ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1902/43-1890

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ،اگر کچھ گوشت بڑھاہواہے اور حقیقت میں عیب دار نہیں ہے تو قربانی درست ہوگی۔ 

کل عیب یزیل المنفعۃ علی الکمال او الجمال علی الکمال یمنع الاضحیۃ ومالایکون بھذہ الصفۃ لایمنع، (ہندیۃ، کتاب الاضحیۃ 5/345)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1174/42-424

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ساتویں، چودہویں،یا پھر اکیسویں دن عقیقہ کرنا مسنون ہے۔ اس کے بعد کبھی بھی عقیقہ کیاجائے ، عقیقہ ادا ہوجائے گا۔ ایسا کوئی ضروری نہیں ہے کہ جس دن ولادت ہو اسی تاریخ میں عقیقہ ہو،  کسی دن کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 2018/44-1978

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں دوسرے جانور کی قربانی کسی پر واجب نہیں ہے اس لیے کہ فقیر اگر ایام قربانی میں جانور خریدے تو وہ نذر کے حکم میں ہوتاہے اگر ایام قربانی سے پہلے خریدے تو نذر کے حکم نہیں ہوتاہے اس لیے کہ وہ پہلا جانور نذر کا نہیں ہے ۔فقیر کے جانور خریدنے کی صورت میں وہ مطلقا نذر کا ہوتاہے یا ایام نحر میں خریدنے کی صورت میں نذر کے حکم میں ہوتاہےاس میں حضرات فقہاء کی عبارت میں اختلاف ہے لیکن حضرات اکابر علماء دیوبندمثلا مفتی عزیز الرحمن ، مفتی محمد شفیع دیوبند اور حضرت مفتی محمود گنگوہی وغیرہم نے ایام نحر کو ہی ترجیح دی ہے اس لیے صورت مذکورہ میں راجح یہی ہے کہ پہلا جانورنذر کا نہیں ہے.

ووقع في التتارخانية التعبير بقوله شراها لها أيام النحر، وظاهره أنه لو شراها لها قبلها لا تجب(رد المحتار،کتاب الاضحیۃ،6/321)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1305/42-658

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خون مسلمان کے حق میں ایک ناپاک شیئ ہے، اور مال نہیں ہے، لیکن غیرمسلم کے لئے استفادہ کی گنجائش ہے۔ اس پر آپ کے خاموش  رہنے پر امید ہے کہ کوئی گناہ نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے متعلق کہ عقیقہ کے جانور کی عمر کیا ہونی چاہیے؟ اگر کسی نے عقیقہ میں ایک سال سے کم عمر بکرہ ذبح کر دیا تو اس کا کیا حکم ہے؟ اب کیا کرے؟

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 37 / 1045

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:عقیقہ کا گوشت غیرمسلم کو بھی دے سکتے ہیں۔ بڑے جانور میں لڑکے کے عقیقہ کے لئے دو حصے اور لڑکی کے لئے ایک حصہ رکھنا کافی ہوگا۔ ایام قربانی میں ہونا ضروری نہیں بلکہ دوسرے ایام میں بھی کرسکتے ہیں۔ البتہ اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس جانور میں سے سارے حصے صدقہ وغیرہ کے ہوں۔ چند حصے لے کر باقی گوشت بیچنا جائز نہیں  ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1913/43-1808

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگرقربانی کا جانور ایام عید الاضحی سے پہلے خرید لیا گیا، اور معاملہ مکمل ہوگیا، پھر  مالک کے پاس  اس جانور کو اس کے چارہ وغیرہ کی اجرت  پر دیدیا گیا تو ایسا کرنا  جائز ہے۔ البتہ ایام عیدالاضحی جب شروع ہوجائیں تو اس کا دودھ   صدقہ  کردینا چاہئے۔

فإن ‌كان ‌يعلفها فما اكتسب من لبنها أو انتفع من روثها فهو له، ولا يتصدق بشيء، كذا في محيط السرخسي" (ج 301/5 ط:ماجدیہ(

"ولو اشترى بقرة حلوبة وأوجبها أضحية فاكتسب مالا من لبنها يتصدق بمثل ما اكتسب ويتصدق بروثهافإن ‌كان ‌يعلفها فما اكتسب من لبنها أو انتفع من روثها فهو له، ولا يتصدق بشيء، كذا في محيط السرخسي۔" ) فتاوی ہندیہ, کتاب الاضحیۃ ،الفصل السادس فی بیان ما یستحب فی الاضحیۃ والانتفاع بھا،ج 301/5ط:دارالفکر(

"ويتصدق بلحمها؛ قال البقالي في «كتابه» : وما أصاب من لبنها تصدق بمثله أو قيمته، وكذا الأرواث إلا أن يعلفها بقدرها۔" ) المحيط البرهانی, كتاب الاضحیۃ،فصل فی الانتفاع  ج95/6ط:دارالکتب العلمیۃ(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1914/43-1804

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  (1) مالدار شخص نے اگر جانور خریدا ہے تو وہ اس کو بیچ سکتا ہے اور بدل  بھی سکتا ہے،  دوسرا جانور کم قیمت کا ہو یا زیادہ ۔ اور اگر غریب  ہے تو اس کو وہ جانور بیچنا اور بدلنا جائز نہیں ہے۔ اگر بیچ دیا تو جو رقم بچ گئی اس کو صدقہ کردے۔ (2) قربانی کا جانور ذبح کی کارروائی کے دوران اگر عیب دار ہوجائے تو اس سے قربانی پر اثر نہیں پڑتاہے، قربانی درست ہوجاتی ہے۔ (3) قصائی کی اجرت طے کرنا اور اس کو ادا کرنا ضروری ہے اگر  طے شدہ اجرت سے کم دیناچاہے تو قصائی کو کم پر راضی کرے، اور  اگر اجرت بالکل نہیں دی یا طے شدہ سے کم اجرت دی جس پر قصائی راضی نہیں تھا تو یہ بڑا گناہ ہوا، اور اس سے قربانی پر کوئی اثرنہیں  پڑے گا۔  

"(1) رجل ‌اشترى ‌شاة ‌للأضحية وأوجبها بلسانه، ثم اشترى أخرى جاز له بيع الأولى في قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى -، وإن كانت الثانية شرا من الأولى وذبح الثانية فإنه يتصدق بفضل ما بين القيمتين؛ لأنه لما أوجب الأولى بلسانه فقد جعل مقدار مالية الأولى لله تعالى فلا يكون له أن يستفضل لنفسه شيئا، ولهذا يلزمه التصدق بالفضل قال بعض مشايخنا: هذا إذا كان الرجل فقيرا فإن كان غنيا فليس عليه أن يتصدق بفضل القيمة، قال الإمام شمس الأئمة السرخسي الصحيح أن الجواب فيهما على السواء يلزمه التصدق بالفضل غنيا كان أو فقيرا؛ لأن الأضحية وإن كانت واجبة على الغني في الذمة فإنما يتعين المحل بتعيينه فتعين هذا المحل بقدر المالية لأن التعيين يفيد في ذلك". (الھندیۃ،  (كتاب الأضحية، الباب الثاني، 294/5، ط : رشيديه)  "(‌وفقير) ‌عطف ‌عليه (شراها لها) لوجوبها عليه بذلك حتى يمتنع عليه بيعها (و) تصدق (بقيمتها غني شراها أولا) لتعلقها بذمته بشرائها أولا، فالمراد بالقيمة قيمة شاة تجزي فيها". (فتاوی شامی، (كتاب الأضحية، 321/6، ط : سعيد)

(2) "ولو قدم أضحية ليذبحها فاضطربت في المكان الذي يذبحها فيه فانكسرت رجلها، ثم ذبحها على مكانها أجزأه." (وفي الفتاوى الهندية :(5/ 299ط:دار الفكر) ۔ ۔ ۔ "(ولو) (اشتراها سليمةً ثم تعيبت بعيب مانع) كما مر (فعليه إقامة غيرها مقامها إن) كان (غنيا، وإن) كان (فقيرا أجزأه ذلك) وكذا لو كانت معيبة وقت الشراء لعدم وجوبها عليه بخلاف الغني، ولا يضر تعيبها من اضطرابها عند الذبح."(رد المحتار6/ 325ط:سعيد)

(3) "لایجوز لأحد  أن یأخذ  مال أحد  بلا سبب شرعي (شرح المجلۃ 1/264 مادۃ: 97، ط: رشیدیہ)

"مطلب يعذر بالعمل بمذهب الغير عند الضرورة.  (قوله: وأطلق الشافعي أخذ خلاف الجنس) أي من النقود أو العروض؛ لأن النقود يجوز أخذها عندنا على ما قررناه آنفًا. قال القهستاني: وفيه إيماء إلى أن له أن يأخذ من خلاف جنسه عند المجانسة في المالية، وهذا أوسع فيجوز الأخذ به وإن لم يكن مذهبنا؛ فإن الإنسان يعذر في العمل به عند الضرورة كما في الزاهدي. اهـ. قلت: وهذا ما قالوا: إنه لا مستند له، لكن رأيت في شرح نظم الكنز للمقدسي من كتاب الحجر. قال: ونقل جد والدي لأمه الجمال الأشقر في شرحه للقدوري أن عدم جواز الأخذ من خلاف الجنس كان في زمانهم لمطاوعتهم في الحقوق. والفتوى اليوم على جواز الأخذ عند القدرة من أي مال كان لا سيما في ديارنا لمداومتهم للعقوق" (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 95)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 980/41-152

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس سلسلہ میں امیر(صاحب نصاب) اور غریب (غیرصاحب نصاب) کے اعتبار سے  مسئلہ میں فرق پڑتا ہے۔ اگر کوئی صاحب نصاب شخص ہے اور اس کی قربانی کا جانور مرگیا تو جانور کے مرجانے کے بعد اگر وہ ایام قربانی میں  صاحب نصاب ہے تو اس پر قربانی کرنا ضروری ہے۔ اور غریب شخص پرجانور مرجانے کی صورت میں دوسری قربانی نہیں ہے۔

اگر قربانی کے جانور کو ذبح کردیا اور اس کا گوشت فروخت کردیا تو صاحب نصاب پر دوسری قربانی لازم ہے، اگر قربانی نہیں کیا تو بعد ایام قربانی اس کا تصدق لازم ہے۔ اگرفقیر کے گھر کا بکرا تھا یا خریدتے وقت اس نے قربانی کی نیت نہیں کی تھی تو ایسی صورت میں نہ اس پر قربانی لازم ہے اور نہ ہی گوشت کی قیمت کا تصدق لازم ہے۔

اذا ماتت المشتراۃ للتضحیۃ علی موسر تجب مکانھا اخری ولا شیئ علی الفقیر ۔(مجمع الانہر 4/173)۔ اذا اشتری شاۃ للاضحیۃ وھو موسر ثم انھا ماتت او سرقت او ضلت فی ایام النحر انہ یجب علیہ ان یضحی بشاۃ اخری وان کان معسرا فاشتری شاۃ للاضحیۃ فھلکت فی ایام النحر او ضاعت سقطت عنہ ولیس علیہ شیئ آخر۔ (بدائع الصنائع 4/191)۔ ولو کان فی ملک انسان شاۃ فنوی ان یضحی بھا او اشتری شاۃ ولم ینو الاضحیۃ وقت الشراء ثم نوی بعد ذلک ان یضحی بھا لایجب علیہ سواء کان غنیا او فقیرا لان النیۃ لم تقارن الشراء فلاتعتبر (بدائع الصنائع فصل مایجب علی الفقیر دون الغنی 4/193)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 2394/44-3623

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قربانی کے گوشت  کی طرح ، قربانی کی کھال آدمی خود استعمال کرسکتاہے، اور کسی کو ہدیہ میں دے سکتاہے، اور اس کے ضائع ہونے پر اس پر کوئی تاوان نہیں آتا،  تاہم  کھال کو بیچ کر پیسے اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے، اس لئے اگر کسی نے بیچا تو اس کی قیمت کا کسی مستحق زکوۃ شخص کو صدقہ کرنا لازم ہوگا، اور اگر کھال کو نہیں بیچا بلکہ  اس کو ضائع کردیا تو اس پر  کھال کی قیمت کے بقدر صدقہ کرنا لازم نہیں ہوگا۔  

امداد الاحکام  میں ہے:

"قربانی کے  جانور  کی جو اشیاء قابلِ استعمال ہوں، مثلاً گوشت، کھال وغیرہ، اگر خود استعمال نہ کرنی ہوں تو کسی اور کو دے دیا جائے، اسے دفن کرنا ضیاعِ مال ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے؛ لہذا  چمڑا دفن کرنے کی بجائے کسی  کو ہدیہ دے دیا جائے یا دینی مدارس کو  دے دی جائے یا اس کو فروخت کرکے اس کی رقم کسی مستحقِ  زکوٰۃ کو دے دی جائے۔(امداد الاحکام ، کتاب، ج: 4، صفحہ: 200، ۴/۲۰۰،کتاب الصید)

لابأس بأن ینتفع بإہاب الأضحیۃ۔ (قاضیخان، کتاب الأضحیۃ، فصل فی الانتفاع بالأضحیۃ، زکریا جدید ۳/۲۴۹، وعلی ہامش الہندیۃ ۳/۳۵۴)

واللحم بمنزلۃ الجلد فی الصحیح۔ (ہندیہ، کتاب الأضحیۃ، الباب السادس، زکریا قدیم ۵/۳۰۱، جدید ۵/۳۴۷، حاشیۃ الطحطاوی علی الدر کوئٹہ ۴/۳۲۵)

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: محمد اسعد

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند