Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورتِ مسئولہ میں زید اگر دہلی سے دیوبند پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت سے چھٹیوں کے دوران آئے تو وہ شرعاً مسافر کہلائے گا اور اس مدت کے دوران وہ اپنی تنہا نماز میں قصر کرے گا۔
اور اگر وہ پندرہ دن یا زیادہ رہنے کی نیت کرے تو زید اس صورت میں پوری نماز پڑھے گا جب کہ سوال میں مذکور زید کپڑے سلوانے کی غرض سے چند دنوں کے لیے دیوبند آیا ہے اس لیے زید قصر نماز ہی ادا کرے گا اتمام نہیں کرے گا۔
’’مأخذ الفتوی ففي الہدایۃ: وھذ لأن الأصل أن الوطن الأصلي تبطل بمثلہ دون السفر ووطن الإقامۃ تبطل بمثلہ وبالسفر وبالأصلي۔ اہـ۔‘‘(۱)
’’وفي البحر الرائق: کوطن الإقامۃ یبقی ببقاء النقل وإن أقام بموضع أخر الخ‘‘(۲)
(۱) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃالمسافر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۷
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۹۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:372
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: شہر اتنا بڑا ہے کہ مشرقی اور مغربی جانب کا فاصلہ پچاس میل کا ہے لیکن یہ شہر شرعی طور پر ایک ہی جگہ کے حکم میں ہے، تو اس کے حدود میں رہتے ہوئے وہ شرعاًقصر نہیں کرے گا، البتہ اس شہر سے باہر اڑتالیس میل جانے کے ارادہ سے جب شہر کی آبادی سے نکل جائے، تب وہ مسافرِشرعی بنے گا، اس وقت وہ شخص قصر کرے گا ورنہ قصر نہیں کرے گا، بلکہ اتمام کرے گا۔
’’وفي اعلاء السنن: عن أبي ہریرۃ قال: سافرت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ومع أبی بکر وعمر کلہم صلی حین یخرج من مکۃ إلی المدینۃ إلی أن یرجع إلیہا رکعتین رکعتین في المسیر والمقام بمکۃ۔ اھـ۔
(کلہم صلی حین یخرج من مکۃ إلی المدینۃ) ففیہ دلالۃ ظاہرۃٌ علیٰ معنیٰ أن القصر ابتدأہ من حین یخرج المسافر من بلدہ والخروج من البلد إنما یتحقق بمفارقۃ بیوتہ وعمرانہ۔ اھـ۔(۱)
’’وفي المجموع: ذکرنا أن مذھبنا أنہ فارق بنیان البلد قصَرَ ولَا یقصر قبل مفارقتہا، وإن فارق منزلہ اھـ۔(۲)
(۱) ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن: ج ۸، ص: ۳۱۲۔
(۲) المجموع: ج ۴، ص: ۲۹۰، دار الکتب العلمیہ، بیروت۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:370
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب واللہ التوفیق: صورتِ مسئولہ میں ایسے ڈرائیور حضرات جو مستقل سفر میں رہتے ہیں اور ان کا قصد سواستتر کلومیٹر سے زائد کاہوتا ہے تو اپنے شہر کی حدود سے نکلنے کے بعد یہ لوگ مسافر کہلائیں گے اوردورانِ سفر قصر نماز ہی پڑھیں گے، گر چہ یہ ان کا ہمیشہ کا معمول ہو۔(۱)
(۱) ولا یزال علی حکم السفر حتی ینوی الإقامۃ في بلدۃ أو قریۃ خمسۃ عشر یوما أو کثر۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۶)من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ قاصداً مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا بالسیر الوسط مع الاستراحات المعتادۃ، صلی الفرض الرباعي رکعتین۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۹ تا ۶۰۳)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:370
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: قصر صرف فرض نما وںمیں ہے یعنی چار رکعت والی فرض نماز میں قصر ہے، باقی سنت ونوافل کا قصر نہیں ہے، البتہ سفر میں سنت کی ادائیگی کا تاکیدی حکم نہیں ہے حضرات فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر سفر میں حالت اطمنان کی ہو جلد بازی نہ ہو تو سنت بھی پڑھ لینی چاہیے، لیکن اگر سفر میں جلد بازی ہو تو سنت کو ترک کیا جاسکتاہے اس کے ترک پر کوئی حرج نہیں ہے۔
’’(ویأتي) المسافر (بالسنن) إن کان (في حال أمن وقرار وإلا) بأن کان في خوف وفرار (لا) یأتي بہا ہو المختار لأنہ ترک لعذر‘‘(۱)
’’إن الرواتب لا تبقی مؤکدۃ في السفر کالحضر، فینبغي مراعاۃ حال الرفقۃ في إتیانہا، فإن أثقل علیہم ترکہا أو أخرہا حتی یأتي بہا علی ظہر الراحلۃ‘‘(۲)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۳۔
(۲) ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ‘‘: ج ۸، ص: ۳۱۲، مکتبہ اشرفیہ دیوبند۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:369
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:فقہاء کرام نے وطن اصلی کی تعریف کی ہے کہ جہاں انسان کی جائے ولادت ہو یا جہاں شادی کرکے مستقل رہنے کی نیت کرلی ہو یا کسی جگہ مستقل رہنے کی نیت کرلی ہو۔ حضرات فقہاء نے یہ بھی لکھا ہے کہ وطن اصلی، وطن اصلی سے باطل ہوجاتاہے یعنی کسی دوسری جگہ کو وطن بنانے سے پہلا وطن باطل ہوجاتاہے، البتہ کوئی شخص دونوں جگہ مستقل رہنے کی نیت کرے کسی جگہ مستقل طورپر چھوڑنے کی نیت نہ کی ہو تو دونوں جگہ وطن اصلی ہوسکتاہے ایسی صورت میں دونوں جگہ وہ اتمام کرے گا۔ مذکورہ صورت میں اگر کسی نے دونوں جگہ پر رہنے کی نیت کی ہے اور کسی جگہ کو مستقل طورپر چھوڑا نہیں ہے تو دونوں جگہ وہ اتمام کرے گا۔
’’(الوطن الأصلي) ہو موطن ولادتہ أو تأہلہ أو توطنہ۔ قولہ: (أو توطنہ) أي عزم علی القرار فیہ وعدم الارتحال وإن لم یتأہل‘‘(۱)
’’وفي المجتبی: نقل القولین فیما إذا نقل أہلہ ومتاعہ وبقي لہ دور وعقار، ثم قال: وہذا جواب واقعۃ ابتلینا بہا وکثیر من المسلمین المتوطنین في البلاد، ولہم دور وعقار في القری البعیدۃ منہا یصیفون بہا بأہلہم ومتاعہم فلا بد من حفظہا أنہما وطنان لہ، لایبطل أحدہما بالآخر‘‘(۲)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۴۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۹۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:367
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:(۱) اگر پندرہ دن یا اس سے زیادہ ایک شہر میں رہنے کی نیت ہو خواہ وہ علاقہ شہر کا ہو یا دیہات کا، تو ایسی صورت میں جماعت مقیم ہوگی اور قصر کرنا جائز نہیں ہوگا اور اگر کسی ایک علاقے میں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہ ہو، ایک ہفتہ ایک علاقے میں رہنے کی نیت ہو اور دوسرے ہفتے کے بارے میں یقینی طور پر کوئی نیت نہ ہو، اُسی علاقے کی دوسری مسجد میں بھی جماعت کا قیام ہوسکتا ہو اور قریب کے کسی گاؤں یا بستی میں بھی جانے کا امکان ہو تو ایسی صورت میں جماعت قصر کرے گی، اقامت کے لیے ایک ہی بستی میں کم ازکم پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت ضروری ہے۔
’’وأما اتحاد المکان: فالشرط نیۃ مدۃ الإقامۃ في مکان واحد؛ لأن الإقامۃ قرار والانتقال یضادہ ولا بد من الانتقال في مکانین وإذا عرف ہذا فنقول: إذا نوی المسافر الإقامۃ خمسۃ عشر یوما في موضعین فإن کان مصرا واحدا أو قریۃ واحدۃ صار مقیما؛ لأنہما متحدان حکما، ألا یری أنہ لو خرج إلیہ مسافرا لم یقصر فقد وجد الشرط وہو نیۃ کمال مدۃ الإقامۃ في مکان واحد فصار مقیما وإن کانا مصرین نحو مکۃ ومنی أو الکوفۃ والحیرۃ أو قریتین، أو أحدہما مصر والآخر قریۃ لا یصیر مقیما؛ لأنہما مکانان متباینان حقیقۃ وحکما‘‘(۱)
(۲) جماعت میں جو لوگ جاتے ہیں وہ خود مختار نہیں ہوتے ہیں؛ بلکہ انہیں جہاں جانے اور جتنے دن رہنے کی ہدایت دی جاتی ہے اتنے ہی دن وہ وہاں رہتے ہیں اس لیے جماعت کا مقیم یا مسافر ہونا علاقائی مرکز کے تابع ہوگا۔
(۳) جماعت کا اصول یہ ہے کہ جب کوئی جماعت کسی شہر میں پہونچتی ہے تو مقامی تبلیغی مرکز کے ہفتہ واری مشورہ میں اس کا رخ طے کیا جاتا ہے، جس کی پابندی کرنا جماعت پر لازم ہوتا ہے اس لیے جب کوئی جماعت کسی شہر میں پہنچے گی تو امیر جماعت یا جماعت میں شامل کسی فرد کی نیت اقامت کا اعتبار نہ ہوگا کیوں کہ شہر میں پندرہ دن ٹھہرنے یا نہ ٹھہرنے کے بارے میں وہ خود مختار نہیں ہیں؛ بلکہ مقامی مشورہ کے تابع ہیں، اب اگر بالفرض ہفتہ واری مشورہ میں یہ بات طے ہو جائے کہ یہ جماعت پندرہ دن تک ایک ہی شہر میں رہے گی، البتہ شہر کی مسجدیں اور محلے بدلتے رہیںگے، تو یہ جماعت مقیم ہو جائے گی، اور اگر مشورہ میں صرف یہ طے ہو اکہ اس ہفتہ میں یہ جماعت فلاں جگہ رہے گی لیکن اگلے ہفتہ کے بارے میں ابھی کچھ طے نہیں ہوا، بلکہ اگلے مشورہ میں طے ہوگا کہ یہ جماعت شہر میں رہے، یا باہر اطراف میں بھیجا جائے تو یہ جماعت مقیم نہ ہوگی بلکہ مسافر ہی رہے گی معلوم ہوا کہ مرکز نظام الدین کے مشورہ کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ نوح مرکز کے مشورہ کا اعتبار ہوگا۔(۲)
’’قولہ: (الاستقلال بالحکم) أي الإنفراد بحکم نفسہ بحیث لایکون تابعًا لغیرہ (۲) ویشترط لصحۃ نیۃ السفر ثلاثۃ أشیاء: الاستقلال بالحکم۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ص: ۱۶۲)
في حکمہ‘‘(۱)
’’(وقصر إن نوی أقل منہ) أي من نصف شہر (أو لم ینو) شیئًا (وبقي) علی ذلک (سنین)، وہو ینوي الخروج في غد أو بعد جمعۃ‘‘(۲)
(۴ سے ۶) جماعت کے ساتھی ایک جگہ کے ہوں یا الگ الگ جگہ کے ہوں اس سے مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ دیکھا جائے گا کہ علاقائی مرکز کے مشورہ کے اعتبار سے ان کا ایک جگہ پندرہ دن کا قیام ہورہا ہے یا نہیں اس اعتبار سے مقیم یا مسافر ہونے کا حکم لگے گا مثلا اگر سب لوگ ایک ہی جگہ کے ہوں لیکن کسی کا وقت پہلے ختم ہورہا ہے اور کسی کا بعد میں ختم ہورہا ہے تو اب جن کا وقت ایک جگہ میں پندرہ دن کا ہے ان کو اتمام کرنا ہوگا، اسی طرح مختلف علاقوں کے لوگ ایک ساتھ مل کر جماعت میں کام کررہے ہیں ان میں جن کا ایک جگہ پندرہ دن قیام رہے گا وہ مقیم ہوں گے اور جن کا پندرہ دن قیام نہیں ہوگا وہ مسافر ہوں گے۔
(۱) الکاسانی، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل: في بیان ما یصیر المسافر بہ مقیما‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۰۔
(۲) ویشترط لصحۃ نیۃ السفر ثلاثۃ أشیاء: الاستقلال بالحکم۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ص: ۱۶۲)(۱) أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ص:۴۲۴۔(۲) أیضاً: ص: ۴۲۶۔فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:365
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مقیم مقتدی اس صورت میں کھڑے ہوکر اول دو رکعت اس طرح پڑھے جیسے کہ امام کے پیچھے پڑھتا ہے اور بعد کی دو رکعت مسبوق کی طرح بھری ہوئی پڑھے گا۔(۱)
(۱) قولہ: (بعد اقتدائہ) متعلق بقولہ فاتتہ ثم إن کان اقتدائہ في أول الصلاۃ فقد یفوتہ کلہا بأن نام عقب اقتدائہ إلی آخرہا وقد یفوتہ بعضہا وإن کان اقتداؤہ في الرکعۃ الثانیۃ مثلاً فقد فاتہ بعضہا ویکون لاحقا مسبوقاً والأول لا حق فقط، قولہ (ومقیم) … أي فہو لا حق بالنظر للأخیر تین وقد یکون مسبوقاً أیضاً کما إذا فاتتہ أول صلاۃ إمامہ المسافر۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: فیما لو أتی بالرکوع والسجود أوبہما مع الإمام قبلہ أو بعدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۴)قولہ: (ومقیم الخ) أي فہو لاحق بالنظر للأخیرتین وقد یکون مسبوقاً أیضاً کما إذا فاتتہ أول صلاۃ إمامہ المسافر وحکمہ کمؤتم فلا یأتي بقراء ۃ … ویبدأ بقضاء ما فاتہ عکس المسبوق، قولہ: (ما سبق بہ بہا) … أي ثم صلی اللاحق ما سبق بہ بقراء ۃ إن کان مسبوقاً أیضاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب: فیما لو أتی بالرکوع والسجود أو بہما مع الإمام أو قبلہ أو بعدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۴تا ۳۴۶)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:364
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ صورت میں اگر آپ کو حالت سفر میں فرض نماز کی ادائیگی کرنی ہو تو اس سلسلے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ تندرست شخص کے لئے نماز کی حالت میں قیام کرنا فرض ہے، اگر آپ بیٹھ کر سواری میں نماز اداء کریں گے تو آپ کی نماز درست نہیں ہوگی؛ نیز موجودہ دور کی بڑی سواری مثلاً: ریل گاڑیوں میں قبلہ رو ہوکر نماز اداء کرنے میں اور قیام کرنے میں کوئی دقت اور پریشانی عام طور پر نہیں ہوتی ہے؛ اس لیے ان جگہوں پر تو نماز درست ہو جائے گی؛ البتہ بس، کار اور بائک وغیرہ میں سفر کے دوران اگر ممکن ہو تو نماز کے وقت روک کر کے نماز اداء کرلیں ورنہ بعد میں اداء کریں، ایسے ہی ہوائی جہاز وغیرہ میں نماز پڑھنے کا حکم یہ ہے کہ سفر کے بعد نماز ادا کرلی جائے ؛کیوں کہ فرض نماز کی ادائیگی کے لیے قیام ضروری ہے، اگر تندرست آدمی بیٹھے بیٹھے نماز پڑھے، تو نماز درست نہ ہوگی، اور ہوائی جہاز میں قیام ایسے ہی قبلہ کی طرف رخ اور سجدہ وغیرہ کرنا عام طور پر ممکن نہیں ہے؛ اس لیے سفر کے بعد فرض اور وتر کی قضاء کریں۔
خلاصہ: مذکورہ صورتوں کے مطابق اگر نماز ادا نہ کی جاسکتی ہو (مثلاً: قیام ہی ممکن نہ ہو، یا قیام تو ممکن ہو لیکن قبلہ رخ نہ ہوسکے، یا سجدہ نہ کیا جاسکتاہو، یا کار اور بس کا ڈرائیور بس نہ روکے اور ہوائی جہاز پرواز کر رہا ہو) ادھر نماز کا وقت نکل رہا ہو تو آپ فی الحال ’’تشبہ بالمصلین‘‘ (نمازیوں کی مشابہت اختیار) کرتے ہوئے نماز پڑھ لیں اور جب آپ گاڑی سے اتر جائیں اس کے بعد آپ پر فرض نماز اور وتر کی قضا لازم ہوگی، جیسا کہ فقہ کی کتابوں میں تفصیل سے ذکر ہوا ہے۔
ابن نجیم نے بحر الرائق میں لکھا ہے:
’’وفي الخلاصۃ: وفتاوی قاضیخان وغیرہما: الأسیر في ید العدو إذا منعہ الکافر عن الوضوء والصلاۃ یتیمم ویصلي بالإیماء، ثم یعید إذا خرج … فعلم منہ أن العذر إن کان من قبل اللّٰہ تعالٰی لاتجب الإعادۃ، وإن کان من قبل العبد وجبت الإعادۃ‘‘(۱)
’’(من فرائضہا) … (ومنہا القیام) (في فرض) (لقادر علیہ)، في الشامیۃ تحتہ، قولہ: (القادر علیہ) فلو عجز حقیقۃ وہو ظاہر أو حکما کما لو حصل لہ بہ ألم شدید أوخاف زیادۃ المرض وکالمسائل الآتیۃ الخ‘‘(۲)
’’وفیہ أیضاً: وکذا لو اجتمعوا في مکان ضیق لیس فیہ إلا موضع یسع أن یصلی قائما فقط یصبر ویصلي قائماً بعد الوقت کعاجز عن القیام والوضوء في الوقت ویغلب علی ظنہ القدرۃ بعدہ الخ‘‘(۳)
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۸۔
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، بحث القیام‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۷، ۱۳۲۔
(۳) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم، سنن التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۶۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:362
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: قصر واتمام کے سلسلہ میں آخر وقت کا اعتبار ہوگا۔ اگر آخر وقت میں سفر شروع کیا تو قصر کرے گا، اور اگر آخر وقت میں مقیم ہوگیا تو اتمام کرے گا؛ اس لیے اگر کوئی مغرب سے قبل اپنے گھر پہونچ گیا اور عصر کا وقت موجود تھا مگر اس نے نماز نہیں پڑھی توچار رکعت قضا میں پڑھے گا۔ اسی طرح اگر کسی نے مغرب سے دس منٹ قبل سفر شروع کیا اور فناء شہر سے نکل گیا تو وہ دو رکعت یعنی قصر پڑھے گا، اور اگر قضا ہوگئی تو دو رکعت قضا کرے گا۔
’’(والمعتبر في تغییر الفرض آخر الوقت) وہو قدر ما یسع التحریمۃ (فإن کان) المکلف (في آخرہ مسافراً وجب رکعتان وإلا فأربع)؛ لأنہ المعتبر في السببیۃ عند عدم الأداء قبلہ۔ (قولہ: والمعتبر في تغییر الفرض) أي من قصر إلی إتمام وبالعکس۔ (قولہ: وہو) أي آخر الوقت قدر ما یسع التحریمۃ، کذا في الشرنبلالیۃ والبحر والنہر، والذي في شرح المنیۃ تفسیرہ بما لا یبقی منہ قدر ما یسع التحریمۃ، وعند زفر بما لا یسع فیہ أداء الصلاۃ، (قولہ: وجب رکعتان) أي وإن کان في أولہ مقیماً وقولہ: وإلا فأربع أي وإن لم یکن في آخرہ مسافراً بأن کان مقیماً في آخرہ فالواجب أربع‘‘(۱)
’’قال رحمہ اللّٰہ: (والمعتبر فیہ آخر الوقت) أي المعتبر في وجوب الأربع أو الرکعتین آخر الوقت، فإن کان آخر الوقت مسافراً وجب علیہ رکعتان، وإن کان مقیماً وجب علیہ الأربع؛ لأنہ المعتبر في السببیۃ عند عدم الأداء في أول الوقت‘‘(۱)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۳، ۶۱۴۔(۱) فخر الدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۵، دار الکتب العلمیۃ، بیروت۔فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:361
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس جگہ قیام کا ارادہ کر رکھا ہے اور سامان تجارت رکھا ہوا ہے اگر وہاں پر پندرہ یوم ٹھہرنے اور قرب جوار میں پھرتے پھرتے تجارت کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے تو پوری نماز پڑھے اور پندرہ دن قیام کا ارادہ نہ ہو تو قصر کرے گا۔(۱)
(۱) من خرج من عمارۃ موضع إقامۃ … مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیہا من أقصر أیام السنۃ … الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المسافر‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۹، ۶۰۱)ولا بد للمسافر من قصد مسافۃ مقدرۃ بثلاثۃ أیام حتی یترخص برخصۃ المسافرین … الخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس عشر: في صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۹)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص:360