نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اذان دینے کے وقت مؤذن کا کانوں میں انگلیوں کو ڈالنا لازم اور ضروری نہیں ہے؛ البتہ اذان کا مقصد دور تک آواز پہونچانا ہے اور آواز کو بلند کرنے کے لیے عموماً دیکھا گیا ہے کہ کانوں میں انگلیاں رکھی جاتی ہیں تاکہ آواز بلند اور سانس لمبی ہو، اس بات کی تائید حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہوتی ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کے وقت انگلیوں کو کانوں میں ڈال کر اذان دینے کا حکم دیا تاکہ آواز بلند ہو؛ اس لیے اذان دینے کے وقت کانوں میں انگلی رکھنے کو فقہاء نے مستحب لکھا ہے۔
’’أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمر بلالا أن یجعل إصبعیہ في أذنیہ وقال: إنہ أرفع لصوتک‘‘ (۱)
’’وأخرج البخاري تعلیقاً: ویذکر عن بلال أنہ جعل إصبعیہ في أذنیہ، وکان ابن عمر لا یجعل إصبعیہ في أذنیہ‘‘(۲)
’’ویستحب أن یجعل إصبعیہ في أذنیہ، لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لبلال رضي اللّٰہ عنہ: ’’إجعل إصبعیک في أذنیک فإنہ أرفع صوتک‘‘(۳)
’’ویجعل ندباً إصبعیہ في صماخ أذنیہ، فأذانہ بدونہ حسن وبہ أحسن‘‘(۴)

(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ: ’’کتاب الصلاۃ، أبواب الأذان والسنۃ فیہا‘‘ ص: ۵۲، رقم: ۱۰۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب: ہل یتتبع المؤذن فاہ ہہنا وہہنا؟‘‘: ج ۱، ص: ۸۸۔
(۳) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۸؛ وہکذا في الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني في الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۳۔
(۴)  ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: مطلب: في أول من بنی المنائر للأذان، ج ۲، ص: ۵۴۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص158

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کی اقتداء تکبیر تحریمہ سے شروع ہو کر سلام تک ہے۔ سلام کے بعد امام اور اقتداء کا تعلق ختم ہو جاتا ہے، دعا میں اقتداء ضروری نہیں ہے، نماز کے بعد دعا کرنا احادیث سے ثابت ہے اور یہ وقت دعا کی قبولیت کا ہے، اس لیے دعا کا اہتمام ہونا چاہئے اور جب سب ہی لوگ کریں گے تو اجتماعی صورت پیدا ہو جائے گی، اس میں کوئی مضائقہ نہیں؛ لیکن یہ نماز والی اقتداء نہیں ہے نہ ہی اس کو لازم سمجھنا درست ہے۔(۱)
’’عن معاذ بن جبل أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذ بیدہ وقال یا معاذ واللّٰہ أني لأحبک فقال: أوصیک یا معاذ لا تدعن في دبر کل صلاۃ تقول: اللہم أعني علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک‘‘(۲)

(۱) عن علي رضي اللّٰہ عنہ: عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: مفتاح الصلاۃ الطہور وتحریمہا التکبیر وتحلیہا التسلیم، قال أبو عیسیٰ ہذا الحدیث أصح شيء في ہذا الباب۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء أن مفتاح الصلاۃ الطہور‘‘: ج ۱، ص: ۵، رقم: ۳)
عن المغیرۃ بن شعبۃ رضي اللّٰہ عنہما أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقول: في دبر کل صلاۃ مکتوبۃ: لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد، وہو علی کل شيء قدیر۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب الذکر بعد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۶، رقم: ۸۴۴)
(۲) أخرجہ أبوداود في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب في الاستغفار‘‘: ج۱، ص: ۲۱۳، رقم: ۱۵۵۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص427

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اگر جان بوجھ کر ایسا کیا تو نماز بکراہت تنزیہی ادا ہوگی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے اور اگر بھول سے ایسا ہوگیا تو نماز بلا کراہت ادا ہوگئی ہے۔(۱)

(۱) ویکرہ فصلہ بسورۃ بین سورتین قرأہما في رکعتین لما فیہ من شبہۃ التفضیل والہجر، وقال بعضہم: لایکرہ إذا کانت السورۃ طویلۃ کما لوکان بینہما سورتان قصیرتان۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۲، شیخ الہند دیوبند)
وإذا جمع بین سورتین بینہما سور أو سورۃ واحدۃ في رکعۃ واحدۃ … یکرہ وقال بعضہم: إن کانت السورۃ طویلۃ لایکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الرابع في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۶، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص224

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سنت ظہر اگر شروع کردی اور جماعت شروع ہوگئی ہے، تو دو رکعت پر سلام پھیر دے(۲) لیکن اگر جماعت کے چھوٹنے کا خطرہ ہو، تو سنت ظہر چھوڑ کر جماعت میں شریک ہو جائے اور بعد میں سنت ظہر ادا کرلے۔(۳)

(۲) أو شرع في سنۃ فأقیمت الجماعۃ سلم بعد الجلوس علی رأس رکعتین کذا روي عن أبي یوسف والإمام وہو الأوجہ لجمعہ بین المصلحتین ثم قضیٰ السنۃ أربعاً لتمکنہ منہ بعد أداء الفرض مع ما بعدہ۔ (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’باب إدراک الفریضۃ‘‘:ج ، ص: ۴۵۱؛ وفتح القدیر، ’’باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۸۹، زکریا دیوبند)
(۳) بخلاف سنۃ الظہر حیث یترکہا في الحالین، لأنہ یمکنہ أداؤہا في الوقت بعد الفرض ہو الصحیح۔ (مرغیناني، ھدایہ، ’’باب ادراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۲، دار الکتاب دیوبند؛ و ابن الھمام، فتح القدیر، ’’باب ادراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۲، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص351

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1756/43-1466

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مسبوق کو اپنی چھوٹی ہوئی رکعتیں یاد تھیں، لیکن اس کو مسئلہ معلوم نہیں تھا  اس وجہ سے اس نے امام کے ساتھ سلام پھیرا تو اس کی نماز فاسد ہوگی اور ازسرنو نماز پڑھنی ہوگی۔ اور اگر اس کو رکعتوں کا چھوٹنا یاد نہیں تھا اور بھول کر امام کے ساتھ سلام پھیرنے میں شریک ہوگیا تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی اور چھوٹی ہوئی رکعتیں پڑھ لینے سے نماز درست ہوجائے گی۔ 

يفسدها السلام للصلاة عمدا وأما غيره فإن كان على ظن أن الصلاة تامة فغير مفسد وإن كان ناسيا للصلاة فمفسد ولو سلم على رجل تفسد مطلقا. كذا في شرح أبي المكارم.

المسبوق إذا سلم على ظن أن عليه أن يسلم مع الإمام فهو سلام عمد يمنع البناء. كذا في الخلاصة في مما يتصل بمسائل الاقتداء مسائل المسبوق وهكذا في فتاوى قاضي خان في فصل فيمن يصح الاقتداء به.

ولو سلم المسبوق مع الإمام ينظر إن كان ذاكرا لما عليه من القضاء فسدت صلاته وإن كان ساهيا لما عليه من القضاء لا تفسد صلاته؛ لأنه سلام الساهي فلا يخرجه عن حرمة الصلاة. كذا في شرح الطحاوي في باب سجود السهو. (الھندیۃ الفصل الاول فیما یفسدھا 1/98)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر گنجے کے سر میں زخم وغیرہ نہیں جس سے خون بہتا ہو تو امامت اس کی بلاکراہت درست ہے کوئی وجہ عدم جواز یا کراہت کی نہیں۔(۱)

(۱) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء: الإسلام، والبلوغ والعقل، والذکورۃ والقراء ۃ والسلامۃ من الأعذار، کالرعاف والفأفأۃ والتمتمۃ والثلثغ وفقد شرط کطہارۃ وستر عورۃ۔ (الشرنبلالي، نورالایضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۷۸- ۷۷، مکتبہ عکاظ دیوبند)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص54

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: سنن مؤکدہ کا تارک اور ترک پر اصرار کرنے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہونے کی وجہ سے فاسق ہوگیا اور اس کی امامت مکروہ تحریمی ہوگی، کسی نیک، دیندار سنت کے پابند شخص کو امام مقرر کیا جائے تاکہ نماز جیسا اہم فریضہ مسنون طریقہ پر ادا کیا جاسکے۔
’’ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق … أما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً … بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم‘‘(۱)
’’الذي یظہر من کلام أہل المذہب أن الإثم منوط بترک الواجب أو السنۃ المؤکدۃ علی الصحیح لتصریحہم بأن من ترک سنن الصلوات الخمس قیل لا یأثم والصحیح أنہ یأثم۔ ذکرہ في فتح القدیر‘‘(۲)
’’رجل ترک سنن الصلوات الخمس إن لم یر السنن حقا فقد کفر لأنہ ترک استخفافاً وإن رأی حقا منہم من قال لا یأثم والصحیح أنہ یأثم لأنہ جاء الوعید بالترک‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸، ۲۹۹، زکریا دیوبند۔
(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب فيالسنۃ وتعریفہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۰، زکریا، دیوبند۔
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۶، زکریا ،دیوبند، وہکذا في الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوٰۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج۱، ص: ۱۷۱، زکریا دیوبند۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص182

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: وقت فجر شروع ہونے کے بعد فجر کی اذان پڑھی جائے وقت سے پہلے نہ پڑھی جائے، وقت سے پہلے پڑھی ہوئی اذان فجر کی اذان شمار نہیں ہوگی(۱) اور سحری کے ختم ہونے کی اطلاع کے لیے اذان نہیں ہے۔ امام صاحب کو بیان کردہ مسئلہ سے رجوع کرنا چاہئے اور صحیح مسئلہ پر عمل کرنا چاہئے کسی عمل کا صدیوں تک ہوتے رہنا اس کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں ہے۔

(۱)  قال الحصکفي: وقت الفجر من طلوع الفجر الثاني إلی طلوع ذکاء۔ (الحصکفي الدر مع الرد، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب في تعبدہ علیہ السلام الخ‘‘: ج ۲، ص: ۱۴، زکریا دیوبند)
وقال ابن عابدین تحت حد الصوم: وہو الیوم أي الیوم الشرعي من طلوع الفجر إلی الغروب۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصوم‘‘: ج ۳، ص: ۳۳۰، زکریا دیوبند)
وقال الحصکفي: فیعاد أذان وقع بعضہ قبلہ کالإقامۃ وقال: وہو سنۃ للرجال … مؤکدۃ للفرائض الخمس۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۴۸، ۵۰، زکریا دیوبند)
وإن أذن قبل دخول الوقت لم یجزہ ویعیدہ في الوقت لأن المقصود من الأذان إعلام الناس بدخول الوقت فقبل الوقت یکون تجہیلاً لا إعلاماً۔ (السرخسي، المبسوط، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص160

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس طرح نماز میں امام کو چاہئے کہ مقتدیوں کے حالات کے پیش نظر ہلکی نماز پڑھائے اسی طرح دعا میں بھی مقتدیوں کے حالات کو سامنے رکھے اور درمیانی طریقہ کار اختیار کرے نہ بہت وقت دعا میں لگائے اور نہ بہت ہی کم۔ جن نمازوں کے بعد سنتیں ہیں ان میں سلام کے بعد مختصر دعا کر کے سنتوں میں مشغول ہو جانا چاہئے؛ البتہ سنتوں کے بعد انفرادی طور پر دیر تک دعا مانگنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔(۱)

(۱)فإن کان بعدہا أی بعد المکتوبۃ تطوع یقوم إلی التطوع بلا فصل إلا مقدار ما یقول: اللہم أنت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذ الجلال والإکرام، ویکرہ تاخیر السنۃ عن حال أداء الفریضۃ بأکثر من نحو ذلک القدر، وقد یوفق بأن تحمل الکراہۃ علی کراہۃ التنزیہ، ومراد الحلواني عدم الإسائۃ ولو فعل لا بأس بہ ولا تسقط السنۃ بذلک حتی إذا صلاہا بعد الأوراد تقع سنۃ موداۃ لا علی وجہ السنۃ، فالحاصل: أن المستحب فی حق الکل وصل السنۃ بالمکتوبۃ من غیر تاخیر إلا أن الاستحباب في حق الإمام أشد حتی یؤدي تاخیرہ إلی کراہۃ لحدیث عائشۃ بخلاف المقتدي، (والمنفرد الخ)۔ (إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي: ص: ۳۴۱-۳۴۴، مکتبہ: الاشرفیہ دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص428

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق:ائمہ احناف کا مسلک یہ ہے کہ بسم اللہ نہ سورہؐ فاتحہ کا جز ہے اور نہ ہی سورۂ نمل کے علاوہ کسی سورت کا؛ بلکہ یہ مستقل آیت ہے اور قرآن کریم کا جز ہے جو ہر سورت کے شروع میں دو سورتوں کے درمیان فصل کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے، درمختار میں ہے۔
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال صلیت مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأبي بکر وعمر وعثمان فلم أسمع أحدا منہم یقرأ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘
’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أنہ حدثہ قال صلیت خلف النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأبي بکر وعمر وعثمان فکانوا یستفتحون بالحمد للّٰہ رب العالمین لا یذکرون بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم في أول قرائۃ ولا في آخرہا‘‘(۲)
’’عن أنس قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأبي بکر وعمر وعثمان یفتتحون القرائۃ بالحمد للّٰہ رب العالمین، قال أبو عیسیٰ ہذا حدیث حسن صحیح‘‘(۱)
’’روی البخاري في صحیحہ من حدیث أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: کنت أصلي في المسجد فدعاني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلم أجبہ فقلت: یا رسول اللّٰہ کنت أصلي ،  فقال : ألم یقل اللّٰہ : استجیبوا للّٰہ وللرسول إذا دعاکم (الانفال: ۲۴) ثم قال لي : ألا أعلمک سورۃ ہي أعظم سورۃ في القرآن؟  قلت ما ہي ؟  قال الحمد للّٰہ رب العلمین ،  ہي السبع المثاني والقرآن العظیم الذي أوتیتہ فأخبر أنہا السبع المثاني، ولو کانت البسملۃ آیۃ منہا لکانت ثمانیا، لأنہا سبع آیات بدون البسملۃ‘‘(۲)

(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب حجۃ من قال: لا یجہر بالبسملۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲، رقم: ۳۹۹، نعیمیہ دیوبند)
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب في افتتاح القرائۃ بالحمد للّٰہ رب العالمین‘‘: ج ۱، ص: ۵۷، رقم: ۲۴۶، نعیمیہ دیوبند۔)
(۲) بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’باب في صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص:۱۹۶، نعیمیہ دیوبند۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص225