Frequently Asked Questions
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 2379/44-3604
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ صورت میں اصل مسجد ہے، اور اسی کے زیر انتظام مکتب ہے، مکتب ذیلی ہے، مسجد اور ذیلی مکتب میں زکوٰۃ کی رقم تملیک کے بعد بھی لگانی درست نہیں ہے۔
(الفتاوی الھندیۃ: (کتاب الزکاۃ، 188/1، ط: رشیدیہ)
لايجوز أن يبنی بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولايجوز أن يكفن بها ميت، ولايقضى بها دين الميت، كذا في التبيين".
(الدر المختار: (291/3، ط: زکریا)
ویُشْتَرَطُ أنْ یَکُوْنَ الصَّرْفُ تَمْلِیْکاً لَا ابَاحَةً ... فَلَا یَکْفِيْ فِیْہا الْاطْعَامُ الاّ بِطَرِیْقِ التَّمْلِیْکِ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Red. No. 2832/45-4435
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ماہِ رمضان شروع ہونے سے پہلے بھی صدقہ فطر ادا کرنا درست ہے اور اس سے بھی آدمی برئ الذمہ ہو جائے گا گرچہ بہتر یہی ہے کہ رمضان شروع ہونے کے بعد ہی آداکرے، لیکن اگر کسی نے رمضان سے پہلے اداکردیا تو واجب اس کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا۔ یہی قول راجح اور مفتی بہ ہے۔
"(وصح أداؤها إذا قدمه على يوم الفطر أو أخره) اعتبارا بالزكاة والسبب موجود إذ هو الرأس (بشرط دخول رمضان في الأول) أي مسألة التقديم (هو الصحيح) وبه يفتى جوهرة وبحر عن الظهيرية لكن عامة المتون والشروح على صحة التقديم مطلقا وصححه غير واحد ورجحه في النهر ونقل عن الولوالجية أنه ظاهر الرواية. قلت: فكان هو المذهب.
(قوله: اعتبارا بالزكاة) أي قياسا عليها. واعترضه في الفتح بأن حكم الأصل على خلاف القياس فلا يقاس عليه؛ لأن التقديم، وإن كان بعد السبب هو قبل الوجوب وأجاب في البحر بأنها كالزكاة بمعنى أنه لا فارق لا أنه قياس اهـوفيه نظر والأولى الاستدلال بحديث البخاري وكانوا يعطون قبل الفطر بيوم أو يومين قال في الفتح وهذا مما لا يخفى على النبي صلى الله عليه وسلم بل لا بد من كونه بإذن سابق فإن الإسقاط قبل الوجوب مما لا يعقل فلم يكونوا يقدمون عليه إلا بسمع اهـ(قوله: فكان هو المذهب) نقل في البحر اختلاف التصحيح ثم قال لكن تأيد التقييد بدخول الشهر بأن الفتوى عليه فليكن العمل عليه وخالفه في النهر بقوله واتباع الهداية أولى. قال في الشرنبلالية قلت: ويعضده أن العمل بما عليه الشروح والمتون، وقد ذكر مثل تصحيح الهداية في الكافي والتبيين وشروح الهداية. وفي البرهان وابن كمال باشا وفي البزازية الصحيح جواز التعجيل لسنين رواه الحسن عن الإمام اهـوكذا في المحيط. اهـ.
قلت: وحيث كان في المسألة قولان مصححان تخير المفتي بالعمل بأيهما إلا إذا كان لأحدهما مرجح ككونه ظاهر الرواية أو مشى عليه أصحاب المتون والشروح أو أكثر المشايخ كما بسطناه أول الكتاب وقد اجتمعت هذه المرجحات هنا للقول بإطلاق فلايعدل عنه، فافهم".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 367):
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 1090 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ زکوة میں رقم ہی دینا ضروری نہیں ، بلکہ زکوة کی رقم سے کوئی چیز خرید کر بھی مستحق کی ملکیت میں دیدینے سے زکوة ادا ہوجاتی ہے، لہذا صورت مسئولہ میں زکوة ادا ہوجائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 1297/42-649
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ صورت میں زکوۃ دہندہ کی زکوۃ ادا نہیں ہوگی، صورت واقعہ سے اس کو آگاہ کردیاجائے، تاکہ وہ دوبارہ زکوۃ اداکرے، اگر سفیر مذکور اپنی طرف سے اتنی رقم مدرسہ میں جمع کردے اور زکوۃ دہندہ کو بتادے، تو زکوۃ ادا ہوجائے گی، تاہم سفیر کی حیثیت امین کی ہے، اور امانت ضائع ہونے کی صورت میں امین پر ضمان لازم نہیں آتا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 38 / 994
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: آج کل عموما متوسط درجہ کا آدمی غریب نہیں ہوتا جسکو صدقہ کی رقم دی جاسکے۔ لہذا اگر زید کی مالی حالت درست ہے اور مالک نصاب ہے تو زکوۃ کی رقم سے کھانا کھانا یا زکوۃ کی رقم اپنے استعمال میں لانا درست نہیں ہے۔ اس لئے پہلے زید کی مالی حالت دریافت کرلی جائے، ورنہ زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 38 / 1051
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: زکوۃ کی رقم مستحقین ِ زکوۃ کی ملک میں دینی ضروری ہے، جب تک مستحقین کی ملکیت میں رقم دے کر ان کو بااختیار نہ بنادیا جائے، اس وقت تک زکوۃ ادا نہیں ہوتی ہے۔ لہذا فلاحی اداروں کے لئے لازم ہے کہ وہ رقم کی حیثیت لازمی طور پر معلوم کرلیں ؛ اگر زکوۃ کی رقم ہے تو اس کو کسی مستحق کی ملکیت میں دینا ضروری ہے، اس کو رفاہی کاموں میں براہ راست استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ اور اگر نفلی صدقہ ہے تو بلاتملیک اس کو رفاہی کاموں میں اور علاج و معالجہ وغیرہ تمام امور میں استعمال کرنا جائز ہے۔ زکوۃ کی رقم سے کوئی سامان خرید کر کسی مستحق کی ملکیت میں دینا بھی درست ہے، مگر ایسی چیز خریدنا جائز نہیں جو کسی ایک مستحق کی ملکیت میں نہ آئے، لہذا ایمبولنس کی گاڑی وغیرہ زکوۃ کی رقم سے خریدنا جائز نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 2270/44-2431
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر پلاٹ خریدتے وقت ہی بیچنے کی نیت تھی تو پھر اس کی وجہ سے وہ پلاٹ ایک تجارتی سامان ہے، لہذا تجارتی سامان کی موجودگی میں جس کی قیمت ڈیڑھ لاکھ روپئے ہیں، اس کو زکوۃ کی رقم دینا درست نہیں ہے، اور اگر خریدتے وقت بیچنے کی نیت نہیں تھی تو اب بعد میں بیچنے کی نیت کرنے سے وہ سامان ِ تجارت نہیں بنے گا ، لہذا عورت کو اس پلاٹ کی وجہ سے صاحب نصاب نہیں کہاجائے گا اس لئے اس کو زکوۃ دینا جائز ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 932 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر نیت اپنے مال کی زکوۃ نکالنے کی ہے، تو دوسرے کا نام لکھوانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، زکوۃ ادا ہوجائے گی اور ثواب اسی کو ملے گا جس نے اپنی زکوۃ اداکی ہے۔ والد مرحوم کو بھی اگر ثواب پہنچائے تواس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ والد مرحوم کے ایصال ثواب کے لئے نفلی صدقہ بھی کرتا رہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 986 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
صاحب نصاب کو زکوۃ دینی درست نہیں، اگر زکوٰۃ دیدی گئی تو ادا نہیں ہوگی۔ ایسے شخص کو امداد و تعاون کی رقم دینی نہ چاہیے۔ شامی
واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند