نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: بڑے شہروںمیں سیکٹر علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں اور کالونیاں بھی الگ الگ ہوتی ہیں ضرورۃً بڑے شہر جو تیس چالیس یا اس سے بھی زیادہ میلوں میں آباد ہوں سیکٹر کو اصل شہر قرار دیا جانا چاہیے۔

اس صورت میں جس سیکٹر اور کالونی میں وہ رہتا ہے اس سے باہر ہوتے ہی وہ مسافر شرعی شمار کیا جائے گا۔ اگر سیکٹر سے نکلنے کے بعد اس کو۸ ۴؍ میل سے آگے جانا ہے تو وہ مسافر ہوگا۔

(۱) من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ قاصداً مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۹)

من جاوز بیوت مصرہ مریدا سیرا وسطا ثلاثۃ أیام في بر أو بحر أو جبل قصر … الفرض الرباعي فلو أتم وقعد في الثانیۃ صح۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ:باب المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۵ تا ۲۳۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:388

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق:(۱) اگر کسی جگہ پندرہ دن کے قیام کی نیت ہو اور اہل و عیال نہ ہو تو وہ جگہ وطن اقامت ہے۔

’’ووطن إقامۃ، وہو المکان الصالح للإقامۃ فیہ مدۃ خمسۃ عشر یوماً، فأکثر إذا نوی الإقامۃ‘‘(۱)

(۲) اگر جائے ملازمت میںعلی سبیل القرار رہنے کا ارادہ ہو اور ساتھ میں اہل و عیال بھی ہو تو وہ جگہ ’’وطن تاہل‘‘ ہے جو کہ وطن اصلی کے حکم میں ہے، لہٰذا وہاں سے اگر کسی جگہ سفر پر جائے تو واپس آنے پر وہ مقیم ہوگا اگرچہ وہاں پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت ہو اس لیے کہ وطن اصلی میں قیام کی نیت ضروری نہیں ہوتی ہے بلکہ وطن اصلی میں آدمی مقیم ہی ہوتا ہے۔

’’الوطن الأصلي: ہو الذي ولد فیہ أو تزوج، أو لم یتزوج وقصد التعیش فیہ، لا الارتحال عنہ‘‘(۱)

(۳) اگر آدمی کسی جگہ ملازمت کی وجہ سے مقیم ہو اور علی سبیل القرار رہنے کا ارادہ ہو وہاں سے جانے کا کوئی ارادہ نہ ہو لیکن ساتھ میں اہل وعیال بھی نہ ہو اس جگہ کے وطن اصلی کے درجہ میں ہونے میں حضرات فقہاء کے درمیان اختلاف ہے لیکن احوط قول یہ معلوم ہوتاہے کہ وہ جگہ وطن اقامت ہے اگر وہاں سے کہیں سفر پرجائے اور واپسی پر جائے ملازمت میں پندرہ دن رہنے کی نیت نہ ہو تو اس صورت میں وہاں قصر کرے گا۔

ہاںاگر قرائن سے معلوم ہو کہ عرصہ دراز تک رہنا ہے اور ساتھ میں اہل وعیال بھی ہو تب تو مسئلہ وا ضح ہے کہ وہ جگہ وطن تاہل ہے، لیکن اگر اہل وعیال نہ ہو لیکن حالات اور قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ عرصہ دراز تک رہنا ہے وہاں سے جانے کا بظاہر کوئی ارادہ نہیں ہے الایہ کہ کوئی ناگہانی صورت پیش آجائے تو وہ بھی وطن اصلی کے درجہ میں ہوگا، لیکن اگر یہ کیفیت نہ ہو تو وطن اصلی کے درجہ میں نہیں ہے۔ علامہ شامی نے وطن اصلی کے لیے تین چیزوں کو الگ الگ بیان کیا ہے، اور تینوں کی نوعیت بالکل الگ الگ بیان کی ہے (۱) جائے ولادت (۲) وہ مقام جس میں آدمی نے شادی کرکے بیوی کو چھوڑ رکھاہے۔ (۳) کسی جگہ کو توطن اختیار کرلیایعنی علی سبیل القرار رہائش اختیار کر لی۔

’’قولہ: (أو تأہلہ) أي  تزوجہ۔ قال في شرح المنیۃ: ولو تزوج المسافر ببلد ولم ینو الإقامۃ بہ فقیل لا یصیر مقیما، وقیل یصیر مقیما؛ وہو الأوجہ ولو کان لہ أہل ببلدتین فأیتہما دخلہا صار مقیما، فإن ماتت زوجتہ في إحداہما وبقی لہ فیہا دور وعقار قیل لا یبقی وطنا لہ، إذ المعتبر الأہل دون الدار، کما لو تأہل ببلدۃ واستقرت سکنا لہ ولیس لہ فیہا دار، وقیل تبقی۔ اھـ۔ قولہ: (أو توطنہ) أي عزم علی القرار فیہ وعدم الارتحال وإن لم یتأہل، فلو کان لہ أبوان ببلد غیر مولدہ وہو بالغ۔ ولم یتأہل بہ فلیس ذلک وطنا لہ، إلا إذا عزم علی القرار فیہ وترک الوطن الذي کان لہ قبلہ شرح المنیۃ‘‘(۱)

الفقہ علی المذاہب الاربعہ کی عبارت سے بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ اگر کوئی شخص ملازمت کے طورپر کسی جگہ مستقل رہے تووہ بھی اس کا وطن اصلی ہے خواہ وہاں اس کے اہل وعیال نہ ہو۔

’’وطن أصلی، وہو الذي ولد فیہ الإنسان، أو لہ فیہ زوج في عصمتہ، أو قصد أن یرتزق فیہ، وإن لم یولد بہ، ولم یکن لہ بہ زوج‘‘(۲)

(۱) عبد الرحمن بن محمد عوض الجزیري، کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعہ، ’’کتاب الصلاۃ: مباحث قصر الصلاۃ الرباعیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۴، دار القدس، القاہرہ۔(۱) وہبہ الزحیلي، الفقہ الاسلامي و أدلتہ، ’’الفصل العاشر أنواع الصلاۃ: المبحث الثالث صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۴، مکتبہ تھانوی، دیوبند۔(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر، مطلب: في الوطن الأصلي ووطن الإقامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۴، مکتبہ زکریا، دیوبند۔(۲) کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’کتاب الصلاۃ: مباحث قصر الصلاۃ الرباعیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۴۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:384

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اگر کسی جگہ جانے کے دو راستے ہوں اور ایک راستے سے مسافت سفر سے کم ہو اور دوسرا مسافت سفر پر ہوتو جس راستے سے سفر کرتا ہے اس کا اعتبار ہوگااس لیے اگر ڈیوائیڈر کی وجہ سے وہ راستہ ۸۰؍ کلو میٹر کا ہوجاتاہے، جیسا کہ سوال میں مذکورہے اور وہ اسی راستے سے نکلنے کے ارادے سے نکلا ہے تووہ شخص مسافر ہوگا۔

’’ولو لموضع طریقان أحدہما مدۃ السفر والآخر أقل قصر في الأول لا الثاني‘‘(۱)

’’وتعتبر المدۃ من أي طریق أخذ فیہ، کذا في البحر الرائق فإذا قصد بلدۃ وإلی مقصدہ طریقان أحدہما مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا والآخر دونہا فسلک الطریق الأبعد کان مسافرا عندنا، ہکذا في فتاوی قاضي خان، وإن سلک الأقصر یتم، کذا في البحر الرائق‘‘(۲)

(۱) الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۰۳۔(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس عشر: في صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۹۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:383

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: وطن اقامت محض موضع اقامت کو چھوڑنیکی نیت سے باطل نہیں ہوتاہے، بلکہ سفر شرعی کے ارادے سے نکلنے پر باطل ہوتاہے۔

’’وطن الإقامۃ یبطل بوطن الإقامۃ و بإنشاء السفر‘‘(۱)

’’ومن حکم وطن السکنی أنہ ینتقض بکل شئی بالوطن الأصلي و وبوطن السفر و بوطن السکنی و بإنشاء السفر‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس عشر: في صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۲۔(۲) الفتاویٰ التاتارخانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثاني والعشرون: في صلاۃ السفر‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۱، زکریا بکڈپو، دیوبند۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:383

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق:مسافت سفر سوا ستہترکلو میٹر ہے، سواستر کلومیٹر نہیں، جب بکر نے مدرسہ میں پوری زندگی خدمت کرنے کی نیت کرلی ہے تو گویا اس نے جائے ملازمت کو اپنا وطن اصلی بنالیا ہے ایک شخص کا دو وطن واصلی ہوسکتے ہیں، اس لیے صورت مذکورہ میں جب بکر سفر میں جائے گا تو اس کے گھر والے سب مقیم ہی رہیں گے اور بکر جب بھی مدرسہ آئے گا تو وہ مقیم رہے گا اگر چہ اس نے پندرہ دن سے کم رہنے کی نیت کی ہو۔

’’الوطن الأصلي) ہو موطن ولادتہ أو تأہلہ أو توطنہ، (قولہ الوطن الأصلي) ویسمی بالأہلي ووطن الفطرۃ والقرار ح عن القہستاني۔ (قولہ أو تأہلہ) أي تزوجہ (قولہ أو توطنہ) أي عزم علی القرار فیہ وعدم الارتحال وإن لم یتأہل‘‘(۱)

’’الإقامۃ موضع نوی الإقامۃ فیہ نصف شہر فما فوقہ ولم یعتبر المحققون وطن السکنی وہو ما ینوي الإقامۃ فیہ دون نصف شہر‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ:باب صلاۃ المسافر، مطلب: في الوطن الأصلي ووطن الإقامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۴۔(۲) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الایضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ص: ۱۶۵۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:381

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق:آبادی کے اتصال کی وجہ سے منی کے مکہ کے تابع ہونے نہ ہونے کے مسئلہ میں حضرات فقہاء کرام کا تاہنوز اختلاف باقی ہے اور دونوں طرف علماء امت کا ایک بڑا گروہ ہے یہ ان مسائل میں سے ہے جن میں کافی بحثیں ہوچکی ہیں لیکن فیصلہ کن نتیجہ پر آج تک کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔ دارالعلوم کراچی کا فتوی ہے کہ مکہ اور منی آبادی کے اتصال کی وجہ سے ایک محلہ ہوچکا ہے جب کہ جامعہ بنوریہ کا فتوی ہے کہ دونوں الگ ا لگ آبادی ہے، قصر واتمام کے سلسلے میں دونوں کو ایک محلہ نہیں شمار کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ہندوستان کے معتبر فقہی اداروں میں اسی عنوان پر سیمینار منعقد ہوا ہے جس میں بھی فیصلہ نہیں ہوسکا ان کی تجویز میں یہ مشورہ دیا گیا ہے ’’چوں کہ اجتماع میں کسی ایک رائے پر اتفاق نہیں ہوسکاہے اس لیے اجتماع عام لوگوں کو اختیار دیتاہے کہ مذکورہ آراء میں سے جس کو جس مفتی کی رائے پر اعتماد ہو اس پر عمل کرے اور جس رائے کے خلاف ہو اس پر طعن وتشنیع اور نزاع سے پرہیز کرے۔

اس مسئلہ میں زیادہ قابل اعتماد بات یہ ہے کہ مکہ اور منی کو الگ الگ علاقہ شمار کرکے جس طرح پہلے قصر واتمام پر عمل کیا جاتاتھااسی طرح اس وقت بھی عمل کیا جائے، اگر منی کے ایام کو چھوڑ کر کسی کے پندرہ یو م پورے ہوتے ہیں تو وہ اتمام کرے اور اگر منی کے ایام کو شامل کرکے پندرہ یوم پورے ہوتے ہیں تو قصر کرے لیکن اگر کوئی کسی دوسرے مفتی کی رائے پر عمل کرے تو اس کے لیے گنجائش ہے اور دوسری رائے پرعمل کرنے والوں پرطعن وتشنیع نہ کی جائے اور نہ اس کو نزاع کا موضوع بنایا جائے۔

’’إذا نوی الإقامۃ بمکۃ شہرا ومن نیتہ أن یخرج إلی عرفات ومنی قبل أن یمکث بمکۃ خمسۃ عشر یوماً لا یصیر مقیما لأنہ لا یکون ناویا لإقامۃ مستقلۃ فلا تعتبر‘‘(۱)

’’فلو دخل الحاج مکۃ أیام العشرم لم تصح نیتہ لأنہ یخرج إلی منی وعرفۃ فصار کنیۃ الإقامۃ في غیر موضعہا‘‘(۲)

(۱) منحۃ الخالق علی البحر الرائق، ’’باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۳(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۲۰۶، ۲۰۷۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:379

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق:(۱) اگر ساتھی تقاضوں پر چلتے ہیں تو ان کی اپنی نیت کا اعتبار ہوگا اگر اس نے کسی جگہ پندرہ دن قیام کی نیت کی ہے تو وہ مقیم ہوگا ورنہ مسافر ہوگا۔

’’ولا یزال علی حکم السفر حتی ینوي الإقامۃ في بلدۃ أو قریۃ خمسۃ عشر یوما أو أکثر، کذا في الہدایۃ‘‘(۱)

’’ووطن الإقامۃ موضع نوی الإقامۃ فیہ نصف شہر فما فوقہ ولم یعتبر المحققون وطن السکنی وہو ما ینوي الإقامۃ فیہ دون نصف شہر‘‘(۲)

(۲) اگر کوئی شخص سفر کے دوران اپنے وطن اصلی سے گزرے تو وہ شہر میں داخل ہوتے ہی مقیم ہو جائے گا خواہ وہاں رکنے کا ارادہ ہو یا نہ ہو، اور جس جگہ جا رہا ہے اگر وہ وطن اصلی سے مسافت سفر سے کم پر واقع ہے تو وہاں پہنچنے تک مقیم ہی رہے گا۔ صورت مذکورہ میں جب وہ گھاسیڑہ سے نکل کر مروڑا آیا تووہ مقیم ہوگیا پھر وہاں سے میل کھیڑلا صرف ۴۱؍ کلو میٹر کی مسافت پر ہے اس لیے وہ میل کھیڑلا تک مقیم ہی رہے گاہاں واپسی میں وہ وطن اصلی ہوکر نہیں آرہاہے اس لیے اگر واپسی میں میل کھیڑلا سے گھاسیڑا کا درمیانی سفر سوا ستہتر کلو میٹر ہے تو وہ قصر کرے گا ورنہ واپسی میں بھی اتمام کرے گا آنے اور جانے کی کلو میٹر کا اعتبار نہیں ہوتا ہے صرف جانے کی مسافت کا اعتبار ہوتا ہے۔

’’(قولہ حتی یدخل موضع مقامہ) أي الذي فارق بیوتہ سواء دخلہ بنیۃ الاجتیاز أو دخلہ لقضاء حاجۃ لأن مصرہ متعین للإقامۃ فلا یحتاج إلی نیۃ جوہرۃ، ودخل في موضع المقام ما ألحق بہ کالربض کما أفادہ القہستاني (قولہ إن سار إلخ) قید لقولہ حتی یدخل أي إنما یدوم علی القصر إلی الدخول إن سار ثلاثۃ أیام‘‘(۱)

’’وکذا إذا عاد من سفرہ إلی مصرہ لم یتم حتی یدخل العمران ولا یصیر مسافرا بالنیۃ حتی یخرج ویصیر مقیما بمجرد النیۃ، کذا في محیط السرخسي، ثم المعتبرۃ المجاوزۃ من الجانب الذي خرج منہ حتی لو جاوز عمران المصر قصر وإن کان بحذائہ من جانب آخر أبنیۃ، کذا في التبیین۔ وإن کان في الجانب الذي خرج منہ محلۃ منفصلۃ‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس عشر: في صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۶۔(۲) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الایضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ص: ۱۶۵۔(۱) ابن عادین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۰۴۔(۲) جماعۃ من علماء الہندیۃ، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس عشر: في صلاۃ المسافر‘‘: ج۱، ص: ۱۹۹۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:377

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: (۱-۲) چوں کہ تبلیغی جماعت میں شریک ہر شخص خود مختار ہوتاہے، کسی کا وقت پہلے پورا ہوتاہے کسی کا وقت بعد میں پورا ہوتا ہے، کوئی وقت پورا ہونے سے پہلے چلا جاتاہے اس لیے امیر جماعت کی نیت کا اعتبار نہیں ہوگاخواہ امیر جماعت مقامی ہو یا وہ بھی دوسرے ساتھیوں کی طرح دور سے ہی آیا ہو، بلکہ خود ہر شخص کی اپنی نیت کا اعتبار ہوگا اگر اس کی نیت پندرہ دن ٹھہرنے کی ہے تو وہ مقیم ہوگا ورنہ مسافر۔

’’ولا یزال علی حکم السفر حتی ینوي الإقامۃ في بلدۃ أو قریۃ خمسۃ عشر یوما أو أکثر، کذا في الہدایۃ‘‘(۱)

’’ووطن الإقامۃ موضع نوی الإقامۃ فیہ نصف شہر فما فوقہ ولم یعتبر المحققون وطن السکنی وہو ما ینوي الإقامۃ فیہ دون نصف شہر‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس عشر: في صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۹۔

(۲) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الایضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ص: ۱۶۵۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:376

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: آبادی وسیع ہونے کی وجہ سے دونوں فناء شہر کا درمیانی فاصلہ ۷۷.۲۵؍ کلو میٹر کو محیط نہیں ہے، اس لئے اب قصر کا حکم نہیں ہوگا۔ جن لوگوں نے اب بھی قصر کیا وہ اپنی نمازیں لوٹالیں۔ گھر سے مسافت سفر کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ فناء شہر سے اس کا حساب ہوگا۔ اس لئے اگر گھر سے دوسرے شہر کی فناء تک مسافت سفر پوری ہو مگر فناء شہر سے مقصود فناء شہر تک مسافت شرعی پوری نہ ہو تو قصر کی اجازت نہیں ہوگی۔ 

’’قلت: فناء المصر إنما ألحق بہ فیما کان من حوائج أہلہ، والجمعۃ، وصلاۃ العیدین من حوائج أہلہ وقصر الصلاۃ لیس منہا، واختلفوا في تقدیر الفناء، فقدرہا بعضہم بفرسخین، وبعضہم بثلاثۃ فراسخ، ذکرہ في المحیط، وقال شمس الأئمۃ السرخسي، والإمام خواہر زادہ: والصحیح أن الفناء مقدر بالغلوۃ۔ وقال الشافعي: في البلد یشترط مجاوزۃ السور لا مجاوزۃ الأبنیۃ بالسور خارجہ، وحکی الرافعي وجہین: المعتبر مجاوزۃ الدور، ورجح الرافعي ہذا الوجہ في ’’المجرد‘‘، والأول في ’’الشرح‘‘، وإن لم یکن في جہۃ خروجہ سور، وکان في قریۃ یشترط مفارقۃ العمران۔ وفي ’’المغنی‘‘ لابن قدامۃ: لیس لمن نوی السفر القصر، حتی یخرج من بیوت مصرہ أو قریتہ، ویخلفہا وراء ظہرہ، قال: وبہ قال مالک والأوزاعي وأحمد والشافعي وإسحاق وأبو ثور، رحمہم اللّٰہ‘‘(۱)

(۱) العیني، البنایۃ شرح الھدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:375

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں آپ اڑتالیس میل کی مسافت کے سفر کا ارادہ کر کے آبادی کی حدود سے نکل گئے، تو جب تک آپ اقامت کے لائق ایک مستقل جگہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت نہ کرلیں یا اپنے اصلی وطن (جہاں اپ کی جائے پیدائش ہے اور جہاں اپنے اہل وعیال کے ساتھ رہ رہے ہیں یا جہاں آپ کی مستقل رہائش ہے) میں داخل نہ ہو جائیں، تب تک آپ مسافر کے حکم میں رہیں گے اور چار رکعت والی فرض نماز وں میں قصر ہی کریں گے۔ 

اس لیے کہ آپ کی نیت کسی ایک جگہ پندرہ دن رہائش کی نہیں ہے، لہٰذا آپ اپنے شہر کی آبادی سے نکلنے کے بعد انفرادی طور پر نماز پڑھیں یا امام بن کر نماز پڑھائیں۔ دونوں صورتوں میں   قصر کریںگے، اتمام نہیں کریں گے، البتہ مقیم امام کی اقتداء میں آپ کو پوری نماز پڑھنا ہوگا۔

’’قلت أرأیت الرجل إذا خرج من الکوفۃ إلی مکۃ ومنی وہو یرید أن یقیم بمکۃ ومنی خمسۃ عشر یوما أیکمل الصلاۃ حین یدخل مکۃ؟ قال لا۔ قلت لم؟ قال لأنہ لا یرید أن یقیم بمکۃ وحدہا خمسۃ عشر یوماً‘‘(۱)’’قال المصنف في تنویر الأبصار: من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ قاصدا مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا بالسیر الوسط مع الاستراحات المعتادۃ صلی الفرض الرباعي رکعتین‘‘(۱)

’’وقال الشارح في الدر المختار: (فیقصر إن نوی) الإقامۃ (في أقل منہ) أي في نصف شہر (أو) نوی (فیہ لکن في غیر صالح) أو کنحو جزیرۃ أو نوی فیہ لکن (بموضعین مستقلین کمکۃ ومنی) فلو دخل الحاج مکۃ أیام العشر لم تصح نیتہ لأنہ یخرج إلی منی وعرفۃ فصار کنیۃ الإقامۃ فی غیر موضعہا وبعد عودہ من منی تصح کما لو نوی مبیتہ بأحدہما أو کان أحدہما تبعا للآخر بحیث تجب الجمعۃ علی ساکنہ للاتحاد حکما۔

وقال علیہ في الرد: (قولہ في أقل منہ) ظاہرہ ولو بساعۃ واحدۃ … و (قولہ بموضعین مستقلین) لا فرق بین المصرین والقریتین والمصر والقریۃ بحر۔ و (قولہ فلو دخل إلخ) ہو ضد مسألۃ دخول الحاج الشام فإنہ یصیر مقیما حکما وإن لم ینو الإقامۃ وہذا مسافر حکما وإن نوی الإقامۃ لعدم انقضاء سفرہ ما دام عازما علی الخروج قبل خمسۃ عشر یوما أفادہ الرحمتي‘‘(۲)

’’والحاصل أن شروط الإتمام ستۃ: النیۃ، والمدۃ، واستقلال الرأي، وترک السیر، واتحاد الموضع، وصلاحیتہ، قہستاني۔

وقال أیضا: أقول: ویظہر لي في الجواب أن العلۃ في الحقیقۃ ہي المشقۃ وأقیم السفر مقامہا ولکن لا تثبت علیتہا إلا بشرط ابتداء وشرط بقاء، فالأول مفارقۃ البیوت قاصدا مسیرۃ ثلاثۃ أیام، والثاني استکمال السفر ثلاثۃ أیام، فإذا وجد الشرط الأول ثبت حکمہا ابتداء فلذا یقصر بمجرد مفارقۃ العمران ناویا ولا یدوم إلا بالشرط الثاني فہو شرط لاستحکامہا علۃ فإذا عزم علی ترک السفر قبل تمامہ بطل بقاؤہا علۃ لقبولہا النقض قبل الاستحکام ومضی فعلہ في الابتداء علی الصحۃ لوجود شرطہ ولذا لو لم یصل لعذر ثم رجع یقضیہا مقصورۃ کما قدمناہ فتدبرہ‘‘(۱)

(۱) محمد الشیباني، الأصل، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۳۔(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۹ تا ۶۰۳۔(۲) أیضاً: ج ۲، ص: ۶۰۶، ۶۰۷۔(۱) أیضاً: ج ۲، ص: ۶۰۵ تا ۶۰۹۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:373