ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1513/42-987

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ -1ایسے شخص کی قربانی  شرعا جائز نہیں  ہے، مال خبیث سے شرکت کرنے والے کو قربانی کاثواب نہیں ملے گا، تاہم  جن لوگوں کے ساتھ قربانی کے جانور میں وہ شریک تھا سب کی قربانی درست ہوگی۔2 قربانی کے جانور کی کھال کو اگر کوڑے پر سے کسی نے اٹھایا تو وہ اس کا مالک ہے، وہ اس کو استعمال کرسکتاہے اور بیچ بھی سکتاہے۔ پھینکے والے کی نیت یہی ہوتی ہے کہ اگر کسی کو ضرورت ہو تو وہ اس کو لے جائے، اس کی طرف سے ہدیہ کے حکم  میں ہے۔  

وقد یتصف بالحرمة کالحج بمال حرام.........(قولہ کالحج بمال حرام) کذا فی البحر والأولی التمثیل بالحج ریاء وسمعة، فقد یقال إن الحج نفسہ الذی ہو زیارة مکان مخصوص إلخ لیس حراما بل الحرام ہو إنفاق المال الحرام، ولا تلازم بینہما، کما أن الصلاة فی الأرض المغصوبة تقع فرضا، وإنما الحرام شغل المکان المغصوب لا من حیث کون الفعل صلاة لأن الفرض لا یمکن اتصافہ بالحرمة، وہنا کذلک فإن الحج فی نفسہ مأمور بہ ، وإنما یحرم من حیث الإنفاق، وکأنہ أطلق علیہ الحرمة لأن للمال دخلا فیہ، فإن الحج عبادة مرکبة من عمل البدن والمال کما قدمناہ، ولذا قال فی البحر ویجتہد فی تحصیل نفقة حلال ، فإنہ لا یقبل بالنفقة الحرام کما ورد فی الحدیث ، مع أنہ یسقط الفرض عنہ معہا ولا تنافی بین سقوطہ، وعدم قبولہ فلا یثاب لعدم القبول ، ولایعاقب عقاب تارک الحج. اہ.(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 3/ 453، مطلب فیمن حج بمال حرام،ط: زکریا،دیوبند) ....لوأخرج زکاة المال الحلال من مال حرام ذکر فی الوہبانیة أنہ یجزء عند البعض، ونقل القولین فی القنیة.وقال فی البزازیة: ولو نوی فی المال الخبیث الذی وجبت صدقتہ أن یقع عن الزکاة وقع عنہا اہ أی نوی فی الذی وجب التصدق بہ لجہل أربابہ، وفیہ تقیید لقول الظہیریة: رجل دفع إلی فقیر من المال الحرام شیئا یرجو بہ الثواب یکفر، ولو علم الفقیر بذلک فدعا لہ وأمن المعطی کفرا جمیعا.(الدرالمختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 3/ 219، ط: مطلب فی التصدق من المال الحرام،ط: زکریا، دیوبند)

وله أن ينتفع بجلد أضحيته في بيته بأن يجعله سقاء أو فروا أو غير ذلك؛ لما روي عن سيدتنا عائشة - رضي الله عنها - أنها اتخذت من جلد أضحيتها سقاء ولأنه يجوز الانتفاع بلحمها فكذا بجلدها، وله أن يبيع هذه الأشياء بما يمكن الانتفاع به مع بقاء عينه من متاع البيت كالجراب والمنخل؛ لأن البدل الذي يمكن الانتفاع به مع بقاء عينه يقوم مقام المبدل فكان المبدل قائما معنى فكان الانتفاع به كالانتفاع بعين الجلد   (بدائع الصنائع، بیان رکن النذر 5/81)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1071/41-236

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔  کرنٹ کے ذریعہ اپنے تالاب کی مچھلی کا شکار کرنا درست ہے، بشرطیکہ دیگر مفاسد کا اندیشہ نہ ہو مثلا  کرنٹ سے دوسری  چھوٹی مچھلیاں  بھی مرجائیں اور دوسرے جانور بھی متاثر ہوں تو پھر درست نہیں۔

ولایحل حیوان مائی الا السمک الذی مات مآفۃ – ومامات  بحرالماء  او بردہ و بربطہ فیہ او القاء شئی فموتہ بآفۃ  (ردالمحتار 6/306)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1903/43-1787

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جہاں عید کی نمازجائز نہیں، جیسے گاؤں، دیہات وغیرہ،  وہاں فجر کا وقت داخل ہونے کے بعد کبھی بھی قربانی کرسکتے ہیں۔ وہاں کے لوگوں کا نماز عید پڑھنا اور نہ پڑھنا برابر ہے، اس لئے ان کی نماز کا اعتبار نہیں ہوگا اور قربانی اس نماز سے قبل بھی درست ہوجائے گی۔ البتہ شہر میں اگر ایک جگہ نماز ہوگئی تو پورے شہر میں قربانی جائز ہے چاہے اپنے محلہ کی مسجد میں نماز عید نہ ہوئی ہو۔

لایجوز لأہل المصر ان یذبحوا الاضحیۃ قبل أن یصلوا صلاۃ العید یوم الاضحی وذبح غیرہ والاصل فیہ قولہ علیہ الصلاۃ والسلام من ذبح قبل الصلوٰۃ فلیعد ذبیحتہ ومن ذبح بعد الصلاۃ تم نسکہ۔  (مجمع الانھر، ص169ج 4 کتاب الاضحیۃ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1902/43-1890

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ،اگر کچھ گوشت بڑھاہواہے اور حقیقت میں عیب دار نہیں ہے تو قربانی درست ہوگی۔ 

کل عیب یزیل المنفعۃ علی الکمال او الجمال علی الکمال یمنع الاضحیۃ ومالایکون بھذہ الصفۃ لایمنع، (ہندیۃ، کتاب الاضحیۃ 5/345)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1174/42-424

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ساتویں، چودہویں،یا پھر اکیسویں دن عقیقہ کرنا مسنون ہے۔ اس کے بعد کبھی بھی عقیقہ کیاجائے ، عقیقہ ادا ہوجائے گا۔ ایسا کوئی ضروری نہیں ہے کہ جس دن ولادت ہو اسی تاریخ میں عقیقہ ہو،  کسی دن کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 2018/44-1978

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں دوسرے جانور کی قربانی کسی پر واجب نہیں ہے اس لیے کہ فقیر اگر ایام قربانی میں جانور خریدے تو وہ نذر کے حکم میں ہوتاہے اگر ایام قربانی سے پہلے خریدے تو نذر کے حکم نہیں ہوتاہے اس لیے کہ وہ پہلا جانور نذر کا نہیں ہے ۔فقیر کے جانور خریدنے کی صورت میں وہ مطلقا نذر کا ہوتاہے یا ایام نحر میں خریدنے کی صورت میں نذر کے حکم میں ہوتاہےاس میں حضرات فقہاء کی عبارت میں اختلاف ہے لیکن حضرات اکابر علماء دیوبندمثلا مفتی عزیز الرحمن ، مفتی محمد شفیع دیوبند اور حضرت مفتی محمود گنگوہی وغیرہم نے ایام نحر کو ہی ترجیح دی ہے اس لیے صورت مذکورہ میں راجح یہی ہے کہ پہلا جانورنذر کا نہیں ہے.

ووقع في التتارخانية التعبير بقوله شراها لها أيام النحر، وظاهره أنه لو شراها لها قبلها لا تجب(رد المحتار،کتاب الاضحیۃ،6/321)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1305/42-658

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خون مسلمان کے حق میں ایک ناپاک شیئ ہے، اور مال نہیں ہے، لیکن غیرمسلم کے لئے استفادہ کی گنجائش ہے۔ اس پر آپ کے خاموش  رہنے پر امید ہے کہ کوئی گناہ نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے متعلق کہ عقیقہ کے جانور کی عمر کیا ہونی چاہیے؟ اگر کسی نے عقیقہ میں ایک سال سے کم عمر بکرہ ذبح کر دیا تو اس کا کیا حکم ہے؟ اب کیا کرے؟

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 37 / 1045

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:عقیقہ کا گوشت غیرمسلم کو بھی دے سکتے ہیں۔ بڑے جانور میں لڑکے کے عقیقہ کے لئے دو حصے اور لڑکی کے لئے ایک حصہ رکھنا کافی ہوگا۔ ایام قربانی میں ہونا ضروری نہیں بلکہ دوسرے ایام میں بھی کرسکتے ہیں۔ البتہ اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس جانور میں سے سارے حصے صدقہ وغیرہ کے ہوں۔ چند حصے لے کر باقی گوشت بیچنا جائز نہیں  ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1913/43-1808

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگرقربانی کا جانور ایام عید الاضحی سے پہلے خرید لیا گیا، اور معاملہ مکمل ہوگیا، پھر  مالک کے پاس  اس جانور کو اس کے چارہ وغیرہ کی اجرت  پر دیدیا گیا تو ایسا کرنا  جائز ہے۔ البتہ ایام عیدالاضحی جب شروع ہوجائیں تو اس کا دودھ   صدقہ  کردینا چاہئے۔

فإن ‌كان ‌يعلفها فما اكتسب من لبنها أو انتفع من روثها فهو له، ولا يتصدق بشيء، كذا في محيط السرخسي" (ج 301/5 ط:ماجدیہ(

"ولو اشترى بقرة حلوبة وأوجبها أضحية فاكتسب مالا من لبنها يتصدق بمثل ما اكتسب ويتصدق بروثهافإن ‌كان ‌يعلفها فما اكتسب من لبنها أو انتفع من روثها فهو له، ولا يتصدق بشيء، كذا في محيط السرخسي۔" ) فتاوی ہندیہ, کتاب الاضحیۃ ،الفصل السادس فی بیان ما یستحب فی الاضحیۃ والانتفاع بھا،ج 301/5ط:دارالفکر(

"ويتصدق بلحمها؛ قال البقالي في «كتابه» : وما أصاب من لبنها تصدق بمثله أو قيمته، وكذا الأرواث إلا أن يعلفها بقدرها۔" ) المحيط البرهانی, كتاب الاضحیۃ،فصل فی الانتفاع  ج95/6ط:دارالکتب العلمیۃ(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند