Frequently Asked Questions
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 925
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ایسے شخص کو پیسے نہ دئے جائیں جو ان کو فواحش اور غلط کاموں میں خرچ کرتاہو، اور جبکہ اس کی مالی حالت ٹھیک ہے، اگر اس کو رقم دی جائے گی تو غلط کاموں میں لگنے کا ایک ذریعہ حاصل ہوجائے گا، اس لئے ایسے شخص کی مالی مدد نہ کی جانی چاہئے، البتہ اگر پیسے دے کر تالیف قلب کرے اور پھر اس کو سمجھائے تاکہ وہ غلط کام چھوڑدے تو اس طرح اپنے سے مانوس کرنے کے لئے مالی تعاون کرنا درست ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 1509/42-988
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قربانی کے جانور کو سجانے و سنوارنے میں آج کل خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے یقینا اس میں پیسے اور وقت دونوں کا ضیاع ہے۔ اور اس میں فخرومباہات ، ریاکاری اور دوسروں پر اپنا رعب ڈالنے کی کوشش بھی ہے، اس لئے اس عمل سے احتراز ضروری ہے۔ البتہ اس سے قربانی پر فرق نہیں آئے گا، قربانی درست ہوگی اور گوشت کھانا بھی درست ہوگا۔ نیز اگر صرف جانور کے احترام کے طور پر اظہارِخوشی کے لئے پھولوں کا ایک معمولی سا ہار ڈال دیا جائے تو اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے گرچہ اس تکلف کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (سنن أبي داؤد، کتاب اللباس / باب في لبس الشہرۃ ۲؍۵۵۹ رقم: ۴۰۳۱ دار الفکر بیروت، مشکاۃ المصابیح، کتاب اللباس / الفصل الثاني ۲؍۳۷۵)
قال القاري: أي من شبّہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ، أو بالفساق أو الفجار، أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار ’’فہو منہم‘‘: أي في الإثم أو الخیر عند اللّٰہ تعالیٰ … الخ۔ (بذل المجہود، کتاب اللباس / باب في لبس الشہرۃ ۱۲؍۵۹ مکتبۃ دار البشائر الإسلامیۃ، وکذا في مرقاۃ المفاتیح، کتاب اللباس / الفصل الثاني ۸؍۲۵۵ رقم: ۴۳۴۷ رشیدیۃ، وکذا في فیض القدیر شرح الجامع الصغیر ۱۱؍۵۷۴۳ رقم: ۸۵۹۳ نزار مصطفیٰ الباز ریاض( البحث الثانی: النہي عن خاتم الحدید وغیرہ مخصوص بالخاتم أو شامل لسائر الحلي، منہا فلم أر نصا فیہ في کلام الفقہاء إلا أن الحدیث وکلام الفقہاء یرشد أن إلی عدم الاختصاص لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: مالي أری علیک حلیۃ أہل النار؟ وقال: مالي أری منک ریح الأصنام، فدل ذٰلک علی أنہ غیر مخصوص بالخاتم؛ بل یشمل کل حلیۃ من الحدید أو الشبہ النحاس والصفر الخ۔ (إعلاء السنن، کتاب الحظر والإباحۃ / باب خاتم الحدید وغیرہ ۱۷؍۳۳۰ المکتبۃ الإمدادیۃ مکۃ المکرمۃ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 1511/42-991
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قربانی کے دنوں میں گوشت غریبوں تک پہنچ جانا چاہئے تاکہ سب کو عید کی خوشیاں نصیب ہوں۔ تاہم اگر کوئی خاص وجہ ہو، مثلا گوشت کی فراوانی ہر جگہ ہو اور اندیشہ ہو کہ لوگ گوشت کی بے حرمتی کریں گے اور ادھر ادھر بھینک دیں گے، اور پھر اس مقصد سے گوشت کو روک لیا جائے کہ دو تین دن بعد لوگوں کو کھلادیاجائے گا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تاہم بہت زیادہ دن اسٹور کرنے سے گوشت کی غذائیت متاثر ہوجاتی ہے، اس لئے زیادہ دنوں تک نہ رکھا جائے۔ اور بلا کسی وجہ خاص کے بھی اسٹور نہ کیا جائے۔ تاہم تین دن بعد کھانے اور کھلانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
قال النبي صلی علیہ السلام: ونہیتکم عن لحوم الأضاحي فوق ثلاث فأمسکوا ما بدأ لکم وفي المرقاة: قال الطیبي: نہاہم أن یأکلوا ما بقي من لحوم أضاحیہم فوق ثلاث لیالٍ وأوجب علیہم التصدق بہ فرخص لہ الإمساک ما شاوٴوا (مرقاة: ۴/۱۱۲)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 39/1149
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سینگ کے جڑ سے الگ ہوجانے کااثر دماغ تک پہونچ جاتا ہے، اس لئے ایسے جانور کی قربانی جس کی سینگ جڑ سے اکھڑگئی ہو درست نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 1053/41-240
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ ایسے جانور کی قربانی درست ہے ؛ یہ عیب قربانی سے مانع نہیں ہوگا، کیونکہ اس سے نہ تو اس کے حسن میں بہت زیادہ کمی ہورہی ہے اور نہ ہی اس کی قیمت میں کوئی کمی ہورہی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 1512/42-990
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میت کی جانب سے کی جانے والی قربانی کا بھی وہی حکم ہے جو عام قربانی کا ہے۔ لہذا اس کا گوشت بھی اہل خانہ ، رشتہ دار اور غریب ومالدار سب لوگ کھاسکتے ہیں۔ سارا گوشت صدقہ کرنا ضروری نہیں ہے۔
قال (ويأكل من لحم الأضحية ويطعم الأغنياء والفقراء ويدخر) لقوله - عليه الصلاة والسلام - «كنت نهيتكم عن أكل لحوم الأضاحي فكلوامنها وادخروا» ومتى جاز أكله وهو غني جاز أن يؤكله غنيا (فتح القدیر للکمال، کتاب الاضحیۃ 9/517)
فثبت بمجموع الكتاب العزيز والسنة أن المستحب ما قلنا ولأنه يوم ضيافة الله - عز وجل - بلحوم القرابين فيندب إشراك الكل فيها ويطعم الفقير والغني جميعا لكون الكل أضياف الله تعالى - عز شأنه - في هذه الأيام وله أن يهبه منهما جميعا، ولو تصدق بالكل جاز ولو حبس الكل لنفسه جاز؛ لأن القربة في الإراقة. (وأما) التصدق باللحم فتطوع وله أن يدخر الكل لنفسه فوق ثلاثة أيام؛ لأن النهي عن ذلك كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ بما روي عن النبي - عليه الصلاة والسلام - أنه قال «إني كنت نهيتكم عن إمساك لحوم الأضاحي فوق ثلاثة أيام ألا فأمسكوا ما بدا لكم» (بدائع الصنائع، بیان رکن النذر وشرائطہ 5/81)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 1056/41-237
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ مالدار آدمی ایسا کرسکتا ہے۔ قربانی کی نیت سے بکرا خریدنے سے مالدار پر وہی بکرا لازم نہیں ہوتا ہے، تاہم ایسا کرنا بہتر نہیں ہے۔
دوسرے کے پیسوں کو اس کی اجازت کے بعد اپنے استعمال میں لاسکتا ہے۔ بلااجازت جائز نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 1057/41-233
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ صحت قربانی کے لئے مقام قربانی میں ایام نحر کا پایا جانا ضروری ہے، لہذا صورت مسئولہ میں جزیرۃ العرب میں مقیم شخص کی قربانی ہندوستان میں 12 ذی الحجہ کو درست ہے۔ مثلا اگر یہ شخص 12 ذی الحجہ کو ہندوستان آجائے تو اس کے لئے اپنی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے تو اسی طرح اس کے وکیل کے لئے بھی جائز ہے۔
وان کان الرجل فی مصر واھلہ فی مصر آخر فکتب الیھم ان یضحوا عنہ روی عن ابی یوسف انہ اعتبر مکان الذبیحۃ (بدائع 4/213)۔ والمعتبر مکان الاضحیۃ لا مکان المضحی (بزازیہ 3/156) (الھندیہ 6/289) ولو کان فی مصر وقت الاضحیۃ واھلہ فی مصر آخر فکتب الی الاھل وامرھم بالتضحیۃ فی ظاھر الروایۃ یعتبر مکان الاضحیۃ (خانیۃ 3/243) (الھندیۃ 3/345)۔ واول وقتھا ای اول وقت تضحیۃ الاضحیۃ بعد فجر النحر لکن لا تذبح فی المصر قبل صلوۃ العید وھذا الشرط لمن تجب علیہ صلوۃ العید۔ ثم المعتبر فی ذلک مکان الاضحیۃ حری لوکان فی السواد والمضحی فی المصر یجوز من انشقاق الفجر وعلی عکسہ لایجوز الا بعد الصلوۃ (مجمع الانہر- فقیہ الامت 4/169)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 39/1146
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ درست ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 39/1147
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر پیر زمین پر رکھ کر سہارے سے چلتا ہے تو اس کی قربانی درست ہے۔ اور اگر پیر بالکل نہیں رکھ پاتاہے تو اس کی قربانی درست نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند