ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1028/41-196

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قربانی واجب ہے اور صاحب نصاب پر ایام قربانی میں قربانی کرنا ضروری ہے، اس کا کوئی بدل نہین ہے۔ لیکن اگر حالات کی ناموافقت کی وجہ سے کوئی قربانی نہ کرسکا تو ایام قربانی کے بعد اگر بکرا خرید لیاتھا تو زندہ بکرا یا بکرے کی قیمت صدقہ کرنا لازم و ضروری ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1494/42-996

وباللہ التوفیق:۔ مسئلہ صحیح ہے اگر ایام قربانی میں غریب قربانی کی نیت سے جانور  خریدے گا تو اس مخصوص جانور کی قربانی اس پر واجب ہوگی۔ غریب کے حق میں قربانی کی نیت سے جانور خریدنا نذر کے درجہ میں ہے جس کا پورا کرنا واجب ہے۔ ایام قربانی سے پہلے خریدنے کا یہ حکم نہیں ہے، اور نہ ہی اس  کی قربانی اس پر واجب ہوگی۔

وإن كان معسرا أجزأته إذ لا أضحية في ذمته، فإن اشتراها للأضحية فقد تعينت الشاة للأضحية (الھندیۃ الباب الخامس بی بیان محل اقامۃ الواجب 5/299) وتجب على الفقير بالشراء بنية التضحية عندنا، فإذا فات الوقت وجب عليه التصدق إخراجا له عن العهدة (فتح القدیرللکمال، کتاب الاضحیۃ 9/514)۔ وأما الذي يجب على الفقير دون الغني فالمشتري للأضحية إذا كان المشتري فقيرا بأن اشترى فقير شاة ينوي أن يضحي بها --- (ولنا) أن الشراء للأضحية ممن لا أضحية عليه يجري مجرى الإيجاب وهو النذر بالتضحية عرفا؛ لأنه إذا اشترى للأضحية مع فقره فالظاهر أنه يضحي فيصير كأنه قال: جعلت هذه الشاة أضحية ۔۔۔ ولو كان في ملك إنسان شاة فنوى أن يضحي بها أو اشترى شاة ولم ينو الأضحية وقت الشراء ثم نوى بعد ذلك أن يضحي بها لا يجب عليه سواء كان غنيا أو فقيرا؛ لأن النية لم تقارن الشراء فلا تعتبر (بدائع الصنائع، صفۃ التضحیۃ 5/62)۔

وفي الاختيار: لا تجب الأضحية على الفقير، لكنها تجب بالشراء، ويتعين ما اشتراه للأضحية. فإن مضت أيام الأضحية ولم يذبح، تصدق بها حية؛ لأنها غير واجبة على الفقير، فإذا اشتراها بنية الأضحية تعينت للوجوب، والإراقة إنما عرفت قربة في وقت معلوم، وقد فات فيتصدق بعينها (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ، الالتزام او التعیین بالنیۃ او القول 12/167).

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1496/42-995

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسئلہ درست ہے، غریب نے خریدے ہوئے جانور کے گم ہونے پر دوسرا جانور جب قربانی کی نیت سے خریداتو دوسرے کی قربانی بھی نذر کے درجہ میں ہوکر واجب ہوگئی۔ لیکن اگر نیت یہ تھی کی پہلے جانور کی جگہ یہ دوسرا خریدرہاہے تو اس میں  پھر ایک ہی جانور قربانی کی نیت سے خریدنا  کہاجائے گا اور ایک ہی کی نذر مانی جائے گی۔ ایسے میں اگر پہلا جانور مل گیا تو چونکہ ایک ہی کی نیت تھی اس لئے ایک کی  قربانی کافی ہوگی۔

وفي فتاوى أهل سمرقند: الفقير إذا اشترى شاة للأضحية فسرقت فاشترى مكانها، ثم وجد الأولى فعليه أن يضحي بهما، ولو ضلت فليس عليه أن يشتري أخرى مكانها (البحر، کتاب الاضحیۃ 8/199) وفي «فتاوى أهل سمرقند» : الفقير إذا اشترى أضحية، فسرقت، فاشترى أخرى مكانها، ثم وجد الأولى، فعليه أن يضحي بهما، فرق بينه وبينما إذا كان غنياً، والفرق: أن الوجوب على الفقر بالشراء، والشراء يتعدد، فيتعدد الوجوب، والوجوب على الغني بإيجاب الشرع، والشرع لم يوجب الأضحية إلا واحدة. (المحیط البرھانی فی الفقہ النعمانی، الفصل الثانی فی وجوب الاضحیۃ بالنذر 6/87) وإن كان معسرا يلزمه ذبح الكل لأن الوجوب على الغني بالشرع ابتداء لا بالشراء فلم يتعين له وعلى الفقير بشرائه بنية الأضحية فتعينت عليه (الجوھرۃ النیرۃ علی القدوری، وقت الاضحیۃ 2/187) قالوا: إذا ماتت المشتراة للتضحية؛ على الموسر مكانها أخرى ولا شيء على الفقير، ولو ضلت أو سرقت فاشترى أخرى ثم ظهرت الأولى في أيام النحر على الموسر ذبح إحداهما وعلى الفقير ذبحهما (العنایۃ شرح الھدایۃ کتاب الاضحیۃ 9/516)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1497/42-968

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔سب حصہ داروں کو ریٹ بتاکر بیچنا درست ہے۔ اور اس میں فائدہ  حاصل کرنا بھی درست ہے۔ خریدنے کے بعد جانور اس کی ملکیت ہے وہ نفع حاصل کرسکتا ہے، خریدنے والوں کو یہ بتانا ضروری نہیں ہے کہ وہ کتنا نفع لے رہا ہے۔ البتہ اس سلسلہ میں جھوٹ بولنے سے گریز کرے، اور یہ نہ کہے کہ میں نے اتنے میں خریدا ہے بلکہ کہے کہ اتنے میں بیچ رہاہوں ۔

الثمن المسي ھو الثمن الذي یسمیہ و یعنیہ العاقدان وقت البیع بالتراضي سواء کان مطابقاً لقیمتہ الحقیقیة أو ناقصاً عنہا أو زائداً علیہا (شرح المجلة رستم، ط: اتحاد ۱/۷۳) المرابحة بیع بمثل الثمن الأول وزیادة ربح  - - -  والکل جائز  - - -  ولو باع شيئا مرابحة إن كان الثمن مثليا كالمكيل والموزون جاز البيع إذا كان الربح معلوما سواء كان الربح من جنس الثمن الأول أم لم يكن  - - - ومن اشترى شيئا وأغلى في ثمنه فباعه مرابحة على ذلك جاز وقال أبو يوسف - رحمه الله تعالى - إذا زاد زيادة لا يتغابن الناس فيها فإني لا أحب أن يبيعه مرابحة حتى يبين.- - -  ويجوز أن يضم إلى رأس المال أجر القصار والصبغ والطراز والفتل والحمل وسوق الغنم والأصل أن عرف التجار معتبر في بيع المرابحة (ھندیة، الباب الرابع عشر فی المرابحۃ والتولیۃ 3/161)

ورجح في البحر الإطلاق وضابطه كل ما يزيد في المبيع أو في قيمته يضم درر واعتمد العيني وغيره عادة التجار بالضم (ويقول قام علي بكذا ولا يقول اشتريته) لأنه كذب (شامی، باب المرابحۃ والتولیۃ 5/136) إذ القيمة تختلف باختلاف المكان (ويقول قام علي بكذا ولم يقل اشتريته بكذا) كي لا يكون كاذبا (فتح القدیر، باب المرابحۃ والتولیۃ 6/498)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1499/42-998

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جی ہاں، ایسی بیوہ عورت پر بھی قربانی واجب ہے۔ ایام قربانی میں کسی کے پاس اگر بقدر نصاب مال موجود ہے تو اس پر قربانی واجب ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پیسے ہدیہ میں آئے یا صدقہ میں یا بطور میراث ملے۔ اور قربانی کے لئے سال کا گزرنا بھی شرط نہیں ہے۔ اس لئے اگر بیوہ کوگزشتہ  رمضان میں ساٹھ ہزار روپئے صدقہ کے  موصول ہوئے، اور قربانی کے دن آگئے اور اس کے پاس نصاب کے بقدر مال اب بھی موجود ہے تو اس پر قربانی واجب ہے۔  

وأما شرائط الوجوب، منہا: الیسار،وہو من لہ مائتا درہم أو عشرون دینارًا أو شيء یبلغ ذلک سوی مسکنہ - - - الی قولہ  - - -  في حاجتہ التی لا یستغني عنہا (هندیة: الباب الاول فی تفسیر الاضحیۃ ورکنھا 5/292) بدائع: فصل فی انواع کیفیۃ الوجوب 5/68)

"وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان (الفتاوى الهندية (1/ 191)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1373/42-784

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس طرح عقیقہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اللہ تعالی اس کی برکت سے بچہ کی حفاظت فرمائیں گے اور سنت بھی ادا ہوجائے گی ان شاء اللہ۔

يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضة أو ذهبا ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعا على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئا أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك. وسنها الشافعي وأحمد سنة مؤكدة شاتان عن الغلام وشاة عن الجارية غرر الأفكار ملخصا، والله تعالى أعلم. (شامی کتاب الحظر والاباحۃ 6/336) أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "في الغلام عقيقة فاهريقوا عنه دما وأميطوا عنه الأذى" (المعتصر من المختصر من مشکل الآثار، کتاب العقیقۃ 1/276)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1501/42-981

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔بڑے جانور کو اگر قابو میں کرنا مشکل ہو تو آسانی کے لئےجے سی بی کا استعمال  کرنے کی گنجائش ہوگی، البتہ احترام پورا ملحوظ رہے اور  اس کا خیال رکھا جائے کہ کسی طرح توہین  کی شکل پیدا نہ ہو، اور جانور کو بلاوجہ کی کوئی تکلیف بھی  نہ ہو۔  

والذبح ما أعد للذبح وقد صح أن النبي عليه الصلاة والسلام نحر الإبل وذبح البقر والغنم إن شاء نحر الإبل في الهدايا قياما أو أضجعها وأي ذلك فعل فهو حسن والأفضل أن ينحرها قياما لما روي أنه عليه الصلاة والسلام " نحر الهدايا قياما " وأصحابه رضي الله عنهم كانوا ينحرونها قياما معقولة اليد اليسرى " ولا يذبح البقر والغنم قياما " لأن في حالة الاضطجاع المذبح أبين فيكون الذبح أيسر والذبح هو السنة فيهما.(الھدایۃ، باب الھدی 1/182)

قال: ويستحب أن يحد الذابح شفرته لقوله - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ -: «إن الله كتب الإحسان على كل شيء، فإذا قتلتم فأحسنوا القتلة، وإذا ذبحتم فأحسنوا الذبحة وليحد أحدكم شفرته وليرح ذبيحته» ويكره أن يضجعها ثم يحد الشفرة؛ لما روي «عن النبي - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - أنه رأى رجلا أضجع شاة وهو يحد شفرته فقال: " لقد أردت أن تميتها موتات هلا حددتها قبل أن تضجعها» (البنایۃ شرح الھدایۃ، الذبح باللیطۃ 11/560)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1503/42-980

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔قربانی  کے بڑے جانور میں شرکت  کے لئے تمام لوگوں کی رقم اس طور پر شامل ہونی  ضروری ہے کہ کسی بھی شریک کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہ ہو۔ یعنی  کسی ایک  سے ساتویں حصہ سے کم پیسے لینا درست نہیں ہوگا۔  لہذا اگر کسی نے ایک ہی جانور کے حصے مختلف قیمتوں میں بیچے تو جس کا حصہ جانور کی کل رقم کے ساتویں حصہ سے کم ہوگا اس کی قربانی درست نہیں ہوگی۔ اور پھر کسی کی قربانی درست نہیں ہوگی۔  

فشمل ما إذا اتفقت الأنصباء قدرا أو لا لكن بعد أن لا ينقص عن السبع، ولو اشترك سبعة في خمس بقرات أو أكثر صح لأن لكل منهم في بقرة سبعها لا ثمانية في سبع بقرات أو أكثر، لأن كل بقرة على ثمانية أسهم فلكل منهم أقل من السبع (شامی، کتاب الاضحیۃ 6/316) ولا تجوز عن ثمانية أخذا بالقياس فيما لا نص فيه وكذا إذا كان نصيب أحدهم أقل من السبع، ولا تجوز عن الكل لانعدام وصف القربة في البعض (العنایۃ شرح الھدایۃ، کتاب الاضحیۃ 9/511) وتجوز عن ستة، أو خمسة، أو أربعة، أو ثلاثة ذكره في الأصل لأنه لما جاز عن سبعة فما دونها أولى، ولا يجوز عن ثمانية لعدم النقل فيه وكذا إذا كان نصيب أحدهم أقل من سبع بدنة لا يجوز عن الكل لأنه بعضه إذا خرج عن كونه قربة خرج كله (البحرالرائق، کتاب الاضحیۃ 8/198)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1504/42-978

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب جانور بیچنے والے نے جانور کی عمر وغیرہ سب کچھ کی وضاحت کردی تو اس کی کمائی حلال ہے۔یہ خریدنے والے کی ذمہ داری ہے کہ جن لوگوں نے قربانی کے لئے اس کو وکیل بنایاہے ان کی طرف سے واجب جانور کی قربانی کرے۔ ایسا جانور قربانی میں ذبح کرنا جس کی عمر مکمل نہ ہو جائز نہیں ہے اور جو لوگ اس طرح کی قربانی کریں گے وہ گنہگار ہوں گے اور دوسروں کی قربانی صحیح نہ ہونے کا گناہ بھی ان کے ہی سر جائے گا۔

لابأس بأن یواجر المسلم داراً من الذمي لیسکنها، فإن شرب فیها الخمر أو عبد فیها الصلیب أو أدخل فیها الخنازیر لم یلحق للمسلم أثم في شيءٍ من ذلک؛ لأنه لم یوجرها لذلک والمعصیة في فعل المستاجر دون قصد رب الدار فلا إثم علی رب الدار في ذلک. (المبسوط ج :17 ص: 309) وذكر الزعفراني أنه ابن سبعة أشهر. والثني منها ومن المعز سنة، ومن البقر ابن سنتين، ومن الإبل ابن خمس سنين، ويدخل في البقر الجاموس لأنه من جنسه (فتح القدیر، کتاب الاضحیۃ 9/517)م (تبیین الحقائق، مما تکون الاضحیۃ 6/7) (تحفۃ الفقھاء، کتاب الاضحیۃ 3/84)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1505/42-977

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔بیع کے اندر اس طرح کی شرط غیرمعتبر ہے۔ مسلمان خریدنے کے بعد اس جانور کا پورامالک ہوگیا وہ جو چاہے اپنی ملکیت میں تصرف کرے،  ، بیچنے والے کا اس طرح کی شرط لگانا غیرمعتبر ہے؛ اس لئے اس وضاحت کے باوجود مسلمان اگر اس جانورکی قربانی کردے تو قربانی درست ہوجائے گی، کوئی کراہت نہیں ہوگی۔  

فيصح) البيع (بشرط يقتضيه العقد) ... (أو لايقتضيه ولا نفع فيه لأحد) ... (كشرط أن لايبيع) عبر ابن الكمال بيركب (الدابة المبيعة) فإنها ليست بأهل للنفع (الدر المختار وحاشية ابن عابدين 5/87)

"الاصل الجامع في فساد العقد بسبب شرط (لا يقتضيه العقد ولا يلائمه”وفيه نفع لاحدهما أو) فيه نفع (لمبيع) هو (من أهل الاستحقاق) للنفع بأن يكون آدميا،(كشرط أن يقطعه) البائع (ويخيطه قباء) مثال لما لا يقتضيه العقد وفيه نفع للمشتري (أو يستخدمه) مثال لما فيه للبائع"(الدر المختار شرح تنویر الابصار وجامع البحار 1/417 ط:دار الکتب العلمیۃ (منهاشرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة للبائع أو للمشتري أو للمبيع إن كان من بني آدم كالرقيق وليس بملائم للعقد ولا مما جرى به التعامل بين الناس نحو ما إذا باع دارا على أن يسكنها البائع شهرا ثم يسلمها إليه أو أرضا على أن يزرعها سنة أو دابة على أن يركبها شهرا أو ثوبا على أن يلبسه أسبوعا ونحو ذلك؛ فالبيع في هذا كله فاسد؛ لأن زيادة منفعة مشروطة في البيع تكون ربا لأنها زيادة لا يقابلها عوض في عقد البيع وهو تفسير الرباوالبيع الذي فيه الربا فاسد أو فيه شبهة الربا، وإنها مفسدة للبيع كحقيقة الربا على ما نقرره إن شاء الله تعالى (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع5/169 ط:دارالکتب العلمیۃ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند