حج و عمرہ

Ref. No. 1968/44-2265

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  عرفات کے میدان میں ہونا کسی بھی طرح پایا جائے وہ حج کے لئے کافی ہوگا۔لیکن  اگر جہاز پر سوار ہوکر عرفات کے حدود سے گزرے گا تو وقوف عرفہ متحقق نہیں ہوگا۔کیونکہ اس میں زمین سے کسی طرح کا تعلق نہیں ہے کہ جس کو وقوف عرفہ کے قائم مقام قرار دیاجائے۔  

الوقوف (ليست بشرط ولا واجب فلو كان جالسا جاز حجه و) ذلك لأن (الشرط الكينونة فيه) فصح وقوف مجتاز وهارب وطالب غريم ونائم ومجنون وسكران۔۔۔ قال ابن عابدین: والمراد بالكينونة الحصول فيه على أي وجه كان ولو نائما أو جاهلا بكونه عرفة أو غير صاح أو مكرها أو جنبا أو مارا مسرعا (قوله مجتاز) أي مار غير واقف (الدرالمختار مع رد المحتار ، فصل فی الاحرام وصفۃ المفرد 2/506 سعید)

(ومن اجتاز بعرفات نائما أو مغمى عليه أو لا يعلم أنها عرفات جاز عن الوقوف) لأن ما هو الركن قد وجد وهو الوقوف (فتح القدیر للکمال ابن الھمام 2/510)

 (کنزالدقائق،

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند  


 

 

حج و عمرہ

Ref. No. 2546/45-3885

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عمرہ  کے احرام سے پہلے  ایسی خوشبو لگانا جائز ہے جس کا عین باقی نہ رہے، اگر خوشبو کا اثر بعد میں بھی باقی رہے تو اس سے  عمرہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا،   لیکن اگر ایسی خوشبو لگائی جس کا عین باقی رہے تو یہ ممنوع ہوگا۔   اس لئے  جو پھولوں کا گجرابالوں میں  لگایا گیا اور پھر اس کو عمرہ کی نیت کے وقت  بھی نکالا نہیں گیا توعین خوشبو کا استعمال  حالت احرام  میں پایا گیا جو ممنوع  ہے، اس لئے  دم دینا لازم ہوگا۔

"قال: ولايلبس ثوباً مصبوغاً بورس، ولا زعفران، ولا عصفر؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: «لايلبس المحرم ثوباً مسه زعفران، ولا ورس إلا أن يكون غسيلاً". البناية شرح الهداية (4/ 186):
"(قوله: وتطيب) أطلقه فشمل ما تبقى عينه بعد كالمسك والغالية، وكره محمد ما تبقى عينه، والأصح عدم الكراهة كما في البرهان. وقال في البحر: وسن استعمال الطيب في بدنه قيد بالبدن إذ لايجوز التطيب في الثوب مما يبقى عينه على قول الكل على إحدى الروايتين عنهما، قالوا: وبه نأخذ اهـ.
وقال الكمال: المقصود من استنان الطيب عند الإحرام حصول الارتفاق به حالة المنع منه فهو على مثال السحور للصوم إلا أن هذا القدر يحصل بما في البدن فيغني عن تجويزه أي تجويز ما تبقى عينه في الثوب إذ لم يقصد كمال الارتفاق في حال الإحرام؛ لأن الحاج الشعث التفل، وقد قيل: يجوز في الثوب أيضاً على قولهما اهـ". درر الحكام شرح غرر الأحكام (1/ 219
):

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حج و عمرہ

Ref. No. 1052

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔سوال واضح نہیں ہے۔ دونوں سوالات تفصیل کے ساتھ دوبارہ تحریر کریں۔ 

حج و عمرہ

Ref. No. 38/798

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ایسا کچھ ضروری نہیں ہے، بلکہ عورتوں کے لئے مسجد نبوی اور مسجد حرام میں نماز پڑھنے سے اپنے مکان میں پڑھنا زیادہ ثواب کا باعث ہے۔ کذا فی کتب الفقہ۔  واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref. No. 2314/44-3524

واللہ الموفق:ملتزم پر جانا مناسک عمرہ میں سے نہیں ہے اس لیے کہ عمرہ کے دو ارکان ہیں احرام اور طواف اور سعی بین الصفا و المروہ واجب ہے ۔ملتزم کے بارے میں حضرات فقہاء کی رائے ہے کہ طواف کے بعد دو رکعت طواف کا دوگا نہ پڑھے اس کے بعد زمزم نوش کرے ملتزم کا التزام کرے اور پھر واپس حجر اسو د کی طرف آکر استلام کرے یہ تفصیلات حضرات فقہاء نے طواف صدر کے موقع پر ذکر کی ہیں یہی وجہ ہے کہ طواف قدوم کے موقع پر طواف کے بعد دوگانہ طواف اور حجراسود کے استلام کے بعدصفاو مروہ کی سعی کرے گایہاں پر حضرات فقہاء نے ملتزم پر جانے کا تذکرہ نہیںکیا ہے ۔معلوم ہے کہ جس طواف کے بعد سعی ہے اس میں ملتزم پر جانا مستحب نہیں ہے اورجس طواف کے بعد سعی نہیں ہے اس طواف کے بعد ملتزم پر جانا مستحب ہے صاحب غنیہ نے بھی اس اصول کی طرف رہنمائی کی ہے اس لیے عمرہ کی ادائیگی میں چوں کہ طواف کے بعد سعی ہے اس لیے عمرہ کے طواف میں ملتزم پر جانا مستحب نہیں ہوگا ہاں عمرہ کی ادائیگی کے بعد جب وطن واپس لوٹے اس وقت طواف وداع کے بعد ملتزم پر جانا مستحب ہوگا ۔

والمختار بعد طواف القدوم و صلاتہ العود الی الحجر ثم الی الصفاء و لم یذکروا الاتیان الی زمزم ولا الی  الملتزم بعد ہذا الطواف و انما ذکروا ذلک بعد طواف الوداع -و من ثم سن لہ أن یاتی الملتزم عقب طواف لا سعی لہ (غنیۃ الناسک 175)(ثم) إذا أراد السفر (طاف بالبيت سبعة أشواط لا يرمل فيها، وهذا) يقال له (طواف الصدر) وطواف الوداع، وطواف آخر عهد بالبيت، لأنه يودع البيت ويصدر به (وهو واجب إلا على أهل مكة) ومن في حكمهم ممن كان داخل الميقات، لأنهم لا يصدرون ولا يودعون (2) ، ويصلي بعده ركعتي الطواف، ويأتي زمزم فيشرب من مائها، ثم يأتي الملتزم (3) فيضع صدره ووجهه عليه. ويتشبث بالأستار، (اللباب فی شرح الکتاب 1/194)

(٢) کعبۃ اللہ اور ملتزم سے چمٹنے کی صورت میں اگر خوشبو کے اثرات لگ جائیں تو اس پر کفارہ لازم ہوگا اگر مکمل ایک عضو میں لگ جائے تو دم دینا پڑےگااور اگر ایک عضو سے کم ہو تو صدقہ کرنا ہوگا ۔

وإذا تطيب المحرم فعليه الكفارةفإن طيب عضوا كاملا فما زاد فعليه دم) ( وذلك مثل الرأس والساق والفخذ وما أشبه ذلك؛ لأن الجناية تتكامل بتكامل الارتفاق، وذلك في العضو الكامل فيترتب عليه كمال الموجب (وإن طيب أقل من عضو فعليه الصدقة) ؛(فتح  القدیر ،3/24)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حج و عمرہ

Ref. No. 2479/45-3765

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ احرام باندھنے کے بعد تلبیہ یا اس کے قائم مقام ذکر کا پڑھنا فرض ہے، آپ نے نماز پڑھی ، تکبیر تحریمہ کہااور تسبیح فاطمی  پڑھی ، یہ سب اذکار تلبیہ کے قائم مقام ہوگئے  اور آپ کا احرام درست ہوگیا اور عمرہ و حج بھی درست ہوگیا۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حج و عمرہ

Ref. No. 1014/41-168

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اپنے وطن  واپسی کے وقت بیت اللہ شریف سے رخصت ہونے کے لیے جو طواف کیاجاتاہے اس کو طواف وداع کہا جاتا ہے۔ طوافِ وداع   آفاقی پرواجب ہے اور اس کا وقت طوافِ زیارت  کرنے کے بعد سےشروع ہو جاتا ہے ۔ اگر نفل کی نیت سے کوئی طواف کر لیا جائے تب بھی طوافِ وداع  اداہو جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی طواف وداع نہ کرسکے تو اس کے ذمہ دم دینا لازم ہوتا ہے۔  دم کا حدودِ  حرم میں ہونا ضروری ہے اور کسی دوسرے شخص کو  رقم دے کر حدودِ  حرم میں دم کی ادائیگی کروانابھی  جائز ہے۔  صورت مسئولہ میں آپ کی  بیوی آپ کے لئے حلال ہے۔

 وکل دم وجب علیه في شيء من أمر الحج والعمرة، فإنه لایجوز ذبحه إلا بمکة، أو حیث شاء من الحرم۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref. No. 1015/41-169

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   طوافِ زیارت کے بعد نفلی طواف سے بھی طواف وداع ادا ہو جاتا ہے، اور دم واجب نہیں ہوتا ہے ۔لیکن اگر طواف زیارت کے بعد  نہ تو طواف وداع کیا اور نہ ہی کوئی طواف ایسا کیا جو طواف وداع کے قائم مقام ہوجائے تو پھر اس پر دم واجب ہوگا۔  تاہم مناسک حج کےمکمل ہونے کی وجہ سے بیوی حلال ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند