زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1304/42-661

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دو لاکھ روپئے کی زکوۃ پانچ ہزار روپئے ہوتے ہیں (زکوۃ ڈھائی  فی صدواجب ہوتی ہے)۔ عورت کے زیورات کی زکوۃ   کی ادائیگی خودعورت پر لازم ہے، تاہم اگر اس کا شوہر ادا کردے توبھی ادائیگی درست  ہوجائے گی ۔  اگر نقد روپئے کا نظم نہیں ہے  تو سونا یا چاندی میں سے تھوڑا سا بیچ کر زکوۃ ادا کریں۔   اور اس کی آسان صورت یہ ہوسکتی ہے کہ سال پورا ہونے پر جو مقدار زکوۃ  واجب ہوئی ہے اس کو لکھ لیا جائے اور جب  کبھی سو پچاس کسی مانگنے والے یا غریب کو دے تو اس میں  زکوۃ کی نیت کرلے اور اس کو لکھ لے اس طرح سال کے پورا ہونے پر دیکھے کہ کس قدر رقم  زکوۃ  میں ادا ہوچکی ہے۔ اور جو باقی رہ جائے اس وقت ادا کردی جائے، اس طرح آسانی سے زکوۃ ادا ہوجائے گی۔

(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة (أو السوم) بقيدها الآتي (أو نية التجارة) في العروض (شامی 2/267)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 40/821

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرعی تملیک کے بغیر زکوۃ کی رقم   کسی عمارت میں صرف کرنا جائز نہیں ہے۔ رفاہ عام میں زکوۃ کی رقم لگانے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔زکوۃ کی رقم کسی مستحق کی ملکیت میں جانی ضروری ہے۔  اگر کسی جگہ عمارت کے لئے ضرورت ہو تو کسی مستحق کو زکوۃ دیدی جائے  اور اسکو مکمل اختیار دیدیا جائے اور پھراس کودینی مدرسہ کے لئے بطور چندہ رقم  دینے کی ترغیب دی جائے  ۔ وہ بلا کسی  دباؤ کے اپنی مرضی اور خوشی  سے جس قدر دیدے اس مقدار کو مسجد و دینی مدرسہ کی عمارت میں لگانے کی اجازت ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 900/41-23

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اپنے اصول و فروع کو زکوۃ دینا درست نہیں ہے، اس لئے نانا اپنے نواسہ کو زکوۃ نہیں دے سکتے۔

أَقُولُ وَكَمَا لَا يَدْفَعُ إلَى مَنْ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ قَرَابَةُ وِلَادٍ أَوْ زَوْجِيَّةٍ كَذَلِكَ لَا يَدْفَعُ إلَيْهِمْ صَدَقَةَ فِطْرِهِ (دررالحکام شرح غرر الاحکام 1/189) 

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1318/42-687

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  وقتی طور پر سرکار نے جو کرایہ بڑھایا، اور آنے کی اجازت دی اس کا آپ نےفائدہ اٹھایا۔ اس میں جو کچھ خرچ کئے وہ آپ کے ذاتی پیسے خرچ ہوئے۔  سود کی رقم آپ کی ذاتی رقم نہیں ہے، اس لئے سودی رقم کو اس میں لگانا یا سودی رقم سے اس کی تلافی کرنا جائز نہیں ہے۔ سود کی رقم غریبوں پر بلا نیت ثواب صدقہ کرنا لازم ہے۔ اس سے کسی طرح استفادہ جائز نہیں ہے۔

ولا يأخذون منه شيئا وهو أولى بهم ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه (شامی  فصل فی البیع 6/385)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 37 / 1069

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: مزدوری وغیرہ سب کچھ کی ادائیگی کے بعد جو غلہ بچ جاتا ہے اس میں سے عشر نکالا جائے گا۔ اور دوسرے مسئلہ میں زید اپنی زمین کا کرایہ دس ہزار وصول کرے گا، اور اس کی زکوۃ نکالے گا اگر وہ صاحب نصاب ہوگیا۔ اور عمر اس زمین میں سے جو کچھ کمائے گا، وہ کرایہ وغیرہ ادا کرنے کے بعد جو اس کا مال بچے گا اس میں زکوۃ نکالے گا۔ لہذا صورت مسئولہ میں عمر صرف بیس  ہزار کا عشر نکالے گا نہ کہ کل پیداوار کا۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 2307/44-3470

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ صورت میں صدقہ کرنا واجب ہے، اس لئے کہ صدقہ ان چیزوں میں سے ہے جس کی نذرماننا درست ہے، اور دشمن کی موت کی تمنا کرنا کوئی معصیت نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1099/42-290

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  زکوۃ کی رقم سے کوئی سامان خرید کر مالک بنانے سے بھی تملیک کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔  البتہ اس طرح خرچ کرنا کہ نہ تو رقم کی تملیک ہو اور نہ سامان کی ، تو یہ صورت درست نہیں ہے۔ بچیوں کی شادی میں جو کچھ بچی کی ملکیت میں دیاجائے وہ درست ہے، مگر زکوۃ کی رقم سے باراتیوں کو کھانا کھلانا وغیرہ امور جس میں بالکل بھی تملیک نہیں ہوتی ہے، درست نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1289

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  زکوة کی ادائیگی کے لئے یا تو آپ  والد صاحب  کو پیسے دیدیں اور وہ اپنے اختیار سے  اپنی زکوة دیں یا آپ ان کی اجازت لے کر ان کی طرف سے بھی زکوة ادا کرسکتے ہیں۔ ان کی اجازت کے بغیر ان کی طرف سے دیں گے تو زکوة ادا نہیں ہوگی۔  واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 37 / 1112

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ایسا کرنا درست ہے، اس سے زکوۃ ادا ہوجائے گی۔  واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 39 / 0000

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                

بسم اللہ الرحمن الرحیم:اپنے علاقہ میں پونے دو کلو گیہوں کی قیمت معلوم کرلیں، پونے دو کلو گیہوں ایک نماز کا فدیہ ہے۔ اس طرح ہر روز کی پانچ نمازوں  کے ساتھ وتر کا بھی فدیہ  اداکریں۔ فدیہ کی رقم کسی بھی غریب ومستحق کو دی جاسکتی ہے۔ قومی مدرسہ میں بھی اگرمستحق طلبہ کو  اس رقم کا مالک بنادیا جائے تو فدیہ ادا ہوجائے گا۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند