نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2749/45-4293

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال جس شخص كی جس حركت كا آپ تذکرہ کر رہے ہیں وہ بچکانہ حرکت معلوم ہوتی ہیں، ہو سکتا ہے وہ ابھی حد بلوغ کو نہ پہونچا ہو جو شرعاً ما مور نہیں ہوگا اور اگر واقعی وہ بالغ ہے تو عمل کثیر کی وجہ سے اس کی نماز فاسد ہو گئی تھی اس پر اعادہ لازم ہے، نمازی کی نماز میں جان بوجھ کر خلل ڈالنے والا گنہگار ہوتا ہے اسے چاہئے کہ توبہ کرے اور آئندہ اس طرح کی حرکتوں سے باز رہے، کیونکہ نمازی کی نماز میں خلل ڈالنا یا آگے سے گزرنا عابد اور معبود کے مابین حامل ہونا ہے جس پر کافی وعید وارد ہوئی ہے۔

عن أبي جهيم قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه مكان أن يقف أربعين خبراً له من أن يمر بين يديه‘‘ (مشكوة المصابيح، ’’كتاب الصلاة‘‘: ص: 74)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:گرمی کی وجہ سے مسجد کے اصل جماعت خانہ اور صحن مسجد کو چھوڑ کر چھت پر عشاء اور تراویح کی جماعت کرنا مکروہ ہے، ہاں جن کونیچے جماعت خانہ اور صحن میں جگہ نہ ملے اگر وہ چھت پر جاکر نماز پڑھ لیں، تو بلا کراہت جائز ہے، کہ یہ مجبوری ہے، فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ’’الصعود علی سطح کل مسجد مکروہ؛ ولہذا إذا شتد الحر یکرہ أن یصلوا بالجماعۃ فوقہ إلا إذا ضاق المسجد فحینئذٍ لا یکرہ الصعود علی سطحہ للضرورۃ‘‘(۱) شامی میں ہے ’’ثم رأیت القہستاني نقل عن المفید کراہۃ الصعود علی سطح المسجد الخ، ویلزمہ کراہۃ الصلوۃ أیضاً فوقہ فلیتأمل‘‘(۲) اس لیے گرمی میں صحن مسجد میں نماز باجماعت بدون حرج کے بھی صحیح ہے(۳) اور اگر کسی جگہ صحن داخل مسجد نہ ہو اور مسجد سے خارج ہو، تو بانی مسجد یا متولی مسجد اور جماعت کے لوگ باہم متفق ہوکر اس کے داخل کرنے کی نیت کرلیں، تو صحن داخل مسجد ہو جائے گا اور اس پر مسجد کے جملہ احکام جاری ہوں گے۔(۴)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الخامس في آداب المسجد‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۲، زکریا دیوبند)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في أحکام المسجد‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۸۔
(۳) وفناء المسجد لہ حکم المسجد۔ (أیضًا:’’باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج۲، ص: ۳۳۲)
(۴) أرض وقف علی مسجد والأرض بجنب ذلک المسجد وأرادوا أن یزیدوا في المسجد شیئاً من الأرض جاز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الوقف: الباب الحادي عشر في المسجد وما یتعلق بہ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۹، مکتبہ: زکریا دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص517

نماز / جمعہ و عیدین

الجــواب وباللہ التوفـیـق:عیدین میں جماعت سے قبل اذان دینا بلا شبہ بدعت ہے۔(۱)

(۱) وروي محمد بن الحسن أنا أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ عن حماد بن أبي سلیمان عن إبراہیم النخعي عن عبد اللّٰہ بن مسعود وکان قاعداً في المسجد الکوفۃ ومعہ حذیفۃ بن الیمان وأبو موسیٰ الأشعري فخرج علیہم الولید ابن عقبۃ بن أبي معیط وہو أمیر الکوفۃ یومئذ فقال: إن غداً عیدکم فکیف أصنع؟ فقالا: أخبرہ یا أبا عبد الرحمن! فأمرہ عبد اللّٰہ بن مسعود أن یصلی بغیر أذان والإقامۃ الخ‘‘ (إبراہیم الحلبي، الحلبي کبیري، ’’فصل في صلاۃ العید‘‘: ص: ۴۹۰، دار الکتاب دیوبند)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی یوم العید بغیر أذان ولا إقامۃ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما جاء في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۹۱، رقم: ۱۲۷۴)
الأذان سنۃ للصلوات الخمس والجمعۃ لا سواہا للنقل المتواتر۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۸۶، دار الکتاب دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص157

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں نمازپوری ہوجانے کے بعد اتفاقاً دو چار آدمیوں کا صف سے الگ یا تھوڑا ہٹ کر تسبیح پڑھنے والوں کو منافق کہنا درست نہیں تسبیح کے دوران صف سے تھوڑا آگے پیچھے ہوجانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔(۱)

(۱)عن أنس بن مالک، قال: أخَّرَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الصلاۃ ذات لیلۃ إلی شطر اللیل، ثم خرج علینا، فلما صلی أقبل علینا بوجہہ، فقال: إن الناس قد صلوا ورقدوا، وإنکم لن تزالوا في صلاۃ ما انتظرتم الصلاۃ، (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب یستقبل الإمام الناس إذ سلّم‘‘: ج۱، ص: ۱۱۷، رقم: ۸۴۷: )
یستحب للإمام التحول لیمین القبلۃ یعني یسار المصلي لتنفل أو وردٍ۔ وخیرہ في المنیۃ بین تحویلہ یمینا وشمالا وأماما وخلفا وذہابہ لبیتہ، واستقبالہ الناس بوجہہ۔ (ابن عابدین،در المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب فیما لو زاد علی العدد في التسبیح عقب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۸)
و یستحب أن یستقبل بعدہ أي بعد التطوع وعقب الفرض إن لم یکن بعدہ نافلۃ یستقبل الناس إن شاء أن لم یکن في مقابلۃ مصل لما في الصحیحین کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا صلی أقبل علینا بوجہہ وإن شاء الإمام انحرف عن یسارہ وجعل القبلۃ عن یمینہ وإن شاء انحرف عن یمینہ وجعل القبلۃ عن یسارہ وہذا أولیٰ لما في مسلم: کنا إذا صلینا خلف رسول اللّٰہ أحببنا أن نکون عن یمینہ حتی یقبل علینا بوجہہ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الأذکار الواردۃ بعد الفرض‘‘: ص: ۱۱۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص426

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ظاہر روایت میں جمعہ کے بعد چار کعت ایک سلام کے ساتھ سنت مؤکدہ ہیں امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک چھ رکعت سنت مؤکدہ ہیں؛ اس لیے نماز جمعہ کے بعد چار رکعت ایک سلام سے سنت مؤکدہ کی نیت سے اور دو رکعت سنت مؤکدہ کی نیت سے الگ سے پڑھے اور صرف چار رکعت سنت مؤکدہ پڑھنے والے کو ملامت نہ کی جائے۔
’’وأربع قبل الجمعۃ وأربع بعد ہا وکذا ذکر الکرخي، وذکر الطحاوي عن أبي یوسف أنہ قال: یصلي بعدہا ستاً وقیل ہو مذہب علي رضي اللّٰہ عنہ وما ذکرنا أنہ کان یصلي أربعاً مذہب ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ‘‘(۱)

(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: الصلاۃ المسنونۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۵۔)
(و السنۃ قبل الجمعۃ أربع وبعدہا أربع) … (وعند أبي یوسفؒ) السنۃ بعد الجمعۃ (ست) رکعات وہو مروي عن علي رضي اللّٰہ عنہ و الأفضل أن یصلی أربعاً ثم رکعتین للخروج عن الخلاف۔ (إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملی، ’’فصل في النوافل‘‘: ج ، ص: ۳۳۷، دارالکتاب دیوبند)
وسنّ مؤکداً (أربع قبل الظہر و) أربع قبل (الجمعۃ) وأربع (بعدہا بتسلیمۃ)۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج۲، ص:۴۵۱، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص350

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1486/42-1250

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ صورت میں جبکہ امام صاحب بیٹھنے کے قریب تھے، ان پر سجدہ سہو لازم نہیں تھا، ان کو سجدہ سہو نہیں کرنا چاہئے تھا۔ تاہم اگر سجدہ سہو کرلیا تو   بھی صحیح قول کے مطابق نماز درست ہوگئی۔ تاہم سجدہ سہو  کا مذکورہ طریقہ درست نہیں ہے، سجدہ سہو کے لئے التحیات ضروری ہے، احناف کے یہاں سجدہ سہو ، التحیات دو سجدے اور سلام کے مجموعہ کا نام ہے۔

وإن قعد الأخير ثم قام عاد وسلم من غير إعادة التشهد. فإن سجد لم يبطل فرضه وضم إليها أخرى لتصير الزائدتان له نافلة وسجد للسهو. (نورالایضاح، باب سجود السھو 1/96) ثم في القيام إلى الخامسة إن كان قعد على الرابعة وينتظره المقتدي قاعدا، فإن سلم من غير إعادة التشهد سلم المقتدي معه (شامی باب الوتر والنوافل 2/12)

ولو ظن الإمام السهو فسجد له فتابعه فبان أن لا سهو فالأشبه الفساد لاقتدائه في موضع الانفراد. (شامی، باب الاستخلاف 1/599) ولو ظن الإمام أن عليه سهوا فسجد للسهو فتابعه المسبوق فيه ثم علم أنه لم يكن عليه سهو فأشهر الروايتين أن صلاة المسبوق تفسد؛ لأنه اقتدى في موضع الانفراد قال الفقيه أبو الليث: في زماننا لا تفسد. هكذا في الظهيرية. (الھندیۃ الفصل السابع فی المسبوق اللاحق 1/92)

وَمَنْ سَهَا عَنْ الْقَعْدَةِ الْأُولَى ثُمَّ تَذَكَّرَ وَهُوَ إلَى حَالَةِ الْقُعُودِ أَقْرَبُ عَادَ وَقَعَدَ وَتَشَهَّدَ لِأَنَّ مَا يَقْرُبُ مِنْ الشَّيْءِ يَأْخُذُ حُكْمَهُ، ثُمَّ قِيلَ يَسْجُدُ لِلسَّهْوِ لِلتَّأْخِيرِ. وَالْأَصَحُّ أَنَّهُ لَا يَسْجُدُ كَمَا إذَا لَمْ يَقُمْ وَلَوْ كَانَ إلَى الْقِيَامِ أَقْرَبَ لَمْ يَعُدْ لِأَنَّهُ كَالْقَائِمِ مَعْنًى،وَيَسْجُدُ لِلسَّهْوِ لِأَنَّهُ تَرَكَ الْوَاجِبَ. )مرغيناني، الهداية شرح البداية، 1: 75، المكتبة الاسلامية(

إذا ظن الإمام أنه عليه سهواً فسجد للسهو وتابعه المسبوق في ذلك ثم علم أن الامام لم يكن عليه سهو فيه روايتان ... وقال الإمام أبو حفص الكبير: لايفسد، والصدر الشهيد أخذ به في واقعاته، وإن لم يعلم الإمام أن ليس عليه سهو لم يفسد صلاة المسبوق عندهم جميعاً".(خلاصۃ الفتاوی 1/163، امجداکیڈمی)

ویجب سجدتان بتشھد و تسلیم – ھما واجبان بعد سجود السھو لان الاولین ارتفعا بالسجود (مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی، شیخ الھند دیوبند، ص 460)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  بعد نماز فجر دعاء دائماً بالجہر خلاف سنت نبوی ہے، خطبہ جمعہ عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں پڑھنا مکروہ ہے اور خطبہ کو اتنا لمبا کرنا جس سے لوگوں کو پریشانی ہو اور لوگوں کی ناراضگی کا سبب بنے تو اس میں دینی حرج ہے؛ اس لیے شرعاً درست نہیں ہے اور اگر مقتدی اس پر راضی ہوں، تو طویل خطبہ میں کوئی حرج نہیں اور خطبہ نکاح کا مذکورہ طریقہ بھی خلاف سنت ماثورہ ہے۔ نماز جنازہ کے بعد دعا اور فاتحہ منقول نہیں ہے اور گیارہویں، بارھویں میں شریک ہونااس لیے جائز نہیں کہ اس کا ثبوت نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے نہ صحابہ کرامؓ سے ہے نیز یہ بہت سے مفاسد کا ذریعہ ہے؛ لہٰذا مذکورہ امام کے اگر ایسے حالات ہوں تو وہ مشعل راہ نہیں ہیں امام کو چاہئے کہ شریعت کا پابند رہے حتی کہ تہمت کی جگہوں اور افعال سے بھی پرہیز کرے اور یہ شخص اگر اس طریقہ کو نہ چھوڑے تو امام بدل دیا جائے۔(۱)

(۱) وکرہ إمامۃ المبتدع، بارتکابہ ما أخذت علی خلاف الحق الملتقي عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من علم وعمل أو مال بنوع شبہۃ أو استحسان، وروی محمد عن أبي حنیفۃؒ وأبي یوسفؒ أن الصلاۃ خلف أہل الأہواء لاتجوز والصحیح أنہا تصح مع الکراہۃ خلف من لاتکفرہ بدعتہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص54

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر امام صاحب نے بلا شرعی ضرورت کے سود پر پیسے لے کر کاروبار شروع کیا ہے تو وہ کمائی حلال نہیں ہے، ان کا یہ عمل غلط ہے، اس کاروبار کو فورا ترک کردینا چاہئے اور توبہ کرنی چائیے، بعد توبہ کے امام صاحب کی امامت درست ہوگی، اور اس سے قبل ان کی امامت مکروہ ہے، نیز اگر تحقیقی طور پر یہ بات ثابت ہو کہ کل آمدنی یا غالب آمدنی حرام ہے تو ایسی صورت میں ان کی دعوت کھانا جائز نہیں ہے، لیکن اگر کوئی اور بھی کاروبار یا آمدنی ہے جو حلال طریقہ سے کمائی ہوئی ہے اس حلال پیسے سے دعوت کرے تو ایسی صورت میں دعوت قبول کرنے کی گنجائش ہے۔
’’ویکرہ إمامۃ عبد وفاسق وفاسق، من الفسق وھو الخروج عن الاستقامۃ۔ ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر‘‘(۱)
’’وأماالفاسق فقد عللوا کراھۃ تقدیمہ بأنہ لا یھتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیھم إھانتہ شرعا، ولا یخفی أنہ إذا کان أعلم من غیرہ لا تزول العلۃ، فإنہ لا یؤمن أن یصلي بھم بغیر طہارۃ فہو کالمبتدع تکرہ إمامتہ بکل حال‘‘(۱)
’’وکسبہ حرام فالمیراث حلال ثم رمز وقال لا ناخذ بھذہ الروایۃ وھو حرام مطلقا علی الورثۃ‘‘(۲)

(۱) (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸۔
(۱) أیضًا:ص: ۲۹۹۔
(۲) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ‘‘: ج۹، ص:۴۴۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص181

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2750/45-2750

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہاں یہ باب درست ہے کہ مقتدی کی اقتداء پہلے سلام کے بعد ختم ہو جاتی ہے، لہٰذا امام کے دوسرے سلام کی تکمیل سے پہلے مقتدی اپنا دوسرا سلام پھیر سکتا ہے تاہم بلا کسی عذر کے ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔

’’وتنقطع التحريمة بتسليمة واحدة ........ وتنقضى قدوة بالأول قبل عليكم بالمشهور قال في التنجيس الامام اذا فرغ من صلاته فلما قال السلام جاء رجل واقتدى به قبل أن يقول عليكم لا يصير داخلا في صلاته‘‘ (الدر المختار مع رد المحتار’’كتاب الصلاة‘‘: ج 2، ص: 126 اور 239)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں نماز درست ہوگئی اگر پہلی رکعت کے رکوع میں یا رکوع سے پہلے امام کے ساتھ شامل ہوگیا ہو اور اگر رکعت چھوٹ گئی اور اس نے امام کے بعد کھڑے ہوکر اس رکعت کو پورا کرلیا تب بھی نماز درست ہو جائے گی؛ لیکن ایسا درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) قطع العبادۃ الواجبۃ بعد الشروع فیہا بلا مسوغ شرعي غیر جائز باتفاق الفقہاء لأن قطعہا بلا مسوغ شرعي عبث یتنافی مع حرمۃ العبادۃ وورد النہي عن إفساد العبادۃ، قال تعالیٰ: ولا تبطلوا أعمالکم۔ أما قطعہا بمسوغ شرعي فمشروع فتقطع الصلوۃ لقتل حیۃ ونحوہا۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ: ج۳۴، ص:۵۰، ۵۱)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص5518