زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 2307/44-3470

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ صورت میں صدقہ کرنا واجب ہے، اس لئے کہ صدقہ ان چیزوں میں سے ہے جس کی نذرماننا درست ہے، اور دشمن کی موت کی تمنا کرنا کوئی معصیت نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1099/42-290

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  زکوۃ کی رقم سے کوئی سامان خرید کر مالک بنانے سے بھی تملیک کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔  البتہ اس طرح خرچ کرنا کہ نہ تو رقم کی تملیک ہو اور نہ سامان کی ، تو یہ صورت درست نہیں ہے۔ بچیوں کی شادی میں جو کچھ بچی کی ملکیت میں دیاجائے وہ درست ہے، مگر زکوۃ کی رقم سے باراتیوں کو کھانا کھلانا وغیرہ امور جس میں بالکل بھی تملیک نہیں ہوتی ہے، درست نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1289

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  زکوة کی ادائیگی کے لئے یا تو آپ  والد صاحب  کو پیسے دیدیں اور وہ اپنے اختیار سے  اپنی زکوة دیں یا آپ ان کی اجازت لے کر ان کی طرف سے بھی زکوة ادا کرسکتے ہیں۔ ان کی اجازت کے بغیر ان کی طرف سے دیں گے تو زکوة ادا نہیں ہوگی۔  واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 37 / 1112

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ایسا کرنا درست ہے، اس سے زکوۃ ادا ہوجائے گی۔  واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 39 / 0000

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                

بسم اللہ الرحمن الرحیم:اپنے علاقہ میں پونے دو کلو گیہوں کی قیمت معلوم کرلیں، پونے دو کلو گیہوں ایک نماز کا فدیہ ہے۔ اس طرح ہر روز کی پانچ نمازوں  کے ساتھ وتر کا بھی فدیہ  اداکریں۔ فدیہ کی رقم کسی بھی غریب ومستحق کو دی جاسکتی ہے۔ قومی مدرسہ میں بھی اگرمستحق طلبہ کو  اس رقم کا مالک بنادیا جائے تو فدیہ ادا ہوجائے گا۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1334/42-723

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، نفس پر کنٹرول کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ بعد میں وعدہ کے مطابق کام کرنے پر شرم کی وجہ سے دعوت  کرنا نہیں کہاجائے گا۔ ایسا ہوتا ہے کہ ایک وقت دل میں کسی نیک کا داعیہ پیدا ہوتاہے اور پھر شیطان اس سے روکنے کے لئے کئی سارے خدشات دل میں ڈالتاہے، ایسے میں اگر کوئی شیطان پر قابو پانے کے لئے وعدہ کرلے  اور وعدہ پورا کرے تو بھی اللہ کی رضا کے لئے  کرنے والا شمار ہوگا۔

اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَآءِۚ-وَ اللّٰهُ یَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَ فَضْلًاؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌۖۙ (سورۃ البقرۃ 268)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1336/42-715

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زکوۃ کا مکمل حساب کرنے کے بعد اگر اس طرح احتیاطا  کچھ اضافی رقم دے تاکہ اگر کہیں کوئی بھول چوک ہوئی ہو تو اس کی تلافی ہوجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور سلسلہ وار اس طرح نام لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1254

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  اگر یقینی طور پر معلوم ہو تو دعوت قبول کرنے سے اجتناب  کریں ۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1337/42-721

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زکوۃ کی رقم مدرسہ میں دیتے وقت وضاحت کے ساتھ بتادینا ضروری ہے کہ یہ زکوۃ کی رقم ہے۔ اس لئے کہ مدرسہ میں کچھ مصارف ایسے ہیں کہ ان میں زکوۃ کی رقم صرف نہیں کی جاسکتی ورنہ دینے والے کی زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔ زکوۃ مالدار کے لئے میل کچیل ہے مگر غریب اور مستحق  طلبہ کے لئے وہ ایک صاف ستھرا اور حلال مال ہے۔ اس لئے آئندہ جب بھی زکوۃ کی رقم کسی مدرسہ میں دیں تو زکوۃ ہی کہہ کر دیاکریں۔ تاہم اگر آپ کسی مستحق کو زکوۃ کی رقم براہ راست دیں تو اس کو ہدیہ کہہ کردینا چاہئے تاکہ اس کو شرمندگی نہ ہو۔ اور اس طرح زکوۃ بھی ادا ہوجائے گی۔

ولا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه (ھندیۃ، الباب السابع فی المصارف 1/188) وتبدل الملك بمنزلة تبدل العين وفي الحديث الصحيح «هو لها صدقة ولنا هدية» (شامی 2/342)

 واللہ اعلم بالصواب

کتبہ محمد اسعد

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 41/1003

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں اس کی وضاحت نہیں ہے کہ والد کے ترکہ میں سے اس کو کیا ملنے والا ہے، کیا ترکہ سے ملنے ولاحصہ حاجت اصلیہ کے علاوہ اتنی مقدار ہے کہ وہ صاحب نصاب ہوجائے؟ اس کی وضاحت کرکے دوبارہ مسئلہ معلوم کریں

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند