Frequently Asked Questions
روزہ و رمضان
Ref. No. 905/41-29B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ روزہ کی حالت میں ڈکار کی وجہ سے پانی یا خوراک جو حلق میں آجاتا ہے اس کو نگل لینے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ہے ۔ نماز کی حالت میں کسی رومال یا ٹیشو میں نکال دے ، اگر نگل لیا تو بھی نماز درست ہوجائے گی۔
لو ابتلع البلغم بعدما تخلص بالتنحنح من حلقه إلى فمه لا يفطر عندنا قال في الشرنبلالية ولم أره ولعله كالمخاط قال: ثم وجدتها في التتارخانية سئل إبراهيم عمن ابتلع بلغما قال إن كان أقل من ملء فيه لا ينقض إجماعا وإن كان ملء فيه ينقض صومه عند أبي يوسف وعند أبي حنيفة لا ينقض. (الدرالمختار 2/400)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
روزہ و رمضان
Ref. No. 908/41-29B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زمانہ حیض میں عورت کے لئے روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ اگر رکھ لیا تو روزہ شمار نہ ہوگا۔ اور شریعت کے حکم کی خلاف ورزی کی بناء پر عورت گنہگار ہوگی۔ زمانہ حیض کے روزوں کی قضاء بعد میں بہرحال کرنی ہوگی۔
ولا يخفى أن الصوم الذي هو الإمساك عن المفطرات نهارا بنيته يتحقق من المسلم الخالي عن حيض ونفاس الی ان قال وذكر ما تتوقف عليه صحته وهي ثلاثة: الإسلام والطهارة عن الحيض والنفاس والنية كما في البدائع (رد المحتار 2/371)
قال - رحمه الله - (يمنع صلاة وصوما) أي الحيض يمنع صلاة وصوما لإجماع المسلمين على ذلك قال - رحمه الله - (وتقضيه دونها) أي تقضي الصوم دون الصلاة لما روي عن معاذة العدوية قالت سألت عائشة - رضي الله عنها - فقلت ما بال الحائض تقضي الصوم ولا تقضي الصلاة فقالت أحرورية أنت قلت لست بحرورية ولكني أسأل قالت «كان يصيبنا ذلك فنؤمر بقضاء الصوم ولا نؤمر بقضاء الصلاة» أخرجاه في الصحيحين وعليه انعقد الإجماع؛ ولأن في قضاء الصلاة حرجا لتكررها في كل يوم وتكرار الحيض في كل شهر بخلاف الصوم حيث يجب في السنة شهرا واحدا والمرأة لا تحيض عادة في الشهر إلا مرة فلا حرج (تبیین الحقائق 1/56)
واجمعوا علی ان الحائض یحرم علیھا الصوم ولو صامت لم یصح ولزمھا القضاء (التفسیر المظھری 1/195)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
روزہ و رمضان
Ref. No. 37 / 1114
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: نفل پڑھنے والوں کا خیال کیا جائے، حافظ صاحب تھوڑا انتظار کرلیں تاکہ لوگ نفل سے فارغ ہوجائیں۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
روزہ و رمضان
Ref. No. 37/1147
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: تراویح کے لئے پیسے جمع کرنا درست نہیں ہے، ہر آدمی اپنی حیثیت کے بقدر امام صاحب کو دیدے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
روزہ و رمضان
Ref. No. 1942/44-1859
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والدین کو اس سلسلہ میں منع کرنے کا حق نہیں ہے۔ ایک دن ناغہ کے ساتھ روزہ رکھنا پسندیدہ عمل ہےاس لئے والدین اس کو منع نہ کریں۔ البتہ اگر اس کی صحت ٹھیک نہ ہو تو والدین اس کو منع کرسکتے ہیں۔
عن عمرو بن اوس الثقفی، سمع عبداللہ بن عمرو قال: قال لي: رسول الله صلى الله عليه وسلم" احب الصيام إلى الله صيام داود كان يصوم يوما ويفطر يوما، واحب الصلاة إلى الله صلاة داود كان ينام نصف الليل ويقوم ثلثه وينام سدسه". (بخاری الرقم 3420)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
روزہ و رمضان
Ref. No. 39/1066
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ 1/اس کو اجرت کہنا درست نہیں ہے۔ 2/مسجد کا فنڈ مسجد کی ضروریات کے لئے ہے، مسجد کے فنڈ سے تراویح کے امام یا کسی کو بھی ہدیہ دینا جائز نہیں ہے۔3/ جائز نہیں ہے۔4/ تراویح کے امام کواجرت دینا درست نہیں ہے، واقعۃً انعام و ہدیہ کے طور پر کچھ دیاجائے تو درست ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
روزہ و رمضان
Ref. No. 39/1045
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لگواسکتے ہیں، اس سے روزے پر کوئی فرق نہیں آئے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
روزہ و رمضان
Ref. No. 39 / 799
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسے شخص پر قضالازم ہے کفارہ نہیں ۔ کذا فی الفقہ
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
روزہ و رمضان
Ref. No. 39/1057
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صرف بدنظری سے روزہ نہیں ٹوٹتا ہے بلکہ مکروہ ہوجاتا ہے، البتہ اگر انزال ہوجائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضا لازم ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
روزہ و رمضان
Ref. No. 1345/42-730
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانا جائز نہیں ہے۔ اس طرح کی قسم منعقد بھی نہیں ہوگی، اور جب قسم ہوئی ہی نہیں تو اس کو توڑنے پر کوئی کفارہ بھی لازم نہیں ہوگا۔ البتہ اگر کوئی گناہ کا کام نہ ہو بلکہ جائز کام ہو اور اس میں کسی چیز کا وعدہ ہو تو بطور وعدہ پورا کرنے کے اس کام کو کرنا جائز ہوگا۔ اور وعدہ پورا کرنا بھی قرآن کا حکم ہے۔ اس لئے اگر کوئی کسی بات کے لئے ایسی قسم کھالے تو گرچہ قسم کھانا غلط ہے مگر اس کام کو کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ جیسے ماں سے بیٹے نے کہا کہ آپ کے سر کی قسم میں اس جمعرات کو ضرور آؤں گا۔ تو گرچہ یہ قسم جائز نہیں ہے لیکن اس ضمن میں جو والدہ سے جمعرات کو آنے کا وعدہ ہے اس کو پورا کرنا چاہئے۔
قال: ومن حلف بغير الله تعالى لم يكن حالفا كالنبي والكعبة، لقوله - عليه الصلاة والسلام - " من كان منكم حالفا فليحلف بالله أو ليذر" (شامی ، کتاب الایمان 3/712) "عن عبداللہ ابن عمر عن النبی ﷺ انہ قال :"من کان حالفاً فلیحلف بالله أو لیصمت". ( بخاری ومسلم) "وعنہ قال : قال رسول الله ﷺ : من حلف بغیر الله فقد أشرک".( الترمذی)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند