نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: خارج از نماز کا لقمہ امام کو نہ لینا چاہئے اور جب کہ امام کو معلوم بھی ہو، تو اگر ایسے شخص کا لقمہ لے لیا تو امام اور مقتدیوں سبھی کی نماز فاسد ہو جائے گی اور نماز کا لوٹانا ضروری ہوگا۔(۱)

(۱) وإن فتح غیر المصلي علی المصلي فأخذ بفتحہ تفسد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الأول فیما یفسدہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۷)ولو سمعہ المؤتم ممن لیس في الصلاۃ ففتح بہ علی إمامہ یجب أن تبطل صلاۃ الکل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب: المواضع التي لا یجب فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۲)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 33

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: تراویح کی نماز سنت مؤکدہ ہے، سفر میں اگر موقع ہو تو پڑھ لینا بہتر ہے اور اگر موقع نہ ہو تو چھوڑ دینا بھی جائز ہے، اور سفر کی وجہ سے اگر نماز چھوٹ گئی تو پھر سنتوں کی قضا کی ضرورت نہیں۔(۱)

(۱)  وبعضہم جوزوا للمسافر ترک السنن والمختار أنہ لا یأتي بہا في حال الخوف ویأتي بہا في حال القرار والأمن، ہکذا فيالوجیز الکردي۔ (جماعۃ من علماء الہند،الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس عشر: في صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۹)وقال الہندواني: الفعل حال النزول والترک وحال المیسر وفي التنجیس، والمختار أنہ إن کان حال أمن وقرار یأتي بہا، لأنہا شرعت مکملات والمسافر إلیہ محتاج۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۰، دار الکتاب، دیوبند)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 32

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: دوبارہ جماعت خواہ وہ کسی بھی نماز کی ہو اس مسجد میں نہ کریں کیوں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سب تراویح پڑھنے والوں کو (جو الگ الگ مسجد میں تراویح پڑھتے تھے) ایک امام کے پیچھے جمع کیا تھا۔ اس لیے مذکورہ عمل سنت طریقہ کے خلاف ہے۔ ہاں مسجدسے ہٹ کر اگر جماعت کریں تو کوئی حرج نہیں ہے۔(۲)

(۲) لو صلی التراویح مرتین في مسجد واحد یکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۶)ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۸)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 31

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: تراویح میں پورا قرآن کریم سننا اور سنانا سنت ہے۔ اور یہ شعائر اسلام میں سے ہے۔ حتی الامکان مساجد میں قرآن پاک سننے سنانے کا اہتمام کرنا چاہئے خلاف ورزی درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) قولہ: التراویح سنۃ بإجماع الصحابۃ ومن بعدہم من الأمۃ منکرہا مبتدع ضال مردود الشہادۃ کما في المضمرات۔ (أحمد بن إسماعیل، طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۴۱۱)(ذکر لفظ الاستحباب والأصح أنہا سنۃ) یعني في حق الرجال والنساء، وفیہ نظر؛ لأنہ قال: یستحب أن یجتمع الناس، وہذا یدل علی أن اجتماع الناس مستحب، ولیس فیہ دلالۃ علی أن التراویح مستحبۃ، وإلی ہذا ذہب بعضہم فقال: التراویح سنۃ والاجتماع مستحب، وقولہ: (لأنہ واظب علیہا الخلفاء الراشدون) إنما یدل علی سنیتہا لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علیکم بسنتي وسنۃ الخلفاء الراشدین من بعدي۔ (بدر الدین العیني، العنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب النوافل، فصل في قیام شہر رمضان‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۱، دار الکتب العلمیۃ، بروت)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7 ص: 30

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: دونوں کا وقت ایک ہی ہے، تراویح نماز عشاء کے بعد ہے، تراویح چھوٹ جانے کی صورت میں طلوع صبح صادق سے پہلے پہلے تک اس کو ادا کرسکتا ہے۔ اس کے بعد اس کی قضاء لازم نہیں۔(۱)

(۱) الأفضل إلی ثلث اللیل أو إلی النصف اعتباراً بالعشاء، ولو أخرہا إلی ماوراء النصف، اختلف فیہ: قال بعضہم: یکرہ استدلالا بالعشاء؛ لأنہ تبع لہا، والصحیح أنہ لایکرہ۔ (السرخسي، المبسوط، ’’کتاب الصلاۃ: فصل وقت صلاۃ التراویح المستحب‘‘: ج ۲، ص: ۲۰۱، دار الکتب العلمیۃ، بروت)ووقتہا ما بعد صلاۃ العشاء علی الصحیح إلی طلوع الفجر ولتبعیتہا للعشاء۔ (أحمد بن إسماعیل، طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۴۱۳، دار الکتاب، دیوبند)فتاوي دار العلوم وقف ديوبند: ج 7 ص: 30

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جان بوجھ کر تراویح ترک کرنا سنت مؤکدہ کو ترک کرنا ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کے غضب کا اندیشہ ہے اور ایسا شخص گناہگار ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترک کا مقصد کچھ اور تھا اور اس شخص کا ترک کرنا سستی اور کاہلی ہے اور مزید یہ کہ اس لاأبالی پن کے لیے خوامخواہ دلیل بھی پکڑنا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترک کے مقصد کو کسی عالم سے سمجھ لیا جائے اور تراویح ضرور پڑھا کریں خوامخواہ گناہوں کی گٹھری نہ باندھیں۔(۱)

(۱) التراویح سنۃ مؤکدۃ لمواظبۃ الخلفاء الراشدین للرجال والنساء إجماعا ووقتہا بعد صلاۃ العشاء إلی الفجر۔ وقال الشامي: سنۃ مؤکدۃ، صححہ في الہدایۃ وغیرہا، وہو المروي عن أبي حنیفۃ … وفي شرح منیۃ المصلي: وحکی غیر واحد الإجماع علی سنیتہا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص : ۴۹۳)الجماعۃ فیہا سنۃ علی الکفایۃ في الأصح، فلو ترکہا أہل مسجد أثموا إلا لو ترک بعضہم۔ قولہ: والجماعۃ فیہا سنۃ علی الکفایۃ إلخ۔ أفاد أن أصل التراویح سنۃ عین، فلو ترکہا واحد کرہ، بخلاف صلاتہا بالجماعۃ فإنہا سنۃ کفایۃ فلو ترکہا الکل أساؤوا؛ أما لو تخلف عنہا رجل من أفراد الناس وصلی في بیتہ فقد ترک الفضیلۃ، وإن صلی أحد في البیت بالجماعۃ لم ینالوا فضل جماعۃ المسجد، وہکذا في المکتوبات، کما في المنیۃ، وہل المراد أنہا سنۃ کفایۃ لأہل کل مسجد من البلدۃ أو مسجد واحد منہا أو من المحلۃ؟ ظاہر کلام الشارح الأول؛ واستظہر الثاني؛ ویظہر لي الثالث، لقول المنیۃ: حتی لو ترک أہل محلۃ کلہم الجماعۃ فقد ترکوا السنۃ وأساؤوا۔ اھـ۔ (أیضاً: ص: ۴۹۵)فَصلٌ: وأما سننہا فمنہا الجماعۃ والمسجد؛ لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قدرما صلی من التراویح صلی بجماعۃ في المسجد، فکذا الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم۔ صلوہا بجماعۃ في المسجد فکان أداؤہا بالجماعۃ في المسجدسنۃ، ثم اختلف المشایخ في کیفیۃ سنۃ الجماعۃ، والمسجد، أنہا سنۃ عین أم سنۃ کفایۃ؟ قال بعضہم: إنہا سنۃ علی سبیل الکفایۃ إذا قام بہا بعض أہل المسجد في المسجد بجماعۃ سقط عن الباقین۔ ولو ترک أہل المسجد کلہم إقامتہا في المسجد بجماعۃ فقد أسائوا وأثموا، ومن صلاہا في بیتہ وحدہ، أو بجماعۃ لایکون لہ ثواب سنۃ التراویح لترکہ ثواب سنۃ الجماعۃ والمسجد۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: صلاۃ التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۶۴۵)عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی بالناس عشرین رکعۃ لیلتین، فلما کان في اللیلۃ الثالثۃ اجتمع الناس فلم یخرج إلیہم، ثم قال من الغد: خشیت أن تفرض علیکم فلا تطیقوہا۔ (التلخیص الحبیر في تخریج أحادیث الرافعي الکبیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ التطوع‘‘: ج ۲، ص: ۲۱، رقم: ۵۴۰، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)فتاوي دار العلوم وقف ديوبند ج 7 ص 29

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مرد اپنی بیوی یا دیگر محرم عورتوں کی تراویح میں امامت کر سکتا ہے اور عورتیں پیچھے کھڑی ہوں۔(۱)

(۱) عن عبد الرحمن بْن أبي بکرۃ، عَن أبِیہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أقبل من نواحي المدینۃ یرید الصلاۃ، فوجد النَّاس قَد صلوا، فمال إلی منزلہ، فجمع أہلہ، فصلی بہم۔ (ابن رجب، فتح الباري شرح البخاري، ’’کتاب الصلاۃ: باب فضل صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۶، ص ۸، مکتبہ شیخ الہند، دیوبند)

وہذا بخلاف المرأۃ الواحدۃ فإنہا تتأخر مطلقاً کالمتعددات الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۴)

المرأۃ إذا صلت مع زوجہا في البیت إن کان قدمہا محل أقدام الزوج لاتجوز صلاتہما بالجماعۃ، وإن کان قدمہا خلف قدم الزوج إلا أنہا طویلۃ تقع رأس المرأۃ في السجود قبل رأس الزوج جازت صلاتہما؛ لأن العبرۃ للقدم۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في القراء ۃ، باب في الإمامۃ، محاذاۃ المرأۃ للرجل في الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۹، المکتبۃ الفیصل، دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند  ج 7 ص 28

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: بالغ لڑکا محرم عورتوں کی امامت کر سکتا ہے، اگر ان کے ساتھ غیر محرم عورتیں بھی پردہ کے ساتھ شامل ہوجائیں تو جائز ہے؛ البتہ اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو ایسی جگہ نامحرم عورتوں کا شامل ہونا جائز نہیں ہے، اس فتنہ کے دور میں عورتوں کے لیے یہ ہی بہتر ہے کہ اپنے اپنے گھر میں تنہا تنہا تراویح پڑھیں۔(۱)

(۱) تکرہ إمامۃ الرجل لہن فی بیت لیس معہن رجل غیرہ ولا محرم منہ کأختہ أو زوجتہ أو أمتہ أما إذا کان معہن واحد ممن ذکر أو أمہن في المسجد لایکرہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الحنفي ہل الأفضل الصلاۃ مع الشافعي أم لا‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۳، زکریا دیوبند)عن أم حمید رضي اللّٰہ عنہا أنہا جاء ت إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقالت: یارسول اللّٰہ! إني أحب الصلاۃ معک، قال: قد علمت أنک تحبین الصلاۃ معي وصلوتک في بیتک خیر من صلوتک فيحجرتک، الخ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج۶، ص:۳۷۱، رقم: ۲۷۰۹۰) فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد 7 ص 27

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 3205/46-7052

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حدیث شریف میں آیاہے کہ  جس نے شراب پی، اس کی چالیس روز کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ نماز کے قبول نہ ہونے کا مطلب سچی توبہ کرنے سے پہلے اس کی نماز کا کوئی ثواب نہیں ملے گا، اور اللہ کی رضا حاصل نہ ہوگی۔ البتہ نماز کا فریضہ ذمہ سے ساقط ہوجائے گا، اور اگر سچی توبہ کرکے نماز پڑھے گا تو اجر بھی ملے گا اور نماز بھی مقبول ہوگی اور اللہ کی رضا بھی حاصل ہوگی ان شاء اللہ۔

نبی  کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص (پہلی مرتبہ ) شراب پیتا ہے (اور توبہ نہیں کرتا ) تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کرتا، پھر اگر وہ (خلوص دل سے ) توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے، پھر اگر وہ (دوسری مرتبہ ) شراب پیتا ہے تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کرتا اور پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے،  پھر اگر وہ (تیسری مرتبہ ) شراب پیتا ہے تو اللہ تعالیٰ چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کرتا اور پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ چوتھی مرتبہ شراب پیتا ہے تو اللہ تعالیٰ (نہ صرف یہ کہ) چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں کرتا (بلکہ) اگر وہ توبہ کرتا ہے تو اس کی توبہ (بھی) قبول نہیں کرتا اور (آخرت میں) اس کو دوزخیوں کی پیپ اور لہو کی نہر سے پلائے گا۔  (ترمذی 2/8)

" عبد الله بن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: "من شرب الخمر لم يقبل الله له صلاة أربعين صباحًا، فإن تاب تاب الله عليه. فإن عاد لم يقبل الله له صلاة أربعين صباحًا، فإن تاب تاب الله عليه، فإن عاد لم يقبل الله له صلاة أربعين صباحًا، فإن تاب تاب الله عليه، فإن عاد في الرابعة لم يقبل الله له صلاة أربعين صباحًا، فإن تاب لم يتب الله عليه وسقاه من نهر الخبال." (رواه الترمذي، (2/8) قدیمی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 3195/46-7040

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کسی شخص نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی، تو اس پر گناہ ہے، کیونکہ نماز دین کا اہم ترین رکن ہے اور اسے جان بوجھ کر ترک کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ تاہم اگر اس شخص نے بعد میں توبہ کرلی،  پھر نمازوں کو درست طریقے سے پڑھنا شروع کردیا، تو اللہ کی رحمت سے اُمید ہے کہ اس کی توبہ قبول ہو جائے گی۔اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے، اور وہ اپنے بندوں کو معاف کرنے والا ہے، بشرطیکہ وہ سچے دل سے توبہ کرے، نادم ہو اور آئندہ کے لیے نماز کو ترک نہ کرنے کا پختہ عزم کرے۔

اس لئے اگر کسی نے قضا نماز پڑھ لی اور جو کوتاہی ہوئی اس پر توبہ واستغفار بھی کرلیا تو اب امید ہے کہ ان شاء اللہ اس کوتاہی پر سزا نہیں ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند