ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1053/41-240

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ ایسے جانور کی  قربانی درست ہے ؛  یہ عیب قربانی سے مانع نہیں ہوگا، کیونکہ اس سے نہ تو اس کے حسن میں بہت زیادہ کمی ہورہی ہے اور نہ ہی اس کی قیمت میں  کوئی کمی ہورہی ہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1512/42-990

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میت کی جانب سے کی جانے والی قربانی کا بھی وہی حکم ہے جو عام قربانی کا ہے۔ لہذا اس کا گوشت بھی اہل خانہ ، رشتہ دار اور غریب ومالدار سب لوگ کھاسکتے ہیں۔ سارا گوشت صدقہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ 

قال (ويأكل من لحم الأضحية ويطعم الأغنياء والفقراء ويدخر) لقوله - عليه الصلاة والسلام - «كنت نهيتكم عن أكل لحوم الأضاحي فكلوامنها وادخروا» ومتى جاز أكله وهو غني جاز أن يؤكله غنيا (فتح القدیر للکمال، کتاب الاضحیۃ 9/517)

فثبت بمجموع الكتاب العزيز والسنة أن المستحب ما قلنا ولأنه يوم ضيافة الله - عز وجل - بلحوم القرابين فيندب إشراك الكل فيها ويطعم الفقير والغني جميعا لكون الكل أضياف الله تعالى - عز شأنه - في هذه الأيام وله أن يهبه منهما جميعا، ولو تصدق بالكل جاز ولو حبس الكل لنفسه جاز؛ لأن القربة في الإراقة.  (وأما) التصدق باللحم فتطوع وله أن يدخر الكل لنفسه فوق ثلاثة أيام؛ لأن النهي عن ذلك كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ بما روي عن النبي - عليه الصلاة والسلام - أنه قال «إني كنت نهيتكم عن إمساك لحوم الأضاحي فوق ثلاثة أيام ألا فأمسكوا ما بدا لكم» (بدائع الصنائع، بیان رکن النذر وشرائطہ 5/81)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1056/41-237

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔  مالدار آدمی ایسا کرسکتا ہے۔ قربانی  کی نیت سے بکرا خریدنے سے مالدار پر وہی بکرا لازم نہیں ہوتا ہے، تاہم ایسا کرنا بہتر نہیں ہے۔

دوسرے کے پیسوں کو اس کی اجازت کے بعد اپنے استعمال میں لاسکتا ہے۔ بلااجازت جائز نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1057/41-233

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔  صحت قربانی کے لئے مقام قربانی میں ایام نحر کا پایا جانا ضروری ہے، لہذا صورت مسئولہ میں جزیرۃ العرب میں مقیم شخص کی قربانی ہندوستان میں 12 ذی الحجہ کو درست ہے۔ مثلا اگر یہ شخص 12 ذی الحجہ کو ہندوستان آجائے تو اس کے لئے  اپنی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے تو اسی طرح اس کے وکیل کے لئے بھی جائز ہے۔

وان کان الرجل فی مصر واھلہ فی مصر آخر فکتب الیھم ان یضحوا عنہ روی عن ابی یوسف انہ اعتبر مکان الذبیحۃ   (بدائع 4/213)۔ والمعتبر مکان  الاضحیۃ لا مکان المضحی (بزازیہ 3/156) (الھندیہ 6/289) ولو کان  فی مصر وقت الاضحیۃ واھلہ فی مصر آخر فکتب الی الاھل وامرھم بالتضحیۃ فی ظاھر الروایۃ یعتبر مکان الاضحیۃ (خانیۃ 3/243) (الھندیۃ 3/345)۔ واول وقتھا ای اول وقت تضحیۃ الاضحیۃ بعد فجر النحر لکن لا تذبح فی المصر قبل صلوۃ العید وھذا الشرط لمن تجب علیہ صلوۃ العید۔ ثم المعتبر فی ذلک مکان الاضحیۃ حری لوکان فی السواد والمضحی فی المصر یجوز من انشقاق الفجر وعلی عکسہ لایجوز الا بعد الصلوۃ  (مجمع الانہر- فقیہ الامت 4/169)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 39/1146

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  درست  ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 39/1147

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر پیر زمین پر رکھ کر سہارے سے چلتا ہے تو اس  کی قربانی درست  ہے۔ اور اگر پیر بالکل نہیں رکھ پاتاہے تو اس کی قربانی درست نہیں ہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1513/42-987

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ -1ایسے شخص کی قربانی  شرعا جائز نہیں  ہے، مال خبیث سے شرکت کرنے والے کو قربانی کاثواب نہیں ملے گا، تاہم  جن لوگوں کے ساتھ قربانی کے جانور میں وہ شریک تھا سب کی قربانی درست ہوگی۔2 قربانی کے جانور کی کھال کو اگر کوڑے پر سے کسی نے اٹھایا تو وہ اس کا مالک ہے، وہ اس کو استعمال کرسکتاہے اور بیچ بھی سکتاہے۔ پھینکے والے کی نیت یہی ہوتی ہے کہ اگر کسی کو ضرورت ہو تو وہ اس کو لے جائے، اس کی طرف سے ہدیہ کے حکم  میں ہے۔  

وقد یتصف بالحرمة کالحج بمال حرام.........(قولہ کالحج بمال حرام) کذا فی البحر والأولی التمثیل بالحج ریاء وسمعة، فقد یقال إن الحج نفسہ الذی ہو زیارة مکان مخصوص إلخ لیس حراما بل الحرام ہو إنفاق المال الحرام، ولا تلازم بینہما، کما أن الصلاة فی الأرض المغصوبة تقع فرضا، وإنما الحرام شغل المکان المغصوب لا من حیث کون الفعل صلاة لأن الفرض لا یمکن اتصافہ بالحرمة، وہنا کذلک فإن الحج فی نفسہ مأمور بہ ، وإنما یحرم من حیث الإنفاق، وکأنہ أطلق علیہ الحرمة لأن للمال دخلا فیہ، فإن الحج عبادة مرکبة من عمل البدن والمال کما قدمناہ، ولذا قال فی البحر ویجتہد فی تحصیل نفقة حلال ، فإنہ لا یقبل بالنفقة الحرام کما ورد فی الحدیث ، مع أنہ یسقط الفرض عنہ معہا ولا تنافی بین سقوطہ، وعدم قبولہ فلا یثاب لعدم القبول ، ولایعاقب عقاب تارک الحج. اہ.(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 3/ 453، مطلب فیمن حج بمال حرام،ط: زکریا،دیوبند) ....لوأخرج زکاة المال الحلال من مال حرام ذکر فی الوہبانیة أنہ یجزء عند البعض، ونقل القولین فی القنیة.وقال فی البزازیة: ولو نوی فی المال الخبیث الذی وجبت صدقتہ أن یقع عن الزکاة وقع عنہا اہ أی نوی فی الذی وجب التصدق بہ لجہل أربابہ، وفیہ تقیید لقول الظہیریة: رجل دفع إلی فقیر من المال الحرام شیئا یرجو بہ الثواب یکفر، ولو علم الفقیر بذلک فدعا لہ وأمن المعطی کفرا جمیعا.(الدرالمختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 3/ 219، ط: مطلب فی التصدق من المال الحرام،ط: زکریا، دیوبند)

وله أن ينتفع بجلد أضحيته في بيته بأن يجعله سقاء أو فروا أو غير ذلك؛ لما روي عن سيدتنا عائشة - رضي الله عنها - أنها اتخذت من جلد أضحيتها سقاء ولأنه يجوز الانتفاع بلحمها فكذا بجلدها، وله أن يبيع هذه الأشياء بما يمكن الانتفاع به مع بقاء عينه من متاع البيت كالجراب والمنخل؛ لأن البدل الذي يمكن الانتفاع به مع بقاء عينه يقوم مقام المبدل فكان المبدل قائما معنى فكان الانتفاع به كالانتفاع بعين الجلد   (بدائع الصنائع، بیان رکن النذر 5/81)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1071/41-236

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔  کرنٹ کے ذریعہ اپنے تالاب کی مچھلی کا شکار کرنا درست ہے، بشرطیکہ دیگر مفاسد کا اندیشہ نہ ہو مثلا  کرنٹ سے دوسری  چھوٹی مچھلیاں  بھی مرجائیں اور دوسرے جانور بھی متاثر ہوں تو پھر درست نہیں۔

ولایحل حیوان مائی الا السمک الذی مات مآفۃ – ومامات  بحرالماء  او بردہ و بربطہ فیہ او القاء شئی فموتہ بآفۃ  (ردالمحتار 6/306)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1903/43-1787

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جہاں عید کی نمازجائز نہیں، جیسے گاؤں، دیہات وغیرہ،  وہاں فجر کا وقت داخل ہونے کے بعد کبھی بھی قربانی کرسکتے ہیں۔ وہاں کے لوگوں کا نماز عید پڑھنا اور نہ پڑھنا برابر ہے، اس لئے ان کی نماز کا اعتبار نہیں ہوگا اور قربانی اس نماز سے قبل بھی درست ہوجائے گی۔ البتہ شہر میں اگر ایک جگہ نماز ہوگئی تو پورے شہر میں قربانی جائز ہے چاہے اپنے محلہ کی مسجد میں نماز عید نہ ہوئی ہو۔

لایجوز لأہل المصر ان یذبحوا الاضحیۃ قبل أن یصلوا صلاۃ العید یوم الاضحی وذبح غیرہ والاصل فیہ قولہ علیہ الصلاۃ والسلام من ذبح قبل الصلوٰۃ فلیعد ذبیحتہ ومن ذبح بعد الصلاۃ تم نسکہ۔  (مجمع الانھر، ص169ج 4 کتاب الاضحیۃ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1902/43-1890

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ،اگر کچھ گوشت بڑھاہواہے اور حقیقت میں عیب دار نہیں ہے تو قربانی درست ہوگی۔ 

کل عیب یزیل المنفعۃ علی الکمال او الجمال علی الکمال یمنع الاضحیۃ ومالایکون بھذہ الصفۃ لایمنع، (ہندیۃ، کتاب الاضحیۃ 5/345)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند