نکاح و شادی

Ref. No. 2781/45-4363

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بالغ لڑکا وبالغ لڑکی دو بالغ مرد گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کرلیں تو شرعاً نکاح منعقد ہو جاتا ہے، تاہم اگر لڑکی نے غیر کفو میں نکاح کیا تو لڑکی کے والد کو نکاح فسخ کرانے کا اختیار ہے تاہم اولاد کو ایسے کام کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے جو والدین یا خاندان کے لئے بد نامی یا شرمندگی کا باعث ہو۔

عن سماك بن حرب قال: جاء رجل الي علی فقال امرأة أنا وليها تزوجت بغير اذن، فقال علي رضي الله عنه: تنظر فيماصنعت ان كانت تزوجت كفوا أجز نا ذلك لها وان كانت تزوجت من ليس لها كفوا جعلنا ذلك اليك‘‘ (سنن دار قطني)

ولا ينعقد نكاح المسلمين الا بحضور شاهدين عاقلين بالغين مسلمين الخ أما اشتراط الشهادة فلقوله عليه السلام لا نكاح الا بشهود‘‘ (فتح القدير: ج 3،ص: 199، زكريا)

وينعقد نكاح الحرة العاقلة البالغة برضائها وان لم يعقد عليها ولی بكرا كانت أو ثبيا عند أبي حنيفة وأبي يوسف في ظاهر الرواية‘‘ (الهداية: ج 2، ص: 335)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2375/44-3588

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  احناف کے یہاں بالغہ لڑکی اگر اپنا نکاح از خود والدین کی مرضی کے بغیر کفوء میں کرلے تو نکاح درست ہوجاتاہے، آپ کی عمر 32 سال ہے، والدین کی ذمہ داری ہے کہ آپ کا نکاح مناسب جگہ کردیتے لیکن بظاہر انہوں نے اس دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا جو ان کو کرنا چاہئے تھا ، اس لئے اگر آپ کو رشتہ مناسب معلوم ہوتاہے تو پہلے کوشش کریں کہ والدین راضی ہوجائیں اور ان کی مرضی سے نکاح ہو، ورنہ آپ از خود کسی کو وکیل بناکر نکاح کرسکتی ہیں، اس میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے۔ الایم احق بنفسھا من ولیھا (الحدیث)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2345/44-3530

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     نفاس کی کوئی اقل مدت متعین نہیں ہے اور مذکورہ عورت کی عادت بھی مختلف ہے، اس لئے اگر خون بیس دن پر بند ہوگیا تو اکیسویں دن بیوی سے ملنے میں شرعا کوئی ممانعت نہیں ہے۔

" أقل النفاس ما يوجد ولو ساعةً، وعليه الفتوى، وأكثره أربعون، كذا في السراجية. وإن زاد الدم على الأربعين فالأربعون في المبتدأة والمعروفة في المعتادة نفاس، هكذا في المحيط". الفتاوى الهندية (1/ 37):
ویحلّ وطوٴہا إذا نقطع حیضہا لأکثرہ ، مثلہ النّفاس بلا غسل وجوباً بل ندباً ، وإن لأقلّہ لا یحلّ حتّی تغتسل أو تیمّم بشرطہ أو یمضي علیہا زمن یسع الغسل ولبس الثّیاب والتحریمة یعني من آخر وقت الصّلاة ، لتعلیلہم بوجوبہا في ذمتہا ۔ (الدر مع الرد، کتاب الطہارة: ۱/۴۹۰، زکریا دیوبند
)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 1477/42-925

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال مذکورہ صورت میں دونوں کے ماں باپ الگ الگ ہیں، اس لئے اولاد میں  کوئی وجہ حرمت نہیں پائی جارہی ہے، اس لئے اولاد کا آپس میں پردہ کرنا لازم ہے اورمحرمات میں نہ ہونے کی وجہ سے  آپس میں نکاح  درست ہے، لہذا  ایک بیٹے کا نکاح فاطمہ سے کرناجائزہے۔  

وأما بنت زوجة أبیہ أو ابنہ فحلال(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 4/ 105،ط: زکریا،دیوبند، فصل فی المحرمات)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 39 / 842

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دو دینار کی قیمت موجودہ وقت میں سُنار کی دوکان سے معلوم کرلیں ۔ روپیوں میں جو قیمت ہو اسکی ادائیگی لازم ہوگی۔ سنار کی دوکان سے تمام تفصیلات آپ کو معلوم ہوجائیں گی۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 2315/44-3467

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صاحب معاملہ کو چاہئے کہ مسلم پرسنل لا کے کسی قریبی دارالقضاء سے رجوع کرے، اور قاضی کے سامنے اپنی ساری صورت حال بیان کرکے شرعی فیصلہ کا مطالبہ کرے، امید ہے کہ وہاں سے مسئلہ کا حل نکل آئے گا۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2258/44-2414

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں طلاق کا کوئی لفظ ہی استعمال نہیں ہوا ، ڈائیو یا ڈے کو طلاق کے لئے نہیں بنایاگیا ہے اس لئے محض اس لفظ کے بولنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔  توہم پرستی سے بچنے کی کوشش کرے، اوربلاوجہ  ہر لفظ سے طلاق کا خیال دل میں نہ لائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی
Ref. No. 2259/44-2425 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس طرح زبان سے طلاق دینے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے اسی طرح لکھ کر طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے؛ نیزاپنی بیوی کو طلاق دینے کے لئے بیوی کی جانب نسبت کرکے طلاق بولنا یا لکھنا ضروری ہے، اگر صرف کاغذ پر لفظ 'طلاق' لکھا اور بیوی کی جانب کوئی نسبت نہیں کی تو محض کاغذ پر لکھنے سے لکھنے والے کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی ۔ لہذا اگر لکھتے وقت طلاق کی نیت تھی اور بیوی کی طرف نسبت بھی کیا تھاتو طلاق واقع ہوجائے گی۔ پھر یہ نیت کرنا کہ طلاق دوں اور طلاق واقع نہ ہو عبث ہے؛اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ الفتاویٰ الہندیۃ (6 / 442): "ثم الکتابۃ علیٰ ثلاثۃ أوجہٍ : مستبین مرسوم أي معنون وہو یجري مجری النطق في الحاضر والغائب علیٰ ما قالوا ، ومستبین غیر مرسوم کالکتابۃ علی الجدار وأوراق الأشجار ، وہو لیس بحجۃ إلا بالبینۃ والبیان ، وغیر مستبین کالکتابۃ علی الہواء والماء وہو بمنزلۃ کلام غیر مسموع ، فلا یثبت بہ الحکم ." "عن حماد قال: إذا کتب الرجل إلی امرأته -إلی- أمابعد! فأنت طالق فهي طالق، وقال ابن شبرمة: هي طالق". (المصنف لابن أبي شیبة، کتاب الطلاق، باب في الرجل یکتب طلاق امرأته بیده، مؤسسة علوم القرآن ۹/۵۶۲، رقم: ۱۸۳۰۴) فتاوی شامی میں ہے: وإن كانت مرسومةً يقع الطلاق نوى أو لم ينو". المحیط البرھانی: (274/3، ط: دار الکتب العلمیۃ) يجب أن يعلم بأن الكتابة نوعان: مرسومة وغير مرسومة. فالمرسومة: أن تكتب على صحيفة مصدرا ومعنونا وإنها على وجهين: الأول: أن تكتب هذا كتاب فلان بن فلان إلى فلانة أما بعد: فأنت طالق. وفي هذا الوجه يقع الطلاق عليها في الحال. وإن قال: لم أعن به الطلاق لم يصدق في الحكم، وهذا لأن الكتابة المرسومة بمنزلة المقال. واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 2260/44-2413

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق کے وقوع کے لئے طلاق کا تلفظ ضروری ہے، صرف دل میں خیال آنے سے  طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے غلطی ہوگئی کہنے سے طلاق کا اقرار نہیں سمجھاجائے گا، اور بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ میاں بیوی کا رشتہ بدستور قائم ہے۔

ورکنہ لفظ مخصوص وہو ماجعل دلالة علی معنی الطلاق من صریح أو کنایة ․․․․․ وأراد اللفظ ولو حکماً لیدخل الکتابة المستبینة: الدر مع الرد: ۴/۴۳۱، زکریا دیوبند۔

 (وھو)لغۃ :رفع القید ۔۔۔وشرعا (رفع قید النکاح فی الحال )بالبائن (اوالمال )بالرجعی (بلفظ مخصوص)ھو ماشتمل علی الطلاق۔(ردالمحتار علی الدرالمختار،کتاب الطلاق،ج4ص426،25،24)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 1137/42-371

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میاں بیوی کا جنسی تسکین کے لئے مذکورہ صورت اختیار کرنا مناسب نہیں ہے۔ اور غلبہ کے وقت عورت کا خود کو اس طرح تسکین دینا بھی درست نہیں ہے، احتراز اور خود پر کنٹرول کرنا ضروری ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند