسی نے قضا نماز پڑھ لی اور جو کوتاہی ہوئی اس پر توبہ واستغفار بھی کرلیا تو اب امید ہے کہ ان شاء اللہ اس کوتاہی پر سزا نہیں ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 3175/46-7001

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مسبوق کو اگر اپنا مسبوق ہونا یاد تھا اس کے باوجود اس نے امام کے ساتھ سجدہ سہو کا سلام پھیردیا تو اس کی نماز فاسد ہوگئی ، اس کو اپنی نماز لوٹانی پڑے گی۔ البتہ اگر اس کو یہ یاد نہیں رہا کہ اس کی رکعتیں چھوٹ گئی ہیں اور بھول کر امام کے ساتھ سلام پھیردیا تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی۔ اور اس کی وجہ سے کوئی الگ سے سجدہ سہو اس پر لازم نہ ہوگا، کیونکہ یہ ابھی امام کی اقتداء میں نماز پڑھ رہاہے۔

فان سلم فان کان  عامدا فسدت والا لا، ولا سجود علیہ ان سلم سہوا قبل الامام او معہ۔۔۔ ولو سلم علی ظن ان علیہ ان یسلم فہو سلام عمد یمنع البناء (شامی 2/82)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 3151/46-6052

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مذکورہ آیات میں غنہ کرنا غلط ہے، اور تجوید کےقاعدہ کے خلاف ہے، تاہم اس سے نماز ہوجائے گی، اسی طرح پُر کو باریک یا باریک کو پُر پڑھنے سے بھی نماز صحیح  ہوجاتی ہے،  البتہ اس کے علاوہ کیا کیا غلطیاں امام صاحب تلاوت میں کرتے ہیں ان واضح انداز میں لکھئے تاکہ اس کے مطابق جواب دیاجاسکے۔ اچھے انداز میں  امام صاحب کو ان غلطیوں کی نشاندہی کردی جائے ، پھر بھی اگر درست نہ کریں تو دوسرا امام مقرر کرلیاجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref.  No.  3145/46-6033

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   معذور اپنے عذر کے اعتبار سے نماز میں بیٹھ سکتاہے، جس قدر ممکن ہو قیام کرے اور جب تھک جائے تو بیٹھ جائے، ایساکرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نمازجماعت کے ساتھ  مسجد میں ہی  اداکرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref.  No.  3143/46-6044

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بلاعذرنچلی منزل کو خالی چھوڑکر اوپر کی منزل میں  جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا مکروہ اور ناپسندیدہ  ہے، کیونکہ دوسری منزل پر جماعت مسجد کی اصل وضع اور امت کے متوارث عمل کے خلاف ہے، نیز نچلی منزل کا خالی رہنا احترامِ مسجد کے بھی خلاف ہے۔ نماز نچلی منزل میں ہی جماعت سے پڑھی جائے پھر نچلی منزل جب پُر ہوجائے تو دوسری منزل پر مقتدی حضرات چلے جائیں۔ البتہ اگرکوئی عذر ہو مثلا نچلی منزل میں صفائی وغیرہ کا کام چل رہاہو تو  دوسری منزل میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اور مقتدی کچھ نیچے کچھ اوپر کی منزلوں میں اقتداکریں تو اس کی گنجائش ہے۔ جب تک ایک منزل مکمل طور سے پُر نہ ہوجائے دوسری منزل میں نہیں جانا چاہئے۔ اور صفوں کی ترتیب کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔

’’الصعود على سطح كل مسجد مكروه، و لهذا إذا اشتد الحر يكره أن يصلوا بالجماعة فوقه، إلا إذا ضاق المسجد فحينئذٍ لايكره الصعود على سطحه للضرورة، كذا في الغرائب‘‘. (الھندیۃ ٥/ ٣٢٢، ط: رشيدية)

’’و كذا الصعود علي سطح كل مسجد مكروه، و لهذا إذا اشتد الحر يكره أن يصلوا بجماعة فوق السطح، إلا إذا ضاق المسجد فحينئذٍ لايكره الصعود على سطحه للضرورة، و أما شدة الحر فلأنها لاتوجب الضرورة ط، و إنما يحصل به زيادة المشقة و بها يزداد الأجر. كله من المحيط و غيره‘‘(نصاب الاحتساب، الباب الخامس عشر في ما يحتسب في المسجد، ص: ٣٢، قلمي)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2971/45-4700

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صف بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ صف  درمیان  سے بنائی جائے یعنی امام کے پیچھے ایک آدمی کھڑا ہو اور پھر اس کے دائیں پھر بائیں لوگ صف بناتے جائیں۔ ہر صف امام کے پیچھے سے شروع ہو، اس لئے کہ حدیث میں ہے کہ امام کو درمیان میں رکھو اور اس کی شکل یہی ہے کہ درمیان سے ہی صف شروع ہو۔ امام کے کہنے کا شاید یہ مطلب ہو کہ اگلی صفوں میں جگہ باقی رہتے ہوئے دوسری و تیسری صفیں نہ بناؤ۔ اگر اگلی صف میں جگہ خالی ہوتو پیچھے صف بنانا مکروہ ہے۔

عن أنس قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: أتموا الصف المقدم ثم الذي یلیہ فما کان من نقص فلیکن فی الصف الآخر رواہ بو داود(مشکوة شریف ص ۹۸، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)

والحاصل أنہ یستحب توسط الإمام(انجاح الحاجہ حاشیہ سنن ابن ماجہ ص ۷۱)

وخیر صفوف الرجال أولھا“:لأنہ روي فی الأخبار ”أن اللہ تعالی إذا أنزل الرحمة علی الجماعة ینزلھا أولاً علی الإمام ، ثم تتجاوز عنہ إلی من بحذائہ فی الصف الأول،ثم إلی المیامن، ثم إلی المیاسر، ثم إلی الصف الثاني“، وتمامہ فی البحر (شامی ۲:۳۱۰)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2953/45-4676

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کھلے میدان یعنی عیدگاہ میں عیدکی نماز ادا کرنا افضل ہے، البتہ جس علاقے میں کوئی میدان یا عیدگاہ نہ ہو تو اس صورت میں مسجد میں نماز عید ادا کرنا بھی درست ہے۔ فتاوی محمودیہ میں ہے :"عید کی نماز عید گاہ میں جاکر پڑھنا سنت ہے ،اگر کوئی عذر ہو تو مسجد میں بھی درست ہے ".(باب العیدین ،ج:8،ص:414،ادارۃ الفاروق)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"الخروج إلى الجبانة في صلاة العيد سنة وإن كان يسعهم المسجد الجامع، على هذا عامة المشايخ وهو الصحيح، هكذا في المضمرات". (الھندیۃ، کتاب الصلاۃ،الباب السابع عشر فی صلاۃ العیدین،ج:1،ص:150،دارالفکر)

 "ولو صلی العید في الجامع ولم یتوجه إلی المصلی، فقد ترک السنة". (البحر، کتاب الصلاۃ،باب العیدین ج:2،ص:171،دارالکتاب الاسلامی)

"وفي الخلاصة والخانية السنة أن يخرج الإمام ‌إلى ‌الجبانة، ويستخلف غيره ليصلي في المصر بالضعفاء بناء على أن صلاة العيدين في موضعين جائزة بالاتفاق، وإن لم يستخلف فله ذلك. اهـ" (شامی، کتاب الصلاۃ،باب العیدین ،ج:2،ص:169،سعید)"عن أبي إسحاق، «أن عليا أمر رجلا يصلي ‌بضعفة الناس في المسجد ركعتين۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ، کتاب صلاۃ العیدین ،ج:2،ص:5،دارالتاج)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2925/45-4520

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ گھر میں عشاء کے قرض اور تراویح کی جماعت جائز ہے، البتہ فرض نماز مسجد میں ادا کرنا افضل ہے۔

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلوۃ المرء في بیتہ أفضل من صلوتہ في مسجدی ہذا الا المکتوبۃ‘‘ (المعجم الأوسط: ج ٣، ص: ١٥٩، رقم: ٤١٧٨) وان صلی أحد فی البیت بالجماعۃ لم ینالوا افضل جماعۃ المسجد‘‘ (در مختار مع رد المحتار: ج ٢، ص: ٢٨٨، زکریا دیوبند)

(٢) گراؤنڈ فلورکی حیثیت اگرتہخانہ کی ہے تو پہلی منزل میں ادا کی گئیں نمازیں درست ہیں، اور اگر نیچے کا حصہ بھی شرعی مسجد ہے تو نیچے کی منزل چھوڑ کر اوپر جماعت کا نظم مناسب نہیں، تاہم ادا کی گئیں نمازیں درست ہیں اعادہ کی ضرورت نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2928/45-4518 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حضرات فقہاء کرام نے عام حالات میں آدھی آستین والا کرتہ یا شرٹ پہن کر نماز ادا کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آستین چڑھانے سے منع فرمایا ہے۔ تاہم اگر کسی وقت آدھی آستین کی شرٹ پہنے ہونے کی حالت میں نماز کا وقت ہو جائے تو نماز ترک کرنا جائز نہیں، اس حالت میں نماز ادا کرلی جائے۔ عن ابن عباس رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وسلم قال أمرت أن أسجد علي سبعة أعظم ولا أكف ثوبا ولا شعرا‘‘ (بخاري، رقم: 816) وتشير كميه عنهما لنهي عنه لما فيه من الجفاء المنافي للخشوع‘‘ (مراقي الفلاح،’’فصل في المكروهات‘‘: ج 1، 128) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند