نکاح و شادی

Ref. No. 1746/43-1452

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہ حفنی میں، لواطت گوکہ یہ حرام اور غلیظ ترین عمل  ہے اور سچے دل سے توبہ واستغفار لازم ہے  لیکن اس سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی ہے، ۔    حرمت مصاہرت کی علت جزئیت و بعضیت کا شائبہ ہونا ہے، جو کہ مذکورہ عمل میں ممکن نہیں ہے۔  اس لئے مذکورہ نکاح درست ہے۔

[تتمة] للواطة أحكام أخر: لا يجب بها المهر ولا العدة يحصل بها التحليل للزوج الأول، ولا تثبت بها الرجعة ولا حرمة المصاهرة عند الأكثر، ولا الكفارة في رمضان في رواية. (شامی، فرع الاستمناء 4/28) (البحر الرائق، وطئ امراۃ اجنبیۃ فی دبرھا 5/18)5

 و كذا لو وطئ في دبرها لاتثبت الحرمة، كذا في التبيين. و هو الأصح، هكذا في المحيط. و عليه الفتوى، هكذا في جواهر الأخلاطي." (الفتاوى الهندية (1/ 275، کتاب النکاح، الباب الثالث فی بیان المحرمات، القسم الثالث فی المحرمات بالصہریۃ،ط: دارالفکربیروت)

عقوق الوالدين المسلمين، و استحلال الحرام) . و ذكر شيخنا عن أبي طالب المكي أنه قال: الكبائر سبع عشرة، قال: جمعتها من جملة الأخبار وجملة ما اجتمع من قول ابن مسعود وابن عباس وابن عمر، رضي الله تعالى عنهم، وغيرهم: الشرك بالله، والإصرار على معصيته، والقنوط من رحمته، والأمن من مكره، وشهادة الزور، وقذف المحصن، واليمين الغموس، والسحر، وشرب الخمر، والمسكر، وأكل مال اليتيم ظلمًا وأكل الربا، والزنا، واللواطة، والقتل، والسرقة، والفرار من الزحف، وعقوق الوالدين. انتهى. " (عمدة القاري شرح صحيح البخاري (13 / 216)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 2344/44-3531

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     نکاح کے لیے گواہ بنناشرعی شہادت ہے اور شرعی شہادت پراجرت و معاوضہ کا لین دین جائزنہیں ہے۔ ا لبتہ اگر اس طرح نکاح کیا گیا تو نکاح درست ہوجائے گا۔  نیز بوقت نکاح عقد کی مجلس میں وکیل  کرنا  ضروری نہیں ہے،  اگر لڑکا ولڑکی مجلس میں موجود ہیں تو نکاح بغیر وکیل کے ہوسکتاہے۔ اور اگر کسی کو وکیل بنایاگیا اور اس نے اس پر اجرت کا مطالبہ کیا تو متعین اجرت دینے کی گنجائش ہے۔

(کفایت المفتی 2/275دارالاشاعت) واَقِیمُوْا الشَّہَادَۃَ لِلّٰہ(قرآن)

إذا أخذ الوكيل الأجرة لإقامة الوكالة، فانه غير ممنوع شرعا إذ الوكالة عقد جائز لايجب على الوكيل اقامتها، فيجوز أخذ الأجرة فيها. (فتح القدیر،کتاب الوکالة،ج۷/ص۲)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 1748/43-1488

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس سلسلہ میں بنیادی بات یاد رکھیں کہ نکاح درست ہونے کے لئے ضروری ہے کہ لڑکی یا اس کا وکیل مجلس نکاح میں موجود ہو، اور وہ ایجاب کرے اور لڑکا قبول کرے اور دو گواہ نکاح کے ایجاب و قبول کو سنیں اور یہ سب مجلس نکاح میں موجود ہوں؛ اگر ان چاروں میں سے کوئی ایک بھی مجلس نکاح سے غائب ہوگا یا آن لائن ہوگا تو اس کا عتبار نہیں ہوگا، اور نکاح درست نہیں ہوگا۔

آپ کے سوال میں پوری صورت حال واضح نہیں ہورہی ہے اس لئے اگر چاہیں تو دوبارہ وضاحت کے ساتھ لکھ کر سوال کریں۔ بہرحال  نکاح کے لئے بنیادی بات ذکرکردی گئی ہے۔

ومن شرائط الإیجاب والقبول اتحاد المجلس لو حاضرین الخ۔ (الدر المختار 4/76 زکریا)
وشرط حضور شاہدین حرین، أو حر وحرتین مکلفین سامعین قولہما معاً۔ (الدر المختار 4/91-87 زکریا)
ومنہا أن یکون الإیجاب والقبول في مجلس واحد حتی لو اختلف المجلس بأن کانا حاضرین فأوجب أحدہما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل یوجب اختلاف المجلس لا ینعقد، وکذا إذا کان أحدہما غائبًا لم ینعقد۔ (الفتاویٰ الہندیۃ 1/269زکریا)
ومنہا سماع الشاہدین کلامہما معًا، ہٰکذا في فتح القدیر … ولو سمعا کلام أحدہما دون الآخر أو سمع أحدہما کلام أحدہما والآخر کلام الآخر لا یجوز النکاح، ہٰکذا في البدائع۔
(الفتاویٰ الہندیۃ 1؍268زکریا، بدائع الصنائع، کتاب النکاح / عدالۃ الشاہدین 2؍527 زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1223/42-537

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ہر فلور ایک الگ مکان ہے، اور بیوی کو رہنے کے لئے وہ مکان کافی بھی ہے اور شوہر کے گھر والوں کی اس میں کوئی مداخلت بھی نہیں ہے  ، تو ایسی صورت میں  بیوی کا  الگ سے ایک گھر کا مطالبہ شرعا جائز نہیں ہے۔  شریعت میں رہایش کا انتظام کرنے سے یہی مراد ہے، الگ جگہ پر گھر لے کر دینا ضروری نہیں ہے۔  اپنی ازدواجی زندگی کی حفاظت کے لئے بشرط استطاعت اور مصلحت ، الگ سے مکان دینے کی گنجائش ہے  تاہم والدین کی خدمت  اور حسن سلوک کو ہرگز ترک نہ کرے۔ 

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك (الھندیہ / الباب السابع عشر في النفقات 1/556، ط: ماجدية)

إن أمكنه أن يجعل لها بيتا على حدة في داره ليس لها غير ذلك".  (شامی / مطلب في مسكن الزوجة 3/601، ط: سعيد)

وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ وبالوالدين إحسانا (القرآن: 17/23)  لا طاعة في معصية، إنما الطاعة في المعروف (صحیح البخاری 9/88 الرقم 7257)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 2781/45-4363

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بالغ لڑکا وبالغ لڑکی دو بالغ مرد گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کرلیں تو شرعاً نکاح منعقد ہو جاتا ہے، تاہم اگر لڑکی نے غیر کفو میں نکاح کیا تو لڑکی کے والد کو نکاح فسخ کرانے کا اختیار ہے تاہم اولاد کو ایسے کام کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے جو والدین یا خاندان کے لئے بد نامی یا شرمندگی کا باعث ہو۔

عن سماك بن حرب قال: جاء رجل الي علی فقال امرأة أنا وليها تزوجت بغير اذن، فقال علي رضي الله عنه: تنظر فيماصنعت ان كانت تزوجت كفوا أجز نا ذلك لها وان كانت تزوجت من ليس لها كفوا جعلنا ذلك اليك‘‘ (سنن دار قطني)

ولا ينعقد نكاح المسلمين الا بحضور شاهدين عاقلين بالغين مسلمين الخ أما اشتراط الشهادة فلقوله عليه السلام لا نكاح الا بشهود‘‘ (فتح القدير: ج 3،ص: 199، زكريا)

وينعقد نكاح الحرة العاقلة البالغة برضائها وان لم يعقد عليها ولی بكرا كانت أو ثبيا عند أبي حنيفة وأبي يوسف في ظاهر الرواية‘‘ (الهداية: ج 2، ص: 335)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2375/44-3588

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  احناف کے یہاں بالغہ لڑکی اگر اپنا نکاح از خود والدین کی مرضی کے بغیر کفوء میں کرلے تو نکاح درست ہوجاتاہے، آپ کی عمر 32 سال ہے، والدین کی ذمہ داری ہے کہ آپ کا نکاح مناسب جگہ کردیتے لیکن بظاہر انہوں نے اس دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا جو ان کو کرنا چاہئے تھا ، اس لئے اگر آپ کو رشتہ مناسب معلوم ہوتاہے تو پہلے کوشش کریں کہ والدین راضی ہوجائیں اور ان کی مرضی سے نکاح ہو، ورنہ آپ از خود کسی کو وکیل بناکر نکاح کرسکتی ہیں، اس میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے۔ الایم احق بنفسھا من ولیھا (الحدیث)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2345/44-3530

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     نفاس کی کوئی اقل مدت متعین نہیں ہے اور مذکورہ عورت کی عادت بھی مختلف ہے، اس لئے اگر خون بیس دن پر بند ہوگیا تو اکیسویں دن بیوی سے ملنے میں شرعا کوئی ممانعت نہیں ہے۔

" أقل النفاس ما يوجد ولو ساعةً، وعليه الفتوى، وأكثره أربعون، كذا في السراجية. وإن زاد الدم على الأربعين فالأربعون في المبتدأة والمعروفة في المعتادة نفاس، هكذا في المحيط". الفتاوى الهندية (1/ 37):
ویحلّ وطوٴہا إذا نقطع حیضہا لأکثرہ ، مثلہ النّفاس بلا غسل وجوباً بل ندباً ، وإن لأقلّہ لا یحلّ حتّی تغتسل أو تیمّم بشرطہ أو یمضي علیہا زمن یسع الغسل ولبس الثّیاب والتحریمة یعني من آخر وقت الصّلاة ، لتعلیلہم بوجوبہا في ذمتہا ۔ (الدر مع الرد، کتاب الطہارة: ۱/۴۹۰، زکریا دیوبند
)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 1477/42-925

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال مذکورہ صورت میں دونوں کے ماں باپ الگ الگ ہیں، اس لئے اولاد میں  کوئی وجہ حرمت نہیں پائی جارہی ہے، اس لئے اولاد کا آپس میں پردہ کرنا لازم ہے اورمحرمات میں نہ ہونے کی وجہ سے  آپس میں نکاح  درست ہے، لہذا  ایک بیٹے کا نکاح فاطمہ سے کرناجائزہے۔  

وأما بنت زوجة أبیہ أو ابنہ فحلال(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 4/ 105،ط: زکریا،دیوبند، فصل فی المحرمات)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 39 / 842

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دو دینار کی قیمت موجودہ وقت میں سُنار کی دوکان سے معلوم کرلیں ۔ روپیوں میں جو قیمت ہو اسکی ادائیگی لازم ہوگی۔ سنار کی دوکان سے تمام تفصیلات آپ کو معلوم ہوجائیں گی۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 2315/44-3467

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صاحب معاملہ کو چاہئے کہ مسلم پرسنل لا کے کسی قریبی دارالقضاء سے رجوع کرے، اور قاضی کے سامنے اپنی ساری صورت حال بیان کرکے شرعی فیصلہ کا مطالبہ کرے، امید ہے کہ وہاں سے مسئلہ کا حل نکل آئے گا۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند