نکاح و شادی

Ref. No. 2262/44-2416

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  دو سگی بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا بنص قطعی  حرام ہے۔ اور جو شخص جان بوجھ کر کھلم کھلا ایسا کرے اور مسئلہ معلوم ہونے پر بھی  اس سے باز نہ آئے تو اس کا بائیکاٹ کیاجائے،  اسکے ساتھ کسی طرح کا تعلق نہ رکھاجائے، اس کے ساتھ  میل جول رکھنا، کھانا پینا ، اٹھنا بیٹھناجائز نہیں ہے۔

﴿ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْسَلَفَ﴾ [النساء : 24]

’’(وأما الجمع بين ذوات الأرحام) فإنه لا يجمع بين أختين بنكاح ولا بوطء بملك يمين سواء كانتا أختين من النسب أو من الرضاع، هكذا في السراج الوهاج. والأصل أن كل امرأتين لو صورنا إحداهما من أي جانب ذكراً؛ لم يجز النكاح بينهما برضاع أو نسب لم يجز الجمع بينهما، هكذا في المحيط. فلا يجوز الجمع بين امرأة وعمتها نسباً أو رضاعاً، وخالتها كذلك ونحوها، ويجوز بين امرأة وبنت زوجها؛ فإن المرأة لوفرضت ذكراً حلت له تلك البنت، بخلاف العكس، وكذا يجوز بين امرأة وجاريتها؛ إذ عدم حل النكاح على ذلك الفرض ليس لقرابة أو رضاع، كذا في شرح النقاية للشيخ أبي المكارم. فإن تزوج الأختين في عقدة واحدة؛ يفرق بينهما وبينه، فإن كان قبل الدخول؛ فلا شيء لهما، وإن كان بعد الدخول يجب لكل واحدة منهما الأقل من مهر مثلها ومن المسمى، كذا في المضمرات. وإن تزوجهما في عقدتين فنكاح الأخيرة فاسد، ويجب عليه أن يفارقها، ولو علم القاضي بذلك يفرق بينهما، فإن فارقها قبل الدخول؛ لا يثبت شيء من الأحكام، وإن فارقها بعد الدخول فلها المهر ويجب الأقل من المسمى ومن مهر المثل، وعليها العدة ويثبت النسب ويعتزل عن امرأته حتى تنقضي عدة أختها، كذا في محيط السرخسي‘‘ (الفتاوى الهندية (1/ 277)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 40/911

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح متعین کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی
Ref. No. 2266/44-2422 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ علی کے جملے کو ظہیر نے مکمل کردیا، لیکن چونکہ علی نے طلاق کا یہ جملہ نہیں کہا اسلئے اس جملہ کو علی کی جانب منسوب نہیں کیاجائے گا۔ علی اگر اپنی بیوی کو طلاق کے الفاظ پورے ادا کردے تو طلاق واقع ہوگی اور اگر طلاق کے الفاظ کسی اور نے بول دئے تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ پھر یہ بھی خیال رہے کہ 'طلاق دینا چاہتاہے 'سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے اس لئے کہ اس میں طلاق دینے کی خواہش کا اظہار ہے یا وعدہ طلاق ہے ،لہذا یہ طلاق نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی
Ref. No. 2267/44-2423 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نہیں، اس لفظ سے اس کی بیوی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، اور کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، اور اس کی بیوی بدستور اس کی نکاح میں رہے گی۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی
Ref. No. 2265/44-2421 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں نعمان نے دوسرے کی بیوی پر طلاق کا اقرار کیا ہے،جبکہ دوسرے کی بیوی کو طلاق دینا یا اقرار کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اس سے نعمان کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوگی، اس لئے کہ نعمان نے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دی ہے اور نہ ہی اپنی بیوی کو طلاق دینے کا اقرار اس میں شامل ہے، اس لئے نعمان کی بیوی پروین بدستور اپنے شوہر کے نکاح میں موجود ہے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 831 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                         

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  کسی لڑکے یا لڑکی کا رشتہ مناسب جگہ طے کرنا یا کرانا بھی نیکی ہے، بغیر اجرت کے  نیک کام کرنا باعث اجر وثواب ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص اس پر کسی رقم کا مطالبہ کرے تو کوئی حرج نہیں ہے۔  واللہ تعالی اعلم  بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 932/41-67

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ صورت میں بغیر حلالہ دوبارہ نکاح نہیں ہوسکتا ہے۔  حلالہ کے لئے نکاح صحیح کا ہونا شرط ہے۔  عورت کے مرتد ہونے سے وہ بلاحلالہ  شوہر اول کے لئے حلال نہیں ہوتی ہے۔  قرآن کریم میں زوجا غیرہ کا لفظ ہے اور زوج ہونے کے لئے نکاح صحیح کا ہونا ضروری ہے۔

حتی یطاھا غیرہ ولو الغیر مراھقا بنکاح نافذ (شامی 5/42)

 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند