زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 41/1003

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں اس کی وضاحت نہیں ہے کہ والد کے ترکہ میں سے اس کو کیا ملنے والا ہے، کیا ترکہ سے ملنے ولاحصہ حاجت اصلیہ کے علاوہ اتنی مقدار ہے کہ وہ صاحب نصاب ہوجائے؟ اس کی وضاحت کرکے دوبارہ مسئلہ معلوم کریں

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 2250/44-2399

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو صدقہ شریعت نے واجب کیا ہو یا آدمی نے خود اپنے اوپر منت یا نذر مان کر  واجب کیا ہو، وہ صدقہ صرف غریب مسلمانوں کا حق ہے، ایسا صدقہ غیرمسلم کو دینا یا مالدار مسلمان کو دینا جائز نہیں ہے، دینے سے پہلے اس کی تحقیق کرلینی چاہئے۔  اور یہ صدقہ مسجد یا خیراتی کاموں میں صرف کرنا بھی جائز نہیں ہے۔  اور جو صدقہ نفلی ہو یعنی آدمی اپنے کاروبار میں  برکت، بیماری سے شفا، کسی اہم کام میں سہولت وغیرہ کے مقصد سے اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرتاہے ، ایسا صدقہ غریب، امیر، مسلمان اور غیرمسلم کسی کو بھی دیاجاسکتاہے، اور مسجد میں اسی طرح دیگر اوقاف میں خرچ کرنا بھی جائز ہے۔ ظاہر حال سے اگر لگتاہے کہ وہ غلط کاموں میں نہیں لگائے گا، تو اس کو صدقہ دیا جائے اور اگر اس کی حالت سے غالب گمان یہ ہو کہ وہ شراب یا جوا میں صرف کرے گا تو اس کو صدقہ دینے سے احتراز کیا جائے۔

الھدایہ: (223/1، ط: مکتبہ رحمانیہ)
ولا یدفع المزکی زکوۃ مالہ الی ابیہ وجدہ وان علا ولا الی ولدہ وولد ولدہ وان اسفل۔
الجوھرۃ النیرہ: (باب فی بیان مصارف الزکوۃ)
لا تدفع الی غنی وفیھا ولا یدفع الی بنی ھاشم ولا فیھا ولا یدفع المزکی زکوتہ الی ابیہ وجدہ وان علا ولا الی ولدہ وان اسفل و فیھا۔۔۔۔۔ ولا یبنی بھا مسجد ولا یکفن بھا میت۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 39 / 800

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زکوۃ کی رقم کا براہ راست اساتذہ کی تنخواہوں یا مدرسہ کی ضروریات  میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔ زکوۃ کی رقم کسی مستحق زکوۃ کی ملکیت میں دینا ضروری ہے  جس کو اختیار ہو کہ اپنی مرضی سے جہاں چاہے خرچ کرے۔ پھر اگر اہل مدرسہ نے اس کو ترغیب دے کے کچھ رقم حاصل کرلی تو پھر اس رقم کو مدرسہ کی ضروریات  اور اساتذہ کی تنخواہوں وغیرہ میں خرچ کرنے میں حرج نہیں ہے۔  کذا فی الفقہ  

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1837/43-1659

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چندہ کرنے والے کی حیثیت وکیل بالقبض  اور امین کی ہوتی ہے، وکیل بالتصرف کی نہیں۔ اس لئے چندہ کرنے والے اساتذہ کے لئے ضروری ہے کہ پوری رقم مدرسہ میں جمع کردیں، اس کے بعد اپنی تنخواہ مدرسہ سے وصول کریں۔ جب بغیر جمع کئے اپنی تنخواہ ہی  لینا درست نہیں ہے تو اڈوانس لینا کیسے جائز ہوگا۔

قال: "والوكيل بقبض العين لا يكون وكيلا بالخصومة" بالاتفاق لأنه أمين محض، والقبض ليس بمبادلة فأشبه الرسول "  (ہدایہ، ج 3 ص194، کتاب الوکالۃ ، دارالکتاب دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 2185/44-2297

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کرسی بنانے کے لئے وصول کئے گئے  پیسوں کی زکوۃ بکر کے ذمہ  ہے۔ زکوۃ نکالتے ہوئے اس ایک لاکھ کی بھی زکوۃ ادا کرے گا جو بطور اڈوانس اس نے وصول کیا ہے، اس لئے کہ وہ مال اب اس کی ملکیت ہے اور اسی کا قبضہ بھی ہے۔  اور جب تک کرسی تیار کرکے زید کے قبضہ میں نہیں دیتا اس وقت تک کرسی  اور دیگر سامان تجارت کی زکوۃ بھی بکر کے ذمہ ہوگی۔

"الاستصناع جائز في كل ما جرى التعامل فيه كالقلنسوة والخف والأواني المتخذة من الصفر والنحاس وما أشبه ذلك استحسانا كذا في المحيط ثم إن جاز الاستصناع فيما للناس فيه تعامل إذا بين وصفا على وجه يحصل التعريف أما فيما لا تعامل فيه كالاستصناع في الثياب بأن يأمر حائكا ليحيك له ثوبا بغزل من عند نفسه لم يجز كذا في الجامع الصغير وصورته أن يقول للخفاف اصنع لي خفا من أديمك يوافق رجلي ويريه رجله بكذا أو يقول للصائغ صغ لي خاتما من فضتك وبين وزنه وصفته بكذا وكذا لو قال لسقاء أعطني شربة ماء بفلس أو احتجم بأجر فإنه يجوز لتعامل الناس، وإن لم يكن قدر ما يشرب وما يحتجم من ظهره معلوما كذا في الكافي الاستصناع ينعقد إجارة ابتداء ويصير بيعا انتهاء قبل التسليم بساعة هو الصحيح كذا في جواهر الأخلاطي."(فتاوی عالمگیری، 3/ 207،  کتاب البیوع، الباب التاسع عشر في القرض والاستقراض والاستصناع، ط:رشیدیہ)

"وأما حكم الاستصناع: فهو ثبوت الملك للمستصنع في العين المبيعة في الذمة، وثبوت الملك للصانع في الثمن ملكا غير لازم." (بدائع الصنائع، 5 / 3، كتاب الاستصناع، ط: سعيد)

"فصح بيع الصانع) لمصنوعه (قبل رؤية آمره) ولو تعين له لما صح بيعه. (قوله فأخذه) أي الآمر (قوله بلا رضاه) أي رضا الآمر أو رضا الصانع (قوله قبل رؤية آمره) الأولى قبل اختياره لأن مدار تعينه له على اختياره، وهو يتحقق بقبضه قبل الرؤية ابن كمال." (فتاوی شامی 5 / 225،باب السلم ، مطلب في الاستصناع، ط: سعيد )

"ومنها الملك المطلق وهو أن يكون مملوكا له رقبة ويدا وهذا قول أصحابنا الثلاثة ."( بدائع الصنائع، 2 / 9، كتاب الزكاة، ط: سعيد)

ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد وأما إذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض أو وجد اليد دون الملك كملك المكاتب والمديون لا تجب فيه الزكاة كذا في السراج الوهاج (الھندیۃ: (172/1، ط: دار الفکر)

وأما الشرائط التي ترجع إلى المال فمنها: الملك فلا تجب الزكاة في سوائم الوقف والخيل المسبلة لعدم الملك وهذا؛ لأن في الزكاة تمليكا والتمليك في غير الملك لا يتصور۔۔۔۔ومنها الملك المطلق وهو أن يكون مملوكا له رقبة ويدا وهذا قول أصحابنا الثلاثة، وقال زفر: " اليد ليست بشرط " وهو قول الشافعي فلا تجب الزكاة في المال الضمار عندنا خلافا لهما. (بدائع الصنائع: (9/2، ط: دار الکتب العلمیة)

"(ولو كان الدين على مقر مليء ... ( فوصل إلى ملكه لزم زكاة ما مضى  ( الدر المختار: (266/2، ط: دار الفکر)

" الثمن المدفوع مقدّمًا عند إبرام العقد مملوک للصانع یجوز لہ الانتفاع والاسترباح وتجب علیہ الزکاة فیہ․․․․ تخریجًا للثمن المقدم فی الاستصناع علی الأجرة المقدمة أو ما اشترط تعجیلہ (فقہ البیوع: (404/1، ط: معارف القرآن)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 41/1035

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ وارث کو ملنے والا حصہ اگر اس قدر ہو کہ اس سے قرض کی ادائیگی کے بعد بھی وہ صاحب نصاب ہو تو اس کے لیے زکوۃ لینا درست نہیں ہے ، اس کو چاہیے کہ اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے دیگر ورثہ کو راضی کرے تاکہ اس سے اپنا قرضہ ادا کرسکے اور اگر ورثہ تقسیم پر راضی نہ ہو ں تو وہ اپنا حصہ دیگر ورثہ کے ہاتھ ہی  فروخت کر دے ، تاکہ ا س سے  قرض کی ادائیگی کرسکے، ہاں اگر ملنے والا ترکہ سے قرض کی ادائیگی کے بعد مقدار  نصاب مال  نہ بچتا ہو تو اس کے لیے قرض لینا درست ہوگا۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1008/41-167

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صدقات واجبہ کسی سید کے لئے حلال نہیں ۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ جو سید ضرورتمند ہیں  ان کی  اللہ کے واسطہ مدد کریں۔  للہ کا مطلب ہے اللہ کی رضا کے لئے ان کی نفلی صدقات سے مدد کریں۔ مسلمانوں پر صرف زکوۃ ہی فرض نہیں ہے بلکہ حالت اور ضرورت کے لحاظ سے  بہت ساری چیزیں بھی لازم ہوتی ہے، اسی لئے حدیث میں فرمایا کہ  زکوۃ کے علاوہ بھی تمہارے مال میں حق ہے۔  کوئی سید اگر ضرورتمند ہو اور مسلمان اس کی نفلی صدقات سے مدد نہ کریں تو یہ شرم کی بات ہے۔ اللہ ہمیں اس فیملی کی قدر کی توفیق بخشے، آمین۔    

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ محمد اسعد جلال قاسمی غفرلہ

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند