حج و عمرہ

Ref. No. 2407/44-3629

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ میں رمی جمرات کا وقت زوال سے شروع ہوتاہے، زوال سے پہلے رمی صحیح نہیں ہوتی ہے، لہذا اگر آپ نے بارہویں ذہ الحجہ کی رمی زوال سے پہلے کرلی، اور صبح صادق سے پہلے  اس رمی کا اعادہ نہیں کیا تو آپ پر ایک دم واجب ہے،۔ (انوار مناسک ص487)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حج و عمرہ

Ref. No. 2417/45-3667

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  دوران حج اگر کسی کا انتقال ہوجائے اور اس نے کوئی وصیت نہ کی ہو تو اس کی طرف سے حج بدل لازم وضروری نہیں ہے۔ اگر اولاد میں سے کوئی اس کی طرف سے حج بدل کرنا چاہے تو مستقل حج کی نیت سے کرے گا، حج افراد، حج تمتع و قران میں سے کوئی بھی کرے۔ لیکن سوال میں مذکور صورت کہ باپ جو ارکان اداکرچکاہے اس کے بعد کے ارکان کوئی ادا کرے یہ درست نہیں ہے۔ مثلا وقوف عرفہ کے بعد کسی کا انتقال ہوگیا اور آپ اس کے بعد کے ارکان اداکریں تو یہ حج بدل نہیں کہلائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حج و عمرہ

Ref. No. 875 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  حقیقی بھانجہ محرم ہے، اس کو بطور محرم اپنے ساتھ عمرہ کے لئے لیجانا جائز اور درست ہے۔ قرآن کریم  میں ہے: حرمت علیکم امھاتکم وبناتکم واخواتکم وعماتکم وخالاتکم وبنات الاخ وبنات الاخت الآیۃ، سورہ النساء آیت 23۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref. No. 2533/45-3904

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس سلسلہ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے ؛ بعض حضرات منیٰ کو داخل مکہ مانتے ہیں اور نعض خارج مکہ۔ میرا رحجان یہ ہے کہ منی اب مکہ مکرمہ کا حصہ ہے، لہذا مقیم اور مسافر ہونے میں  مکہ بشمول منی میں قیام کی نیت معتبر ہوگی۔

وقال اکثر اہل العلم منھم عطاء والزھری والثوری لکوفیون وابوحنیفۃ واصحابہ والشافعی واحمد ابوثور لایقصر الصلوۃ اہل مکۃ بمنی وعرفات اذا کانوا حجاجا اتموا۔ (عمدۃ القاری 7/119)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حج و عمرہ

Ref. No. 2121/44-2158

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن و حدیث میں واضح احکام کے مطابق سود کا لین دین حرام ہے، اور سودی قرض  لینا بلا ضرورت شدیدہ جائز نہیں ہے۔ آپ نے جس مقصد کے لئے قرض لیا ہے اس کو پورا کرکے جلد از جلد قرض  سے چھٹکاراحاصل کرنے کی کوشش کریں۔ سودی قرض لے کر بے فکر ہوجانا بہت بری بات ہے، گناہ کا باعث ہے۔ آپ پر عمرہ لازم نہیں اس لئے آپ عمرہ پر جانے کے مقابلہ میں  سودی قرض کی ادائیگی پر توجہ دیں۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حج و عمرہ

Ref. No. 40/873

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حالت احرام میں مردوں کے ٹخنے کھلے رہنے ضروری ہیں اس لئے وہ چپل پہنتے ہیں، لیکن عورتوں کے لئے یہ حکم نہیں ہے؛ عورتیں چپل جوتے جو بھی پہننا چاہیں پہن سکتی ہیں  تاہم ہوائی چپل لیجانے میں  اور اسکی حفاظت میں سہولت ہوتی ہے اس لئے عورتیں بھی اسی کو استعمال کرتی ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref. No. 1263

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  اس سلسلہ میں دارالافتاء مظاہر علوم سے ہی رابطہ مناسب ہوگا۔واللہ تعالی اعلم

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref. No. 2416/45-3669

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  احرام باندھتے وقت حج یا عمرہ کی نیت کرنے کے بعد تلبیہ یا اس کے قائم مقام کوئی ذکر پڑھنا  فرض ہے، اس کے بغیر آدمی محرم نہیں ہوگا البتہ اگر احرام باندھتے وقت تلبیہ پڑھنا بھول گیا لیکن میقات میں داخل ہونے سے پہلے تلبیہ یا اس کے قائم مقام کلمہ پڑھ لیا تو اس کا احرام درست ہوگیا۔ صورت مذکورہ میں عمرہ کا احرام باندھنے کے وقت آپ نے تلبیہ پڑھا ہے اور میقات سے گزرتے وقت آپ کا احرام صحیح تھا، اس لئے آپ کا عمرہ صحیح ہوگیا، پھر آٹھ ذی الحجہ کو آپ نے  مکہ میں حج کا احرام باندھا اور تلبیہ کے مخصوص کلمات نہیں پڑھے، لیکن ظاہر ہے آپ نے احرام کے بعد کوئی نہ کوئی ذکر سبحان اللہ ،الحمد للہ، لاالہ الا اللہ وغیرہ عربی یا اردو میں کیا ہوگا، اگرچہ احرام باندھنے کے متصلا بعد نہ کیاہو، تو صورت مذکورہ میں آپ کا احرام درست ہوگیا، اور اس طرح حج بھی درست ہوگیا، ہاں اگر تلبیہ کے قائم مقام ذکر تاخیر سے پڑھا ہو، احرام سے متصلا بعد نہ پڑھا ہو تو یہ مکروہ ہے مگر موجب دم نہیں ہے۔  (2)  گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ میں رمی جمرات کا وقت زوال سے شروع ہوتاہے، زوال سے پہلے رمی صحیح نہیں ہوتی ہے، لہذا بارہویں ذہ الحجہ کی رمی زوال سے پہلے کرلینے کی صورت میں صبح صادق سے پہلے  اس رمی کا اعادہ کرنا ضروری ہے اور اعادہ نہ کرنے کی صورت میں  دم واجب ہے۔ (انوار مناسک ص487)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حج و عمرہ

Ref. No. 38 / 1211

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حج تمتع میں عمرہ کے احرام سے نکلنے کے لئے بال  کٹوانا ضروری ہے  اور اس میں کوئی دم لازم نہیں ۔ کذا فی الفقہ  

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref. No. 1968/44-2265

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  عرفات کے میدان میں ہونا کسی بھی طرح پایا جائے وہ حج کے لئے کافی ہوگا۔لیکن  اگر جہاز پر سوار ہوکر عرفات کے حدود سے گزرے گا تو وقوف عرفہ متحقق نہیں ہوگا۔کیونکہ اس میں زمین سے کسی طرح کا تعلق نہیں ہے کہ جس کو وقوف عرفہ کے قائم مقام قرار دیاجائے۔  

الوقوف (ليست بشرط ولا واجب فلو كان جالسا جاز حجه و) ذلك لأن (الشرط الكينونة فيه) فصح وقوف مجتاز وهارب وطالب غريم ونائم ومجنون وسكران۔۔۔ قال ابن عابدین: والمراد بالكينونة الحصول فيه على أي وجه كان ولو نائما أو جاهلا بكونه عرفة أو غير صاح أو مكرها أو جنبا أو مارا مسرعا (قوله مجتاز) أي مار غير واقف (الدرالمختار مع رد المحتار ، فصل فی الاحرام وصفۃ المفرد 2/506 سعید)

(ومن اجتاز بعرفات نائما أو مغمى عليه أو لا يعلم أنها عرفات جاز عن الوقوف) لأن ما هو الركن قد وجد وهو الوقوف (فتح القدیر للکمال ابن الھمام 2/510)

 (کنزالدقائق،

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند