ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1503/42-980

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔قربانی  کے بڑے جانور میں شرکت  کے لئے تمام لوگوں کی رقم اس طور پر شامل ہونی  ضروری ہے کہ کسی بھی شریک کا حصہ ساتویں حصہ سے کم نہ ہو۔ یعنی  کسی ایک  سے ساتویں حصہ سے کم پیسے لینا درست نہیں ہوگا۔  لہذا اگر کسی نے ایک ہی جانور کے حصے مختلف قیمتوں میں بیچے تو جس کا حصہ جانور کی کل رقم کے ساتویں حصہ سے کم ہوگا اس کی قربانی درست نہیں ہوگی۔ اور پھر کسی کی قربانی درست نہیں ہوگی۔  

فشمل ما إذا اتفقت الأنصباء قدرا أو لا لكن بعد أن لا ينقص عن السبع، ولو اشترك سبعة في خمس بقرات أو أكثر صح لأن لكل منهم في بقرة سبعها لا ثمانية في سبع بقرات أو أكثر، لأن كل بقرة على ثمانية أسهم فلكل منهم أقل من السبع (شامی، کتاب الاضحیۃ 6/316) ولا تجوز عن ثمانية أخذا بالقياس فيما لا نص فيه وكذا إذا كان نصيب أحدهم أقل من السبع، ولا تجوز عن الكل لانعدام وصف القربة في البعض (العنایۃ شرح الھدایۃ، کتاب الاضحیۃ 9/511) وتجوز عن ستة، أو خمسة، أو أربعة، أو ثلاثة ذكره في الأصل لأنه لما جاز عن سبعة فما دونها أولى، ولا يجوز عن ثمانية لعدم النقل فيه وكذا إذا كان نصيب أحدهم أقل من سبع بدنة لا يجوز عن الكل لأنه بعضه إذا خرج عن كونه قربة خرج كله (البحرالرائق، کتاب الاضحیۃ 8/198)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1504/42-978

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب جانور بیچنے والے نے جانور کی عمر وغیرہ سب کچھ کی وضاحت کردی تو اس کی کمائی حلال ہے۔یہ خریدنے والے کی ذمہ داری ہے کہ جن لوگوں نے قربانی کے لئے اس کو وکیل بنایاہے ان کی طرف سے واجب جانور کی قربانی کرے۔ ایسا جانور قربانی میں ذبح کرنا جس کی عمر مکمل نہ ہو جائز نہیں ہے اور جو لوگ اس طرح کی قربانی کریں گے وہ گنہگار ہوں گے اور دوسروں کی قربانی صحیح نہ ہونے کا گناہ بھی ان کے ہی سر جائے گا۔

لابأس بأن یواجر المسلم داراً من الذمي لیسکنها، فإن شرب فیها الخمر أو عبد فیها الصلیب أو أدخل فیها الخنازیر لم یلحق للمسلم أثم في شيءٍ من ذلک؛ لأنه لم یوجرها لذلک والمعصیة في فعل المستاجر دون قصد رب الدار فلا إثم علی رب الدار في ذلک. (المبسوط ج :17 ص: 309) وذكر الزعفراني أنه ابن سبعة أشهر. والثني منها ومن المعز سنة، ومن البقر ابن سنتين، ومن الإبل ابن خمس سنين، ويدخل في البقر الجاموس لأنه من جنسه (فتح القدیر، کتاب الاضحیۃ 9/517)م (تبیین الحقائق، مما تکون الاضحیۃ 6/7) (تحفۃ الفقھاء، کتاب الاضحیۃ 3/84)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1505/42-977

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔بیع کے اندر اس طرح کی شرط غیرمعتبر ہے۔ مسلمان خریدنے کے بعد اس جانور کا پورامالک ہوگیا وہ جو چاہے اپنی ملکیت میں تصرف کرے،  ، بیچنے والے کا اس طرح کی شرط لگانا غیرمعتبر ہے؛ اس لئے اس وضاحت کے باوجود مسلمان اگر اس جانورکی قربانی کردے تو قربانی درست ہوجائے گی، کوئی کراہت نہیں ہوگی۔  

فيصح) البيع (بشرط يقتضيه العقد) ... (أو لايقتضيه ولا نفع فيه لأحد) ... (كشرط أن لايبيع) عبر ابن الكمال بيركب (الدابة المبيعة) فإنها ليست بأهل للنفع (الدر المختار وحاشية ابن عابدين 5/87)

"الاصل الجامع في فساد العقد بسبب شرط (لا يقتضيه العقد ولا يلائمه”وفيه نفع لاحدهما أو) فيه نفع (لمبيع) هو (من أهل الاستحقاق) للنفع بأن يكون آدميا،(كشرط أن يقطعه) البائع (ويخيطه قباء) مثال لما لا يقتضيه العقد وفيه نفع للمشتري (أو يستخدمه) مثال لما فيه للبائع"(الدر المختار شرح تنویر الابصار وجامع البحار 1/417 ط:دار الکتب العلمیۃ (منهاشرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة للبائع أو للمشتري أو للمبيع إن كان من بني آدم كالرقيق وليس بملائم للعقد ولا مما جرى به التعامل بين الناس نحو ما إذا باع دارا على أن يسكنها البائع شهرا ثم يسلمها إليه أو أرضا على أن يزرعها سنة أو دابة على أن يركبها شهرا أو ثوبا على أن يلبسه أسبوعا ونحو ذلك؛ فالبيع في هذا كله فاسد؛ لأن زيادة منفعة مشروطة في البيع تكون ربا لأنها زيادة لا يقابلها عوض في عقد البيع وهو تفسير الرباوالبيع الذي فيه الربا فاسد أو فيه شبهة الربا، وإنها مفسدة للبيع كحقيقة الربا على ما نقرره إن شاء الله تعالى (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع5/169 ط:دارالکتب العلمیۃ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 903 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: صورت مسئولہ میں احسان پر مطلق بکرے کی نذرماننے کی وجہ سے  ایسا بکرا واجب التصدق ہے جو پورے ایک سال کا ہو کیونکہ عرفا اور شرعا بکرا اسی کو کہتے ہیں جیسا کہ قربانی میں شرط ہے؛ اس لئے ایک سال  سے کم عمر بکرا  نذر میں صدقہ کرنا درست نہیں  ہے۔ ولایجوز فیھما الا مایجوز فی الاضاحی، بدائع ج٤، ص ٢٣٣۔ ۔  واللہ  اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 956

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر صرف  نیت کی تھی نذر نہیں مانی تھی تو اس کو ذبح کرکے اس کا گوشت جو چاہے کرے، صدقہ کرے یا خود کھائے اور رشتہ داروں میں تقسیم کرے۔ تاہم اگر استطاعت ہو تو جانور خرید کر والد مرحوم کی طر ف سے قربانی کرے اگر استطاعت نہ ہو تواس پر لازم نہیں ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 39/1093

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اگر پوری زبان  یا زبان کا اکثر حصہ موجود ہے  تو ایسے گونگے کی قربانی جائز ہے۔  قوت گویائی نہ ہونے سے قربانی پر کوئی فرق نہیں آئے گا۔  تاہم ایسے  جانور کی قربانی جو ہر طرح کے عیب سے پاک ہو زیادہ اچھا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 925

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ایسے شخص کو پیسے نہ دئے جائیں جو ان کو فواحش اور غلط کاموں میں خرچ کرتاہو، اور جبکہ اس کی مالی حالت ٹھیک ہے، اگر اس کو رقم دی جائے گی تو غلط کاموں میں لگنے کا ایک ذریعہ حاصل ہوجائے گا، اس لئے ایسے شخص کی مالی مدد نہ کی جانی چاہئے، البتہ اگر پیسے دے کر تالیف قلب کرے اور پھر اس کو سمجھائے تاکہ وہ غلط کام چھوڑدے تو اس طرح اپنے سے مانوس کرنے کے لئے مالی تعاون کرنا درست ہوگا۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1509/42-988

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قربانی کے جانور کو سجانے و سنوارنے میں آج کل خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے یقینا اس میں پیسے اور وقت دونوں کا ضیاع ہے۔ اور اس میں فخرومباہات ، ریاکاری اور دوسروں پر اپنا رعب ڈالنے کی کوشش بھی ہے، اس لئے اس عمل سے احتراز ضروری ہے۔ البتہ اس سے قربانی پر فرق نہیں آئے گا، قربانی درست ہوگی اور گوشت کھانا بھی درست ہوگا۔ نیز اگر صرف جانور کے احترام کے طور پر  اظہارِخوشی کے لئے پھولوں کا ایک معمولی سا ہار ڈال دیا جائے  تو اس کی گنجائش معلوم ہوتی  ہے گرچہ اس تکلف کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (سنن أبي داؤد، کتاب اللباس / باب في لبس الشہرۃ ۲؍۵۵۹ رقم: ۴۰۳۱ دار الفکر بیروت، مشکاۃ المصابیح، کتاب اللباس / الفصل الثاني ۲؍۳۷۵)
قال القاري: أي من شبّہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ، أو بالفساق أو الفجار، أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار ’’فہو منہم‘‘: أي في الإثم أو الخیر عند اللّٰہ تعالیٰ … الخ۔ (بذل المجہود، کتاب اللباس / باب في لبس الشہرۃ ۱۲؍۵۹ مکتبۃ دار البشائر الإسلامیۃ، وکذا في مرقاۃ المفاتیح، کتاب اللباس / الفصل الثاني ۸؍۲۵۵ رقم: ۴۳۴۷ رشیدیۃ، وکذا في فیض القدیر شرح الجامع الصغیر ۱۱؍۵۷۴۳ رقم: ۸۵۹۳ نزار مصطفیٰ الباز ریاض( البحث الثانی: النہي عن خاتم الحدید وغیرہ مخصوص بالخاتم أو شامل لسائر الحلي، منہا فلم أر نصا فیہ في کلام الفقہاء إلا أن الحدیث وکلام الفقہاء یرشد أن إلی عدم الاختصاص لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: مالي أری علیک حلیۃ أہل النار؟ وقال: مالي أری منک ریح الأصنام، فدل ذٰلک علی أنہ غیر مخصوص بالخاتم؛ بل یشمل کل حلیۃ من الحدید أو الشبہ النحاس والصفر الخ۔ (إعلاء السنن، کتاب الحظر والإباحۃ / باب خاتم الحدید وغیرہ ۱۷؍۳۳۰ المکتبۃ الإمدادیۃ مکۃ المکرمۃ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1511/42-991

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قربانی کے دنوں میں گوشت غریبوں تک پہنچ جانا چاہئے تاکہ سب کو عید کی خوشیاں نصیب ہوں۔ تاہم اگر کوئی  خاص وجہ ہو، مثلا گوشت کی فراوانی ہر جگہ ہو اور اندیشہ ہو کہ لوگ   گوشت کی بے حرمتی کریں گے اور ادھر ادھر بھینک دیں گے، اور پھر اس مقصد سے گوشت کو روک لیا جائے کہ دو تین دن بعد لوگوں کو کھلادیاجائے گا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تاہم بہت زیادہ دن اسٹور کرنے سے گوشت کی غذائیت متاثر ہوجاتی ہے، اس لئے زیادہ دنوں تک نہ رکھا جائے۔ اور بلا کسی وجہ خاص کے بھی اسٹور نہ کیا جائے۔  تاہم تین دن بعد کھانے اور کھلانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

قال النبي صلی علیہ السلام: ونہیتکم عن لحوم الأضاحي فوق ثلاث فأمسکوا ما بدأ لکم وفي المرقاة: قال الطیبي: نہاہم أن یأکلوا ما بقي من لحوم أضاحیہم فوق ثلاث لیالٍ وأوجب علیہم التصدق بہ فرخص لہ الإمساک ما شاوٴوا (مرقاة: ۴/۱۱۲)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 39/1149

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سینگ کے جڑ سے الگ ہوجانے  کااثر دماغ تک  پہونچ جاتا ہے، اس لئے ایسے جانور کی قربانی جس کی سینگ جڑ سے اکھڑگئی ہو درست نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند