زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 932 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر نیت اپنے مال کی زکوۃ نکالنے کی ہے، تو دوسرے کا نام لکھوانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، زکوۃ ادا ہوجائے گی اور ثواب اسی کو ملے گا جس نے اپنی زکوۃ اداکی ہے۔ والد مرحوم کو بھی  اگر  ثواب پہنچائے تواس میں  کوئی حرج نہیں ہے۔ والد مرحوم کے ایصال ثواب کے لئے نفلی صدقہ بھی کرتا رہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 986 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

صاحب نصاب کو زکوۃ دینی درست نہیں، اگر زکوٰۃ دیدی گئی تو ادا نہیں ہوگی۔ ایسے شخص کو امداد و تعاون کی رقم دینی نہ چاہیے۔ شامی

واللہ تعالی اعلم

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 38 / 1150

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                

بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال مذکورہ صورت اختیار کرنا درست ہے تاہم مستحق زکوۃ کو زکوۃ کی رقم دے کر مکمل بااختیار بنادینا ضروری ہے، صرف زبانی حیلہ کارگر نہیں ہوگا۔ پھر اگر ترغیب دے کر اس سے کچھ یا پوری رقم حاصل  ہوجائے تو اس کو تنخواہوں  میں یا تعمیرات وغیرہ میں استعمال کرنا درست ہوگا۔  تاہم یہ صورت اسی وقت درست ہے جب مذکورہ ادارہ میں اصل دینی تعلیم ہو اور عصری تعلیم تابع اور ذیلی طور پر ہو۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 2491/45-3801

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  (1) ظاہری وضعداری سے اگر کوئی مستحق زکوۃ معلوم ہو تو اس کو زکوۃ کی رقم دینی جائز ہے، پھر اگر بعد میں معلوم ہواکہ جس کوزکوۃ کی رقم دی  تھی وہ غیر مستحق  تھا تو بھی زکوۃ ادا ہوجائے گی؛ دوبارہ زکوۃ دینی لازم نہیں ہے۔ (2) صاحب نصاب کا جس دن زکوۃ کا سال پورا ہو، اس دن کی تمام ملکیت کا حساب ہوگا، لہذا زکوۃ کے سال کے آخری دن جتنی رقم کسی کو قرض دی ہوئی ہو، یا بینک میں جمع ہو، یا ماہانہ خرچ کے لئے گھر میں رکھی ہوئی ہو سب کی مجموعی رقم  پر زکوۃ کا حساب ہوگا۔ یعنی ماہانہ اخراجات کو منہا نہیں کیاجائے گا بلکہ ان کی بھی زکوۃ ادا کرنی ہوگی۔

 دفع بتحر ) لمن يظنه مصرفًا ( فبان أنه عبده أو مكاتبه أو حربي ولو مستأمنًا أعادها ) لما مر ( وإن بان غناه أو كونه ذميًا أو أنه أبوه أو ابنه أو امرأته أو هاشمي لا) يعيد؛ لأنه أتى بما في وسعه، حتى لو دفع بلا تحر لم يجز إن أخطأ". (فتاوی شامی كتاب الزكوة، ج: 2، ص: 253، ط: سعيد)

"إذا شك وتحرى فوقع في أكبر رأيه أنه محل الصدقة فدفع إليه أو سأل منه فدفع أو رآه في صف الفقراء فدفع فإن ظهر أنه محل الصدقة جاز بالإجماع، وكذا إن لم يظهر حاله عنده....وإذا دفعها، ولم يخطر بباله أنه مصرف أم لا فهو على الجواز إلا إذا تبين أنه غير مصرف، وإذا دفعها إليه، وهو شاك، ولم يتحر أو تحرى، ولم يظهر له أنه مصرف أو غلب على ظنه أنه ليس بمصرف فهو على الفساد إلا إذا تبين أنه مصرف، هكذا في التبيين". (فتاوی ہندیہ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1238 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔   مذکور فی السوال دونوں صورتوں میں مزکی کی زکوة ادا نہیں ہوگی، اور اس کو دوبارہ زکوة نکالنی ہوگی۔ ولا یخرج عن العہدة بالعزل بل بالاداء للفقراء قال الشامی فلوضاعت لاتسقط عنہ الزکوة ولومات کانت میراثا عنہ۔ کذا فی الشامی۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

 Ref. No. 1241Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:۱۔ اگرکسی  کے پاس  نہ سونے کا پورا نصاب ہو اور نہ چاندی کا تو ایسی صورت میں سونے کو بازار سے معلوم کرلیا جائے کہ کتنی چاندی کی قیمت کا ہےپھر اتنی رقم  اور چاندی کی رقم کو نقد کے ساتھ ملاکر مجموعہ کا چالیسواں حصہ حسب قواعد شرع زکوة میں اداکردیا جائے۔حاصل یہ ہے تمام زیورات کی مالیت نکال کر اس کی زکوة ادا کی جائے ۔  ۲۔ صاحب نصاب پر جب سال گزرجائے تو اس کی ملکیت میں جو کچھ  سال کے آخری دن  ہوگا اس پر زکوة واجب ہوگی؛ یاد رکھیے ہر مال پر سال کا گزرنا شرط نہیں ہے؛ لہذا اصل مال اور منافع دونوں کی زکوة اداکرنا واجب ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 2007/44-1963

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہر شخص اپنے علاقہ میں سونے اور چاندی کی بازاری  قیمت کو بنیاد  بناکر زکوۃ ادا کرے۔

 (وجاز دفع القيمةفي زكاة وعشر وخراج وفطرة ونذر وكفارة غين الاعتاق) وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا يوم الاداء.  (الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص: 130)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 2574/45-3943

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قربانی کی کھال کو فروخت کرکے مدرسہ میں رقم دینا جائز ہے۔ اب یہ رقم مدرسہ میں دے کر کیوں واپس لی گئی اس کی وجہ سوال میں مذکور نہیں ہے، وجہ تحریر کرکے دوبارہ سوال کیاجاسکتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1240 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:۱۔ زکوة کی رقم پوری ایک ساتھ کسی کو دینا ضروری نہیں بلکہ حسب موقع و ضرورت تھوڑا تھوڑا دینا بھی درست ہے ۔

 ۲۔ اگر اس شخص کی ملکیت میں بقدرنصاب مال نہیں ہے تو اس کو زکوة کی رقم دے سکتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 969/41-111

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ہندوستانی زمینوں کے تعلق سے علماء میں اختلاف رہا ہے ۔تاہم علماء  دیوبند ہندوستانی زمینوں کو نہ عشری مانتے ہیں نہ خراجی۔ اس لئے یہاں کی زمینوں میں جو کچھ پیدا ہو اس کو نصاب زکوۃ میں شامل کرکے اس کی زکوۃ نکالی جائے گی۔ نصاب اور حولان حول وغیرہ  کی شرطیں اس میں بھی زکوۃ کی طرح  نافذ ہوں گی۔  عشری وخراجی زمینوں کے بارے میں فتاوی رحیمیہ ، امداد الفتاوی اور فتاوی رشیدیہ وغیرہ میں تفصیلی بحث موجود ہے۔ مطالعہ کرلیا جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند