Frequently Asked Questions
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 40/???
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایام قربانی سے پہلے قربانی کی نیت سے خریدے ہوئے بکرے کو وہ غریب بیچ سکتا ہے لیکن اگر ایام قربانی میں ایسا ہوا ہے تو بکرے کی قربانی کردے۔(2) ایام قربانی میں ہونے کی وجہ سے اس بکرے کی قربانی ہی واجب ہے۔ اس کو بیچنا درست نہیں ہے۔ (شامی ج4ص609)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 1013 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بسم الله، والله أكبر، اللهم لك وإليك، هذه عقيقة فلان (فلان کی جگہ بچہ کا نام لیں)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 2680/45-4148
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۔ صورت مذکورہ میں دوسرے جانور کی بھی قربانی کرنا ضروری ہے اور اگر قربانی کے ایام گزر جائیں تو اس جانور کا صدقہ کرنا ضروری ہے۔
’’اشتری الفقیر لہا ثم سرت واشتری أخری لہا فوجد الأولیٰ ضحی بہما ولو غنیا بالواحدۃ لانہا علی الغنی یایجاب الشرع وہو واحد لا غیر وعلی الفقیر بالشراء وہو متعدد‘‘ (بزازیہ علی الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الأضحیۃ‘‘: ج ٦، ص: ٢٩٢)
’’ولو کان معسرا فاشتری شاۃ وأوجیہا ثم وجہ الأولی قالوا علیہ أن یضحی بہما، کذا فی فتاوی قاضیخان‘‘ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ: ج ٥، ص: ٤٩٢)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 37/1189
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ وہ کپڑے، موبائل اور برتن وغیرہ جو استعمال میں ہوں ان کو نصاب میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 37/1190
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: اپنی قربانی کے ساتھ نبی اکرمﷺ کی طرف سے اور اپنے مرحومین کی طرف سے قربانی کرنا ثابت ہے۔ حضرت علی جناب نبی اکرم ﷺ کی طرف سے کیا کرتے تھے۔ (ابوداؤد)۔اس لئے صورت مسؤولہ میں سب کی طرف سے قربانی درست ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 2342/44-3526
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ رگوں سے نکلنے والا خون ناپاک ہے، اور وہ جس جگہ بھی لگے گا اس کو ناپاک کردے گا، لہذا گردن کے گوشت یا کسی بھی حصہ کے گوشت پراگر خون لگا ہوا ہے تو وہ ناپاک ہے، اس کو دھونا لازم ہے، اگر بغیر دھوئے پکایا گیا تو اس کا کھانا جائز نہیں ہوگا۔ چھری پر لگاہوا خون اگر کھال پر یا گوشت پر صاف کردیا گیا ہو تو ج خون آلود ہے وہ ناپاک ہوگااور باقی گوشت پاک ہوگا۔
﴿ قُلۡ لَّاۤ اَجِدُ فِیۡ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗۤ اِلَّاۤ اَنۡ یَّکُوۡنَ مَیۡتَۃً اَوْ دَمًا مَّسْفُوۡحًا اَوْ لَحْمَ خِنۡزِیۡرٍ فَاِنَّہٗ ِجْسٌ﴾ (پارہ 8،سورۃ الانعام، آیت 451)
وَمَا يَبْقَى مِنْ الدَّمِ فِي عُرُوقِ الذَّكَاةِ بَعْدَ الذَّبْحِ لَا يُفْسِدُ الثَّوْبَ وَإِنْ فَحُشَ. كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ وَكَذَا الدَّمُ الَّذِي يَبْقَى فِي اللَّحْمِ؛ لِأَنَّهُ لَيْسَ بِمَسْفُوحٍ. هَكَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٤٦)
”وقولہ تعالی( أو دما مسفوحا )یدل علی أن المحرم من الدم ما کان مسفوحا (احکام القرآن،مطلب فی لحوم الابل الجلالة،ج3،ص 33،مطبوعہ کراچی) ومالزق من الدم السائل باللحم فھونجس (فتاوی عالمگیری،الفصل الثانی ،ج01،ص46،مطبوعہ کوئٹہ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 1950/44-1855
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شہر میں کسی ایک جگہ بھی عید الاضحی کی نماز ہوگئی تو قربانی کی جاسکتی ہے۔ محل قربانی کا اعتبار کیاجائے گا۔ جو قربانی دیہات میں ہو اس میں نماز عید کا ہوجانا شرط نہیں ہے، اس لئے نماز عید سے پہلے بھی قربانی کی جاسکتی ہے، پھراگرکوئی شخص قربانی کا گوشت شہر میں لائے تو حرج نہیں ہے۔ اس لئے صورت مسئولہ میں آپ سب کی قربانی درست ہوگئی۔
وأول وقتها) (بعد الصلاة إن ذبح في مصر) أي بعد أسبق صلاة عيد، ولو قبل الخطبة لكن بعدها أحب وبعد مضي وقتها لو لم يصلوا لعذر، ويجوز في الغد وبعده قبل الصلاة لأن الصلاة في الغد تقع قضاء لا أداء زيلعي وغيره (وبعد طلوع فجر يوم النحر إن ذبح في غيره).
(قوله: إن ذبح في غيره) أي غير المصر شامل لأهل البوادي، وقد قال قاضي خان: فأما أهل السواد والقرى والرباطات عندنا يجوز لهم التضحية بعد طلوع الفجر، وأما أهل البوادي لايضحون إلا بعد صلاة أقرب الأئمة إليهم اهـ وعزاه القهستاني إلى النظم وغيره وذكر في الشرنبلالية أنه مخالف لما في التبيين ولإطلاق شيخ الإسلام". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 318)، كتاب الأضحية, ط: سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 2373/44-3587
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال کی نوعیت واضح نہیں ہے ، نفع لینے کی صورت کیا ہوتی ہے، اگر قربانی کرنے والا لوگوں کا وکیل ہے اور وہ لوگوں کی قربانی کرتاہے تو بتاکر اجرت لینا درست ہے لیکن لوگوں کو بتانا کہ 1300 فی حصہ ہے اور 1100 فی حصہ کی قربانی کرنا اور 200 روپئے نفع سمجھ کر رکھ لینا درست نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 40/919
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہمارے عرف میں گوشت کا اطلاق مچھلی پر نہیں ہوتا ہے، اس لئے مچھلی کھانے سے قسم نہیں ٹوٹے گی اور کفارہ بھی نہیں ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند