نکاح و شادی
Ref. No. 2898/45-4539 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح میں مہر کی جو رقم طے ہوئی ہے وہ عورت کا حق واجب ہے اس کو جلد از جلد بیوی کے سپرد کردینا چاہئے۔ اور اس سلسلہ میں بیوی کو بھی حق ہے کہ مہر وصول ہونے سے پہلے شوہر کو اپنے پاس آنے سے منع کرسکتی ہے۔ "و كذا لها أن تحبس نفسها حتى يفرض لها المهر و يسلّم إليها بعد الفرض، و ذلك كله دليل الوجوب بنفس العقد". (بدائع الصنائع 5/468) "قال رحمه الله: (ولها منعه من الوطء والإخراج للمهر ، وإن وطئها ) أي لها أن تمنع نفسها إذا أراد الزوج أن يسافر بها أو يطأها حتى تأخذ مهرها منه، ولو سلمت نفسها ووطئها برضاها لتعين حقها في البدل، كما تعين حق الزوج في المبدل وصار كالبيع". "وأما إذا ، نصا على تعجيل جميع المهر أو تأجيله فهو على ما شرطا حتى كان لها أن تحبس نفسها إلى أن تستوفي كله فيما إذا شرط تعجيل كله ، وليس لها أن تحبس نفسها فيما إذا كان كله مؤجلاً؛ لأن التصريح أقوى من الدلالة فكان أولى (تبیین الحقائق (5/490) "قال: (وللمرأة أن تمنع نفسها وأن يسافر بها حتى يعطيها مهرها )؛ لأن حقه قد تعين في المبدل فوجب أن يتعين حقها في البدل تسويةً بينهما، وإن كان المهر كله مؤجلاً ليس لهاذلك؛ لأنها رضيت بتأخير حقها". (الاختیار لتعلیل المختار 3/122) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 39 / 860

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:. شریعت نے نکاح میں کفو کا اعتبار کیا ہے۔  اور والدین کے منع کرنے کے باوجود مذکورہ شخص کا بے جا اصرار بہت غلط ہے؛ اولیاء کے لئے یہ شرم کی بات ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں کسی قریبی شرعی دارالقضاء سے رجوع کرلیا جائے اور قاضی صاحب کے فیصلہ کے مطابق عمل کیا جائے تو بہتر ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 2830/45-4436

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اہل سنت و اہل تشیع کے درمیان عقائد کا اختلاف ہے؛  ان کے عقائد اسلامی عقائد سے متصادم ہیں، اس لئے آپ اپنے گھروالوں کے مشورہ کے مطابق اہل تشیع لڑکے سے اپنا ذہن فارغ کرلیں اور کسی  اہل سنت والجماعت لڑکے سے شادی کا ارادہ کریں۔ گھروالے آپ کا بہت  مناسب  رشتہ تلاش  کریں گے، ان  شاء اللہ ۔ خیال رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتے کے انتخاب میں دین داری کو ترجیح دینے کا حکم دیا ہے، ایک مسلمان ہونے کے ناطے آپ کا یہ فریضہ ہے کہ عقائد کے باب میں کسی طرح کا سمجھوتہ نہ کریں اور اپنے ایمان کی خاطر آپ کی یہ مختصر سی قربانی آپ کے مستقبل کے لئے اور آخرت کے لئے بھی ان شاء اللہ بے حد مفید ثابت ہوگی ۔  تاہم اگر وہ لڑکا اپنے باطل عقائد سے توبہ کرکے صحیح العقیدہ مسلمان ہوجائے تو پھر اس سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔

"وبهذا ظهر أن الرافضي إن كان ممن يعتقد الألوهية في علي أو أن جبريل غلط في الوحي أو كان ينكر صحبة أبي بكر الصديق أو يقذف عائشة الصديقة فهو كافر؛ لمخالفة القواطع المعلومة من الدين بالضرورة". (ردالمحتار : ٣ / ٤٦ سعيد) فقط والله أعلم

ومنها أن لا تكون المرأة مشركة إذا كان الرجل مسلما  فلا يجوز للمسلم أن ينكح المشركة لقوله تعالى { ولا تنكحوا المشركات حتى يؤمن } ويجوز أن ينكح الكتابية لقوله عز وجل{والمحصنات من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم} والفرق أن الأصل أن لا يجوز للمسلم أن ينكح الكافرة لأن ازدواج الكافرة والمخالطة معها مع قيام العداوة الدينية لا يحصل السكن والمودة الذي هو قوام مقاصد النكاح(بدائع الصنائع،کتاب النکاح،فصل في شرط أن يكون للزوجين،ج:3،ص458)

نعم لا شك في تكفير من قذف السيدة عائشة رضي الله تعالى عنها أو أنكر صحبة الصديق أو اعتقد الألوهية في علي أو أن جبريل غلط في الوحي أو نحو ذلك من الكفر الصريح المخالف للقرآن ۔ ۔ ۔  وأما الرافضي ساب الشيخين بدون قذف للسيدة عائشة ولا إنكار لصحبة الصديق ونحو ذلك فليس بكفر فضلا عن عدم قبول التوبة بل هو ضلال وبدعة۔ (ردالمحتارعلى الدرالمختار،كتاب الجهاد،باب المرتد،مطلب مهم في حكم سب الشيخين،ج:6،ص:378)

لا يجوز نكاح المجوسيات ولا الوثنيات وسواء في ذلك الحرائر منهن والإماء كذا في السراج الوهاج ويدخل في عبدة الأوثان عبدة الشمس والنجوم والصور التي استحسنوها والمعطلة والزنادقة والباطنية والإباحية وكل مذهب يكفر به معتقده كذا في فتح القدير۔(الفتاوی الھندیۃ،الباب الثالث فی بیان المحرمات،القسم السابع المحرمات با لشرک،ج:1،ص282)

ومنها أن يكون للزوجين ملة يقران عليها۔(بدائع الصنائع،کتاب النکاح،فصل في شرط أن يكون للزوجين،ج:3،ص458)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 38/862

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال صورت مسؤلہ میں جب تک شوہر طلاق نہ دیدے اس عورت سے کسی دوسرے کا نکاح حرام ہے۔ وہ عورت پہلے شوہر سے طلاق حاصل کرے، عدت گزارے اس کے بعد ہی آپ کا نکاح اس سے ممکن ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1081 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  شرعاً اس کی کوئی  حیثیت نہیں۔ رسم و رواج سے اجتناب کیا جانا چاہئے۔ نیزدولہا وغیرہ کا آنگن میں جانا اور نامحرم عورتوں  کا سامنا کرنا ، یہ تمام غیرشرعی امور ہیں جن سے اجتناب کیا جانا ضروری ہے۔واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی
نعیم نے نجمہ کو 4 آدمیوں کے سامنے کہا نجمہ میری بیوی ہے کیا نکاح ہوگیا جبکہ نجمہ چپ رہی. جبکہ نجمہ کی ایسی نیت نہ تھی کے نعیم کو بطور شوہر قبول کرے.

نکاح و شادی

Ref. No. 1248/42-634

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔زید کے لئے عدالت نے نقصان وصول کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ درست ہے کیونکہ یہ سارا خرچ  اس جھوٹے مقدمہ کی وجہ سے اس کو اٹھانا پڑا ہے۔ اس لئے زید وہ خرچ وصول کرسکتا ہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1492/42-957

الجواب وباللہ التوفیق:۔  شرعا بارات کی کوئی اصل نہیں، اور سنت سے اس کا ثبوت نہیں ملتا ہے، اس میں نام و نمود اور اسراف ہے جو شریعت میں قابل مذمت اور ناپسندیدہ ہے، لہذا اس سے پرہیز کرنا چاہئے، اور جو بارات نام و نمود اور اسراف سے خالی ہو تو جس تعداد کو لڑکی والے برضاء و رغبت بلا کسی معاشرتی دباؤ کے صرف اپنی وسعت کے مطابق بلائیں تو اس تعداد کو لیجانا اور اس میں جانا و کھانا مباح ہے، یہ دعوت نہ سنت ہے نہ واجب اور نہ حرام ہی ہے، محض مباح ہے۔ (ماخوذ از کفایت المفتی 7/471، باب العرس والولیمۃ، مکتبہ فاروقیہ کراچی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 2799/45-4380

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میاں بیوی کے لئے ہر طرح کے کِس کی اجازت ہے، اس میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے، البتہ تنہائی میں یہ امور انجام دئے جائیں، عام جگہوں پر ایسا کرنا بے حیائی کی بات ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 1719/43-1684

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حتی الامکان اس رشتہ کو نباہنے کی کوشش کرے، تاہم اگر شوہر وبیوی کے درمیان  اتفاق  نہ ہوسکے ، اور شوہر کسی طرح اس کے ساتھ رہنے کے لئے تیار نہیں ہے، اور مقاصد نکاح فوت ہوتے ہوں تو شوہر کو شرعاً اختیار ہے کہ اس کو  ایک طلاق رجعی  دے دےتاکہ عورت  عدت کے بعد کسی ایسے شخص سے نکاح کرلے جو پورے حقوق ادا کرسکے ۔

اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪-فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍؕ-وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْــٴًـا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِؕ-فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِۙ-فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖؕ-تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَاۚ-وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ (سورۃ البقرۃ ۲۲۹)

الا اذا خافا ان لا یقیما حدود اللہ فلا باس ان یتفرقا (الدر المختار مع الشامی: 4/144)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند