نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2934/45-4515 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بہتر یہ ہے کہ لوگ اپنی اپنی جائے نماز عید گاہ لیکر جائیں، لیکن اگر مسجد کی چٹائی عیدگاہ میں استعمال کرنے کی ضرورت ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2870/45-4584 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قراءت میں ایسی تبدیلی جس میں عربی زبان میں غیرعربی زبان کا لفظ شامل کردیاجائے پھر اگر اس کی نماز ہی میں تصحیح بھی کردی جائے تب بھی نماز فاسد ہوجاتی ہے، اس لئے صورت مسئولہ میں نماز فاسد ہوگئی، اور اعادہ لازم ہے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2877/45-4563 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تراویح کی نماز سنت ہے ، اور عشاء کی نماز فرض ہے، امام کے پیچھے اقتداء کے لئے ضروری ہے کہ امام کی نماز مقتدی کی نماز سے اعلی ہو، اعلی کے پیچھے ادنی کی نماز ہوجاتی ہے لیکن ادنی کے پیچھے اعلی کی نماز درست نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ سنت اور فرض میں سے فرض اعلی ہے اور سنت ادنی ہے، اس لئے سنت پڑھنے والے کے پیچھے فرض پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوگی۔ لہذا اگر کبھی آپ کی عشاء کی جماعت فوت ہوجائے تو پہلے انفرادی طور پر عشاء کی نماز پڑھ لیں پھر امام کے ساتھ تراویح میں شامل ہوجائیں۔ اور تراویح کی جو رکعتیں رہ جائیں ان کو وتر سے پہلے یا وتر کے بعد بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اگر وتر شروع ہوجائے تو بہتر ہے کہ امام کے ساتھ وتر پڑھ لے پھر تراویح کی باقی رکعتیں پڑھے۔ "ولا مفترض بمتنفل وبمفترض فرض آخر؛ لأن اتحاد الصلاتین شرط عندنا، وصح أن معاذاً کان یصلي مع النبي صلی اللہ علیہ وسلم نفلاً وبقومہ فرضاً .... الخ " (الدر المختار: باب الإمامة، 324/2- 325، ط: زکریا) الدر المختار: (باب الوتر و النوافل، 43/2، ط: سعید) ووقتہا بعد صلاۃ العشاء إلی الفجر قبل الوتر وبعدہ في الأصح، فلو فاتہ بعضہا وقام الإمام إلی الوتر أوتر معہ، ثم صلی ما فاتہ۔ (بدائع الصنائع: فصل فی مقدار التراویح، 288/1، ط: سعید) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2859/45-4502 الجواب بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امام خاموشی سے قراءت کررہاہے ، اب اگر مائک میں تھوڑی سی آواز آجائے تو اس پر جہری قراءت کا حکم نہیں لگے گا۔اور ایسی صورت میں اما م پر سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2852/45-4494 الجواب بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ساہیوال سے آپ کی منزل مقصود نورپورتھل کی مسافت دیکھی جائے گی، اور یہ مسافت یقینا مسافت سفر ہے، اس لئے آپ قصر کریں گے۔ منزل مقصود کے لئے جو راستہ آپ نے اختیار کیا ہے اس کے اعتبار سے سفر کی مسافت پوری ہوجاتی ہے اس لئے آپ مسافر ہوں گے اور نماز قصر کریں گے۔ "ولو لموضع طريقان: أحدهما مدة السفر والآخر أقل قصر في الأول لا الثاني. (قوله: قصر في الأول) أي ولو كان اختار السلوك فيه بلا غرض صحيح، خلافاً للشافعي، كما في البدائع". (لدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 123) "وتعتبر المدة من أي طريق أخذ فيه، كذا في البحر الرائق. فإذا قصد بلدةً وإلى مقصده طريقان: أحدهما مسيرة ثلاثة أيام ولياليها، والآخر دونها، فسلك الطريق الأبعد كان مسافراً عندنا، هكذا في فتاوى قاضي خان. وإن سلك الأقصر يتم، كذا في البحر الرائق". (الفتاوى الهندية (1/ 138) "وقال أبو حنيفة: إذا خرج إلى مصر في ثلاثة أيام وأمكنه أن يصل إليه من طريق آخر في يوم واحد قصر" (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 94) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1757/43-1479

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تکبیر تحریمہ امام و مقتدی سب پر ہرحال میں فرض ہے، اس لئے مقتدی جس وقت جماعت میں شریک ہو، تکبیر تحریمہ کھڑے ہوکر کہے پھر امام جس رکن میں ہو اس میں شریک ہوجائے۔ جس کو تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع مل گیا اس کو رکعت مل گئی اور جس کو تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد رکوع میں امام کے ساتھ شرکت نہیں مل سکی اس کی وہ رکعت فوت ہوگئی۔ بہرحال تکبیر تحریمہ کہہ کر ہی رکوع وسجدہ میں جانا ضروری ہے ورنہ نماز نہیں ہوگی۔   

(من فرائضها) التي لا تصح بدونها (التحريمة) قائما (وهي شرط) قال الشامی: (قوله من فرائضها) جمع فريضة أعم من الركن الداخل الماهية والشرط الخارج عنها، فيصدق على التحريمة والقعدة الأخيرة والخروج بصنعه على ما سيأتي، وكثيرا ما يطلقون الفرض على ما يقابل الركن كالتحريمة والقعدة، وقدمنا في أوائل كتاب الطهارة عن شرح المنية أنه قد يطلق الفرض على ما ليس بركن ولا شرط كترتيب القيام والركوع والسجود والقعدة، وأشار بمن التبعيضية إلى أن لها فرائض أخر كما سيأتي في قول الشارح وبقي من الفروض إلخ أفاده ح (قوله التي لا تصح بدونها) صفة كاشفة إذ لا شيء من الفروض ما تصح الصلاة بدونه بلا عذر (شامی 1/442)

(الفصل الأول في فرائض الصلاة) وهي ست: (منها التحريمة) وهي شرط عندنا حتى أن من يحرم للفرائض كان له أن يؤدي التطوع هكذا في الهداية ولكنه يكره لترك التحلل عن الفرض بالوجه المشروع وأما بناء الفرض على تحريمة فرض آخر فلا يجوز إجماعا وكذا بناء الفرض على تحريمة النفل كذا في السراج الوهاج ۔ ۔ ۔  الی قولہ: ۔ ۔ ۔ ولا يصير شارعا بالتكبير إلا في حالة القيام أو فيما هو أقرب إليه من الركوع. هكذا في الزاهدي حتى لو كبر قاعدا ثم قام لا يصير شارعا في الصلاة ويجوز افتتاح التطوع قاعدا مع القدرة على القيام. كذا في محيط السرخسي. (الھندیۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاة 1/68)

(قوله فوقف) وكذا لو لم يقف بل انحط فرفع الإمام قبل ركوعه لا يصير مدركا لهذه الركعة مع الإمام فتح. ويوجد في بعض النسخ: فوقف بلا عذر أي بأن أمكنه الركوع فوقف ولم يركع، وذلك لأن المسألة فيها خلاف زفر؛ فعنده إذا أمكنه الركوع فلم يركع أدرك الركعة لأنه أدرك الإمام فيما له حكم القيام. (قوله لأن المشاركة) أي أن الاقتداء متابعة على وجه المشاركة ولم يتحقق من هذا مشاركة لا في حقيقة القيام ولا في الركوع فلم يدرك معه الركعة إذ لم يتحقق منه مسمى الاقتداء بعد، (شامی، باب ادراک الفریضۃ 2/60)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کسی شخص کو قرض دیتے وقت کوئی چیز رہن رکھ دی جائے، تو شرعاً درست ہے؛ لیکن سود یا شبہ سود کی صورت نہ ہو۔شرائط رہن کی پابندی ضروری ہے جو شخص ایسا کرے اس کی امامت شرعاً درست ہے۔(۱)

(۱) الودیعۃ أمانۃ في ید المودع إذا ہلکت لم یضمنہا، لقولہ علیہ السلام: لیس علی المستعیر غیر المغل ضمان ولا علی المستودع غیر المغل ضمان ولأن بالناس حاجۃ إلی الاستیداع فلو ضمناہ یمتنع الناس عن قبول الودائع فیتعطل مصالحہم۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الودیعۃ‘‘:ج۳، ص: ۲۷۳، دارالکتاب دیوبند)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص53

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: ٹخنوں سے نیچے شلوار یا جبہ لٹکانا ناجائز اور حرام ہے اور یہ صریح حدیث سے ثابت ہے اور جان بوجھ کر ٹخنے سے نیچے لٹکانے والا گنہگار اور فاسق ہے اور نماز میں شلوار ٹخنے سے نیچے پہننا اور بھی برا ہے؛ اس لیے اس کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔ بخاری شریف میں ہے:
’’ما أسفل من الکعبین من الإزار في النار‘‘ یعنی جو شخص اپنا کپڑا ٹخنے سے نیچے لٹکائے گا وہ جہنم میں جائے گا۔(۱)
ایک حدیث میں ہے کہ جو آدمی ازار لٹکاکر نماز پڑھے گا اس کی نماز قبول نہ ہوگی۔
’’عن أبي ہریرۃ: بینما رجل یصلي مسبلا إزارہ إذ قال لہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذہب فتوضأ فذہب فتوضأ ثم جاء ثم قال: إذہب فتوضأ ثم جاء، فقال لہ رجل یا رسول اللّٰہ! ما لک أمرتہ أن یتوضا؟ فقال: إنہ کان یصلي وہو مسبل إزارہ وإن اللّٰہ جل ذکرہ لا یقبل صلاۃ مسبل إزارہ‘‘(۲)
’’ولایجوز الإسبال تحت الکعبین إن کان للخیلاء، وقد نص الشافعي علی أن التحریم مخصوص بالخیلاء؛ لدلالۃ ظواہر الأحادیث علیہا، فإن کان للخیلاء فہو ممنوع منع تحریم، وإلا فمنع تنزیہ‘‘(۳)
’’کرہ إمامۃ ’’الفاسق‘‘ العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعا فلا یعظم بتقدیمہ للإمامۃ‘‘(۱)

(۱) أخرج البخاري في صحیحہ، ’’کتاب اللباس، باب ما أسفل من الکعبین ففی النار‘‘: ج ۳، ص: ۴۸، رقم:۵۷۸۷۔
(۲) أخرجہ أبوداود في سننہ، ’’کتاب اللباس، باب الإسبال في الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۵، رقم: ۴۰۸۶۔
(۳) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۷۔
(۱) ملا علي قاري، مرقاۃ المفا تیح، ’’کتاب اللباس، الفصل الأول‘‘: ج ۸، ص: ۱۹۸، رقم: ۴۳۱۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص179

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ عذر کی وجہ سے مسجد کی چھت پر جماعت کر سکتے ہیں، بلا عذر ایسا کرنا مکروہ ہے۔(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الخامس في آداب المسجد‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۲، زکریا دیوبند)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص516

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں بھی جمعہ کی اذان کے سلسلہ میں معمول یہ تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جمعہ کے لیے تشریف لاتے اور منبر پر بیٹھتے تو اذان کہی جاتی تھی۔ زمانہ رسالت کے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی یہی معمول رہا۔
جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے اور انہوں نے دیکھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے
زمانہ میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی اور جو تھے وہ بھی مسجد کے قریب سکونت پذیر تھے؛ بلکہ بیشتر مسلمان تو ہمہ وقت بارگاہ نبوت کے حاضر باش ہی تھے اور اب صرف مسلمانوں کی تعداد ہی نہیں بڑھی تھی؛ بلکہ بہت سے لوگ تو مسجد سے دور دراز علاقوں میں رہتے بھی تھے اور کاروبار بھی کرتے تھے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مناسب سمجھا کہ جب نماز جمعہ کا وقت ہوجائے تو اذان کہی جائے تاکہ دور دراز کے مسلمان بھی خطبہ میں آجایا کریں۔ اسی وقت سے اذان اول بھی کہی جانے لگی یہ چوں کہ خلیفہ ثالث کا عمل ہے اور تمام موجود صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے اس لیے یہ بھی سنت ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے۔
’’عن السائب بن یزید قال: النداء یوم الجمعۃ أوّلہ إذا جلس الإمام علی المنبر علی عہد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأبي بکر وعمر رضي اللّٰہ عنہما فلما کان عثمان رضي اللّٰہ عنہ وکثر الناس زاد النداء الثالث علی الزوراء، قال أبو عبد اللّٰہ: الزوراء موضع بالسوق بالمدینۃ‘‘(۱)
 حدیث میں تیسری اذان سے مراد پہلی اذان ہے کیوں کہ پہلی اذان خطیب کے منبر پر بیٹھنے کے وقت ہوتی تھی اور دوسری تکبیر۔ اور تیسری اس کو کہا گیا ہے جو ہمارے زمانہ میں پہلی ہے۔
جمعہ کی دوسری اذان چوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی منبر کے سامنے دی جاتی تھی؛ اس لیے مسنون یہی ہے کہ دوسری اذان منبر کے سامنے دی جائے؛ لیکن اگر کبھی کبھار کسی وجہ سے تخلف ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ، باب الأذان یوم الجمعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۴، رقم: ۹۱۲۔
وکذا الجلوس علی المنبر قبل الشروع في الخطبۃ والأذان بین یدیہ جری بہ التوارث۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ:  باب الجمعۃ‘‘ ص: ۵۱۵، شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص156