Frequently Asked Questions
نکاح و شادی
Ref. No. 3015/46-4812
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب بچے بالغ ہوجائیں اور بیوی کا خرچہ اٹھانے کی استطاعت رکھتے ہوں تو ان کی جلد ازجلد شادی کردینا چاہیے، جو لوگ اپنی اولاد کی شادی میں بلاعذرتاخیر کریں تو گناہ میں مبتلاہونے کی صورت میں والدین پر بھی اس کا وبال آئے گا جیساکہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ جو بچے اپنی شادی کے لئے والدین سے کہہ رہے ہیں اور پھر بھی والدین توجہ نہیں دیتے تو ایسی بچے بچیاں اپنی مرضی سے مناسب رشتہ دیکھ کر خود نکاح کرسکتے ہیں، تاہم بہتر ہے کہ والدین کو پہلے مطلع کردیں کہ اگر آپ نے ایک دو ماہ میں شادی نہیں کی تو ہم خود اپنا رشتہ کرلیں گے ، شاید اس طرح کہنے سے وہ تیار ہوجائیں ، ورنہ آپ اپنا نکاح خود کرسکتے ہیں اگر بیوی کا مہر اور خرچ دینے کی استطاعت ہے۔ جب والدین خود حکم شرعی کی خلاف ورزی کررہے ہوں تو اولاداس سلسلہ میں نافرمان شمار نہیں ہوگی۔ اس سلسلہ میں خاندان کے دیگر بزرگوں کے ذریعہ بھی والدین پر دباؤ بنایاجاسکتاہے۔
"و عن أبي سعيد و ابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ولد له ولد فليحسن اسمه و أدبه فإذا بلغ فليزوّجه، فإن بلغ و لم يزوّجه فأصاب إثماً فإنما إثمه على أبيه»." (مشكاة المصابيح (2/ 939)"و عن عمر بن الخطاب و أنس بن مالك رضي الله عنهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " في التوراة مكتوب: من بلغت ابنته اثنتي عشرة سنةً و لم يزوّجها فأصابت إثماً فإثم ذلك عليه. رواهما البيهقي في شعب الإيمان." (مشكاة المصابيح (2/ 939) "(و يكون واجبًا عند التوقان) فإن تيقن الزنا إلا به فرض نهاية، و هذا إن ملك المهر و النفقة و إلا فلا إثم بتركه بدائع ... و يندب إعلانه و تقديم خطبة و كونه في مسجد يوم جمعة بعاقد رشيد و شهود عدول و الاستدانة له." (کتاب النکاح ،ج:3، ص:8، ط:دارالفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3012/46-4800
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حرمت مصاہرت کے ثبوت کے لئے یقینی طور پر حرارت کے احساس کے ساتھ شہوت کاپایا جانا ضروری ہے، شبہہ اور جھوٹے اقرارسے حرمت مصاہرت کا تحقق نہیں ہوگا، لہذا اگر شہوت پیدا نہیں ہوئی تھی یقینی طور پر تو ایسی صورت میں حرمت ثابت نہیں ہوگی، اور خالہ کی لڑکی سے رشتہ جائز ہوگا۔ سوال میں اگر آپ غلط بیانی کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے سخت مواخذہ کا اندیشہ ہے، اس لئے صحیح صورت حال سامنے رکھ کر ہی عملی اقدام کریں۔
قوله: بحائل لا يمنع الحرارة) أي ولو بحائل إلخ، فلو كان مانعا لا تثبت الحرمة، كذا في أكثر الكتب، وكذا لو جامعها بخرقة على ذكره، فما في الذخيرة من أن الإمام ظهير الدين أنه يفتى بالحرمة في القبلة على الفم والذقن والخد والرأس، وإن كان على المقنعة محمول على ما إذا كانت رقيقة تصل الحرارة معها بحر.(قوله: وأصل ماسته) أي بشهوة قال في الفتح: وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها، ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه، ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك. اهـ"(شامی، كتاب النكاح، فصل في المحرمات (3/ 33)، ط. سعيد)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
نکاح و شادی
نکاح و شادی
نکاح و شادی
نکاح و شادی
نکاح و شادی
Ref. No. 39 / 860
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:. شریعت نے نکاح میں کفو کا اعتبار کیا ہے۔ اور والدین کے منع کرنے کے باوجود مذکورہ شخص کا بے جا اصرار بہت غلط ہے؛ اولیاء کے لئے یہ شرم کی بات ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں کسی قریبی شرعی دارالقضاء سے رجوع کرلیا جائے اور قاضی صاحب کے فیصلہ کے مطابق عمل کیا جائے تو بہتر ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2830/45-4436
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اہل سنت و اہل تشیع کے درمیان عقائد کا اختلاف ہے؛ ان کے عقائد اسلامی عقائد سے متصادم ہیں، اس لئے آپ اپنے گھروالوں کے مشورہ کے مطابق اہل تشیع لڑکے سے اپنا ذہن فارغ کرلیں اور کسی اہل سنت والجماعت لڑکے سے شادی کا ارادہ کریں۔ گھروالے آپ کا بہت مناسب رشتہ تلاش کریں گے، ان شاء اللہ ۔ خیال رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رشتے کے انتخاب میں دین داری کو ترجیح دینے کا حکم دیا ہے، ایک مسلمان ہونے کے ناطے آپ کا یہ فریضہ ہے کہ عقائد کے باب میں کسی طرح کا سمجھوتہ نہ کریں اور اپنے ایمان کی خاطر آپ کی یہ مختصر سی قربانی آپ کے مستقبل کے لئے اور آخرت کے لئے بھی ان شاء اللہ بے حد مفید ثابت ہوگی ۔ تاہم اگر وہ لڑکا اپنے باطل عقائد سے توبہ کرکے صحیح العقیدہ مسلمان ہوجائے تو پھر اس سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔
"وبهذا ظهر أن الرافضي إن كان ممن يعتقد الألوهية في علي أو أن جبريل غلط في الوحي أو كان ينكر صحبة أبي بكر الصديق أو يقذف عائشة الصديقة فهو كافر؛ لمخالفة القواطع المعلومة من الدين بالضرورة". (ردالمحتار : ٣ / ٤٦ سعيد) فقط والله أعلم
ومنها أن لا تكون المرأة مشركة إذا كان الرجل مسلما فلا يجوز للمسلم أن ينكح المشركة لقوله تعالى { ولا تنكحوا المشركات حتى يؤمن } ويجوز أن ينكح الكتابية لقوله عز وجل{والمحصنات من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم} والفرق أن الأصل أن لا يجوز للمسلم أن ينكح الكافرة لأن ازدواج الكافرة والمخالطة معها مع قيام العداوة الدينية لا يحصل السكن والمودة الذي هو قوام مقاصد النكاح(بدائع الصنائع،کتاب النکاح،فصل في شرط أن يكون للزوجين،ج:3،ص458)
نعم لا شك في تكفير من قذف السيدة عائشة رضي الله تعالى عنها أو أنكر صحبة الصديق أو اعتقد الألوهية في علي أو أن جبريل غلط في الوحي أو نحو ذلك من الكفر الصريح المخالف للقرآن ۔ ۔ ۔ وأما الرافضي ساب الشيخين بدون قذف للسيدة عائشة ولا إنكار لصحبة الصديق ونحو ذلك فليس بكفر فضلا عن عدم قبول التوبة بل هو ضلال وبدعة۔ (ردالمحتارعلى الدرالمختار،كتاب الجهاد،باب المرتد،مطلب مهم في حكم سب الشيخين،ج:6،ص:378)
لا يجوز نكاح المجوسيات ولا الوثنيات وسواء في ذلك الحرائر منهن والإماء كذا في السراج الوهاج ويدخل في عبدة الأوثان عبدة الشمس والنجوم والصور التي استحسنوها والمعطلة والزنادقة والباطنية والإباحية وكل مذهب يكفر به معتقده كذا في فتح القدير۔(الفتاوی الھندیۃ،الباب الثالث فی بیان المحرمات،القسم السابع المحرمات با لشرک،ج:1،ص282)
ومنها أن يكون للزوجين ملة يقران عليها۔(بدائع الصنائع،کتاب النکاح،فصل في شرط أن يكون للزوجين،ج:3،ص458)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 38/862
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال صورت مسؤلہ میں جب تک شوہر طلاق نہ دیدے اس عورت سے کسی دوسرے کا نکاح حرام ہے۔ وہ عورت پہلے شوہر سے طلاق حاصل کرے، عدت گزارے اس کے بعد ہی آپ کا نکاح اس سے ممکن ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند